تبدیلی یا انقلاب ۔
کل میرے استاد معصوم عابدی صاحب نے اپنے بیٹے سلمان عابدی جو سنگر ہے اس کی ایک عمران خان کہ انقلاب پر تازہ ریلیز ہوئ وڈیو بھیجی ۔ سلمان نے rock اور rap کہ زریعے ایک بہت انقلابی انرجی پیدا کی ہے اس زبردست وڈیو کہ زریعے ۔ میں نے اپنے ٹویٹر mchohan@ پر شئیر بھی کی ہے ، ضرور دیکھیے ۔ کولمبیا کا صدر بھی سنگر ہے اور جب وہ گاتا ہے اور ڈانس کرتا ہے تو کہتا ہے کہ انقلاب بج رہا ہے ، جس سے مجھے بینظیر کا ازان بجنا یاد آ جاتا ہے ، جس وجہ سے بلاول نے تقریر ہی انگریزی میں کی ۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ “ہم نے انسان کو بجنی مٹی سے بنایا ۔خلا سے بنایا “ موسیقی انرجی برپا کرتی ہے ، شاہ لطیف بھٹائ دنبورہ کہ زریعے کلام اور عبادت فرماتے ۔ ایک پیر کہ ہاں جانا ہوا اس کہ اصرار پر دنبورہ ساتھ والے کمرے میں رکھ دیے ۔ جب شاہ صاحب نے کلام شروع کیا تو دنبورہ خود بخود بجنے شروع ہو گئے ۔ یہی کیفیت وجدان ہے ۔
انسانی فطرت میں تو تبدیلی نہیں آتی لیکن انسانی جبلت میں تبدیلی ہی مستقل ہے باقی کچھ نہیں ۔ میرے نزدیک تبدیلی یا انقلاب کا تعلق سوچ سے ہوتا ہے ۔ سوچ میں تبدیلی یا انقلاب برپا ہوتا ہے ۔ کوئ بھی لیڈر جب انقلاب یا تبدیلی کی بات کرتا ہے دراصل سوچ میں تبدیلی یا انقلاب کی بات کر رہا ہوتا ہے ۔ اور اجتماعی سوچ میں تبدیلی تو کوہ ہمالیہ سر کرنا ہے ۔
عمران خان کو اپنے پہلے دو ہفتہ کہ اقتدار میں سوچ میں تبدیلی کہ حوالے سے بہت چیلنجر کا سامنا کرنا پڑا ، ساری تنقید ہوئ سوچ نہ بدلنے پر ۔ مانیکا فیملی کا کیس لے لیں یا بیوریوکریسی میں تبدیلیوں کا کیس ، کفایت شاعری کی پالیسی اپنانے کا معاملہ ہو یا اخلاقیات کا معاملہ سب کچھ اس کہ ساتھ جُڑی ہوئ related سوچ کہ تابع ہے ۔ انسان جانوروں کی طرح ہانکے نہیں جا سکتے لیکن لیڈروں کہ کردار اور پالیسیوں سے تبدیلی کہ علمبردار ضرور بنائے جا سکتے ہیں ۔
یہ سارا معاملہ عوام کا حکومتوں سے عمرانی معاہدہ ، میگنا کارٹا یا آئین سے جُڑا ہوتا ہے ۔ دراصل ان میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ فروغ نسیم پاکستان کہ وزیر قانون نے کہا ہے کہ میں انگریزوں کہ فوجداری اور دیوانی قانون میں تبدیلیاں لاؤں گا ۔ مسئلہ قانون کا نہیں تھا اس کہ نفاز کا تھا ۔ کیا ہی بہتر ہو اگر فروغ مُلا عمر کا انصاف کا ماڈل لے آئے ۔ اب اس طرف ہم چلے ہی ہیں تو ، ریاست مدینہ کے لیے تو اتنے متقی لوگ موجود ہی نہیں ۔
جب غلام حسین نے عمران سے ایف بی آر کہ چیرمین کا داغدار ہونے کا کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ بہت قابل اور زہین شخص ہے ، جس پر غلام حسین کا برجستہ جواب تھا تو پھر فواد حسن فواد کو لے آئیں ۔ فواد ، جہانزیب خان کا نہ صرف بیچ میٹ بلکہ ان تمام کرتبوں میں برابر کا گنہگار ۔ اور دونوں لُوٹ مار ،چاپلوسی اور حکمرانی کی سوچ کہ مالک ۔
حضور صلعم نے اپنے آخری خطبہ میں اور متعدد بار یہ فرمایا کہ کسی کو کسی پر رنگ ، نسل یا قومیت کی بنا پر فوقیت نہیں ہو گی بلکہ کردار پر ۔ متقی اور پرہیز گار ہونا قابل ستائش ہے نہ کہ امیر ، گورا یا طاقتور ۔ روزہ کہ بارے میں بھی یہی آیا کہ یہ اسی طرح فرض کیا گیا جیسے پہلی قوموں پر تاکہ تم متقی ہو جاؤ ۔ قرآن کی آیت مبارکہ ہے ۔
اِن اَکرمکم عِندَاللہِ اتقکم
اللہ تعالی کہ ہاں متقی کو سب سے زیادہ معزز اور مکرم قرار دیا گیا ہے ۔ یہ بہت سادہ اور آسان معاملہ ہے ۔ انسانی جبلت میں گند پیدا ہوتے ہیں ، حوس ، حسد اور حرام کہ ۔ انسانی فطرت پاک ہے ۔ اپنے رب کہ نقش پر بنائ گئ ہے ۔ اس کو غیب کا علم بھی ہے ۔ وہ فرشتوں اور جنوں سے زیادہ عالم و فاضل ہے ۔ تصوف بھی اسی میں سمویا ہوا ہے ان صفات کی ترجمانی اور عقیدت کہ لیے ۔ جزبہ شکرگزاری اس کی انتہا اور فقیری شروعات ۔
پیٹر ویریک ، جس کا اگلے دن میں نے تزکرہ کیا تھا ، ایک بات بہت زبردست کہ گیا ، کہ تمام عمرانی معاہدے شادی کہ معاہدوں کی طرح ہوتے ہیں ، شادی کا consummate یا مکمل ہونا جس طرح معاہدہ کہ لیے ضروری ہوتا ہے، اسی طرح ۲۲ کروڑ کی آئین کہ ساتھ consummation یا تکمیل ہونا بہت ضروری ہے ۔ ۱۹۷۳ کا آئین تو اب ہوا میں ہے ۔ تب والے جوڑے تو اپنا وقت پورا کر گئے اب تو ان کی اولادوں کا معاملہ ہے ۔
اس سے پہلے بھٹو نے روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ اور انقلاب لانے کی کوشش کی وہ تو نہ نعرہ رہا ، نہ بھٹو صاحب ۔ آپ نے خان صاحب احتساب کا نعرہ دیا، اس کو شکست نہ ہونے دیں ۔ ہم باہر بیٹھے پاکستانی بھی آپ کہ ساتھ ہیں کڑے احتساب کی حد تک ۔ نیب چیرمین کو آپ کو نہیں ملنا چاہیے تھے ، احتساب صرف ہو نہ بلکہ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے ، اس ملاقات سے وہ معاملہ زرا دھندلا ہو گیا ۔
خان صاحب مجھے یقین ہے اگر آپ اپنی زندگی میں انقلاب لے آئے تو ۲۲ کروڑ کی زندگیوں میں انقلاب با آسانی آ جائے گا ۔ جیتے رہیں ۔ آپ کا سایہ پاکستان پر ہمیشہ قائم رہے ۔ آمین
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔