پیغمبروں اور ولیوں کو جنم دینے والی عورت جب اسلام کے نام پر بننے والے ملک میںپہنچی تو جان ہارگئی۔کوئی بھی اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ جاگیردار پائوں کی جوتی سمجھتے ہیں اور اپنے جوان بیٹوں کے لیے کھلونا۔ مولوی اس کا نام آتے ہی ماتھا پکڑ لیتے ہیں۔ عورت کے حقوق کی بات آئے تو انہیں اپنی عزت دائو پر لگتی نظر آتی ہے۔اب وہ اس پر بھی متحد ہیں کہ کمسن بچی کی، جوبالغ تک نہیں، شادی کرنا کوئی مسئلہ نہیں! سیاستدان صرف بیان دے سکتے ہیں۔ حکمران صرف پیراسٹامول دیتے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کہتے ہیں۔’’ غنڈے عزتوں سے کھیلیں، پولیس انہیں تحفظ دے، ایسا سسٹم نہیں چلنے دوں گا۔‘‘دوسرے دن فرماتے ہیں۔’’ فرسودہ نظام عوام کے لیے وبال جان بن چکاہے۔ حکومت عوام کو اس گلے سڑے نظام سے نجات دلانا چاہتی ہے۔‘‘
کوئی پوچھنے کی جسارت کرے کہ محترم میاں صاحب ! آپ کو کتنا عرصہ درکار ہے اس گلے سڑے نظام کو بدلنے کے لیے ؟
’’ ایسا سسٹم نہیں چلنے دوں گا ۔‘‘ تو آپ کب نیا سسٹم لائیں گے؟ پانچ سال بڑے بھائی صوبے کے وزیراعلیٰ رہے۔ چھوٹے میاں صاحب کا یہ تیسرا صوبائی دور حکومت ہے۔ بڑے میاں صاحب تیسری بار وفاق کے حکمران اعلیٰ ہیں۔ خدا کے لیے تنہائی میں اپنے آپ سے دل پر ہاتھ رکھ کرپوچھیے کیا یہ سارا عرصہ نظام بدلنے کے لیے کافی نہیں تھا؟
نظام کیا ہے؟ جنوبی پنجاب جاگیرداروں کی شکار گاہ ہے۔ تخت لاہور کی شکایت کرنے والے اپنے ہاں کے جاگیرداروں کا کیا کریں گے؟ انسانوں کی بوٹیاں ابال کر اونٹوں کو کھلادی جاتی ہیں۔ مزارعوں کی ہزاروں عورتیں رکھیل ہیں۔ پولیس کو یہ دو قدم نہیں چلنے دیتے۔کوئی دیانت دار ، انصاف پسند ضلعی حاکم آئے تو چلتا کردیتے ہیں۔ تخت لاہور پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ان کے آگے بے بس ہیں اس لیے کہ اسمبلیوں میں ان کے محتاج ہیں۔ پولیس ہو یا انتظامیہ کے افسر ، ان کے کہنے پر تعینات ہوتے ہیں۔ آمنہ بی بی کا قتل سامنے آگیا۔ ورنہ ہزاروں لاکھوں بچیاں ذلیل ہورہی ہیں۔ قتل ہورہی ہیں۔ مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ ایک سیاستدان پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر صحافیوں سے توتو میں میں کرتا ہے کہ میرے نام کے ساتھ سردار کیوں نہیں لکھا جارہا۔
اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اسلام کے نام لیوا، عورت سے مکمل بے نیاز ہیں۔ کچھ بھی ہو جائے منبر و محراب سے ایک لفظ نہیں سنائی دیتا۔ ظالمانہ پنچایتوں نے یہاں تک احکام صادر کیے کہ ملزم کے گھر کی عورتوں کو بے آبرو کیا جائے۔ کسی عالم دین نے ، کسی مذہبی سیاسی جماعت نے ہلکا سا احتجاج تک نہیں کیا۔ چیچنیا اورعراق میں پتہ بھی کھڑکے تو یہ سراپا احتجاج ہوجاتے ہیں۔ ٹریفک روک دیتے ہیں۔مگر عورت کے ساتھ…پیغمبروں اور ولیوں کو جنم دینے والی عورت کے ساتھ… جو کچھ بھی ہوتا رہے مقدس دہانوں سے لفظ تو کیا اُف کی مبہم آواز تک نہیں نکلتی۔ ایسے میں اگر مورخ جاگیرداری اورملائیت کے اتحاد کوریکارڈ کا حصہ نہ بنائے تو کیا کرے!
تاریخ کا بدترین سرداری نظام… جس کی کوئی مثال آج کی دنیا میں نہیں پائی جاتی، بلوچستان میں کارفرما ہے۔ یہ 2014ء ہے۔ سرداروں کی بادشاہی میں عام بلوچی ،جانوروں کی سی زندگی گزار رہا ہے۔ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں پتھر کے زمانے کا راج ہے۔ نجی جیلیں، پرائیویٹ عقوبت خانے۔ محافظوں کے دستے! پرائیویٹ آرمی اورکسے کہتے ہیں؟ کتوں پر کروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ چند دن پہلے جناب ہارون الرشید نے لکھا کہ سندھی فیوڈل کے پالتو مگرمچھ نے نوکر کا ہاتھ چبادیا تو اس نے کہا ، اب یہ ڈیوٹی دوسرا نوکر سنبھال لے گا!
گلاسڑا نظام؟ معاف کیجیے۔ یہ گلاسڑا تو ہے نظام نہیں۔ کس کس کا منہ بند کیجیے گا؟ اگر آج نئی نسل کہتی ہے کہ پاکستان جاگیردارو ںکی حفاظت کے لیے بنا تھا تو ہم اسے کیا جواب دیں؟ زرعی اصلاحات تقسیم کے چار سال بعد بھارت میں نافذ کردی گئیں۔ کسی کو وہاں ہمت نہ ہوئی کہ زمین نوکروں کے نام کرکے اصلاحات پر پانی پھیرے۔ یہاں مسئلہ دُہرا ہے۔جاگیرداری ، اس پر گدی نشینی کا تڑکا… پائوں اس قدر مضبوطی سے جمے ہیں کہ قائم علی شاہ صاحب کے دو دن میں ہوش ٹھکانے آگئے۔ بھاگم بھاگ امین فہیم صاحب کے در دولت پر حاضری دی۔ غلطی یہ ہوگئی تھی کہ مخدوم صاحب کے دو صاحبزادوں کے خلاف ایکشن لے لیا تھا۔ ایک صوبائی وزیر تھے۔ دوسرے تھر کے ڈپٹی کمشنر۔
بڑے بڑے نامی گرامی حکمران ان جاگیرداروں کے ہاتھوں موم کی پتلیاں بن کر رہ گئے۔ ایوب خان نے نواب صاحب کو گورنر بنادیا۔ بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو سارا سوشلزم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اندر سے جاگیردار نکل آیا۔ وہی بادشاہی اور وہی منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون۔ ضیاء الحق صاحب جاگیرداروں کو چن چن کر شوریٰ میں لائے۔ جاگیردار ان کی دائیں آنکھ تھے اور علماو مشائخ بائیں آنکھ۔ رہے پرویز مشرف صاحب ،تو سرکاری اجلاسوں میں انہیں جمائیاں لیتے اور اونگھتے اس لکھنے والے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ! دور رس اصلاحات کا وہ سوچ تک نہیں سکتے تھے۔
نہیں! میاں صاحب نہیں ! خدا کے لیے یہ نہ کہیے کہ ایسا سسٹم نہیں چلنے دوں گا۔سسٹم یہی چلے گا۔آمنائیں! اپنے آپ کو جلاتی رہیں گی۔پولیس والے بھیڑیوں کو تحفظ دیتے رہیں گے۔ آپ پولیس والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے رہیں گے ۔ان کے پیٹی بند بھائی انہیں وی آئی پی پروٹوکول دیتے رہیں گے۔ حوالات کے بجائے کمروں میں سلاتے رہیں گے۔ کھانے کے لیے پھل اور بھنے ہوئے مرغ پیش کرتے رہیں گے۔ ہالہ ہو یا جھنگ، مظفر گڑھ ہو یا نوشہرو فیروز یہی خاندان ہوں گے، یہی اسمبلیاں ہوں گی، یہی عوام ہوں گے، یہی تھانے ہوں گے، یہی کچہریاں ہوں گی اور یہی ڈیرے ہوں گے ؎
وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
اور وہ آبِ نشاط انگیز…ساقی کے بس کی بات نہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2014_03_01_archive.html
“