چھ جولائی، 2016 کو چالیس لوگوں پر مشتمل کمپنی نیانٹک، جو گوگل کے جیو ڈیویژن کے سابق ملازمین نے شروع کی تھی، نے ایک ایک گیم لانچ کی۔ “پوکے مون گو” کو کھیلنے والے فون کے کیمرے کو استعمال کر کے ورچوئل مخلوقات پکڑتے تھے، جو ان کی سکرین پر ایسے نمودار ہوتی تھیں جیسا کہ وہ اصل دنیا میں ہیں۔ دو ہفتے میں تین کروڑ افراد کے فون پر یہ گیم موجود تھی۔ کچھ ہی عرصے میں آئی فون استعمال کرنے والوں نے اس پر فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ کے مقابلے میں زیادہ وقت صرف کرنا شروع کر دیا۔ اس سے زیادہ متاثر کن یہ تھا کہ گیم ریلیز ہونے کے چند ہی روز کے اندر اندر گوگل پر “پوکے مون گو” کے لفظ پر ہونے والی سرچ “پورن” پر ہونے والی سرچ سے آگے نکل گئی۔
اگر آپ کو گیم کا شوق نہیں تو آپ اس میں دلچسپی نہ لیں لیکن بزنس کی دنیا میں اس سب کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صرف امریکہ میں ایپل استعمال کرنے والوں سے حاصل ہونے والا ریونیو سولہ لاکھ ڈالر روزانہ تھا۔ اس نے راتوں رات نیانٹک کی مارکیٹ ویلیو میں ساڑھے سات ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا۔ ایک مہینے میں ننٹینڈو کے شئیر کی قیمت دگنی ہو گئئ۔ (ننٹینڈو کے پاس پوکے مین کا ٹریڈ مارک ہے)۔
اپنے پہلے چھ ماہ میں پوکے مون گو کے ہونے والے ڈاوٗن لوڈ ساٹھ کروڑ تک پہنچ گئے۔ اس کا موازنہ اکیسویں صدی کے شروع کی دوسری بہت بڑی کامیابیوں سے بھی کریں تو یہ کامیابی حیران کن تھی۔ فیس بک 2004 میں شروع ہوا۔ 2007 میں یہ تین کروڑ تک نہیں پہنچا تھا۔ انتہائی پاپولر گیم ورلڈ آف وارکرافٹ بھی 2004 میں ریلیز ہوئی۔ اگلے چھ سال میں اس کے کھیلنے والوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہوئی۔ دس سال میں مقبولیت کی رفتار کا معیار بدل گیا تھا۔ اگلے دس سال میں زیادہ تر اکانومسٹ اور سوشیالوجسٹ تبدیلی کی رفتار میں اضافے کا ہی اندازہ لگاتے ہیں۔
پوکے مون گو کی کامیابی حادثاتی نہیں تھی۔ اس کو بنانے والوں نے کئی جدتیں کی تھیں۔ جی پی ایس اور کیمرہ کی ٹیکنالوجی کو اور کلاوٗڈ کمپیوٹنگ کی طاقت کو اچھوتے طریقے سے استعمال کیا تھا۔ ایپ سٹور کی اکانومکس کو نئے طریقے سے استعمال کیا تھا جو ورلڈ آف وارکرافٹ کے دنوں میں نہیں موجود تھا لیکن اب عام ہے۔ یعنی گیم مفت میں، جبکہ اس کے اضافی فیچر اور اپ گریڈ سے کی جانی والی کمائی۔ اس آمدنی کو برقرار رکھنا ایک اور بڑا چیلنج تھا۔ انٹرایکٹو تفریح کی انڈسٹری میں کامیابی کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ یہاں پر نیناٹک نے جو تکنیک استعمال کی، وہ لمبی چلائی گئی مہم تھی جس میں معنی رکھنے والے فیچر اور کانٹنٹ دیتے جانا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال کے بعد بھی ایکٹو کھیلنے والوں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ تھی. اس گیم سے یہ کمپنی ڈھائی ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کر چکی ہے۔
اس سے پہلے روایتی سوچ یہ تھی کہ کوئی بھی ایسی گیم نہیں کھیلنا چاہے گا جس میں کوئی فزیکل ایکٹیویٹی ہو یا اصل دنیا سے کوئی انٹرایکشن ہو۔ لوگ بس بیٹھ کر کھیلنا چاہتے ہیں۔ “پوکے مون گو” کو بنانے والوں نے اس بنیادی مفروضے کو ہی نظرانداز کر دیا تھا۔ آج کی تیزرفتار دنیا میں “روایتی” اچھا لفظ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے پچاس سال قبل بڑی پانچ سو کمپنیوں میں داخل ہو کر اس فہرست میں رہنے کا اوسط دورانیہ 61 سال تھا، اب یہ دورانیہ 20 سال کے قریب رہ گیا ہے۔ بلیک بیری، یاہو، ڈیل، کوڈیک، بریٹیکا انسائیکلوپیڈیا اور بہت سی دوسری مثالیں دیکھ جا سکتی ہیں جس میں بڑے اور کامیاب اداروں کو ختم ہوتے زیادہ وقت نہیں لگا۔
یہ تبدیلی افراد کی زندگی میں بھی اسی طرح تیزتر رونما ہو رہی ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب کہیں جانا ہوتا تھا تو ٹریول ایجنٹ سے رابطہ کرنے کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں تھا۔ اب اگر کوئی کہیں نئی جگہ جانا چاہے تو انٹرنیٹ پر راستہ، رہنے کی جگہ، دیکھنے کی جگہیں، ٹکٹ، مختلف آفرز دیکھ کر جاتا ہے۔ فون یا کیمرہ ہو یا کوئی اور خریداری، خریدار اور بزنس کے درمیان تعلق کی نوعیت بدل گئی ہے۔ زندگی گزارنے کے بنیادی فنکشن اور پیشے بدل رہے ہیں۔ دوستوں اور رشتہ داروں سے تعلق رکھنے کے طریقے بدل گئے ہیں۔ مسائل بدل گئے ہیں۔ پچھلی ایک سے دو دہائیوں میں ان تبدیلیوں نے سوشل سٹرکچر پر فرق ڈالا ہے۔
تیزرفتار ہونے والی گلوبلائزیشن اور ٹیکنولوجیکل جدتوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن اس کا ایک اہم پہلو جو زیرِبحث نہیں آتا، وہ سوچنے کے طریقے میں تبدیلی کی ڈیمانڈ ہے۔ بزنس، سیاست، پروفیشنل اور ذاتی ماحول ہر جگہ پر میں۔ ہمیں کامیابی اور خوشی کا انحصار اس پر ہے کہ ہم اس سے کس طرح صلح کرتے ہیں۔
کچھ طرح کے ٹیلنٹ ہیں جو ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ سوچ کے بارے میں کچھ چیزیں ہمیشہ اہم رہی ہیں لیکن ان میں سے کچھ کی اہمیت میں بہت فرق آیا ہے۔ مثلا، ہم کس طرح اپنے آرام دہ خیالات کو چھوڑ کر تضادات اور ابہام میں کام کر سکتے ہیں۔ روایتی سوچ سے بالاتر ہو سکتے ہیں۔ اور نئے سوالات کر سکتے ہیں۔ اپنے ذہن میں بنائے گئے گہرے ترین مفروضہ جات کو ترک کر سکتے ہیں اور نئی پیراڈائم کو دیکھ سکتے ہیں۔ منطق اور خواب کا ملاپ کروا سکتے ہیں۔ ناکامی کو برداشت کر سکتے ہیں اور نیا تجربہ کرنے سے نہیں گھبراتے۔ ماہرینِ نفسیات اور نیوروسائنٹس ان سب خاصیتیوں کے پیچھے دماغ میں چلنے والے پراسس کو دیکھتے ہیں اور ان سب کو ملا کر “الاسٹک سوچ” کہا جا سکتا ہے۔ ہم خود اپنے میں اس طرح کی سوچ کی پرورش کر سکتے ہیں۔
اس پر ہونے والی تحقیق میں بہت پیشرفت ہوئی ہے اور اس میں جو کوالٹی سب سے اہم چیز جو نمایاں نظر آتی ہے، وہ اس سوچ کا طریقہ ہے۔ کمپیوٹر کا طریقہ “ٹاپ ڈاوٗن” ہے یعنی ایک مسئلے کو حل کرنے کے لئے مرکزی حصے سے ہدایات جاری ہوتی ہیں۔ اس کو الگ حصوں میں توڑا جا سکتا ہے، پھر ہر جگہ سے نتائج کو ملا لیا جاتا ہے۔ بائیولوجیکل ذہن میں یہ طریقہ تجزیاتی سوچ کہلاتا ہ جس میں دماغ کا ایگزیکٹو سٹرکچر سوچ کا طریقہ ڈکٹیٹ کرتا ہے۔ اپنے منفرد آرکیٹکچر کی وجہ سے بائیولوجیکل دماغ میں صرف یہی طریقہ نہیں۔ ایک اور طریقہ “باٹم اپ” ہے۔ اس طریقے میں انفرادی نیورون بغیر کسی مرکزی ہدایت کے، پیچیدہ طریقے سے فائر ہوتے ہیں اور دماغ کے جذباتی سنٹرز سے اہم ان پٹ لیتے ہیں۔ یہ طریقہ نان لینئیر ہے اور یہ طریقہ وہ خیالات پیدا کرتا ہے، جو اچھوتے ہوتے ہیں جو تجزیاتھی یا قدم بہ قدم کام کرنے کے طریقے سے نہیں آ سکتے۔
کوئی کمپیوٹر “الاسٹک سوچ” نہیں رکھ سکتا اور بہت کم جاندار اس کا زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انسانی دماغ اسی کا ماسٹر ہے۔ “پوکے مین گو” ہو یا کوئی اور منفرد تخلیقی کام، یہ دماغ کے لگے بندھے ایگزیکٹو فنکشن کو خاموش کروا کر، عام طریقے سے ہٹ کر دیکھ سکتے ہیں۔ نئی راہوں پر جا سکتے ہیں، نیا کر سکتے ہیں۔ اس کو سمجھ کر ہم اپنی ذاتی زندگیاں اور کام کے ماحول کو بدل سکتے ہیں۔
لگے بندھے طریقے اور روایتی سوچ سادہ دماغ کی پہچان ہے۔ ایک کیچوے کا یا ایک مکھی کا دماغ لگے بندھے طریقوں سے ہی سوچ سکتا ہے، معاشروں میں اور دنیا میں ہونے والی تیزرفتار تبدیلیاں انسانی دماغ کے انسانی حصے کی اہمیت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ دماغ کا وہ حصہ جو کہ لچکدار ہے۔