تبدیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر انسان کی زندگی کی کہانی میں ایک نیا زاویہ اور ایک نیا پہلو ہوتا ہے۔ہر انسان کی زندگی کی کہانی میں ایک نئی قسم کی خوشی اور نئےقسم کا غم ہوتا ہے ۔کوئی زندگی ایسی ہوہی نہیں سکتی جس میں تکلیف اور غم نہ ہو ۔زندگی غم ،تکلیف اور نقصان اٹھانے کا بھی نام ہے ۔لیکن ہم کیا کرتے ہیں ؟ہم صرف خواہشات پر جیتے ہیں ،ہم صرف چیزوں کی تمنا کرتے ہیں ۔اگر سو میں سے اسی خواہشات پوری ہو گئی اور بیس خواہشات پوری نہیں ہوئی تو ان بیس خواہشات کی شکایت میں زندگی گزار دیتے ہیں ۔ان اسی خواہشات کی خوشی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ہمیں ان اسی خواہشات کی خوشی کا خیال کرنا چاہیئے ۔ایسا کریں گے تو زندگی میں خوشبو اور تازگی کا سماں بندھے گا ۔انسان اشرف المخلوقات اگر ہے تو صرف دو وجوہات کی وجہ سے ہے ۔ایک تو یہ کہ انسان صرف اور صرف اپنے لئے نہیں جیتا ،دوسروں کے لئے بھی جیتا ہے ۔دوسرا یہ کہ انسان وہ ہے جس میں احساس ہے ۔انسان وہ ہے جو محسوس کرتا ہے ۔ہم نہ اپنے لئے جیتے ہیں ،نہ دوسروں کے لئے اور دوسرا ہمارے اندر احساس کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔زندگی انجوائے کریں اپنے لئے اور دوسروں کے لئے اور اپنے اندر احساس پیدا کیجیئے ۔احساس یہ ہے کہ ہم انسان ایک دوسرے کو سمجھیں ،یہ سمجھنا سمجھانا تسلط کی بنیاد پر نہیں محبت کی بنیاد پو ہونا چاہیئے ۔یہ احساس بھی ہونا چاہیئے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں ۔تہذیب اور محبت کی پہلی سیڑھی ہی یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھیں ۔اس سے برداشت اور تحمل پیدا ہوگا ۔اور اسی وجہ سے تبدیلی آئے گی ۔لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو طاقتور سمجھتے ہیں ،اپنے آپ کو طاقتور قوم سمجھتے ہیں ۔اس لئے ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ہم سب کہتے ہیں ہم سب جانتے ہیں ۔اسی وجہ سے مسائل ہیں اور تبدیلی نہیں آرہی ۔زندگی تجربے کے بغیر کبھی آگے نہیں بڑھتی ۔تجربے کی بنیاد دلیل اور منطق ہے ۔جس زندگی میں تجربہ نہیں ،اس زندگی میں دلیل نہیں اور منطق نہیں ۔صرف سستی سی جزباتیت ہے ۔ایسی زندگی صرف نعرہ بازی ہے اور کچھ نہیں ۔سستی جزباتیت کا مطلب زندگی کا نعرہ بازی بنکر رہ جانا ہے ۔ہم صرف نعرے بازی میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ہم سب مسخری سی صورتحال کا شکار ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم صرف سستی سی جزباتیت کا شکار ہیں ۔جو زندگی کو چاہتے ہیں وہ طاقت اور اقتدار کے پیچھے نہیں بھاگتے ۔زندگی تو معصوم بچے کی مسکراہٹ میں ہوتی ہے ،زندگی کسی خوبصورت اور معصوم خاتون کی آنکھوں میں ہوتی ہے ۔ہم ساری عمر ہاتھ میں ترازو پکڑے رکھتے ہیں ۔اور یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیا نقصان ہے اور کیا نفع ہے؟لیکن اس طرح ہم انسان نہیں بن پاتے ۔جو انسان ہوتا ہے وہ نفع اور نقصان کو خاطر میں نہیں لاتا ۔اچھا میرے دوست اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں صوفی بہت زیادہ پسند ہیں ۔میں ان کو اکثر یہی کہتا ہوں کہ یہ صوفی کمال کے مست لوگ ہیں ۔وہ اللہ سے محبت اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں خوبصورت دنیا میں قیمتی زندگی دیکر پیدا کیا ہے ،صوفی زندگی سے محبت کرتے ہیں اور زندگی کو محبت سیکھاتے ہیں ۔زندگی سنگل انٹری ویزہ ہے اور ون وے ٹکٹ ہے ۔دوبارہ نہیں آنا ہم نے ۔اس لئے زندگی کو صرف تکلیف کے شکوے میں نہیں گزار دینا چاہیئے ۔اس طرح زندگی گزارنے کا مزہ نہیں آتا ۔دنیا کی پرواہ مت کریں کہ دنیا آپ کے بارے میں کیا کہتی ہے۔باہر کی دنیا سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔لیکن ہم انسان باہر کی دنیا سے خوف زدہ رہتے ہیں ۔اندر کی دنیا کو سمجھیئے ،اندر کی دنیا ہمیشہ آباد و شاداب رہتی ہے ۔باہر کی دنیا ڈراتی ہے ۔مت ڈریئے ان باہر کی دنیا کے لوگوں سے ۔یہ اس لئے ڈراتے ہیں کہ یہ خود بہت ڈرے ہوئے ہیں ۔جس کے پاس جو ہوتا ہے وہ وہی دوسرے کو دیتا ہے ۔جس کے پاس ڈر ہے وہ ڈر ہی دوسرے کو دے گا ۔جس کے پاس محبت ہے وہ دوسرے کو محبت ہی دے گا ۔کوئی آپ کی زندگی میں تبدیلی نہیں لائے گا ۔آپ خود ہی اپنی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں ۔تبدیلی صرف انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ہاں ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں جس تبدیلی میں محبت نہیں ،وہ تبدیلی ظلم اور سفاکی ہے۔اورجس تبدیلی میں محبت اور ہمدردی ہے ،احسا س ہے ،برداشت ہے ،وہ انقلاب یا تبدیلی ہی ہمیشہ کے لئے ہوتی ہے اور ایسی تبدیلی کے لئے ہمیں سوچنا چاہیئے ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں ہم زندہ ہیں وہاں برداشت نہیں ،امن نہیں ،خطرہ ہے ۔نفرت ہے ،وحشت ہے اور ظلم ہے ۔جس معاشرے میں ہم زندہ ہیں وہاں ایک نوجوان اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر سینکروں انسانوں کو مار دیتا ہے ۔اور اس سے کہا جاتا ہے کہ ستر حوریں اس کا انتظار کررہی ہیں ۔کسی ایک چہرے پر مسکراہٹ لایئے انشااللہ لاکھوں حوریں آپ کا استقبال کریں گی ۔اس لئے امن اور محبت کے علمبردار بنیئے۔اور نفرت و وحشت کو چھوڑ دیجیئے ۔ہم اپنی زندگی سازشی نعروں میں گزار رہے ہیں ۔یہیودی ،سہونی اور ہندو سازشی نعروں سے باہر نکلیں ۔اپنے آپ پر اعتبار کریں ،اپنی زات پر یقین کریں ۔کوئی آپ کے خلاف سازش نہیں کررہا ،آپ خود ہی اپنے آپ کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ۔اور آخر میں ایک شعر
ہمیں خبر ہیں کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں ،اجالا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔