آج عالم اسلام کے عظیم عالم دین سید سلیمان ندوی کی تاریخ پیدائش بھی ہے اور تاریخ وفات بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید سلیمان ندوی 22 نومبر 1884ء کو صوبہ بہارکے ایک گائوں دلیسنہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1901ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے جہاں علامہ شبلی نعمانی نے ان کی شخصیت کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
مولانا شبلی نعمانی کی وفات کے بعد وہ مولاناکے قائم کردہ ادارے ندوۃ المصنّفین سے وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے اس ادارے سے وابستگی کے دوران مولانا شبلی نعمانی کی نامکمل رہ جانے والی سیرت النبی مکمل کی۔
قیام پاکستان کے بعد سید صاحب جون 1950ء میں پاکستان چلے آئے۔ یہاں آنے کے بعد آپ نے پاکستان کے دستور کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے لیے بڑا اہم کام کیا اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ مل کر دستور کے رہنما اصول مرتب کیے۔
سید سلیمان ندوی نے 22 نومبر 1953ء کو کراچی میں وفات پائی۔
آپ کی نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی اور اسلامیہ کالج کراچی کے احاطے میں علامہ شبیر احمد عثمانی کے پہلومیں آسودۂ خاک ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ سیّد سلیمان ندوی مرحوم کے مکاتیب
تعارف:
علامہ شبلی کے جانشین اگر علامہ کی حیثیت سے کوئی ہو سکتے تھے تو وہ علامہ سلیمان ندوی ہی ہو سکتے تھے،کیا وسعتِ نظری اور کیا نظر میں گہرائی تھی۔ علامہ سیّد سلیمان ندویؒ کے علم و فضل کی شخصیات کی تعداد برصغیر کی تاریخ میں انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
انھوں نے اپنی علمی دینی تحقیقات سے ۲۰ بیسویں صدی کے پاک و ہند کومتاخرین کے لیے قابلِ رشک بنا دیا ہے،سرسیّد اور انکے رفقاء کا اُردو خدمات کا میدان بہت وسیع ہے لیکن سیدّ ندوی مرحوم نے اردو کے علمی مقام کو جو افتخار بخشا ہے،اوراپنی گونا گوں تحقیقات سے اس کے دامن کو جس طرح زَرنگار کیا ہے،سرسید اور انکے رفقاء کی عظمتوں کے اعتراف کے ساتھ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جامیعت، معیار،استناد اور مقدار کے اعتبار سے اتنا کام سرسید یا انکے کسی رفیق کا نہیں۔جب تک دنیا میں اردو زبان موجود رہے گی سیّد سلیمان ندویؒ کا نام اردو زبان کے محسن،محقق، اور علم وفضل کی علامت کے طور پر زندہ رہیگا۔
سیّد صاحب نے ایک بھرپور علمی زندگی گزاری، انکے شب و روز مطالعہ و تحریر کے لیے وقف رہے ، مطالعہ سے انھیں شوق ہی نہیں، بلکہ مطالعہ سے انھیں عشق تھا۔ اس زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر انھوں نے غور و فکر نہ کیا ہواوراپنے حاصل کردہ نتائج سے واقف نہ کرایا ہو۔ مذہب،تاریخ،تحقیق،قدیم اور جدیدعلوم، فلسفہ، ادب غرض کہ ہر شعبہء علم پرانھیں دسترس حاصل تھی۔سیّد صاحب ؒ کے اسلوبِ تحریر و طرزِ نگارش کے کیا کہنے!گویا اُنھوں نے ایک نیا طرزِ سخن ایجاد کرلیا تھا،انکے اُسلوب کے شاہکار نمونے انکے’’ خطوط‘‘ اور ’’یادِ رفتگاں‘‘ اور’’ سیرت النبی ﷺ‘‘میں ملتے ہیں،اور اسی سے وہ پہچانے جاتے ہیں، اسکے خاص اجزائے ترکیبی استدلال،تفہیم،سنجیدگی اور وقارہیں،وہ کوئی بات غیر منطقی انداز اور استدلال کے بغیر نہیں کہتے۔ اردو زبان کے انشاء پردازوں کی کوئی مختصر فہرست بھی تیار کی جائے گی تو علامہ سیّد سلیمان ندویؒ اپنے اسلوب کی بناء پر اس کے چند اولین انشاء پردازوں میں شمار کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ سیاسی تحریکات ، ملی خدمات کے باب میں بھی سیّد صاحب کی بہت سی خدمات ہیں جواُنکے بعدآنے والوں کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، خصوصاً نئی نسل کے لیے یہ تذکرہ خوشگوار حیرت اور باعثِ افتخار ہوگا کہ پاکستان کا اسلامی دستور مدون کرنے کے لیے ۳۱ جیّد ترین علماء کی ایک مجلس مقرر کی گئی تھی سیّد صاحب اسکی صدارت کے عہدہ پر فائز ہوئے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی تکمیل میں اُنھوں نے اہم کردار ادا کیا۔
موجودہ اسلامیہ لاء کالج جمشید ٹاؤن/ بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک گوشہ میں علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے مرقد کے برابریہ آفتابِ علم و ادب آسودۂ خاک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔
سیّد صاحب کے خطوط سے چند متفرق اقتباسات
[دینی مراکزکی تعمیر و ترقی کے لیے مخلصانہ سعی و فکر ۔احتیاط، معیار اور اُصول پسندی]
’’چھوٹے بچے دارالعلوم ہی کے کمروں میں رہتے ہیں، اس سے ایک تو عمارت خراب ہوتی ہے، دوسرے درس گاہوں کی کمی ہے، اس کی یہ تدبیر کی ہے کہ نواب مہدی یار جنگ بہادر نے مجھ سے اپنے اسکولوں کے لیے سیرت پر ایک مختصر سی کتاب لکھوائی تھی۔ جس کے اخراجاتِ طبع وہ دیں گے یا چھ۶ سو نسخے وہ خریدیں گے، جس سے بہ ہر حال اخراجات نکل آئیں گے، میں نے اس کتاب کے پانچ۵ ہزار نسخے چھپوائے ہیں،مجھے امید ہے کہ یہ ایک سال کے اندر اندر فروخت ہو جائیں گے اور چار ہزار کے قریب مل جائیں گے۔اس رقم سے چھوٹے بچوں کا دارالاقامہ بنوانا چاہتا ہوں، بالفعل تیس۳۰ لڑکوں کے لیے، اسی مناسبت سے اس دارالاقامہ کا ’’محمدیہ‘‘ رکھنا چاہتا ہوں، بہ تعلق رقمِ سیرت!
کتب خانہ کمروں سے نکل کر ہال میں جو آگیا تو اُس سے دوفائدے ہوئے کتب خانہ روشن ہوگیا اور کتابوں کے دیکھنے کا آرام ہوا، دوسرے یہ کہ خالی شدہ کمرے درس گاہ کے کام میں آئے۔ اس سے بڑی تکلیف دور ہوئی۔ابھی ندوہ میں عربی مدارس کے طلبہ کا عربی تقریر مقابلہ تھا۔ بحمداللہ کہ آپ ہی کا طالب علم سب سے اول آیا، اہل شہر کا کافی مجمع تھا، سب نے ندوہ کی اولیت کو محسوس کیا۔‘‘
’’مولوی مرتضٰے صاحب جو پہلے کتب خانہ میں تھے میرے پاس آئے تھے کہ ان کو کتب خانہ میں کر دیا جائے میں نے کہا اگر کتب خانہ میں آپ کے کام کا ریکارڈ اچھا ہے تو مجھے اختلاف نہیں، انھوں نے کہا کہ نواب صاحب خود مداح تھے، اگر آپ نے اُن کے کام کو پسند کیا ہے توضرور اُن کو کتب خانہ کی جگہ دے دیجیے۔کتب خانہ کی حفاظت ضروری اور لازمی ہے، اس کا بند رکھنا کتابوں کو نقصان پہنچاناہے۔‘‘
’’دارالمصنیفین کو اعظم گڑھ سے لکھنؤ منتقل کرنا گویابنے بنائے گھر کو اُجاڑنا ہے، اور اپنے کو لکھنؤ کی کشمکشوں میں آپ اُلجھانا ہے، سب سے بڑی چیز یہاں کی خاک میں استادمرحوم* کی لاش سپرد ہے، جس کا میں مجاور ہوں، اور جس کو میں تادمِ حیات نہیں چھوڑ سکتا۔ میرے لیے اعظم گڑھ سے باہر بیسیوں ترغیبات کے موقع پیش آئے مگر خدا نے مجھے مستقیم اور مستقل رکھا ۔وبِیَدِہِ الفَضل
ندوہ کی نظامت میں قبول کرتا ہوں اور اس سے بہتر کر کے دکھاؤں گا۔ ان شاء اللہ جو پچھلے دور میں تھا۔‘‘
’’والا نامہ نے متفخر کیا، میں خود چند روز سے خدمت والا میں بہ ذریعہ تحریر حاضر ہونے والا تھا، آپ نے پیش قدمی فرمائی، خالی جگہوں کے لیے مجھے خود فکر ہے اور میں تلاش میں ہوں، مدرسِ صرف و نحو کے لیے عملی مشاقی ضروری ہے، اس لیے نو آموز آدمی اس جگہ رکھتے ڈرتا ہوں۔ کتب خانہ کے لیے علمی آدمی اور دیانت دار ہونا چاہیے۔
نصاب کے کاغذات مولانا حمید الدین صاحب کو دکھا دیے، رمضان کے بعد ایک دن مولانا حمید الدین اور مولانا حفیظ اللہ کو بُلا کر مجلسِ نصاب کا جلسہ طے کر لیں گے۔
فقیہہ دوم کے لیے مولوی عبدا لحق صاحب ندوی کی درخواست آئی ہے اور چند اساتذہ نے ان کی تعریف کی ہے، ان کو مقرر کر لیجیے، مگر تقرر امتحاناً چھ ماہ کے لیے منظور فرمائیے، آپ ان کو کچھ نہ لکھیے میں لکھ دیتا ہوں،اگر فقیہہ دوم کے قابل ہوئے تو اس جگہ پ ورنہ صَرف و نحو کی مدرسی کی جگہ مقرر ہوجائیں گے، مجھ کو جو خط انھوں نے لکھا ہے اس میں دو میں سے ایک جگہ مانگی ہے‘‘۔
*علامہ شبلی نعمانی مرحوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔