(Last Updated On: )
سید وارث شاہؒ نے ہیر اٹھارویں صدی میں لکھی مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے بیسویں صدی میں ہیر لکھی ہو اور وہ ہمارے اعمال کا شیشہ دکھا رہے ہوں اس سلسلے میں وارث شاہ کے یہ مصرعے غور طلب ہیں:
؎اشراف خراب کمین تازے زمیندار نوں وڈی بہار ہوئی
؎چور چودھری ،یارنی پاک دامن ،بھوت منڈلی اک تھوں چار ہوئی
؎وارث جنھاں نے آکھیا پاک کلمہ بیڑی تنہاں دی عاقبت پار ہوئی
وارث شاہ کے فن اور عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شفقت تنویر مرزا کہتے ہیں:
’’وارث شاہ پنجابی کا فخر ہے یا عالم شاعری کا، میں اس بارے میں کچھ نہیں کہتا ،کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اپنے وجود کو کسی دوسری قوم کے وجود سے مماثل قرار دے کر ہم اپنی عظمت تسلیم کروانے کے فرض سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ لیکن عظمت تسلیم کرنے کا یہ کوئی انداز ہے ہی نہیں کہ وارث شاہ پنجابی کا شیکسپیئرہے۔شیکسپیئروالوں میں سے ایک (کار لائل)نے کہا تھا کہ اگر ہمیں شیکسپیئراور ہندوستان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر قربان کرنا پڑے یا کوئی ایک چھوڑنا پڑے تو ہم شیکسپیئر رکھ لیں گے ہندوستان چھوڑ دیں گے۔حافظ شیرازی نے ایک اور بات کہی تھیَ
؎بخال ہندوش بخشم سمر قند و بخارا
ہم پنجابیوں نے مجموعی طور پر وارث شاہ کو چھوڑ دیا ہے اور ایک چھوٹے سے علاقے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لیے اپنی لسانی اور ثقافتی لاولدیت کے ساتھ سندھیوںسے شاہ عبدالطیف بھٹائی ،پٹھانوں سے خوشحال خان خٹک،اور رحمن بابا اور بلوچوں سے میر چاکر بھی چھڑوانے کی بھر پور کوشش کرتے رہے ہیں اور شائد اس وقت تک کرتے جائیں گے جب خدا نخواستہ پھر ۱۹۷۱ئاپنے آپ کو دہرا نے نہ آ ّ جائے۔
ہم نے بابا فرید ؒ سے لے کر وارث شاہ تک سبھی کو انتہائی حقیر دنیاوی فوائد کے لیے قربان کر دیا۔حالاں کہ ان دونوں نے اپنے شعر ،فکر اور ایمان کی سلامتی کے لیے پوری دنیا قربان کر دی تھی۔بہر حال ہماری ڈیڑھ سو سالہ لاپرواہی بل کہ مخاصمت بھی وارث شاہ کو ختم نہیں کر سکی کیوں کہ اس دگرتی نے ابھی تک ایک ہی وارث پیدا کیا ہے۔شاعر وارث شاہ کے علاوہ فلاسفر،مفکر اور سماجی انقلاب کے داعی ضرور پیدا کئے ہیں لیکن وارث شاہ کی اصل خوبی یہ تھی کہ اس نے ایک پرانی داستان یا قصے کو اپنے عہد میں ایک خاص تعبیر کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ جس طور مولانا روم ؒ نے گم گشتہ کہانیوں کو نئی تعبیر دے کر اپنی مثنوی کے بارے میں یہ تک کہلوالیا ’’ہست قرآں در زبان پہلوی‘‘مگر ملک کے اندر وارث شاہ کی جو توقیر ہو رہی ہے پنجاب کی جووِشا بن رہی ہے، تہذیبی اور لسانی بالا دستیوں کا جو مظاہرہ ہو رہا ہے اس کے بارے میں وارث شاہ کے کچھ ادھے آدھے مصرعے کہ آدھے ہی کافی ہیں:
؎اشراف ،خراب کمین تازہ۔۔۔۔۔
؎چور چودھری یارنی پاک دامن۔۔۔۔
؎سارے ملک خراب پنجاب وچوں مینوں وڈا اافسوس۔۔۔۔۔
وارث شاہ نے قصہ ہیر میں پنجاب کی ثقافت کو اصلی حالت میں پیش کیا ہے شادیوں کے موقع ہر ادا کی جانے والی رسوم کو انھوں نے جس طرح شعروں میں بیان کیا ہے اس سے ان کے آفاقی شاعر ہونے کی دلیل ملتی ہے۔آج بھی ہمارے دیہات میں باراتوں کی شان بان جس طرح نظر آتی ہے اسی طرح وارث شاہ نے کھیڑیوں کی بارات کی چڑھائی ہیر میں دکھائی ہے۔اسی طرح بہنیں ،سہیلیاں،چاچیاں ،تائیاں اور پھوپھیاں آتی ہوئی بارات کا استقبال مذاق سٹھنیوں سے کرتی ہیں۔آج بھی باراتوں کا استقبال اسی طرح کیا جاتا ہے جس طرح وارث شاہ کے عہد میں ہوتا تھا۔طرح طرح کے کھانے مہمانوں کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں ۔کھانوں کی قسمیں ،مٹھائیوں کی قسمیں گنواتے ہوئے اپنے فن کا جادو جگا یا ہے۔چاولوں کی اقسام میں سوئن پتی ،جھونا،باسمتی ،مسافری،بیگمی،سٹھی ،کرچلا،میولا ،کرت ،کنتل،انوککھلاگھیوراں،جلیب،گل بہشت، بوندی، لڈو، ٹکیاں، کلا قند،مکھانے،مٹھے،کجھور،پراکڑی،سموسے،اندر سے،کچوری اور پوڑیاں،تیہرا،مٹھائیوں کی اقسام میں نگدے،شکر پارے،گھیوراں وغیرہ۔
اس کے علاوہ وارث شاہ نے کن زیورات اور ملبوسات کا ذکر کیا ہے ممکن ہے اب ہمارے دیہات میں ان میں سے کچھ بدل گئے ہوں لیکن اس کے باوجود ان کی شناخت اور پہچان اب بھی زندہ ہے وارث شاہ نے ان زیورات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔کنگن،زنجیری،ہار،لونگیر،کپوراں،پانوٹے،گجرے،پوہنچی،حمیل،مالا،مہر بچھوے،کمبوہی ،چونپ،کلیاں ،الیاں ،پازیب، گھنگرالاں، کا ن پھول،سیس پھول،سکندری،نیہری،بریلیاں ،جھمکے،ہس کڑت،چوڑیاں ،جگنی،ٹکا اور بازو بندوغیرہ۔
کپڑوں میں ملبوسات کا ذکر بھی اسی طریقے سے کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے وارث شاہ ساری عمر کپڑے کا کاروبار کرتے رہے ہیں۔ مثلاً لاچے،کھیس،سلاریاں،پنج تانی ،چوڑیا،چھوپ،چھائل،(ہاشے والی پھلکاری) چار سوتی،سالو،گھگھرے،پگاں ،کمخواب،بول بند،زری،چار خانیے،ڈوریئے،ململ،گلبدن وغیرہ۔
اگر برتنوں کا ذکر کیا ہے تو اس طریقے سے جیسے وہ تمام عمر برتن بنانے اور فرخت کرنے کا کاروبار کرتے رہے ہیں مثلاً تھالیاں،چھنے،کڑاہیاں ،کڑچھ،تھال،چمچے،پرات،دیگچے،لوہ بیلوے دیگچے،دوھنی دیگچے،خوانچے طاس وغیرہ ۔
وارث شاہ نے پنجاب کی ثقافت کی اتنی بھر پور نمائندگی کی ہے کہ کوئی پیشہ، برادری ایسی نہیں چھوڑی جس کا ذکر نہ کیا ہو بل کہ ہر ذات کے پیشے کا بھی ذکر کیا ہے اور اس حوالے سے معاشرہ میںہر ذات کا مقام اور مرتبہ ظاہر کر کے سماجی زندگی کے بے لاگ ناک نقشہ اگھیڑ دیا ہے۔
زبان کے حوالے سے دیکھا جائے تو وارث شاہ کو داد دیئے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ ہیر وارث شاہ میں ہر لہجہ موجود ہے۔ شاید ہی ایسا لہجہ ہو جس کو وارث شاہ نے استعمال نہ کیا ہو،یہی وجہ ہے کہ آج بھی وارث شاہ کی ہیر پنجابی زبان وادب میں ایک معیار مانی جاتی ہے۔استاد شعرا عام طور پر اپنی شاعری میں حسن پیدا کرنے کے لیے دو طریقے اختیار کرتے ہیں ایک تو وہ عام فہم اور عوام کی بول چال کی زبان کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ کئی نئی اصطلاحات خود تخلیق کر لیتے ہیں۔وارث شاہ کی بڑی خوبی ہے کہ اس نے ان دونوں باتوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ کئی نئے راستے بنائے۔
وارث شاہ کا کمال یہ ہے کہ تلفظ کی املا بدل کرکئی نئے الفاظ بنا دیئے ہیں اور ان کے اصل معانی میں کوئی فرق نہیں آنے دیا بل کہ ایسے الفاظ کے صوتی آہنگ سے موسیقیت پیدا ہو گئی ہے۔کچھ مثالیں ہم وراث شاہ کے قافیے پر گفتگو کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔چند الفاط کی مثالیں دیکھیں۔رانجھے سے رنجھیٹا،جٹ سے جٹیٹا،جٹی سے جٹیٹی،بیٹی سے بیٹڑی،لپیٹی لپیٹڑی،ماہی سے ماہیڑیا،پتاسے سے پتاسڑا،چیلا سے چیلڑا،اندیشہ سے اندیشڑا،وغیرہ۔
اس کے علاوہ،عربی، فارسی ،سنسکرت، بھاشااور ہندی کے کئی الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن اس خوبصورتی اور فنکارانہ مہارت سے کہ وہ الفاط پنجابی کے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ایسے الفاظ کے استعمال کے باوجود شعروں میں دریا جیسی روانی ہے۔اسی طرح وارث شاہ نے پنجابی زبان کے دامن میں ،لغوی اعتبار سے بھی اضافہ کیا ہے اور ایسے ہی وارث شاہ کی ہیر کو پنجابی زبان کی لغت بھی کہا جاتا ہے۔
مختصراً وارث شاہ کی ہیر پنجابی زبان کا وہ شاہکار ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کسی زبان کے کسی بھی اعلیٰ فن پاارے سے کیا جا سکتا ہے۔بظاہر یہ ایک رومانوی قصہ ہے لیکن وارث شاہ نے اس کا تعلق تہذیب،ثقافت،مذہب،سیاست،نجوم،جوگی،جوتش، فلکیات ،فلسفہ اور موسیقی سے جوڑ کر اس کو پنجاب اور پنجابی زبان کا انسائیکلوپیڈیا بنا دیا ہے۔ تصوف کی چاشنی کی وجہ سے لوگ اس کو
’’ایہہ قرآن مجید دے ہین معنے ،جہڑے شعر میئیںوارث شاہ دے نیں۔‘‘ کہنے پر مجبور ہیں۔پنجابی زبان وادب میں اس کا وہی مقام ہے جو پہلوی زبان میں مثنوی مولوی کا ہے ۔وارث شاہ نے اس میں اپنے دور کی سیاسی ،سماجی اور مذہبی صورت حال کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اٹھارویں صدی کا پنجاب جیتی جاگتی صورت میں اس کے اندر محفوظ ہو گیا ہے۔
اس کے کردارہماری روزمرہ کی زندگی کے اتنے قریب ہیں کہ ان کے روپ میں ہمیں اپنا روپ دکھائی دیتا ہے وارث شاہ کو اپنے کرداروں کی نفسیات پر مکمل کنٹرول حاصل ہے کہ وہ لوگوں کی درد میںڈوبی رگ پر ہاتھ رکھتا ہے ۔بات کی تہہ تک پہنچتا ہے اور اپنی بات کی وضاحت کے لیے اس کے پاس الفاظ کا وسیع ذخیرہ ہے اسی لیے وہ الفاظ کو جس طرح چاہتا ہے اسی طرح اپنی مرضی سے استعمال کر لیتا ہے۔دوسری زبانوں کے الفاظ کو بھی وہ اپنے الفاظ سمجھ کراستعمال کرتا ہے ۔اس کے باوجود کلام میں دریا کی سی روانی قائم رہتی ہے اور تشبیہوں ،استعاروں کے ذ ریعے بیان کے حسن کو بڑھانے کا فن بخوبی جانتا ہے ۔اس کی اس فکری اور فنی خوبیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اب تک کسی کو جرأت نہیں ہو سکی اور نہ ہی آج تک اس کے اس دعوے کو کوئی رد کر سکا ہے۔
؎اَگے ہیر نہ کہی ایسی شعر بہت مرغوب بنایا ای
نور محمد نور کپور تھلوی کا شمار پنجابی اور اردو کے کہنہ مشق شعرا میں ہوتا ہے ان کی پنجابی شاعری میں سید وارث شاہ کی عقیدت ، احترام اور عشق چڑھتے دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے۔جہاں وہ وارث شاہ کے فن اور عظمت کو سلام عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں وہاں اپنی شاعری کے ذریعے اپنے فن کا جادو بھی جگاتے دکھائی دے رہے ہیں۔نور محمد نور کپور تھلوی کا وارث شاہ کے حضور نذرانہ عقیدت :
مہاں کوی تے گروگیانیاں دا،ساڈے دیس پنجاب دا مان وارث
پہیہ سمے دا جویں اگانہہ تریا ،تیری ہور اُچی شان وارث
جہڑا پُت پنجاب دے پانیاں دا،توں ہیں اوس دا مان تران وارث
تیرے دیس دی رکھیا کرن خاطر،واردیاں گے جند تے جان وارث
کیہڑی شے پنجاب دی لکی تیتھوں ،ہر اک دا تینوں گیان وارث
گرنتھ ،وید،قرآں تے لوک گاتھا،سبھناں اتے تیرا دھیان وارث
نفرت کسے توں کرنی روا ناہیں،حلم پریم ہے تیرا ایمان وارث
کتھوں لبھیے بندے ہن تیں جیہے،جیہڑے ہون شعور دی کھان وارث
تیری مٹھڑی سرل زبان اتے ،سبھو بولیاں کراں قربان وارث
رچنا ہیر دی نے سانوں بخشیا اے، وچ پرتھمی اُچا مکان وارث
غفلت وچ ہے پئی سرکار ساڈی،جہنے کیتا نہ پورا سامان وارث
ہیر وارث دے قصے دے واسطے تھیں،ظاہر کیتا سے تسیں انسان وارث
آدمیت آدرش دے نال سارا ،بھریاہویا اے تیرا بیان وارث
بناں مرشداں نہ راہ ہتھ آوے،مینوں یاد ہے تیرا فرمان وارث
ایتھوں تیک وی لوکاں نے آکھیا اے،تیری ہر تفسیر قرآن وارث
ایداں کہندیاں مینوں پر خوف آوے،عاشق ہو کے وی آں مسلمان وارث
خدمت کرن دا شوق ہے نورؔ تائیں ،بن کے رہوے گا تیرا دربان وارث
سید وارث شاہ پنجابی زبان کے انسائیکلو پیڈیا تھے ۔زندگی کی کوئی رمز اور زمانے کی کوئی بات آپ سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔چودھری،،جت،رانجھا،ہیر،فقیر،سنت،کتاباں،دریا،،بیڑی،لڈن ،مذہب، پنڈ ،پرہیا ،جوگی،ملا،کیدو، کھیڑے،راجہ ، عدل اور انصاف ہیر کے قصے کا لمیہ انداز وارث شاہ کا حصہ ہے۔
سب سے پہلے حضرت بابا فرید گنج شکر ؒسے پنجابی ادب کی ابتدا ہوئی ۔انھوں نے پنجابی کو ذریعہ اظہار بناتے ہوئے گزرے وقتوں کو نئی نسلوں تک پہنچانے کا کامیاب کوشش کی ،پھر شاہ حسین ؒنے اس بھگتی فلسفے کا پرچار کیا ۔بلھے شاہ نے صوفیانہ رنگ کو اور پیر سید وارث شاہ نے پنجابی تہذیب کو شاعری کا موضوع بنایا ۔مولوی غلام رسول اور میاں محمد بخش نے خالص مذہبی رنگ میں شعر کہے اور خواجہ فریدنے فطرت کی عکاسی کی ۔ان تمام شعرا میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ ان کی شاعری میں مسیقیت کا عنصر نمایاں تھا۔
وراث شاہ نے ہیر رانجھے کا قصہ ۱۷۶۶ء میں پنجابی زبان میں تخلیق کیا اور یہ ابراہیم بہلول کے عہد میں ہوا۔ ہیر کا قصہ لکھنے والے وارث شاہ پہلے شاعر نہ تھے ان سے پہلے ہندی ،فارسی اورپنجابی شاعروں نے اس قصہ پر طبع آزمائی کی۔وارث شاہ کے عہد میں پنجابی شاعروں نے اس قصے پر طبع آزمائی کی۔وراث شاہ سے پہلے کوی ،چراغ احمد ،دمودر،میاں مقبل اور بھبل نے ہیر کا قصہ لکھا۔ وارث شاہ کے عہد میں پنجابی کے دو نامور شاعر بلھے شاہ (قصور)اور علی حیدر (پیر محل)گزرے ہیں۔مگر ان تینوں میں سے کسی ایک نے بھی کسی دوسرے کا ذکر نہیں کیا تا ہم جب وارث شاہ نے اپنے استاد مخدوم غلام مرتضیٰ کو ہیر کے چند اشعار سنائے تو انھوں نے کہا کہ ’’وارث شاہ تو نے تو مونج کی رسی میں موتی پرو دیے ہیں۔‘‘سید وارث شاہ پنجابی زبان کی ادبی شعری روایت کا اہم ستون ہیں انھوں نے ماضی اور حال سے جو کچھ اخذ کیا ہے اسے قوم کی امانت سمجھ کر نہایت خوبصورتی سے مستقبل کے سپرد کر دیا۔ایک جگہ فرماتے ہیں:
کئی بول گئے شاخ عمر دی تے،ایتھے آہلھناکسے نہ پایا ای
کئی حکم تے ظلم کما چلے،کس نے ساتھ لدایا ای
وڈی عمر اولاد والا ،جس نوح طوفان منگایا ای
ایہہ روح قلبوت دا ذکر سارا،نال عقل دے میل ملایا ای
اَگے ہیر نہ کسے نے کہی ایسی، شعر بہت مرغوب بنایا ای
وارث شاہ میاں لوکاں کملیاں نوں،قصہ جوڑ ہشیار سنایا ای
وارث شاہ کو آفاقی شاعر بھی کہا جاتا ہے ۔اگرچہ وہ محدود پیمانہ پر تھی مگر ان کے جذبات اس وقت کے افراد معاشرہ کے ذہنوں کی عکاسی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ جہاں نقص اور خرابی پائی جاتی ہے اس خرابی کو اپنے کلام کا موضوع بنایا کہ مناسب اصلاح ہو سکے اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ آفاقی شاعر تھے۔
’’ہیر‘‘ میں ہزاروں الفاظ جو خالصتاً پنجابی کے ہیں اور کسی دوسری زبان سے ماخوذ نہیں ۔دنیا کی دوسری زبانوں کے ساتھ ساتھ اگر عربی زبان کا جائزہ لیا ۔اپنے دور کی معاشرتی و سماجی زندگی کی تصویربھی کھینچی یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہیر وارث شاہ کے مطالعہ کے دوران محاکات نگاری کے بڑے واضح اور اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔اخلاق سوز،سماجی قدریں اور پنجاب دھرتی کے بارے میں مختلف باتیں ملتی ہیں۔ وارث شاہ نے پنجاب کی عورت اور کھیتی باڑی کرنے والے کسانوں کی خوبیاں اس طرح بیان کی ہیں : سچ، غسل،پلنگ، سویر،آٹاگھوندنا،چکی چلانا،پانی لوٹا،وضو کرنا، نماز ،قافلے کا روانہ ہونا،دریاؤں کے پتن،ونجھ،پنداں والیاں کولوں دانے،دریا وگ وے،پٹھے تے کنک، مونجی دا مگنا،ہیر دا پلنگ،رانجھے دا لیٹنا،لڈن دا منع کرنا ۔
ہیر میں ہزاروں الفاظ جو خالصتاً پنجابی کے ہیں ہیر میں عورت کے لیے ایک سو سے زیادہ الفاط کہے گئے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں: گربھ،گیلی، لٹا باؤلی،انا کھڑی،پھپھے کٹنی،چھباری وغیرہ ۔وارث شاہ نے ہیر کے علاوہ معراج نامہ،اشتر نامہ۔ نصیحت نامہ،چوہیڑی نامہ،ڈوہڑے اور قصیدہ بردہ شریف کا ترجمہ بھی کیا۔
٭٭٭٭٭
“