انسان کی بدترین خصلتوں میں سے تعصب بھی ایک بدترین خصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل و انصاف کی خصلت جو عمدہ ترین خصائلِ انسان سے ہے اس میں نہیں ہے۔ متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا کیونکہ اس کا تعصب اس کے برخلاف بات کے سننے اور سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے بلکہ سچی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا کیونکہ اس کے مخالفوں کو اپنی غلطی پر متنبہ ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ تعصب انسان کو ہزار طرح کی نیکیوں کے حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے مگر صرف تعصب سے اس کو اختیار نہیں کرتا اور دیدہ و دانستہ برائی میں گرفتار اور بھلائی سے بیزار رہتا ہے۔
مذہبی تعصبات کی نسبت بھی ہم کچھ تھوڑا سا بیان کریں گے مگر اول امورِ تمدن و معاشرت میں جو نقصان تعصب سے پیدا ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتے ہیں۔
انسان قواعدِ قدرت کے مطابق مدنی الطبع پیدا ہوا ہے۔ وہ تنہا اپنی حوائجِ ضروری کو مہیا نہیں کر سکتا۔ اس کو ہمیشہ مددگاروں اور معاونوں کی، جو دوستی اور محبت سے ہاتھ آتے ہیں، ضرورت ہوتی ہے مگر متعصب بسبب اپنے تعصب کے تمام لوگوں سے منحرف اور بیزار رہتا ہے اور کسی کی دوستی اور محبت کی طرف بجز ان چند لوگوں کے جو اس کے ہم رائے ہیں مائل نہیں ہوتا۔
عقل اور قواعدِ قدرت کا مقتضیٰ یہ معلوم ہوتا ہے کہ امورِ متعلقِ تمدن و معاشرت میں جو باتیں زیادہ آرام اور زیادہ لیاقت اور زیادہ عزت کی ہیں ان کو انسان اختیار کرے مگر متعصب اُن سب نعمتوں سے محروم رہتا ہے۔ ہنر اور فن اور علم ایسی عمدہ چیزیں ہیں کہ ان میں ہر ایک چیز کو نہایت اعلیٰ درجے تک حاصل کرنا چاہیے مگر متعصب اپنی بدخصلت سے ہر ایک ہنر اور فن اور علم کے اعلیٰ درجے تک پہنچنے سے محروم رہتا ہے۔
وہ ان تمام دلچسپ اور مفید باتوں سے جو نئی تحقیقات سے اور نئے علوم و فنون سے حاصل ہوتی ہیں محض جاہل اور ناواقف رہتا ہے۔ اس کی عقل اور اس کے دماغ کی قوت محض بیکار ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس میں سمائی ہوتی ہے اس کے سوا کسی بات کے سمجھنے کی اس میں طاقت اور قوت نہیں رہتی۔ وہ ایک ایسے جانور کی مانند ہو جاتا ہے کہ اس کو جو کچھ بالطبع آتا ہے اس کے سوا اور کسی چیز کی تعلیم و تربیت کے قابل نہیں ہوتا۔
بہت سی قومیں ہیں جو اپنے تعصب کے باعث سے تمام باتوں میں، کیا اخلاق میں اور کیا علم و ہنر میں اور کیا فضل و دانش میں اور کیا تہذیب و شائستگی میں اور کیا جاہ و حشمت اور مال و دولت میں، اعلیٰ درجے سے نہایت پست درجہ مذلت اور خواری کو پہنچ گئی ہیں۔ اور بہت سی قومیں ہیں جنہوں نے اپنی بے تعصبی سے ہر جگہ اور ہر قوم سے اچھی اچھی باتیں اخذ کیں اور ادنیٰ درجے سے ترقی کر کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے تک پہنچ گئیں۔ مجھ کو اپنے ملک کے بھائیوں پر اس بات کی بدگمانی ہے کہ وہ بھی تعصب کی خصلت میں گرفتار ہیں اور اس سبب سے ہزاروں قسم کی بھلائیوں کے حاصل کرنے سے اور دنیا میں اپنے تئیں ایک معزز قوم دکھانے سے محروم اور ذلت اور خواری اور بے عملی اور بے ہنری کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور اسی لیے میری خواہش ہے کہ وہ اس بدخصلت سے نکلیں اور علم و فضل اور ہنر و کمال کے اعلیٰ درجے کی عزت تک پہنچیں۔ ہم مسلمانوں میں ایک غلطی یہ بڑی ہے کہ بعض دفعہ ایک غلط نمائی کے جذبے سے تعصب کو اچھا سمجھتے ہیں اور جو شخص اپنے مذہب میں بڑا متعصب ہو، تمام شخصوں کو جو اس مذہب کے نہیں ہیں نہایت حقارت سے دیکھے اور برا سمجھے، اس شخص کو نہایت قابل تعریف اور توصیف کے بڑا پختہ اور پکا اپنے مذہب میں سمجھتے ہیں مگر ایسا سمجھنا سب سے بڑی غلطی ہے جس نے حقیقت میں مسلمانوں کو برباد کر دیا ہے۔ ہمارا مذہب اور مذہبی علوم دنیا اور دنیاوی علوم بالکل علیحدہ چیزیں ہیں، پس بڑی نادانی ہے جو دنیاوی علوم و فنون کے سیکھنے میں کسی قسم کے تعصبِ مذہبی کو کام میں لاویں۔
اگر یہ خیال ہو کہ دنیاوی علوم کو سیکھنے سے ہمارے عقائدِ مذہبی میں سستی آتی ہے کیونکہ مذہبی مسائل اُن دنیاوی علوم کے پڑھنے سے مشتبہ یا غلط معلوم ہوتے ہیں تو نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان اپنے ایسے روشن اور مستحکم سچے مذہب کو ایسا کمزور اور ضعیف سمجھتے ہیں کہ دنیاوی علوم کی ترقی سے اس کی برہمی کا خیال کرتے ہیں۔ ہمارا مذہب ہے کہ جس قدر دینی اور دنیوی علوم کی ترقی ہوتی جاوے گی اُسی قدر اس کی سچائی زیادہ تر ثابت ہو گی۔ اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ اپنے مذہب میں پختہ ہونا جدا بات ہے اور یہ ایک نہایت عمدہ صفت ہے جو کسی اہلِ مذہب کے لیے ہو سکتی ہے اور تعصب، گو کہ وہ مذہبی باتوں میں کیوں نہ ہو، نہایت برا اور خود مذہب کو نقصان پہنچانے والا ہے۔
غیر متعصب مگر اپنے مذہب میں پختہ ہمیشہ سچا دانا دوست اپنے مذہب کا ہوتا ہے، اس کی خوبیوں اور نیکیوں کو پھیلاتا ہے، اس کے اصول کو دلائل و براہین سے ثابت کرتا ہے، مخالفوں اور معترضوں اور برا کہنے والوں کی باتوں کو ٹھنڈے دل سے سنتا ہے اور خود بھی اس کے دفیعے پر مستعد ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی اس کے دفیعے کا موقع دیتا ہے۔ برخلاف اس کے متعصب نادان دوست اپنے مذہب کا ہوتا ہے۔ وہ سراسر اپنی نادانی سے اپنے مذہب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پہلی بسم اللہ ایسی بدخصلت اختیار کرنے سے، جو ہر عقلمند کے نزدیک نفرت کے قابل ہے، اپنے مذہب کے حسنِ اخلاق اور اس کے نتیجوں کی خوبی پر داغ لگاتا ہے، اپنے مذہب کی خوبیوں کے پھیلنے اور لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنے کے بدلے الٹا اس کا ہارجِ قوی ہوتا ہے، اپنے تعصب کے سبب بداخلاق، مغرور اور متقشف اور سخت دل ہو جاتا ہے۔
مذہب میں متعصب شخص دوسروں کے اعتراضوں کو، جو اس کے مذہب پر نہیں، سنا یا مشہور ہونا پسند نہیں کرتا اور اس سبب سے ضمناً وہ اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ مخالفوں کے اعتراض بلا تحقیقات کیے اور بلا جواب دیے باقی رہ جاویں۔ وہ اپنی نادانی سے تمام دنیا پر گویا یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ اس کے مذہب کو مخالفوں کے اعتراضوں سے نہایت اندیشہ اور اس کے برہم ہو جانے کا خوف ہے۔ پس یہ تمام باتیں مذہب کی درستی کی نہیں ہیں بلکہ مخالفوں کی فتح یابی اور میدان جیت لینے کی ہیں۔
غرض کہ تعصب خواہ دینی باتوں میں ہو یا دنیاوی باتوں میں نہایت برا اور بہت سی خرابیوں کا پیدا کرنے والا ہے۔
مغرور و متکبر ہو جانا اور اپنے ہم جنسوں کو سوائے چند کے نہایت حقیر و ذلیل سمجھنا متعصب کا خاصہ ہوتا ہے۔
اس کے اصول کا مقتضیٰ یہ ہوتا ہے کہ تمام دنیا کے لوگوں سے سوائے چند کے کنارہ گزیں ہو مگر ایسا کر نہیں سکتا اور بہ مجبوری ہر ایک سے ملتا ہے، اوپری دل سے ان کا ادب اور اپنی جھوٹی نیازمندی بھی ظاہر کرتا ہے اور ایسا کرنے سے ایک اور بدخصلت نفاق، کذب اور دغابازی، فریب و مکاری کی اپنے میں پیدا کرتا ہے۔
دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے خود ہی تمام کمالات اور تمام خوبیاں اور خوشیاں حاصل کی ہوں بلکہ ہمیشہ ایک قوم نے دوسری قوم سے فائدہ اٹھایا ہے مگر متعصب شخص ان نعمتوں سے بدنصیب رہتا ہے۔ علم میں اس کو ترقی نہیں ہوتی، ہنر و فن میں اس کو دستگاہ نہیں ہوتی، دنیا کے حالات سے وہ ناواقف رہتا ہے، عجائباتِ قدرت کے دیکھنے سے محروم رہتا ہے، حصولِ معاش اور دنیاوی عزت اور متمول مثلِ تجارت وغیرہ کے وسیلے جاتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ تمام دنیا کے انسانوں میں روز بروز ذلیل اور خوار اور حقیر و ناچیز ہو جاتا ہے۔
اس کی مثال ایک ایسے جانور کی ہوتی ہے جو اپنے ریوڑ میں ملا رہتا ہے اور نہیں جانتا کہ اس کے اور ہم جنس کیا کر رہے ہیں، بلبل کیا چہچہاتی ہے اور قمری کیا غل مچاتی ہے، بیا کیا بن رہی ہے اور مکھی کیا چن رہی ہے۔ وہ بجز کوڑے کی گھاس چرنے کے اور کچھ نہیں جانتا کہ باغ کیوں بنا ہے اور پھول کیوں کھلا ہے، نرگس کیا دیکھتی ہے اور انگور کی تاک کیا تاکتی ہے۔ تعصب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک وہ نہیں جاتا کوئی ہنر و کمال اس میں نہیں آتا۔ تربیت و شائستگی، تہذیب و انسانیت کا مطلق نشان نہیں پایا جاتا اور جب کہ وہ مذہبی غلط نمائی کے پردے میں ظہور کرتا ہے تو اور بھی سمِ قاتل ہو جاتا ہے کیونکہ مذہب سے اور تعصب سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ انسان کے خراب و برباد کرنے کے لیے شیطان کا سب سے بڑا داؤں تعصب کو مذہبی رنگت سے دل میں ڈالنا اور اس تاریکی کے فرشتے کو روشنی کا فرشتہ دکھانا ہے۔
اس لیے میری التجا اپنے بھائیوں سے یہ ہے کہ ہمارا خدا نہایت مہربان اور بڑا منصف ہے اور سچائی پسند کرنے والا ہے۔ وہ ہمارے دلوں کے بھید جانتا ہے اور ہماری نیتوں کو پہچانتا ہے۔ پس ہم کو اپنے مذہب میں نہایت سچائی سے پختہ رہنا مگر تعصب کو، جو ایک بری خصلت ہے، چھوڑنا چاہیے۔ تمام بنی نوعِ انسان ہمارے بھائی ہیں، ہم کو سب سے محبت اور سچا معاملہ رکھنا اور سب سے سچی دوستی اور سب کی سچی خیر خواہی کرنا ہمارا قدرتی فرض ہے، پس اس کی ہم کو پیروی چاہیے۔
(سرسید احمد خان)