تبدیلی کیا ہوتی ہے؟
نظام میں تبدیلی کیا ہوتی ہے، اس بارے میں جواب دو طرح سے ہوگا کہ انقلاب کے ذریعے نظام کو یکسر منقلب کر دینا یا پھر اصلاح کے عمل سے نظام کی ہئیت کو بدل ڈالنا۔
پہلے ہم مختصرا" انقلاب کو دیکھ لیتے ہیں۔ دو مثالیں لیتے ہیں 1948 کے چین کی اور 1979 کے ایران کی۔
چین میں انقلاب ایک ایسی پارٹی لائی تھی جو ایک عرصے سے تگ و دو کر رہی تھی۔ انقلاب کے رہنما ماؤ زے تنگ کا مقولہ تھا کہ "انقلاب بندوق کی نالی سے آتا ہے"۔ تو بندوق کی نالی سے خوب کام لیا گیا مگر کچھ بعد میں۔ اس سے پہلے لوگوں میں مقبول ہونے کی غرض سے مشہور و معروف " لانگ مارچ " کیا گیا تھا جو نہ صرف ہزاروں کلومیٹر پر محیط تھا بلکہ اس میں جہاں راستے میں لوگ ملتے گئے، وہاں سفر کی کٹھنائیوں، امراض، مخالفین سے لڑائیوں اور دیگر مہلک اعمالات کے سبب لاکھوں اموات ہوئیں۔ بر سر اقتدار آنے کے بعد انقلابیوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس انقلاب کو "ثقافتی انقلاب " کا نام دیا گیا تھا، جس میں پرانی شہنشاہانہ ثقافت کے تارو پود کو یکسر بدل دینا مقصد تھا۔ ایسا ہی کیا گیا۔ اس ثقافتی انقلاب کی زد میں کروڑوں آئے۔ لاکھوں مارے گئے اور چین سے لوگوں نے وسیع پیمانے پر دوسرے ملکوں میں ہجرت بھی کی۔ انتہائی سخت سزاؤں کے تعزیری نظام کے ساتھ ساتھ، سخت گیر جاسوسی نظام اور لوگوں کو انقلابی اعمال و افعال کی جانب راغب کرنے کا بھرپور پروپیگنڈہ نظام، نئے سیاسی نظام کا حصہ تھے۔ چین بہت عرصہ دنیا کے لیے بند رہا۔ چین کو یک پارٹی سیاسی حکومت کا راج رہا ہے۔ ماؤزے تنگ طویل عرصے مفلوج رہے، رالیں بہاتے رہے لیکن ان کی موت تک کسی کو آگے نہیں آنے دیا گیا۔
ان کی رحلت کے بعد ڈینگ سیاؤ پنگ نے چین کو دنیا کے لیے کھولا۔ وسیع پیمانے پر اصلاحات کیں۔ " ایک بچہ بس " نوع کے غیر انسانی اصول پنائے گئے مگر آبادی پھر بھی دنیا میں سب سے زیادہ رہی۔ حکومت ان کے اور ان کے بعد کے دور میں بھی یک پارٹی رہی اور اب شی جن پنگ کو معتدل شخصیت ہونے کے سبب عمر بھر کے لیے سربراہ "مقرر" کر دیا گیا ہے۔ چین میں آج بھی سب اچھا نہیں ہے۔ زرعی سیکٹر کی ناہموار ترقی کے باعث کسانوں کی بڑی تعداد صنعتی مزدوری کرنے پر مجبور ہوئی اور ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے کیونکہ چین کی صنعت پر دنیا کے صنعتی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔
ایران میں شاہ مخالف تمام عوامی قوتوں نے مل کر شاہ کا تختہ الٹا تھا۔ شاہ مخالف تحریک کی منصوبہ بندی کا تمام کام ایران کی خفیہ جماعت "حزب تودہ" نے سرانجام دیا تھا۔ یہ جماعت درحقیقت ایران کی کمیونسٹ پارٹی تھی جس کو سوویت یونین کی اعانت حاصل رہی تھی۔ خفیہ جماعت ہونے کے سبب یہ پارٹی عوام کے مذہب مواقف مزاج کو نہیں بدل سکی تھی چنانچہ مذہب پرست شیعہ اکثریتی آبادی نے " کمیونیسٹ، معلوم نیست، تخم کیست" ( کمیونسٹ، معلوم نہیں کس کا نطفہ ہیں ) جیسے تنفر پر مبنی مزاج کے تحت شیعہ مذہبی بالادست افراد کو ہی پذیرائی دی تھی اور ایک عرصے سے عراق میں ملک بدر ہوئے آئت اللہ روح اللہ خمینی کو تزک و احتشام کے ساتھ وطن واپس لایا گیا تھا۔
حزب تودہ والے سمجھتے رہے کہ ملاؤں کے پاس حکومت چلانے کی کیا اہلیت ہوگی، ان کے ساتھ معاملات طے ہو جائیں گے مگر مذہبی حکومت نے سب سے پہلے کمیونسٹوں اور بعد میں سوشلست اور لبرل سیاسی کارکنوں کا یا تو اعدام کیا، یا انہیں جیلوں میں دال دیا یا جن کے لیے ممکن ہو سکا وہ ملک سے بھاگ گئے۔ جس نے معافی مانگ کر داڑھی رکھ لی وہ کم از کم بظاہر اسی حکومتی پالیسی کا حصہ بن گئے۔ ایران میں انقلاب کے کئی سال بعد تک سیاسی کارکنوں کو سرسرسی فیصلوں کے بعد جیلوں میں گولیاں مار کر مارنا یا سرعام کرینوں پر پھانسی دینے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ آج بھی ایران کی معیشت اور معاشرے کے سقم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
اب آتے ہیں اصلاحات کے ذریعے نظام کو بدلنے کی بات کی جانب۔ اس ضمن میں سنگاپور اور ملائشیا جیسے ملکوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ملائشیا میں تو حالات خیر اب بھی کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں بس عالمی سرمایہ داری کا بغل بچہ ہونے کے سبب وہاں معیشت نسبتا" مستحکم ہے۔ یہ ملک رقبے اور آبادی کے حساب سے کوئی اتنے بڑے نہیں ہیں۔ یہاں بتدریج اصلاحات کرکے معاملات کو درست کیا جانا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا روس اور پاکستان میں۔ روس بہت بڑا ملک ہے اور پاکستان بھی کوئی چھوٹا ملک نہین مگر آبادی رقبے کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ روس کا رقبہ پاکستان سے آٹھ گنا ہے اور آبادی تقریبا" پندرہ کروڑ جبکہ پاکستان کی آبادی اکیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ جن دنوں سنگاپور یا ملائشیا میں "تبدیلیاں" آئی تھیں، وہ ادوار اور تھے۔ دنیا کے سیاسی اور معاشی معاملات آج سے بالکل مختلف تھے۔ علاوہ ازین ان دونوں ملکوں کے ہمسائے اول تو ایک دو ہی ہیں دوسرے وہ ان ملکوں کے کھلے یا پوشیدہ دشمن بھی نہیں تھے۔
یہ درست ہے کہ تبدیلی انقلاب کی طرح یک لخت نہیں آیا کرتی۔ ویسے تو انقلاب سے بھی یک لخت نہیں آتی البتہ بالائی ڈھانچہ یکسر بدل دیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے والے تمام سرکاری اداروں کے سربراہان اور ان کے نائبین کو معطل یا گرفتار کرکے انقلاب لانے والی پارٹی کے اہلکار ان کی جگہ مقرر کر دیے جاتے ہیں مگر یہاں تو 115 اراکین اسمبلی میں باجوڑ کے چھوٹے سے حلقے سے چائے والے ظفر خان کے منتخب کروائے جانے کو تبدیلی قرار دے کر بغلیں بجائی جاتی ہیں۔ یہ "تبدیلی" ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کی نسبت تو پیپلز پارٹی تین چار متوسط افراد بشمول خواتین کو کامیاب کرا پائی ہے۔ چار پانچ پارٹیوں بشمول جی ڈی اے، ایم کیو ایم کو ملا کر اکثریتی اراکین والی پارٹی کے سربراہ کا خود کو وزیراعظم منتخب کروانا بھی تبدیلی نہیں کہلاتا اور نہ ہی آئی ایم ایف، اسلامی ترقیاتی بینک اور دیگر سے قرض لینا تبدیلی کہلائے جانے کا حقدار ہے۔
تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ تمام بڑے افسروں کو معطل کیا جائے اور تیسرے مقام پر موجود جوان افسروں کو اوپر لایا جائے۔ دیانتدار بڑے افسروں کو وزراء کا مشیر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ متنازعہ پالیسیاں بشمول خارجہ پالیسی کی ایک ایک شق جاندار بحث کے بعد اسمبلی سے منظور کرائی جائے۔ دفاعی پالیسی بھی سول منتخب اراکین ہی مرتب کریں جس میں تکنیکی مشورے متعلقہ پیشہ ور افراد سے لیے جائیں۔
صحت اور تعلیم کو ان دونوں پر فوقیت دی جائے، یہ تب ہی ممکن ہوگا کہ جن ملکوں کے ساتھ عناد ہے ان کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنایا جائے۔ کسی بھی دوسرے ملک کے لیے حاکمانہ یا استحقاقی رویہ نہ اپنایا جائے جیسے یہ کہنا کہ " کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا تبھی بات آگے بڑھے گی " بلکہ یہ کہا جائے کہ آئیے کشمیر کا مسئلہ بیٹھ کر حل کرتے ہیں، ساتھ ساتھ دوسرے میدانوں بالخصوص تجارت کے میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت کرتے ہیں۔
" تبدیلی " کی یہ چند ایک مثالیں ہیں مگر کیا ایسا کیا جا سکتا ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا کیا جانا ممکن نہیں ہے۔ پہلے تو آپ آئی ایم ایف یا جس سے بھی قرض لیں گے اس کی اپنی شرائط ہونگی جن پر لامحالہ عمل کرنا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مقروض ملک جب قرض لیتا ہے وہ مزید مقروض یعنی مجبور ہو جاتا ہے، آزاد اور مختار نہیں رہتا۔ ماہرین معیشت کے علاوہ عام سوجھ بوجھ والا انسان بھی آگاہ ہے کہ قرض کی ادائیگی میں زیادہ زرمبادلہ قرضوں کے سود اور قرض دینے والی ایجنسیوں کے مشیر و ماہرین کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں نکل جاتا ہے۔
دنیا کے بیشتر ملک بشمول پاکستان سرمایہ داری پر منحصر معاشی نظام کے تحت ہیں جس میں مقروض ملک تب تک اہم نہیں ہوتا جب تک وہاں صنعت ترقی یافتہ نہ ہو اور لوگوں کا معیار زندگی بلند نہ ہو۔ پاکستان ہو یا ہندوستان دونوں میں معیار زندگی تو جیسا ہے سو ہے مگر ہندوستان کی نسبت پاکستان میں صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔
جب آپ کے ہاں صنعت ہے ہی نہیں اور زمیندار مہنگائی کے ہاتھوں بہت منافع بخش زراعت کرنے سے قاصر ہیں تو آپ مسئلہ کشمیر حل کرکے بھی تجارت کے ضمن میں ہمسایہ ملک کے ساتھ کیا تعاون باہمی کر سکیں گے جبکہ خارجہ و دفاعی پالیسی بنانے پر سیاستدانوں کی دال ہی نہیں گلنے دی جائے گی اور سیاست دان بھی کون ہیں؟ ہم میں سے ہی ہیں نا جو واہگہ بارڈر پر سر سے اوپر ٹانگیں لے جانے اور مادہ کو لبھاتے پرندوں کی طرح بازووں کو بکھراتے اور سینہ ابھارتے ادھر ادھر کے دو فوجیوں کو عجیب و غریب مارچ کرتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، تو یوں جناب معذرت کے ساتھ کوئی بھی تبدیلی آنے سے رہی۔
تبدیلی خواہش یا جذبے سے نہیں آیا کرتی، اس کے لیے موزوں معروضی حالات کا ہونا ضروری ہوتا ہے، حالات چاہے سیاسی نوعیت کے ہوں، معاشی نوعیت کے یا سماجی نوعیت کے سازگار ہرگز نہیں ہیں۔ اس ضمن میں اپنے دوست شمعون سلیم کا ایک پیغام پیش کرنا ضروری خیال کرتا ہوں:
" عمران خان کی سیاست سے ہزار بنیادی اختلاف اپنی جگہ لیکن ان کا اصل اور مشکل ترین چیلنج جو ان کے سامنے ہے، دعا ہے کہ وہ اس سے ۹۲ کا ورلڈ کپ سمجھ کے عہدہ برا نہ ہوں۔
اللہ کا واسطہ، نکل آئیں اب ورلڈ کپ سے ! اب اس منصب کے ساتھ کرکٹ نہ کھیلیں ۔
گواسکر اور کپیل دیو کرکٹر تو آپ جتنے ہی بڑے ہیں لیکن اس کپ کا ایمپائر، ایمپائر ہی نہیں ایک منجھا ہوا سیلیکٹر بھی ہے۔
آپ کا اور حکومت کا تو جو ہو سو ہو لیکن اس نوجوان نسل کی امیدوں کی فصل کی بے مثال نسل کُشی دیکھ کر بہت ہی دکھ ہو گا ، جس نے تبدیلی کا شعور زندگی میں پہلی دفعہ آپ سے لیا ہے۔ کہ سماج میں تبدیلی کی ساری دوسری آوازیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ ’’مطالعہِ پاکستان‘‘ کے کنویں میں غرق کر دی گئی ہیں۔
اب آپ عمران احمد خان نیازی صاحب ہیں جنہیں ایک خوفناک بحران کے منہ میں پھنسے ملک کی وزارتِ عظمیٰ کا کام دیا گیا ہے۔ کپتانی کا نہیں۔ اب کرکٹ سے نکل آئیں۔
جو ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اس سے جو نقصان پاکستان کو ہونے کا امکان ہے وہ اپنی تنقید صحیح نکلنے پر میری ’کمینی سی‘ خوشی سے کہیں زیادہ خوفناک ہو گا"۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“