افتخارحیدر
ترجمہ: ناصر فاروق
مغرب میں یہ یقین عام ہے کہ اسلام عورتوں کومحکوم بناکر رکھتا ہے، اور یہودی عیسائی مغرب میں جوحقوق عورت کو حاصل ہیں، اسلامی قوانین سے قطعی مطابقت نہیں رکھتے۔ مغرب میں بہت سے مبصرین ’اسلام میں خواتین کا مقام‘ دیگر سارے مذاہب کے مقابلہ میں سب سے کم تربیان کرتے ہیں، اور یہودیت عیسائیت کی نسبت بھی اسے کم درجہ کاظاہر کرتے ہیں۔ مغرب میں سچ سے بعید کوئی اور یقین شاید ہی اتنا عام ہو۔
اس یقین کی جڑیں اس حقیقت میں پنہاں ہیں کہ آج بہت سے مسلم اکثریتی ممالک معاشرتی ترقی کے بہت سے مظاہر میں، بشمول خواتین کے معاشرتی مقام، مغرب سے پیچھے ہیں۔ حالانکہ، اسلامی دنیا نے تقریبا سارے معاشرتی مظاہر میں، بشمول عورت کے مقام، صدیوں مغرب کی رہنمائی کی ہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں اسلام نے اعلان کردیا تھا کہ سارے مرد اور خواتین برابر پیدا کیے گئے ہیں۔ جبکہ مغرب کی بیشتر تاریخ جاگیردارانہ معاشرت سے عبارت ہے، جس میں مرد اور عورت کی برابری تودور کی بات، سفید فام مردوں میں برابری تک ایک اجنبی خیال تھا۔ سن 1789میں پہلی بار فرانسیسی حکومت نے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا، کہ جس میں محض یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ”تمام مرد پیدائشی طورپر برابرہیں، اوریکساں حقوق رکھتے ہیں“۔ اس اعلامیہ سے عورت کوباہر رکھا گیا۔ اس کا ردعمل فوراسامنے آیا، خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم Marie-Olympe de Gougesنے اعلامیہ جاری کیا، جوکچھ یوں شروع ہوتا ہے”عورت آزاد پیدا ہوئی ہے اور حقوق میں مرد کے برابر ہے۔“ دو سال بعد اس خاتون کوسزائے موت دے دی گئی۔ یہ یکساں حقوق کے لیے سرگرم دیگر خواتین کے لیے واضح انتباہ تھا۔
یورپ کی بیشتر تاریخ میں ’والد‘ ہی بچوں کا واحد قانونی سرپرست کہلایا، یہاں تک کہ شوہر کی موت کے بعد بھی ایک ماں اپنے ہی بچوں کی سرپرست یا نگہبان نہیں بن سکتی تھی۔جبکہ اسلام ماؤں کو باپوں سے زیادہ بلند مرتبہ ومقام عطا کرتا ہے۔ سن 1893 میں، Congress of Women in Washington, DC میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم میری گرین نے ازراہ لطف و انکسار کہا تھاکہ”انگلینڈ میں ایک والد اپنی وصیت میں ایک نگران مقرر کرسکتا ہے کہ جوماں کے ساتھ مل کربچوں کی سرپرستی کرسکے۔ یورپی اور انگریزکی ایشیائی اور افریقی نوآبادیاں دھیر ے دھیرے ان قوانین سے استفادہ کررہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انسانی تہذیب اور عیسائیت ترقی کررہی ہیں۔“
اسلام نے مرد کو عورت کا قوام مقرر کیا ہے، وہ عورت کی مالی ضروریات کا ذمہ دار ہے قطع نظر اس سے کہ عورت کی مالی حالت کیا ہے۔ مزید یہ کہ اسلام عورت کواس بات کا پابندبھی نہیں بناتا کہ وہ اپنی آمدنی یا دولت شوہر اور بچوں پرخرچ کرے۔ جبکہ مرد اس بات کا پابند ہے کہ اپنے مال میں سے عورت کومہر ادا کرے۔ قرآن حکیم یہ بھی کہتا ہے کہ شوہر طلاق کی صورت میں مہر یکطرفہ طورپر واپس نہیں لے سکتا۔ قرآن اس بات پر بھی زوردیتا ہے کہ مرد مطلقہ عورت کو مہر کے علاوہ دیگر اشیاء اور تحفوں میں بھی حصہ اداکرے۔
اس کے علاوہ، قرآن کریم نے واضح طورپر وراثت میں بیوی، بیٹی، بہن، اور ماں کا حصہ مقرر فرمایا ہے۔یہاں تک کہ سوتیلی بہنوں کی میراث بھی مقرر ہے۔ جبکہ مغرب کی بیشتر تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ عورت شادی کے بعد اپنا قانونی مقام کھوبیٹتی ہے۔ وہ ’خاوند والی‘ feme covertقرار دے کرایک ہی قانونی فرد coverture(زوجیت) بنادی جاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں سے مغربی معاشرت میں بیوی شوہر کا نام اختیار کرلیتی ہے۔ ایک شادی شدہ عورت کو اپنی ساری جائیداد سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ شوہراپنی بیوی کی ساری دولت سے لطف اندوز ہوتا ہے، خواہ بیوی کی مرضی شامل ہو نہ ہو، چاہے وہ اُس کے علم میں لائے بغیر اس کی دولت جائیداد میں کتنا ہی تصرف کرے، کوئی باز پرس نہیں۔ یہاں تک کہ ایک بیوہ شوہرکی موت کے بعد اپنی ہی جائیداد کی واپسی کے لیے دعوٰی بھی نہیں کرسکتی۔ میری گرین نے اپنی1893کی تقریر میں یہ تسلیم کیا کہ بیلجئن اور فرانسیسی قوانین میں بیوہ ”اپنے شوہر کی جائیداد میں سے صرف اُس وقت کچھ حاصل کرسکتی ہے، کہ جب بارہویں درجے تک سارے ورثاء کووراثت کی منتقلی میں ناکامی کا سامنا ہو“۔ یہ 1882میں پہلی بار ہوا، کہ انگلینڈ نے شادی شدہ عورت کے لیے جائیداد کی ملکیت کا قانون منظور کیا۔
بیسویں صدی کے نصف تک، اعلٰی ترین مغربی جامعات میں خواتین کا داخلہ ہی بند تھا۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ قبل، الٹرا آرتھوڈکس یہودیوں میں خواتین کے لیے تورات اور دیگرالٰہیاتی متون کا مطالعہ تک ممنوع تھا۔ جبکہ قرآن مرد اور عورت دونوں کوعلم کے حصول کی ترغیب دیتا ہے۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ”القراوین“کی بنیاد مراکش کی مسلمان خاتون فاطمہ الفہری نے نویں صدی عیسوی میں رکھی تھی۔ اس جامعہ میں مسلمان خواتین سمیت دیگر عقائد کے طُلباء کوبھی داخلہ دیا گیا۔ اس جامع سے فارغ التحصیل طلبہ میں پوپ سلویسٹر دوم(946-1003 AD) کا نام بھی لیا جاتا ہے۔
بہت سے مغربی مبصرین یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اسلام میں ایک مرد کے مقابلہ میں دوعورتوں کی گواہی تسلیم کی جاتی ہے۔ مگر وہ اس بات کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں کہ مغرب کی بیشتر تاریخ میں عورت کسی بھی قانونی معاملہ میں گواہ تسلیم ہی نہیں کی گئی، نہ وہ عدالت میں کسی دستاویز کی توثیق وتصدیق کرسکتی تھی اور نہ ہی قانون دان بن سکتی تھی۔ یہاں تک کہ شادی شدہ عورت نہ کسی کے خلاف مقدمہ کرسکتی تھی اور نہ ہی اُس پرہی کوئی دعوٰی کیا جاسکتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک آرتھوڈکس یہودیت میں خواتین کو گواہی یا تصدیق کے لیے اہل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ سن 2001میں پہلی بارکمیٹی آن جوئش لا اینڈ اسٹینڈرڈ، جوقدامت پرست یہودیت کی ترجمان ہے، نے باقاعدہ طورپرتسلیم کیا کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح بطور گواہ قبول کی جاسکتی ہیں۔
اسلام کے کسی بھی نقاد پرواضح ہونا چاہیے کہ مسلمان اکثریتی ملکوں میں خواتین کا استحصال اسلامی قوانین کے سبب نہیں۔ یہ عموما اُن سیاستدانوں کی کارستانی کا نتیجہ ہے، جودین کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔