روفی سے عزیز داری تھی۔ لائق لڑکا تھا۔ پڑھنے لکھنے والا۔ خطاط بھی تھا اور یہ طے ہے کہ خطاط اور کچھ ہو نہ ہو‘ ذہین ضرور ہوتا ہے۔ اس کے گھر میں زیادہ پڑھنے لکھنے کی روایت نہیں تھی لیکن جب ایک دن معلوم ہوا کہ روفی ماشاء اللہ لاہور کے ہیلی کالج آف کامرس میں پہنچ گیا ہے تو متاثر ہونا لازم تھا۔ وہ کامرس میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے پڑھ رہا تھا۔ ملاقات ہوئی تو اسے ایک ہی بات کہی۔ دیکھو… ٹارگٹ بلند رکھنا۔ لیکچرر شپ سے کم کا کبھی نہ سوچنا۔ ساری راہیں اسی سے پھوٹتی ہیں۔ مقابلے کا امتحان وہیں سے دیا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی صورت وہیں سے نکلتی ہے۔ نجی شعبے میں جانا ہو تو کمپنیوں والے جوہرِ قابل کو وہیں تلاش کرتے ہیں۔
ایک دن معلوم ہوا کہ روفی نے ماسٹرز کی ڈگری ادھوری چھوڑ دی اور ملازمت اختیار کرلی۔ پوچھنے پر وحشت اثر خبر یہ ملی کہ اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کے دفتر نے آڈیٹر (کلرک) کی اسامیاں مشتہر کی تھیں۔ روفی نے درخواست دے دی اور اب وہ آڈیٹر بھرتی ہو گیا ہے۔ یہ صدمے والی خبر تھی۔ ایک جوہرِ قابل ضائع ہو گیا۔ ایک اچھا پی ایچ ڈی پروفیسر‘ ایک ہونہار چارٹرڈ اکائونٹنٹ‘ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے حسابات کا بلند مرتبہ انچارج‘ سارے امکانات خاک میں مل گئے۔ اُس دن کے بعد روفی کے بارے میں پوچھا‘ نہ اُس کی کسی خبر میں دلچسپی لی۔
انسان بظاہر ایک سے ہوتے ہیں۔ چہروں کو غور سے دیکھیے۔ کان اور ناک کے درمیان۔ آنکھ اور ہونٹ کے درمیان کم و بیش یکساں فاصلے ہیں۔ سب کے بال سر ہی سے اُگتے ہیں۔ کسی کی ہتھیلی پر کوئی شے نہیں اُگتی۔ عملِ انہضام ایک ہی طرح کام کرتا ہے لیکن وہ عضو جو سر کے اندر‘ دو کانوں کے بیچ اور پیشانی کی پشت پر ہے‘ سب کا مختلف ہے۔ ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے دو بھائیوں میں ایک کا نصب العین صرف دکانداری کرنا اور دوسرے کا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا سربراہ بننا ہوتا ہے۔ ایک شخص سپاہی بھرتی ہوتا ہے اور نصب العین یہ ہے کہ صوبیدار ہو کر ریٹائر ہو جائوں‘ دوسرا کمیشن حاصل کرتا ہے اور سپاہی سے جنرل موسیٰ خان بن جاتا ہے۔ بظاہر ایک جیسے انسانوں میں ٹارگٹ کا فرق ہے۔ ٹارگٹ کا انحصار سوچ کی سطح پر ہے۔ سوچ بلند ہوگی تو ٹارگٹ اونچا ہوگا۔ سوچ پست ہوگی تو نصب العین بھی چھوٹا ہوگا۔
پاکستان دنیا کے اُن ملکوں میں سرِ فہرست ہے جہاں عمودی تبدیلی (Vertical mobility) کی شرح پریشان کن حد تک پست ہے۔ کسان کا بچہ کسان‘ کلرک کا بچہ کلرک‘ دکاندار کا بچہ دکاندار اور جلد ساز کا بچہ جلد ساز بنتا ہے۔ بہت تیر مارا تو تبدیلی افقی ہوگئی‘ یعنی (Horizontal mobility) کسان کا بچہ کلرک بن گیا اور کلرک کا بچہ جلد ساز ہو گیا۔ جس زمانے میں ذات پات کی زنجیریں مضبوط تھیں‘ اور درباروں کے ارد گرد ذاتوں کے لحاظ سے محلے آباد کیے جاتے تھے‘ اس زمانے میں تو یہ جمود فطری تھا اور جبر کا شاخسانہ تھا۔ شاعر بھی یہی کہتے تھے ؎
مرے بلخ میرے ہرات شاد رہیں سدا
مرے کوزہ گر مرے زین ساز سدا رہیں
لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا جب دارالحکومتوں میں بتیس ذاتوں کی الگ الگ آبادیاں ہوں۔ ذات پات کے پرخچے اُڑ چکے ہیں۔ جو چند لوگ بیٹیوں کی شادیاں اس لیے نہیں کر پاتے کہ مغل یا راجپوت یا اعوان نہیں مل رہے‘ وہ چراغِ آخرِ شب ہیں۔ جس قدر جلد بجھ جائیں‘ اچھا ہے۔ اب عمودی تبدیلی میں رکاوٹ سوچ کی سطح ہے‘ ترقی کا راز خدا نے اپنی کتاب میں بیان کردیا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرفِ آخر ہے۔ ’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اُس نے سعی کی‘‘۔ اور سعی وہ اسی چیز کے لیے کرے گا جو اس کی سوچ کے حصار میں آئے گی۔ اگر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ امریکہ کا صدر بننا چاہتا ہے تو بے شک وہ پروفیسر ہی کیوں نہ ہو اور لاکھوں دوسرے پروفیسروں جیسا ہی کیوں نہ ہو‘ اوباما کی طرح امریکہ کا صدر ضرور بنے گا۔ لیس للانسان الّا ما سعیٰ۔
یہ درست ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں عمودی تبدیلی کا راستہ رکاوٹوں سے اٹا پڑا ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب فیوڈلزم کی کڑی گرفت میں ہیں۔ بلوچستان شرم ناک سرداری نظام میں بری طرح جکڑا ہوا ہے اور سردار کبھی نہیں برداشت کر سکتا کہ اس کے قبیلے کا ایک عام نوجوان‘ جو اس کی رعایا ہے‘ عمودی ترقی کرے۔ سفارش‘ اقربا پروری اور رشوت ستانی کا کلچر بھی زوروں پر ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسی خاک میں ہیرے اور لعل بھی ہیں اور انہیں چمکنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر غربت سدِ راہ ہے تو لاتعداد فلاحی ادارے لائق طلبہ کی تلاش میں ہیں۔ اندرونِ ملک سے کتنے ہی مفلوک الحال نوجوان بڑے شہروں میں آ کر زندگیوں کو تبدیل کر چکے ہیں۔ راستے سارے کھلے ہیں۔ صرف ان چند جھاڑیوں کو کاٹنا ہوتا ہے جو راستے کے آغاز میں کانٹے لے کر بیٹھی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آتی۔
اعداد و شمار اور مطالعہ و مشاہدہ گواہی دیتے ہیں کہ عام طور پر خاندان کا ایک فرد عمودی تبدیلی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا اثر کئی خاندانوں پر پڑتا ہے اور اوسطاً پانچ چھ خاندانوں کے بچے مثبت لحاظ سے متاثر ہوتے ہیں۔ سڑک کے کنارے بیٹھ کر جوتے مرمت کرنے والے موچی کا بیٹا اگر دفتر میں کلرک بھرتی ہو جائے تو اس کے تین یا چار بیٹے بیٹیاں بی اے اور ایم اے تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اپنے بھتیجوں اور بھانجوں کو پڑھنے لکھنے‘ محنت کرنے اور سوچ کو بلند رکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے اور مشورہ قبول کرنے کے لیے اثرورسوخ اور ڈانٹ ڈپٹ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے۔ اندازہ لگائیے، کم ازکم ایک درجن خاندان ترقی کے راستے پر رواں ہو سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو یہی خاندان اُسی ڈھرے پر چلتے رہیں گے جس پر اُن کے باپ دادا چلتے آئے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں عمودی تبدیلی کا ایک راز جغرافیائی نقل وحرکت بھی ہے۔ ماں باپ اگر نیویارک میں ہیں تو بیٹا بہتر مستقبل کے لیے ہزاروں میل دُور، چار ٹائم زون پار کر کے لاس اینجلس پہنچ جائے گا۔ ماں رو رو کر روکے گی نہ باپ آبائی وطن کے واسطے دے گا۔ لندن کے نوجوان اٹلی میں اور ٹورنٹو کے نوجوان کسی جھجک اور خوف کے بغیر ہسپانیہ میں تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت کرنے کے لیے تیار ہیں اور خوشی سے تیار ہیں۔ جغرافیائی نقل و حرکت میں یہ چُستی عمودی ترقی کا سبب بنتی ہے، اور خاندانوں نے خاندان معاشرے کے زیریں حصے سے اُٹھ کر بالائی سطح پر پہنچ جاتے ہیں۔
سوچ کی سطح ہی پست ہو تو دنیا کی کوئی طاقت نیچے سے اوپر نہیں لا سکتی۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“