سحر ابتدائی انسان کی نفسیاتی تدبیرں کا دوسرا نام ہے۔
ریاست فقط ایک جغرافیائی یا سیاسی حقیقت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ریاست اور قوم کی سرحدیں ایک ہوں۔
زبانیں مردہ ہو جاتی ہیں، لیکن ان کے الفاظ اور محاورے، علامات اور استعارات نئی زبانوں میں داخل ہوکر ان کا جز بن جاتے ہیں۔
رسم خط کی اصلاح کی بحث کو مذہبی رنگ نہ دیں کیونکہ رسم خط کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔
ریاست کے حدود اربع گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں، مگر قوموں اور قومی تہذیبوں کے حدود بہت مشکل سے بدلتے ہیں۔
اگر کوئی معاشرہ روح عصر کی پکار نہیں سنتا بلکہ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے، تو تہذیب کا پودا بھی ٹھٹھر جاتا ہے اور پھر سوکھ جاتا ہے۔
مذہب اور سحر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مذہب کا محرک قدرت کی اطاعت اور خوشنودی کا جذبہ ہے۔ اس کے برعکس سحر کا محرک تسخیر قدرت کا جذبہ ہے۔
تحریر کا رواج بھی تمدن ہی کا مظہر ہے کیونکہ وہ معاشرہ جو فن تحریر سے ناواقف ہو مہذب کہا جا سکتا ہے لیکن متمدن نہیں کہا جاسکتا۔
تہذیب جب طبقات میں بٹ جاتی ہے تو خیالات کی نوعیت بھی طبقاتی ہو جاتی ہے اور جس طبقے کا غلبہ معاشرے کی مادی قوتوں پر ہوتا ہے، اسی طبقے کا غلبہ ذہنی قوتوں پر بھی ہوتا ہے۔
جو لوگ رومن رسم خط پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ رومن ابجد کے حروف سے ہماری تمام آوازیں ادا نہیں ہوتیں، وہ اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگر رومن ابجد کے حروف ہماری تمام آوازوں کو ادا نہیں کر سکتے تو عربی ابجد کے حرف بھی ہماری تمام آوازوں کو ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...