حضرت شیخ ابو سعید ابوالخیر ؒ سے پہلا تعارف اُس وقت ہوا جب سِن ابھی کچا تھا ۔ خاندانی کتب خانے کو چاٹنا شروع کیا تو ابھی فارسی پر دسترس حاصل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن دہلی کی چھپی ہوئی ’’رباعیات ابو سعید ابوالخیر ‘‘ ساری پڑھ ڈالی۔ جو رباعیات سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں ان میں بھی غنائیت ‘ قافیہ آرائی‘ سلاست اور زبان کی لذت کمال کی تھی۔ یہ بھی کتاب سے معلوم ہوا کہ والد گرامی جو رباعی درد اور گداز کے ساتھ مترنم آواز میں پڑھتے تھے وہ حضرت شیخ ہی کی تھی۔ تصوّف کے پورے ادب میں اس رباعی کا جواب ہے نہ نظیر۔
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر وبت پرستی باز آ
این درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
واپس آ جا۔ واپس آ جا۔ جو کچھ بھی تُو ہے‘ واپس آ جا‘ کافر ہے یا آتش پرست یا بت پرست‘ واپس آ جا یہ ہمارا دروازہ ناامیدی کا دروازہ نہیں۔ اگر ایک سو بار بھی توبہ توڑ چکا ہے تو واپس آ جا!
افغان مہاجر آئے تو کم از کم ایک فائدہ یہ ہوا کہ فارسی کی کتابیں ملنے لگیں۔ پشاور یونیورسٹی کے قریب ایک چھوٹی سی بغلی گلی میں ’’ کتاب فروشیٔ خاور‘‘ نامی دکان میں شاعری کا ذخیرہ تھا۔ وہیں سے رباعیاتِ ابو سعید کا ایران کا چھپا ہوا خوبصورت نسخہ ہاتھ آیا۔ استاد سعید نفیسی نے مقدمہ لکھا تھا۔
تصوّف میں شیخ ؒ کا وہ مقام ہے کہ فریدالدین عطارؒ بھی رہنما قرار دیتے ہیں۔ ساری عمر اپنے علاقے نیشا پور میں گزار دی لیکن شہرت اندلس تک زندگی ہی میں پہنچ گئی تھی۔ بو علی سینا ملنے آئے تو تین دن تک گفتگو جاری رہی جس کے بعد آپ نے بتایا کہ جو کچھ بھی آپ دیکھ سکتے ہیں‘ سب بوعلی سینا کے علم میں ہے اور بو علی سینا نے بتایا کہ جو کچھ بھی وہ (یعنی بوعلی سینا) جانتا ہے‘ اُسے ابو سعید دیکھ سکتے ہیں!
ایک اور رباعی میں کمال کا نکتہ نکالتے ہیں ؎
در کعبہ اگر دل سوئی غیر است تُرا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دَیر است تُرا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکدہ ای
می نوش کہ عاقبت بخیر است تُرا
کعبہ میں بیٹھ کر اگر دل غیر اللہ کی طرف ہے تو تمہاری اطاعت گناہ ہے اور کعبہ تمہارے لیے بت خانہ ہے۔ لیکن اگر دل اللہ کی طرف ہے اور میکدہ میں بھی بیٹھا ہے تو بادہ نوشی کر لے۔ اس لیے کہ انجام بخیر ہے!
لیکن اس تحریر کا سبب حضرت شیخ کی رباعیات نہیں ! چند دن ہوئے روزنامہ دنیا ہی میں آپ کے حوالے سے ایک حکایت پر نظر پڑی۔ حکایت اور ایسی حکایت کہ دم بخود کر گئی ! ایک شخص نے بتایا کہ فلاں صاحب پانی پر چلتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جل مرغی بھی پانی پر چلتی ہے۔ اُس نے کہا فلاں ہوا میں اُڑتا ہے۔ فرمایا کوّااور مکھی بھی ہوا میں اُڑتے ہیں ۔ پھر کسی نے بتایا کہ فلاں آنکھ جھپکنے کی دیر میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں پہنچ جاتا ہے۔ فرمایا‘ یہ تو کوئی کمال نہیں۔ شیطان بھی ایک لحظہ میں مشرق سے مغرب پہنچتا ہے۔ پھر فرمایا‘ اِن چیزوں میں کوئی کمال نہیں۔باکمال وہ ہے جو لوگوں میں اُٹھے بیٹھے۔ اُن کے ساتھ لین دین کرے‘ اہل و عیال کے حقوق پورے کرے اور پھر بھی ایک لحظہ خدا سے غافل نہ رہے۔
یہ ہے وہ اسلام جو اصل اسلام ہے‘ جس سے ہم ناآشنا ہیں اور جس کے بارے میں منبر سے بتایا جاتا ہے نہ محراب سے۔ عمر فاروق اعظمؓ سے کسی نے پوچھا تقویٰ کیا ہے۔ آپ نے لباس سنبھالا‘ پائنچے اوپر کیے اور چل کر بتایا کہ جنگل میں اس طرح چلنا کہ جھاڑیوں سے کپڑے نہ الجھیں یعنی دنیا میں رہ کر‘ معاملات سے سابقہ رکھ کر گناہوں سے بچنا۔ جھاڑیاں نہ ہوں گی تو کپڑے کیسے بچائے جائیں گے۔ معاملات ِ دنیا سے کنارہ کشی کر لی تو کیسا تقویٰ۔ فرشتوں کو تقویٰ نہیں کرنا پڑتا کہ ان کا سابقہ معاملات سے ہے ہی نہیں! اسی لیے فرمایا گیا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے! رہبانیت کیا ہے ؟ خانقاہ یا مسجد میں یا جنگل میں دنیا سے کنارہ کش ہو کر رہنا۔ دس دن تک کے اعتکاف کی اجازت بھی دی اور حکم بھی ۔ کہ اس کے بعد آ کر حقوق و فرائض کی دنیا میں اپنے آپ کو پیش کرو۔ ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘ آزمائش تو جبھی ہے کہ خاندان کے‘ اقربا کے اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرے۔ تاجر کی آزمائش کیا ہے؟ تجارت میں صد فی صد دیانت۔ دفتری بابو کی آزمائش کیا ہے؟ سائل کو اذیت سے بچانا۔ مسجد میں چار ماہ چھوڑ کر پوری زندگی گزار دی جائے تو دین کی تربیت نہیں ہو سکتی اس لیے کہ تربیت تو دنیا کے اندر رہ کر ہو گی۔ مسجد میں تو دنیا داری کی جھاڑیاں ہی نہیں ‘ کپڑے بچانے کا کیا فائدہ؟ اِن گنہگار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ مصیبت میں مبتلا شخص نے کسی دیندار سے کوئی کام کہا تو ایک ہی جواب ملا۔ ’’وعدہ نہیں کرتا‘‘ !تاکہ وعدہ ایفا ہی نہ کرنا پڑے!
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ موج میلہ کرنے والوں کا زمانہ گیا‘ اب وہ لوگ حکمران ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں! نمازیں؟عبادت؟ یہ تو بندے اور خالق کا معاملہ ہے۔ مخلوق پر کون سا احسان ہے؟ جس شخص کے بارے میں فاروق اعظمؓ نے لوگوں کی رائے پوچھی تھی‘ اسی کے بارے میں بتایا گیا وہ خشوع سے نمازیں پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے۔فرمایا۔ نہیں! یہ بتائو لوگوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے؟
نمازیں تو حجاج بن یوسف بھی پڑھتا تھا سینکڑوں تابعین کو شہید کرنے والا حجاج! نمازیں تو تیمور بھی پڑھتا تھا۔ عثمانی ترکوں پر چڑھ دوڑا جو مسلمان ہی تھے۔ حکمران سے باز پرس یہ ہو گی کہ عوام سے کیا سلوک کیا۔ اخبارات دہائی دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ڈاکخانہ بن کے رہ گیا ہے۔ ایک ایک تعیناتی‘ کیا بیرونِ ملک اور کیا اندرونِ ملک‘ وزیر اعظم کے دفتر سے زبانی احکام کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔ وہی ظلم جو پہلے تھا ۔ع
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
پہلے وزرائے اعظم بھی اپنے پرنسپل سیکرٹری کو ورلڈ بنک یا ایشیائی بنک بھیجتے تھے۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ یہ خیال ذہن میں نہیں آتا کہ کل کو یہ نوازے جانے والے کام نہیں آئیں گے۔
کل ظفر قریشی کو دفتر بلا کر کہا جاتا تھا کہ چھٹی پر چلے جائو‘ یا انکوائری نہ کرو۔ آج طارق ملک کو بلا کر کہا جاتا ہے کہ مستعفی ہو جائو یا فلاں کام نہ کرو۔ کون سی تبدیلی آئی ہے؟
انسان بھی کیا عجب مخلوق ہے۔ عقل ۔ایسی عقل کہ ایک کارخانہ بنا کر اس سے درجنوں بنا لیتا ہے‘ لیکن نادانی! ایسی نادانی کہ دوسروں کے لیے غلط کام کرتا ہے۔ فائدہ دوسروں کا اور وبال اپنی گردن پر! کیا عجب وہاں یہی لوگ مخالفت میں گواہی دیں! جن کا حق مارا جا رہا ہے و ہ تو فریاد کناں ہوں گے ہی‘ جن کی خاطر میرٹ کا قتل کیا جاتا ہے‘ وہ بھی کام نہ آئیں گے‘ کام آنا تو دور کی بات ہے‘ گواہی دیں گے کہ ہاں! ہماری خاطر ظلم کیا گیا!
نہیں ! کوئی تبدیلی نہیں آئی! وہی اسلوبِ حکمرانی ہے جو تھا! وہی خویش پروری ہے‘ وہی شاہانہ طرز ہے‘ ادارے بے بس ہیں‘ فردِ واحد کے منہ سے نکلا ہوا لفظ حکم ہے!ایسا ہی عالم ہوتا ہے جب خلقِ خدا راتوں کو گڑ گڑا کر فریاد کرتی ہے۔ حضرت شیخ ابو سعید ابوالخیرؒ کے بقول ؎
وا فریادا ز عشق وا فریادا
کارم بیکی طُرفہ نگار افتادا
ہائے فریاد۔ہائے فریاد، یہ کیسا معشوق ہے جس سے عشق کو کام پڑ گیا!!