ہمارے وزیراعظم عمران خان بظاہر تو ایک جمہوری سسٹم کے وزیراعظم ہیں لیکن ہمارے وزیراعظم کے آئیڈیل ایک آمر جنرل ایوب خان ہی ہیں۔ عمران خان ہمیشہ ایوب خان کے دور کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں، شائد ایوب خان سے اتنا متاثر ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ عمران خان نے ایوب خان کے دس سالہ حکومتی جشن کی طرح اپنی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر اپنی حکومت کی نامعلوم کامیابیوں کا ڈھنڈورہ پیٹنے کے لئے مرکزی اور صوبائی دارالحکومتوں سمیت متعدد شہروں میں تقاریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ مرکزی تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس کو متعدد شہروں میں بڑی سکرینوں پر لائیو دکھانے کا اہتمام کیا گیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ خان صاحب کی تقریر سننے کے لئے ان سکرینوں کے آگے شائد ہی کوئی شخص موجود تھا۔ بہرحال خان صاحب کے لئے یہ کوئی نئی یا انوکھی بات بھی نہیں کیونکہ خان صاحب کو خالی کرسیوں سے خطاب کرنے کا 126 دن کا تجربہ ہے۔ ویسے بھی یہ ڈھٹائی کی انتہا ہی سمجھی جائے گی کہ تین سال کی ناکام ترین حکومتی کارکردگی کے باوجود خان صاحب نے ان تقاریب کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔
موجودہ حکومت کے تین سال ناکامی، نااہلی اور نالائقی کا پہلے دن سے شروع ہونے والا ایسا تسلسل ہیں جو تین سال گزرنے کے باوجود تھمنے میں ہی نہیں آ رہا۔ کوئی حکومتی شعبہ ایسا نہیں جس میں ریورس گئیر نہ لگ چکا ہو۔ حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان اپنی تقریروں میں جو بلند بانگ دعوے کرتے رہے اور قوم کو جو سہانے خواب دکھاتے رہے وہ تین سالوں میں ہی ریت کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ عمران خان کا دعوی تھا کہ ان کے پاس ہر شعبے کے ماہر ترین لوگ موجود ہیں جن کی مدد سے ہم لوگ پہلے سو دنوں میں ہی معیشت، گورننس، خارجہ، داخلہ غرض ہر شعبے کی سمت درست کردیں گے۔ سو دن گزر گئے، پہلا سال گزر گیا، دوسرا سال گزرگیا، تیسرا سال بھی گزر گیا اور حکومت اپنی مدت اقتدار کے آخری دو سالوں میں داخل ہو گئی لیکن کسی بھی شعبہ کی سمت تو کیا درست ہونی تھی لگتا ہے اس حکومت نے ریاست کو ایسی غلط سمت کی طرف بھٹکا دیا ہے کہ شائد اب اس غلط سمت سے واپس آنے میں ہی کئی برس یا دہائیاں گزر جائیں۔
عمران خان کا سب سے بڑا دعوی سٹیٹس کو توڑنے اور عوام کو انصاف اور گڈ گورننس دینے کا تھا لیکن اقتدار سنبھالتے ہی عمران خان نے ان تمام وعدوں کو پس پشت ڈال دیا۔ پروٹوکول نہ لینے کا دعوی کرنے والوں کے کتے بھی سرکاری گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کرنے لگے، پولیس کے کام میں عدم مداخلت اور ریفارمز کا دعوی کرنے والے عمران خان تین سالوں میں پنجاب میں چھ آئی جی تبدیل کر چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے آغاز میں ہی ڈی پی او پاکپتن کے جبری تبادلے اور پنجاب کے سنئیر وزیر محمودالرشید کے بیٹے کو گاڑی میں برہنہ حالت میں پکڑنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی نے آغاز میں ہی موجودہ حکومت کےارادوں اور نیت کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ خیبر پختونخواہ کے سابق آئی جی ناصر درانی مرحوم جن کو پولیس ریفارمز کا کام سونپا گیا وہ حکومتی مداخلت اور رویے کو بھانپ کر دو ماہ بعد ہی استعفی دے کر گھر چلے گئے اور اس کے بعد پھر کسی بھی حکومتی سطح پرپولیس ریفارمز کا نام تک نہ لیا گیا۔ انصاف کے نام پر آنے والی حکومت کے دور میں ہونے والا سانحہ ساہیوال جس میں ایک بےگناہ فیملی کو قانون کے محافظ اہلکاروں نے گولیوں سے بھون کر رکھ دیا ایسا المناک واقعہ ہے جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس سانحہ کے بعد بھی حکومتی سطح پر بہت بڑے بڑے دعوے کئے گئے، جان اللہ کو دینے کی بات کی گئی لیکن اس سانحہ کا نتیجہ بھی یہ نکلا کہ اس واقعے میں ملوث تمام اہلکار بری ہو کر اپنے عہدوں پر بحال ہو چکے ہیں۔
گورننس کا عالم یہ ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں موٹر وے پر ایک خاتون کی اس کے بچوں کے سامنے عزت لوٹ لی جاتی ہے، مینار پاکستان پر ایک ٹک ٹاک ویڈیو بنانے والی لڑکی کو ہجوم تین گھنٹے تک نوچتا رہتا ہے اس کے کپڑے پھاڑ دئیے جاتے ہیں، موٹرسائیکل اور رکشے پر جانے والی خواتین پر مجرمانہ حملے کئے جاتے ہیں، خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بےپناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈکیتی، رہزنی اور اغوا کے واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، وزیراعلی پنجاب کی موجودگی میں ایک صوبائی وزیر کے بھائی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا جاتا ہے۔ واقعات کا ایک تسلسل ہے جن کو بیان کرنے لگو تو کئی صفحات درکار ہوں لیکن واقعات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ عمران خان کا مگر اصرار ہے کہ وزیراعلی پنجاب کی کارکردگی کی مثال نہیں ملتی انکے جو کارنامے ہیں ان کا موازنہ ماضی کے کسی وزیراعلی سے کیا ہی نہیں جا سکتا۔
معیشت کا جائزہ لیں تو اس شعبہ میں بھی عمران خان کے مطابق ان کے پاس بہترین دماغ موجود تھے جن کے سرخیل موجودہ حکومت کے پہلے وزیرخزانہ اسد عمر چند ہی ماہ نکال سکے اور تین سالوں میں چار وزیر خزانہ بدلنے کے باوجود معیشت ہے کہ درست ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، گروتھ ریٹ کرونا شروع ہونے سے پہلے ہی تاریخ میں پہلی مرتبہ منفی میں جا چکا تھا۔ موجودہ حکومت کے تین سالوں میں لئے جانے والے بیرونی قرضے بھی پچھلی تمام حکومتوں میں لئے جانےقرضوں کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔ صنعت کا پہیہ رک چکا ہے۔سارے معاشی اعشاریے بدحالی کی نوید سنا رہے ہیں لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ ہم نے معیشت کو اٹھا دیا ہے۔ اب یہ تو عمران خان اور ان کی ٹیم ہی بتا سکتی ہے کہ انہوں نے معیشت کو اٹھا کر کہاں رکھ دیا ہے۔
موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی بھی ناکامی کا شاہکار نظر آتی ہے۔ ان تین برسوں میں ہم ساری دنیا میں تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ہمارا چین جیسا دیرینہ دوست جس کے ساتھ ہم ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی کا دعوی کرتے تھے ہم سے ناراض ہو چکا ہے۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب افغان مسئلے پر ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں ہماری درخواست کے باوجود جب ہمیں دعوت نہیں دی گئی تو چین نے ہمارے حق میں اپنا ویٹو پاور استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے علاوہ برادر اسلامی ملک بھی ہم سے زیادہ انڈیا کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ واحد سپر پاور امریکہ کا صدر جب اپنا آفس سنبھالتا ہے تو ہمارے ہینڈسم وزیراعظم کی خیر سگالی کی فون کال سننے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں امریکہ کے نکلنے کے بعد اتنی بڑی تبدیلی آ چکی ہے جس سے ہمارا ملک متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور سارے متعلقہ ملک سفارتکاری میں مصروف ہیں جبکہ ہمارا وزیراعظم اپنے درجن بھر ترجمانوں اور سوشل میڈیا کے بھونپووں کے ساتھ ملاقات میں مصروف ہوتا ہے اور ان کو ہدایات جاری کرتا ہے کہ کیسے اپوزیشن کے خلاف پروپیگنڈہ کو تیز تر کیا جائے۔ دوسری طرف جب طالبان کابل پر قبضہ کررہے تھے ہمارا وزیرخارجہ ملتان میں بیٹھ کر نذر نیاز اکٹھی کرنے میں مصروف تھا۔ خارجہ پالیسی کی تمام تر ناکامی کے باوجود دعوی لیکن یہ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان اب صرف پاکستان کے نہیں بلکہ عالمی رہنما بن چکے ہیں۔
موجودہ حکومت کا ایک اور دعوی احتساب کرنا اور کرپشن کا خاتمہ تھا۔ احتساب کے نام پر اپوزیشن کے رہنماوں کے خلاف یکطرفہ کاروائیاں اور نیب گردی تو ضرور کی گئی لیکن نہ تو کسی کیس کو ثابت کیا جا سکا نہ سزا دلوائی جا سکی۔ دوسری طرف کوئی دن نہیں گزرتا کہ جب اس صاف شفاف، صادق اور امین حکومت کے خلاف کوئی نیا کرپشن سکینڈل سامنے نہ آئے۔ چینی، آٹا، پٹرولیم، ادویات، پنڈی رنگ روڈ، بی آر ٹی پشاور، مالم جبہ، بلین ٹری اور فارن فنڈنگ جیسے بے شمار میگا کرپشن سکیبڈلز ہیں جن میں حکومتی عہدیدار اور وزرا لتھڑے نظر آتے ہیں لیکن نیب کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی اور یہ سارے کرپشن سکینڈلز کسی بھی قسم کی کاروائی کے لئے ہواؤں کا رخ بدلنے کا انتظار کررہے ہیں۔
زراعت کی بات کریں تو پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے جبکہ گندم کی پیداوار میں پاکستان دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر آتا ہےاس کے باوجود اگر ہمیں گندم باہر سے منگوانا پڑے تو یہ اربابِ اختیار و اقتدار کے لئے یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ پچھلے سال گندم کی پیداوار اور ذخیرے کا درست تخمینہ ہی نہ لگایا جا سکا جس کی وجہ سے ملک میں گندم کا بحران پیدا ہوا۔ سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے صوبہ پنجاب میں گندم کی پیداوار اور خریداری کا ہدف پورا نہ ہو سکا۔حکومت نے کسانوں سے زبردستی چودہ سو روپے فی من پر گندم خریدی جو بعد میں پچیس سو سے ستائس سو روپے فی من تک منڈیوں میں فروخت ہوتی رہی۔ حکومتی سطح پر لاعلمی اورنااہلی کا یہ عالم ہے کہ بجائے گندم درآمد کرنے کی نوبت آنے پر شرمندگی کا اظہار کیا جاتا، وزیر بحری امور اس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا رہا کہ ہم نے گندم درآمد کر لی ہے اور گندم لے کر آنے والے جہاز برتھوں پر لگ گئے ہیں اس لئے ملک میں جلد ہی گندم کی قلت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ زرعی اجناس کی مناسب قیمت خرید مقرر نہ کئے جانے جبکہ پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ کے باعث کسان معاشی بدحالی کا شکار ہو چکا ہے لیکن حکومت کسان کارڈ جیسے کاغذی منصوبوں سے آگے بڑھ کر زراعت اورکسان کی خوشحالی کے کسی ٹھوس منصوبے پر کام کرنے کو تیار نظر نہیں آتی۔
تین سال کے عرصے کے دوران جہاں موجودہ حکومت نے ہر شعبے میں اپنی نااہلی اور نالائقی ثابت کی ہے وہاں پروپیگنڈہ اور جھوٹ بولنے میں اس حکومت نے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ پروپیگنڈہ کے لئے درجنوں ترجمان اور سوشل میڈیا ایکسپرٹس بھرتی کئے گئے ہیں جن کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ عمران خان کی اور کسی معاملے میں دلچسپی ہو نہ ہو لیکن بطور وزیراعظم اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر باقاعدگی سے اپنی پروپیگنڈہ ایکسپرٹ سوشل میڈیا ٹیم سے ہر ہفتے باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں اور انکو براہ راست ہدایات جاری کرتے ہیں۔ جو بھی وزیر، ترجمان یا سوشل میڈیا ٹیم ممبر اپوزیشن کے خلاف جتنی زیادہ غلیظ زبان استعمال کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے اُسے دربار سرکار میں اتنی ہی زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔
لگتا ہے کہ عمران خان کو ان کے نورتنوں نے یقین دلا دیا ہے کہ وہ پروپیگنڈے کے زور پر عوام کی توجہ اپنی حکومت کی ناقص کارکردگی سے ہٹا سکتے ہیں لیکن یہ موجودہ حکومت اور عمران خان کی بہت بڑی بھول اور خام خیالی ہے کیونکہ یہ بڑی مستند بات ہےکہ جھوٹ اور پروپیگنڈے سے آپ تھوڑے عرصے کے لئے تو تمام لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں یا زیادہ عرصے کے لئے کچھ لوگوں کو بیوقوف بھی بنا سکتے ہیں لیکن یہ بات کنفرم ہے کہ آپ زیادہ عرصے کے لئے سب لوگوں کو بیوقوف نہیں بنا سکتے اس لئے خان صاحب آپ جتنا مرضی پروپیگنڈہ کر لیں لیکن جب بھی نیوٹرل امپائر الیکشن کروائے گا آپ کو اپنی کارکردگی کا پتہ چل جائے گا اورآپ اور آپ کی پارٹی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن کر رہ جائیں گے۔