’چاردناں دی دنیا‘ میں کچھ کھا پی موج اڑا اور کچھ عسرت اور کسمپرسی دیکھ یعقوب عاطف کا پانی کا بلبلہ بھی پھوٹ گیا اور وہ بھی کچھ ایسے کہ ہمیں اس کے چلے جانے کی خبر بھی نہ ہوئی۔
کیا کریں وطنِ عزیز کے جاری سیاسی وعسکری ہنگام میں دھیان کسی اور طرف جائے بھی تو کیسے
کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے
اور صاحبو اگر یہ ہنگام نہ بھی ہوتا تو پنجابی زبان کے اول اول کے ریپر کو رخصت ہونے کے دنوں میں کسی نے یاد نہ کیا تو گزرجانےپر کون کرتا۔
خیر ہمارے فنکاروں کی مالی غیرمنصوبہ بندی اور ہمارے خطے میں آرٹ اور آرٹسٹ کی ناقدری کی یہ ایک الگ بحث ہے جو فی الوقت موضوعِ سخن نہیں۔
اس سے پہلے کہ آگے چلیں پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنی گستاخی پر معذرت کرلیں۔
ملک میں جاری ہنگام کا ذکر کرتےہوئے قلم اور جذبات کی روانی میں ہم سیاسی اور عسکری ترکیبیں اکٹھا ایک ہی سانس میں لکھ گئے۔ ہم اپنے پڑھنے والوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اس میں اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کوئی قصور نہیں سب ہماری کم ظرفی اور کم عقلی کی خطا ہے۔
تو سب سے پہلےتو یہ وضاحت ازبسکہ ضروری ہےکہ ’ہمیں اپنی مسلح افواج سےپیارہے‘ اور دوسرا یہ کہ ہم خود شوقِ شہادت لےکر فوج میں بھرتی ہوئےتھےمگر کیا کریں کہ لگ بھگ سولہ سال جسے صاحبانِ فہم وفراست سویٹ سکسٹین جیسے دلدار استعارے سے تعبیر کرتے ہیں پر محیط ہمارے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کا داغ ماتھےپرسجائےفوجی کیریئرمیں کوئی ایسانازک مقام آیاہی نہیں کہ ہم جان پرکھیل جاتےاور یوں ہم جیسےتھُڑدِلے،کم ظرف اورکم ہمت کورحمتِ خداوندی نےاس اجرِعظیم کےلائق نہیں سمجھا۔
اب ایک ریٹائرڈمیجریعنی ہم کچھ بےادبانہ تھریڈلکھتےاوراپنی الھڑ پنشن کےرُک جانےکےاندیشوں سےدلِ آوارہ کودہلاتےہیں۔
دیکھیے پھر سے ہمارا قلم پھسل کر راستہ بھٹک گیا۔ توعزیز قارئین، ہم یعقوب عاطف بلبلہ کےانتقالِ پُرملال اور ملک کے سیاسی افق پر جاری ہنگام کا ذکر کررہے تھے جس کے لیے ہم سے تعاون کیا ہے عسکری سیمنٹ بنانے والے ادارے ۔۔۔ خیر چھوڑیئے وہ آپ خود اشتہار میں دیکھ لیں گے۔
غالباً کیا یقیناً جب ہم نے پہلے پہل یعقوب عاطف کو اپنا مشہورِ زمانہ آئٹم پانی کا بلبلہ گاتے دیکھا اور سنا تھا وہ پاکستان ٹیلیویژن کی الیکشن ٹرانسمیشن (خصوصی نشریات) تھی۔ وطنِ عزیز میں ہوئے نوے اور ترانوے کے الیکشن ہمیں پاکستان ٹیلی وژن کی خصوصی نشریات کے صدقے یاد ہیں۔
ویڈیو لِنک
سرِشام سج جانے والےاس الیکشن میلےکادورانیہ تو ایک رات اور اگلےدن کےکچھ حصےتک ہی ہوتا تھامگر اپنی لکھت، پڑھت، بنت اور پریزینٹیشن (ادائیگی کےمعیار) میں یہ ٹرانسمیشن ایک خاصےکی چیز ہواکرتی تھی۔ بنیادی مقصدتوملک بھرسےموصول ہوئےانتخابی نتائج کومرتب کرتےہوئےناظرین تک پہنچانا ہوتا تھا۔
پیریاڈک ٹیبل کی طرز کا ایک لارجردین لائف انتخابی بورڈ پس منظر کو آبادکرتا جہاں سیاسی پارٹیوں کے انتخابی نشان اور ہر صوبے میں کامیاب نشتوں کا گوشوارہ اور میزان اسمبلی میں جاری گیم آف تھرونز کی براہِ راست عکاسی کرتا۔
پیش منظر میں رنگ بھرتے پاکستان ٹیلی وژن کے میزبان فنکار اور سیاسی تجزیہ کار ہوتے جو ایک نوک جھونک اور فقرے چُست کرنے کے فن سے شطرنج کی اس انتخابی بساط کے خانوں میں رنگ بھرتے چلے جاتے۔
صاحبو رات گئے کی اس نشریات کو چارچاند لگاتے وہ کھٹ مٹھے، طنز کے میٹھے نشترمیں بجھے خاکے، اسکٹس، پیروڈی گانے اور مختصردورانیے کے چھوٹے ٹکڑوں میں دکھائے جانے والے خصوصی کھیل ہوتے تھے جو الیکشن کے نتائج آنے اور نشر ہونے کے وقفے کے دوران دکھائے جاتے۔ ایسے ہی ایک ون مین شو قسم کے اسکٹ میں ہمارا تعارف پہلی بار پانی کے بلبلے سے ہوا۔
کسی بےنامی چھوٹے سٹیشن پرسے رات کی تاریکی میں فراٹے مار گزرتی نائٹ ایکسپریس کی جلتی بجھتی بتیوں کی طرح اس نئی طرز کے گانے کے انترے یہ جا وہ جا گزر گئے۔ یہ نشرِمکرر کا دور نہیں تھا، جو گزرگیا وہ طور کا جلوہ تھا، دوبارہ دیکھنے کی تمنا تو تھی پر تاب نہ تھی۔
مگر صاحب گانے کے بول ملک میں ہوتے انتخابات کی طرح عوامی تھے، چیدہ چیدہ یاد رہ گئے
روٹی کپڑا مکان
مل جائے گا میری جان
کجھ وقت دے دوران
نہ توں ہو پریشان
پیلی پتی والا پان
کوکاکولا تے شیزان
سیاسی جماعتوں کے منشور دوہراتے اور سوہنی دھرتی کے چپے چپے بشمول ژوب، قلعہ سیف اللہ و دیگر سے نتائج سنتے ایک اور چیز جس پر دھیان ٹھہرتا تھا وہ تھے انتخابی نشان۔ دسمبر انیس سو ستر کے انتخابات میں عوامی لیگی کی ناؤ اور پیپلز پارٹی آف پاکستان کی تلوار (ظلمت کو ضیاء، صرصر کوصبا، بندے کو خدا کیا لکھنا والے پرآشوب دور میں تلوار، ہل اور ترازو کے انتخابی نشان بحق سرکار ضبط کرلیے گئے تھے)اٹھاسی کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی سائیکل، پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کا تیر، پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کا شیر، متحدہ مجلس عمل کی کتاب، مہاجر اور پھر متحدہ قومی موومنٹ کی پتنگ، پاکستان تحریکِ انصاف کا انتہائی بھاری پڑنے والا بلے پہ ٹھپہ اور ان کے علاوہ کچھ اور عوامی نشانات جیسے لالٹین، پھول، آری وغیرہ۔
ارضِ وطن کے سیاسی سفر کی سنگِ میل انتخابات کی ان راتوں کا ایک اور مشغلہ نتائج کو اپنے ہاتھ سے پُرکرنا ہوتا تھا۔
ملکی اخبارات و جریدے الیکشن کے موقع پر خصوصی ضمیمے شائع کرتے جو ایک طرح سے حلقہ وار الیکشن شیڈول کی ورک بک ہوا کرتیں۔ ساری رات جاگ کر کان اور آنکھیں بالترتیب ٹیلیویژن اور نتیجوں پر لگا اس احتیاط کے ساتھ کہ کوئی رزلٹ خطا نہ ہوجائے ان الیکشن نتائج کو پرُ کرنے کا اپنا جنون تھا۔
مکرمی و مخدومی
@majidsnizami
نے ہماری ایک ٹوئیٹ کے جواب میں 2018 کے الیکشن نتائج پر کرنے کے لیے جنگ اخبار کے ضمیمے کا عکس سانجھا کیا تھا۔ نظامی صاحب کا خیال ہے کہ یہ روایت جو اب تک برقرار تھی موجودہ دور میں الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا کی چکاچوند میں شاید معدوم ہوجائے۔
ان کا کہا بجا لیکن صاحب اگر آپ ہم سے پوچھیں تو اس روایت کو پہلا جان لیوا دھچکا تو خود 2018 کی ’صاف چلی شفاف چلی‘ انتخابی قلابازی نے پہنچایا۔ ایک قبض آور آر ٹی ایس میں پھنسے نتیجوں کے انتظار میں ہاتھوں میں قلم اور اخبار کے الیکشن شیڈول کا ضمیمہ تھامے الیکشن نشریات کے ہم جیسے ناظر تو انتظار کا ساغر ہی کھینچتے رہ گئے۔ ہماری چھوڑیے پولنگ ایجنٹ فارم 45 کی تلاش میں مارے مارے پھرے۔ مختلف میڈیا ہاؤس کے چینلز پر سیاسی تجزیہ نگار اور صحافی سوکھے منہ بغیر کسی نتیجے کے رات کو اگلے دن میں ڈھلتا دیکھا کیے۔ ممکن ہے ہم غلطی پر ہوں مگر ہماری یادداشت میں ہےکہ اس ساری انتخابی بے یقینی اور مبینہ دھاندلی کی چپقلش کے بیچ جیو نیوز پر سہیل وڑائچ صاحب نے پہلا موصول ہوا نتیجہ پڑھ دینے کو ترجیح دی۔ یہ اور بات کے آنے والے دنوں میں جو وہ ٹی وی سکرین پر نہیں کہہ پائے تھے ایک تواتر کے ساتھ اپنے کالموں میں لکھا کیے جس نے جب ’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘ کی کتابی شکل اختیار کی تو اس کے قابلِ دست اندازیِٔ فوج سرورق پر کافی لے دے ہوئی۔
بات کہیں کی کہیں نکلی جاتی ہے۔ تو صاحبو واپس پاکستان ٹیلیویژن کی رنگارنگ الیکشن نشریات کو پلٹتے ہیں۔ یعقوب عاطف بلبلہ کے عوامی گیت پانی کا بلبلہ کے علاوہ اسی نشریات کاایک اور ون مین شوسکٹ جوہمیں یادہےوہ خالد عباس ڈارکاہے۔ ایک معروف موسیقانہ دُھن پرکیری اوکی کی طرزپر پرفارم کرتے’ڈارلنگ‘ کاکمال یہ ہےکہ اداکیا گیاکوئی ایک بھی لفظ بامعنی نہیں ہےمگرتال میل میں رتی بھر جھول یاکمی ڈھونڈنےسے بھی نہیں ملتی
تار بار بلّےنارا ہورے پالار نار
ویڈیو لِنک
صاحبو ستر میں ہوئےانتخابات میں ہم نےسونے رنگی ناؤکو جدائی کےشرقی پانیوں میں دھکیل مغربی بازو میں تلوار اٹھالی تھی۔ اس تلوار کے تیر میں بدلنے تک کا سوشلزم کا توڑ کرنے اسلام کے نام پر جمہوری اتحاد کی جو سائکل میدان میں اتاری تھی اس گربھ وتی نے آنے والے دنوں میں ایک شیر کو جنم دیا۔
اور پھر تیر اور شیر کا پیٹا مارنے کو عروس البلاد کی غلام گردشوں سے ایک ہجرت کی لیوی اور قومیت کا مانجھا پلائی پتنگ کو ڈھیل دی گئی۔ اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ بلے پہ بھی ٹھپہ لگا اور آر ٹی ایس، معاف کیجیے گا، ڈنکے کی چوٹ لگا۔
اس سیاسی دوڑ اور عسکری رکاوٹوں سے عبارت اتنے بہت سے سنگِ میل طے کرلینے کے بعد بھی ہمارے مسائل یعقوب عاطف بلبلہ کی زبانی وہی کے وہی ہیں۔ کیا قصور اور کیا خانیوال، پورے ملک میں بجلی آج بھی پوری نہیں پڑتی
گھٹ بجلی توں بال
یعنی تھوڑا استعمال
کی قصور ساہیوال
سکھر روہڑی خانیوال
یعقوب عاطف کے اسی بلبلے میں آگے چل کر پیسے کے لین دین پر اسحاق ڈار کے لیے کُھلی نشانیاں ہیں تو شالامار کے فواروں اور راوی کے کناروں پر پی ڈی ایم اور ایک دوسرے فریق جس کا بھلا سا نام ہے کے قول و قرار کا ذکر بھی ہے۔
شالاباغ دے فوارے
دونویں راوی دے کنارے
پیسے دیویں نہ ادھارے
پیسے لویں نہ ادھارے
ملیں نہر دے کنارے
ہم ہیں جو تمہارے
(تم ہو جو ہمارے)
جلو موڑ ہڈیارے
سب پانی کا بلبلہ
ویڈیو لِنک
انتخابی نشانوں میں سائکل سے بلےکے اس سفر نے بہت مسافت طے کر لی ہے یہانتک کہ کچھ جگہوں پر سرُخ لکیریں (ریڈ لائنز) بھی کراس ہو گئی ہیں۔ جس انتخابی نشان پر ایک چاہت کے عالم میں ٹھپے پہ ٹھپہ لگا تھا اب اسی کا مکّوُ ٹھپنے کی تیاری ہے۔ سکرپٹ بھی پرانا ہے اور موسیقانہ دُھن بھی.
پریس کانفرنس کی ریت وہی پرانی مگرچہرےنئےنئےسےہیں۔ اب اس جگت دُھن پرخالدعباس ڈار(لنگ) کی طرح کچھ بھی کہلوالیں
تار بار بلے نارا، ہورے پالار نار
میراپارٹی سےکوئی تعلق نہیں
سارےگاماپادھانی سا، سانی دھاپاماگارےسا
کچھ دنوں کےلیےسیاست سےکنارہ کش ہورہاہوں
تارباربلےنارا
پاکستان زندہ باد
صاحبوجب یعقوب عاطف بلبلہ کو پہلے پہل سُنا تھا تو انتخابات کا ہنگام تھا اور الیکشن نشریات کی رات۔ موت اٹل ہے اور جانے کا ایک وقت معین ہے، یعقوب عاطف کو انہی دنوں میں جانا تھا مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ موجودہ ہنگام کی بجائے
الیکشن 2023 کی ٹرانسمیشن کی گہما گہمی میں پانی کا بلبلہ سنتے یعقوب عاطف کو خدا حافظ کہتے۔
کاش ۔۔۔