کھیل کا میدان ہو یا جنگ کی رزم گاہ۔۔۔۔
مہارت کی فیلڈ ہو یا علم و ہنر کی بزم آرائی۔۔۔۔
جو شے فیصلہ کن ہے ۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہے
"جاں سوز ٹریننگ اور تربیتِ روز و شب"
بقول اقبال
رنگ ہو یا خِشت وسنگ، چَنگ ہو یاحرف وصوت
معجزۂ فن کی ہے خُونِ جگر سے نمود
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی نوجوان اچھی خوراک کھا کر اور بہترین ورزش کر کے اچھا کرکٹر یا فٹ بالر یا باکسر بن جائے؟ نہیں بلکہ اسے سخت، مسلسل اور شاندار ٹریننگ لینا ہو گی۔
ٹریننگ ہو گی تو پھر خوراک اور ورزش کی بھی اہمیت ہو گی، ورنہ نہیں۔
ہم جراثیموں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمارے ماحول میں ہی نہیں بلکہ خود ہمارے جسم کے اندر کروڑوں بیکٹیریا، وائرسز، فنجائی اور دیگر پیرا سائٹس ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر ہمیں نقصان نہیں پہنچاتے اور نہ ہی ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں، بلکہ کئی تو ایسے ہیں جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمیں فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔
مگر دشمنوں کی بھی کوئی کمی نہیں اور ہمارا جسم دن رات ان دشمنوں کے خلاف برسرِ پیکار رہتا ہے۔ ہماری بقاء ان دشمنوں کے خلاف جنگ جیتنے میں ہے۔ جب بھی کوئی دشمن کامیاب ہوتا ہے، نتیجے میں ہمیں بیمار کر دیتا ہے۔
ان دشمنوں سے نمٹنے کے لئے ہمارا جسم مضبوط قلعہ بند ہو کر مقابلہ کرتا ہے، لیکن۔۔۔۔
کبھی کبھار کوئی طاقتور یا چالاک دشمن قلعہ میں نقب لگا کر اندر داخل ہو جائے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جسم میں چاق و چوبند آرمی کے دستے نہ صرف گشت کر رہے ہوتے ہیں بلکہ کچھ جانباز سپاہی مورچہ بند ہو کر ہر جگہ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس جانثار فوج سے بچ نکلنا یا اسے شکست دینا جوئے شیر لانا ہے۔
ہماری یہ فوج خون کے سفید خلیوں، لیوکوسائٹس (Leucocytes) پر مشتمل ہوتی ہے۔
ان سیلز کی کئی اقسام ہیں۔
ان میں سے کچھ ہر وقت خون کی گردش کے ساتھ متحرک ہوتے ہیں، کچھ سیلز جا بجا ٹشوز میں اور کچھ لمفیٹک سسٹم Lymphatic System میں اٹینشن پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
( نوٹ: اس آرٹیکل میں ہم لیوکوسائٹس کی اقسام کی تفصیل میں نہیں جائیں گے)
یہ سیلز جراثیموں، خطرناک مالیکیولوں، مردہ ٹشوز، کینسر زدہ خلیوں کے خلاف جنگ کیلئے ابتدائی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ مگر الگ الگ اقسام کے وائرسز یا بیکٹیریا یا دیگر کے خلاف شاندار کارگزاری دکھانے کے لئے انہیں مزید ٹریننگ کے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر یہ اچھی طرح مقابلہ نہیں کر سکتے اور جلدی شکست کھا سکتے ہیں۔
یہ ٹریننگ کیا ہے؟
یہ دشمن کا سامنا کرنا ہے تاکہ دشمن کی پہچان ہو جائے اور اس کے سارے حربے کھل کر سامنے آ جائیں اور اسی لحاظ سے خود کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جائے۔
جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ نئے پیدا ہونے والے بچوں کا ضرورت سے زیادہ تحفظ اور انہیں جراثیم سے پاک ماحول دینا، ان کے لئے مفید کی بجائے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے بچے اپنی آئندہ زندگی میں دمہ اور دیگر اقسام کی الرجی میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں اور جراثیموں کے خلاف بھی ان کی مزاحمت بہت مثالی نہیں ہوتی۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس میں لوگ حفظانِ صحت کے اصولوں کی کوئی خاص پرواہ نہیں کرتے۔ ہر طرح کی بازاری اشیاء چاٹ، گول گپے، چٹنیاں، سلاد، قلفیاں، گولے گنڈے، لسی، شربت وغیرہ شوق سے کھاتے پیتے ہیں۔ برتنوں اور ماحول کے حالات بھی دگرگوں ہوتے ہیں۔ مکھیوں، لال بیگوں اور دیگر کیڑے مکوڑوں کی بہتات سونے پر سہاگہ ہے۔
اس سارے شر میں جو خیر کا پہلو ہے، وہ یہ کہ ہمارے جسم کے امیون سسٹم (مدافعتی نظام) کی خوب خوب ٹریننگ ہوتی رہتی ہے۔ اس حد تک کہ یہ ہمہ وقت بے شمار جراثیموں کے حملوں کی زد میں ہونے کی وجہ سے زبردست تربیت یافتہ ہو جاتا ہے۔
ہمارے جسم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جب کوئی بد نیت وائرس (یا کوئی جرثومہ) ہم پر حملہ آور ہو تو اس سے کس طرح مقابلہ کرنا ہے اور یہی نہیں خود اپنے جسم کے ری ایکشنز سے ہونے والے نقصانات کو کس طرح اپنی حد میں رکھنا ہے۔
بار بار نزلہ زکام ہونا، ہلکا پھلکا بخار، چھوٹا موٹا پیٹ درد، تھکن وغیرہ ہمارے جسم کی شاندار تربیت کر کے اسے سخت جان بنا دیتے ہیں۔
جسمانی قوتِ مدافعت یا امیونٹی بڑھانے کا جب بھی سوال آتا ہے تو اس کے جواب میں مندرجہ ذیل ہدایات دی جاتی ہیں۔
1۔ اچھی متوازن خوراک
2۔ ورزش
3۔ آٹھ گھنٹے کی پرسکون نیند
4۔ وٹامنز کا ضرورت کے مطابق استعمال
5۔ دن میں دس تا بارہ گلاس پانی
6۔ تازہ ہوا اور روشنی
یہ ہدایات بہت اہم ہی نہیں بلکہ بہت ضروری ہیں۔
مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر کیا ضروری ہے؟
وائرس اور دیگر جرثوموں کے خلاف مسلسل جسمانی ٹریننگ۔
اس ٹریننگ کا ایک طریقہ ویکسینیشن ہے، جس میں کمزور یا مردہ جراثیم جسم میں داخل کئے جاتے ہیں۔ ان سے مقابلہ کر کے اور انہیں شکست دے کر جسم مطلوبہ ٹریننگ حاصل کر لیتا ہے۔
دوسرا طریقہ وہ قدرتی ماحول اور لائف سٹائل ہے جس میں جراثیم متواتر جسم پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ اس معاملے میں ہم پاکستانی خودکفیل ہیں۔
شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہاں کورونا کے حملے کی شدت امریکہ اور یورپ جیسی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اہم نوٹ: اس تحریر سے ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ بے احتیاطی یا آلودہ ماحول یا آلودہ خوراک کھانے کی عادت کوئی اچھی چیز ہے۔ نہیں، بلکہ اسے مضمون میں "شر" یا خرابی کا نام دیا گیا ہے۔ ہمیں ہرممکن کوشش کر کے صاف ستھرا، ہائجینک لائف سٹائل اپنانا چاہئیے۔)