نوویلا اپنا واقعہ بتاتے ہیں کہ ان کے ٹی وی پروگرام کے بارے میں کسی نے شکایت کی کہ آپ اپنے پروگرام کے فلاں سیگمنٹ میں صرف خواتین کے بارے میں ہی کیوں بات کرتے ہیں؟ بہت کم کسی مرد کے بارے میں بات ہوتی ہے۔ نوویلا نے اپنے پچھلے سو پروگراموں کا تجزیہ کیا۔ اس میں 15 فیصد میں کسی خاتون کے بارے میں۔ 45 فیصد میں کسی مرد کے بارے میں۔ جبکہ باقی چالیس فیصد میں کسی خاص فرد پر بات نہیں تھی۔
آخر ایسا کیوں تھا کہ فیڈبیک دینے والے کا خیال حقیقت سے اتنا فرق تھا؟ اور ایسی چیز کے بارے میں جس کو آسانی سے گنا جا سکتا تھا۔ اس کا جواب کنفرمیشن بائیس ہے۔
ہمارے ذہنی تعصبات میں سے سب سے طاقتور تعصب کنفرمیشن بائیس ہے اور اسے ہم تعصبات کی دنیا کا بادشاہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ ان چیزوں کو نوٹ کرنا، قبول کرنا اور یاد رکھنا جو میرے ذہن کے کسی یقین سے ہم آہنگ ہوں۔ اور اس کے مخالف انفارمیشن کو نظرانداز کرنا، جواز سے بہلا لینا یا بھول جانا۔ یہ عمل ذہن کے بیک گراوٗنڈ میں جاری رہتا ہے اور ہمیں طاقتور سراب فراہم کرتا رہتا ہے کہ حقائق ہمارے یقین کے مطابق ہیں۔
دنیا سے ملنے والی انفارمیشن کی تُک بنانے کے لئے ہم کوئی خاص ورلڈ ویو (world view) بناتے ہیں۔ ایک فریم ورک، ایک کہانی، ایک پیراڈائم۔ اور ملنے والی انفارمیشن کو اس کے مطابق ایڈجسٹ کرتے رہتے ہیں۔ انفارمیشن کو اس طریقے سے تنظیم دینا مفید ہے اور ضروری بھی۔ لیکن یہ عمل خود میں ایک نئی زندگی لے لیتا ہے۔ وہ کہانیاں جو ہم دنیا کو سمجھنے کے لئے بناتے ہیں، وہ صرف انفارمیشن کو تنظیم ہی نہیں دیتیں، اس کو چھانتی اور بدلتی بھی ہیں تا کہ کہانی تبدیل نہ ہو۔
اس کو غلط معنوں میں نہ لیں۔ ایسا نہیں کہ ہم خواہش رکھتے ہیں کہ حقائق بدل دیں یا ماضی کو اپنی مرضی سے لکھ دیں۔ کنفرمیشن بائیس اس سے زیادہ باریک اور نفیس ہے۔ جذباتی استدلال ایک شعوری پراسس ہے جس کا مقصد ہماری کہانی کی حفاظت ہے۔ کنفرمیشن بائیس غیرشعوری ہے۔ یہ ہمارے اندر کام کر رہا ہے اور ہمیں اس سے ہمیشہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
مثلاً، آپ کے ذہن میں ایک کہانی ہے کہ نیلی آنکھوں والے بدتمیز لوگ ہوتے ہیں۔ جب بھی کسی نے بدتمیزی کی، آپ نے آنکھ کا رنگ دیکھا۔ اگر آنکھ نیلی نکلی تو اس کہانی کو تقویت ملی۔ اپنی کہانی کے حق میں شواہد میں اضافہ ہو گیا۔ اگر آنکھ کسی اور رنگ کی تھی تو اس کو بھول گئے۔ ہم لوگ متعصب اسی طرح بنتے ہیں اور یہ تعصب قائم رہتے ہیں۔
ڈیٹا کو بھلا دینے کے علاوہ بھی غیرشعوری طریقے ہیں۔ “بھوری آنکھ والا بدتمیز تو تھا لیکن اتنا نہیں جتنا نیلی آنکھ والا”، “سیاہ آنکھ والے سے بات کرتے وقت میرا قصور بھی تھا، بات ایسے نہیں کرنی چاہیے تھی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں انفارمیشن ہی انفارمیشن ہے۔ واقعات ہوتے ہیں، لوگ ملتے ہیں، ڈیٹا ہی ڈیٹا بکھرا ہوا ہے۔ ہمارا دماغ اس میں سے بامعنی پیٹرن تلاش کرنے کا ماہر ہے۔ اور یہ کرتے وقت کنفرمیشن بائیس دوسرے تعصبات کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی تعصب کے ساتھ ایک اور تعصب جڑا ہوا ہے جو خواہش کا بائیس ہے۔ اس پر 2016 میں بین ٹاپن نے دلچسپ سٹڈی کی۔ امریکی صدارتی انتخاب سے کچھ پہلے لوگوں سے دو سوال پوچھے۔ ایک یہ کہ ان کے خیال میں کونسا امیدوار جیتے گا اور دوسرا یہ کہ وہ خود کونسے امیدوار کے جیتنے کے خواہشمند ہیں۔ اس کے بعد انہیں رائے عامہ کا نیا سروے دکھایا گیا جو کسی ایک امیدوار کے حق میں تھا۔ اگر یہ اس امیدوار کے حق میں تھا جس کے وہ جیتنے کے خواہشمند تھے تو انہوں نے فوری قبول کر لیا۔ اپنی خواہش کی کنفرمیشن اپنے یقین کی کنفرمیشن سے زیادہ طاقتور ہے۔
یہ سٹڈی انسانی سوچ کی پیچیدگی کا بتاتی ہے۔ “یقین” بھی کوئی ایک چیز نہیں۔ ایسے یقین جن کے ساتھ جذبات نہ ہوں، ان پر ردِعمل ان یقینوں سے مختلف طریقے سے ہوتا ہے جن کے ساتھ جذبات وابستہ ہیں۔ جن لوگوں کا یقین تھا کہ ان کا پسندیدہ امیدوار ہار جائے گا، ان کو اس یقین سے جذباتی وابستگی نہیں تھی۔ بلکہ وہ اس کو بدلنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور نئے ڈیٹا نے یہ ممکن کر دیا تھا۔ خواہش کا تعصب رائے کے تعصب سے آسانی سے جیت گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ ہم لوگ رائے تبدیل نہیں کر سکتے لیکن اس کے لئے اتنے شواہد درکار ہیں جو جذبات کا پہاڑ عبور کر سکیں۔ اور اس میں بھی کچھ لوگ واپسی کے لئے جواز کی تلاش میں رہتے ہیں۔
مثال: ایسے لوگ جو گلوبل وارمنگ سے انکار کرتے ہیں، انہیں مضبوط شواہد دکھائے جائیں تو کچھ لوگ پھر انکار کرتے رہیں گے لیکن کچھ پوزیشن تبدیل کر کے اس پر چلے جائیں گے کہ ہاں، درجہ حرارت میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ انسانی سرگرمیوں کا اس میں ہاتھ ہے یا نہیں۔ اگلا سٹاپ: اگر انسانوں کا اس میں ہاتھ ہے تو ہمیں معلوم نہیں کہ نتائج برے ہوں گے یا نہیں۔ اس سے اگلا سٹاپ: ٹھیک ہے، نتائج برے ہوں گے لیکن ہم اس بارے میں کچھ کر نہیں سکتے۔
اگر خواہش کا تعصب اس پوزیشن کے بارے میں مضبوط ہے تو اپنی خواہش کے حق میں کسی بھی ہلکی سے ہلکی چیز پر اپنی اصل پوزیشن پر واپس چلے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم کسی بھی دعوے کو پرکھتے ہیں تو اس کا ٹھیک طریقہ ایسا تجربہ کرنا ہے جو اس کو غلط ثابت کرے۔ مثال: میں اگر کہتا ہوں کہ کلاسیکی موسیقی سننے والے پودے صحت مند رہتے ہیں اور اس کے لئے تجربہ کرتا ہوں کہ پودوں کے پاس کلاسیکی موسیقی چلتی رہے۔ اب اگر یہ پودے اچھے بڑھتے ہیں تو کیا میرا دعوی درست ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ تجربہ ٹھیک نہیں۔ ہمیں ایسے پودے بھی درکار ہیں جن کے پاس کلاسیکی موسیقی نہ بج رہی ہو۔ اس کو کنٹرول گروپ کہا جاتا ہے اور سائنسی سوچ کا یہ طریقہ ہمیں بدیہی طور پر نہیں سوجھتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی کا ایک اور رخ۔ فرض کیجئے میرا خیال ہے کہ میں کسی کے بال دیکھتے ہی پہچان لیتا ہوں کہ اس نے وِگ لگائی ہوئی ہے۔ اس یقین کی کنفرمیشن مجھے اس وقت ملے گی جب کسی نے وگ لگائی اور میں نے نوٹ کر لیا۔ اور یہی مسئلہ ہے۔
مجھے اس سے آگاہی نہیں ہو گی جب کسی نے وگ لگائی اور میں نے نہیں پہچانا۔ اور جن کی وگ میں نے پہچانی بھی ہے، ان کا اصل ٹیسٹ اس وقت ہو گا جب میں ان سے پوچھوں یا بال کھینچوں۔ جب تک یہ ٹیسٹ نہیں ہو جاتے، مجھے خود بھی معلوم نہیں کہ میں اس میں کتنا اچھا ہوں۔
آپ کے ایسے کونسے دعوے ہیں؟ کیا کہا؟ آپ پہچان لیتے ہیں کہ کون جھوٹ بول رہا ہے؟ کسی کے لباس سے شخصیت پہچان لیتے ہیں؟ نہیں، آپ کو نہیں پتا کہ آپ یہ پہچان کرنے کے قابل ہیں۔ یہ صرف آپ کا گمان ہے۔
کنفرمیشن بائیس کی طاقت یہ ہے کہ یہ ہر وقت پس منظر میں مسلسل کام کرتا رہتا ہے۔ اس نے بہت سے ڈیٹا کو چھاننا ہے۔ اور آپ کو گہرا سراب دکھانا ہے کہ شواہد آپ کے خیالات کے حق میں ہیں۔ اس دنیا کو دیکھنے کے لئے یہ آپ کو رنگدار شیشے دیتا ہے۔ ایسے یقین کو ہلانا بہت ہی مشکل ہے جس کی سپورٹ میں کنفرمیشن بائیس کا پہاڑ ہو۔ اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کسی ایسی چیز کے بارے میں غلطی کا شکار رہے ہیں جس کے بارے میں آپ کو شک نہیں کہ آپ ٹھیک ہیں۔ اور ایسا کرنا کریٹیکل سوچ کی طرف ضروری قدم ہے۔
اپنی عاجزی کا ادراک اس کے لئے لازم ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...