معروف امریکی شاعرہ سلویا پلاتھ اپنی پیچیدہ شاعری اور غموں سے پر زندگی کے باعث انگریزی ادب کے قارئین کے لیے موضوعِ مطالعہ بنی ہوئی ہے۔ سلویا پلاتھ کا والد بوسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کا پروفیسر تھا جس نے شہد کی مکھیوں میں سپیشلائزیشن کی ہوئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سلویا کی شاعری میں بھی BEE POEMS کو اہم مقام حاصل ہے۔ 1956 میں برطانیہ کی مشہور یونیورسٹی کیمبرج کے ایک کالج میں اس کی ملاقات اس وقت کے مشہور برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوژ سے ہوئی ۔ TED HUGHES شادی کے چھ برس بعد ایک اور عورت میں دلچسپی لینے لگے جو حساس شاعرہ برداشت نہ کر سکی اور شدتِ جذبات کے باعث ذہنی ڈیپریشن کی مریضہ بن گئی۔
تیس برس کی عمر میں جب اس کا شوہرسلویا کو چھوڑ کر جا چکا تھا اور نئی محبت آسیہ ویول کے دامِ محبت کا اسیر ہو چکاتھا ایک صبح سلویا پلاتھ نے اپنے بچوں کے لیے جلد ناشتہ تیار کیا۔ ڈبل روٹی اور دودھ وغیرہ بچوں کے پاس رکھا جیسے وہ کسی ضروری کام کے لیے کہیں جا رہی ہو۔ ننھے بچے نکولس اور فریدہ گہری نیند سوئے ہوئے تھے جب سلویا نے اپنا سر گیس اوون میں ڈال کر گیس آن کر دی اور پل بھر میں جسم او ر روح کا ناطہ توڑ دیا۔ بچوں کی آنکھ کھلی تو ان کی زندگی کا واحد سہارہ گیس اوون میں مردہ حالت میں پڑا تھا، ہاں ان کا اُس دن کا ناشتہ اُن کے پاس تیار رکھا تھا۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق جس لمحے سلویا کا سر گیس اوون میں جل رہا تھا اسی لمحے ٹیڈ ہیوز نئی دوست ایسیا ویول سے دادِ عیش وصول کر رہا تھا۔ آسیہ ویول جس نے سلویا کا سہاگ لوٹا تھا خود بھی مطمئن زندگی نہ گزار سکی اور چھ سال بعد اس نے بھی اپنے شوہر کی سابقہ بیوی کی طرح گیس اوون میں سر دے کر خود کشی کر لی۔ سلویا کے برعکس آسیہ اپنے ساتھ اپنی چار سالہ بیٹی شورا کو بھی لے چلی۔ اس طرح ٹیڈ ہیوز کو تین قریبی افراد کی موت دیکھنا پڑی۔
کہتے ہیں کہ ذہنی بیماریاں بھی بعض جسمانی اور طبعی بیماریوں کی طرح موروثی ہوتی ہیں۔ 2009 میں سلویا پلاتھ کا واحد بیٹا نکولس چالیس برس کی عمر میں الاسکا کی ریاست میں اپنے آپ کو پھانسی دے کر والدہ کے راستے پر گامزن ہو گیا۔وہ فشریز کے محکمے میں آفیسر تھا اور اس نے تمام عمر والد اور والدہ کے برعکس عوامی شہرت سے کوسوں دور گمنامی میں گزاری تھی۔ اس کی بہن فریدہ کے مطابق میرے بھائی نے بظاہر ایک پروفیشنل زندگی گزاری لیکن وہ اس ذہنی تناؤ سے کبھی جان نہ چھڑا سکا جو اس کو اس کی والدہ کی خود کشی کے باعث بچپن ہی میں ملا تھا۔ جو قصہ اوون سے شروع ہوا تھا چھت پرلٹکتی ہوئی رسی پر منتج ہوگیا۔