سمفنی
خامشی ایک خوبصورت۔ ساز ہے اگر آپ کن رسیا ہیں تو بس پھر اس ساز کو سُنتے جائیں۔ اور جھومتے۔ جائیں –
موسیقی۔ کی زبان میں اسے سمفنی۔ کہتے ہیں گانے والے جب گا رہا ہو تو اسے سُنتے ہوئے اس کی سمفنی ضرور سننی۔ چاہیے اگر کسی گانے والے کے گانے میں۔ سمفنی۔ نہیں ہے تو پھر وہ۔ ایک گلا پھاڑنے والا پی ہے اور اگر سُننے والے۔ میں سمفنی سُننے کی صلاحیت نہیں۔ تو وہ بہرہ ہے
محبت کا گیت سمفنی پہ ہی گایا جاتا ہے
اسی طرح۔ انسانی تعلقات۔ میں۔ بھی ایک سمفنی تعلق ہوتا ہے – آپ کے کسی سے لاکھ گہرے تعلق ہوں اپ ہر وقت آپس میں قہقہ لگاتے ہیں۔ یا گلے لگ کے روتے ہیں اگر اپ کے درمیان۔ سمفنی تعلق نہیں ہیں تو آپ مٹی کے پتلے پیں جنہوں۔ نے کہیں۔ سے سننے بولنے کا ہنر جان لیا ہے –
اگر کسی کے آپ کے ساتھ سمفنی تعلق ہے تو پھر آپ کو آپس میں ملنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہے
بد قسمت ہیں وہ جن کو کوئی خاموش تعلق یعنی سمفنی۔ تعلق کے بھی قابل۔ نہ سمجھے
جمشید گل کی نظم سمفنی پڑھیں نہیں سُنیں
سمفنی
—
سمفنی!جاگ زندہ ہو
کہ تو محبت ہے اور محبت زندگی ہے
میں اپنی تقصیر مانتا ہوں
میں۔ تمہارے جسم کی تاثیر سے نا آشنا
غلافِ کعبہ کے بوسے لیتا رہا
لیکن۔ مجھے معاف کرکے
میری بے کراں محبت کو امر کر دے
سمفنی میں تمہارے بن کچھ نہیں
جین تھراپی اگر ممکن ہوتی تو میں
اپنی مرحوم۔ محبت کا جین تلاش کرکے
اپنے بدبخت جیون میں پیوند کرتا
لیکن
ناممکنات کا خدا بھی
میری اس خواہش کو
دیوانگی سمجھتا ہے
سمفنی! اب تم ہی کچھ کرو
کہ تم بھی تو خدا ہو
——————
مسعود قمر
“