سیّد صاحب۔۔……( سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ)
یہ کیا شیطانی حرکت ہے۔۔ میرے بزرگ مجھ پر گرجے
" جی۔کیا ہوگیا" میں نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
" یہ تمہاری داڑھی ہے؟ ایسی داڑھی ہوتی ہے؟" میری چھدری سی داڑھی بزرگ کے غیض وغضب کا نشانہ تھی۔
" وہ ایک عالم دین ہیں اپنے پاکستان کے۔ ان کا کہنا ہے کہ داڑھی کے تقاضے زیادہ اہم ہیں بہ نسبت داڑھی کی مقدار کے۔۔اور یہ کہ اسلام میں داڑھی ہے ، داڑھی میں اسلام نہیں ہے" میں نے منمناتی سی آواز میں صفائی پیش کی۔
" مجھے پتہ ہے تم کس کی بات کررہے ہو۔ نہ جانے کیا الا بلا پڑھتے رہتے ہو۔ وہ ایک گمراہ شخص ہے۔ "
" اچھا جی" میں نے گردن جھکالی۔ بزرگ بڑے دیندار تھے میں بھلا ان سے کیا بحث کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" جہیڑے سو یہودی مرے تے اے پیدا ہویا" منبر پر بیٹھے رنگین پگڑی والے مولانا جمعہ کا واعظ فرمارہے تھے۔
یہ مضافات کی ایک چھوٹی سی مسجد تھی جہاں اکثریت پنجابی آباد کاروں کی تھی۔ میں پہلی بار یہ پنجابی اور اردو کا ملغوبہ سن رہا تھا۔ مولانا کی تقریر میں " بغیرت" " کنجر" اور کافر کے الفاظ بکثرت سنائی دے رہے تھےاور مسجد کے ماحول میں بہت ہی کثیف اور غلیظ محسوس ہوتے تھے لیکن مولانا کا جنون ہر گالی کے ساتھ بڑھتا ہی جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ میرے اپنے گھر میں میرے قریبی عزیز مدعو ہیں۔ بے تکلف باتیں ہورہی ہیں۔ کسی بات پر مولانا مودودی کا حوالہ سننے میں آیا۔
" ارے آپ کس کی بات کررہے ہیں؟ " یہ میرے ایک بہت ہی قریبی اور نوجوان عزیز ہیں۔
" ہمارے بڑے ابا سے ہم نے 'اُس' کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے سوال کیا کہ تم اگر بیمار ہو تو دوا کس سے لوگے، ڈاکٹر سے یا کمپاؤنڈر سے؟ "
" یہ شخص وہ کمپاؤنڈر ہے" میرے عزیز نے طنز آمیز ہنسی کے ساتھ بتایا ۔ محفل میں کچھ اور لوگ بھی اس ہنسی میں شامل تھے۔
" تم نے پڑھا ہے انہیں" میں نے زخم خوردہ آواز میں سوال کیا۔
" نہیں۔ پڑھنے کی ضرورت کیا ہے۔ بڑے ابا کے حضرت صاحب بھی یہی کہتے ہیں " میرا یہ عزیز بہت ذہین، اعلٰی تعلیمیافتہ ہے اور ایک بہت بڑے ادارے میں بہت ہی بڑے عہدے پر فائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیّد صاحب کا نام اپنوں کے سامنے جب بھی لیا کچھ ایسے ہی جملے سنائی دیے۔ لیکن جہاں میں کام کرتا ہوں میرے ساتھ دنیا بھر کے لوگ کام کرتے ہیں جن میں عرب ممالک کے ساتھی بھی ہیں۔
یہ عبدالرحمان الخماش ہے۔ اردن کا رہنے والا۔ کسی بات پر عالم اسلام کے علماء کی بات ہورہی ہے۔ وہ شیخ شعرا وی، شیخ القرضاوی اور شیخ البانی کے نام لیتے ہوئے اچانک سّید مودودی کا نام لیتا ہےتو میں چونک پڑتا ہوں۔ وہ بتاتا ہے کہ سید صاحب کے حوالے اردن کی دینی گفتگو میں سنائی دیتے ہیں۔
اور یہ محمد اوزین (حسین) ہے۔ یہ الجزائری ہے۔ مودودی کے ذکر پر انہیں " امام مودودی" کہہ کر یاد کررہا ہے۔ میرے استفسار پر کہتا ہے کہ ہمارے ہاں انہیں یہی درجہ دیا جاتا ہے۔ میں نے پاکستان میں سید صاحب کے ساتھ یہ سابقہ یا لاحقہ کبھی نہیں سنا۔
اور یہ میرا جذباتی سوڈانی ساتھی ' ہادی ' ہے۔
ہادی جس نے ۲۹ مئی ۱۹۹۸کی صبح (جب میں میں دفتر میں سر جھکائے کام کررہا تھا کہ میرے ہندوستانی ساتھی آپس میں سرگوشیاں کررہے تھے اور مجھ سے بات کرنے سے کترا رہے تھے۔ ) مجھے دونوں کاندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا تھا اور پرجوش آواز میں کہہ رہا تھا " مبروک' " اللہ اکبر"
They did it??? Six times
ہادی کی آواز میں ارتعاش تھا۔ وہ مجھے پاکستان کے ایٹمی دھماکے کی مبارکباد کچھ یوں دے رہا تھا جیسے اس کے اپنے ملک نے یہ کارنامہ انجام دیا ہو۔
اور یہ ہادی جب مجھ سے بات کرتا ہے تو جمال الدین افغانی، حسن البنا، محمد قطب، مہدی سوڈانی اور سید ابوالاعلٰی مودودی کے نام لیتا رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے عرب ساتھی جس عقیدت اور محبت سے سیّد صاحب کی بات کرتے ہیں اسی قدر میں اپنے کسی پاکستانی دوست یا کسی محفل میں ان کا ذکر کرتے ہوئے گھبراتا ہوں کہ طعن ودشنام کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور یہ سب وہ ہیں جنہوں نے سید صاحب کی کسی کتاب کا ایک حرف بھی نہیں پڑھا۔
اور پھر میں انہیں دیکھتا ہوں جو سید صاحب کی فکر کے اسیر ہیں اور ان کی تحریک سے وابستہ ہیں۔ یہ بڑے عجیب وغریب لوگ ہوتے ہیں۔
میں کراچی میں بہار کالونی جیسی پسماندہ بستیوں میں بھی رہا، کورنگی اور لانڈھی جیسے علاقوں میں بھی رہا اور سوسائٹی اور نارتھ ناظم آباد جیسے پڑھے لکھے لوگوں والے علاقوں میں بھی رہ چکا ہوں۔
ان تمام آبادیوں میں کچھ لوگوں کو دیکھا ، باریش، سادہ لیکن صاف ستھرے لباسوں والے، تعلیم میں اپنے آس پاس کے لوگوں سے آگے اور کردار واخلاق میں سب سے ممتاز۔ لوگ جن کی شرافت اور راست بازی کے معترف، محلے کی فلاح و بہبود کے کاموں میں سب سے آگے اور قابل اعتبار اور ایماندار۔۔۔۔ جی ہاں یہ وہ ہیں جو سید مودودی کی فکر کے متاثرین اور ان کی تحریک سے وابستہ ہیں اور ہر محلے میں اور ہر آبادی میں دوسروں سے مختلف نظر آئیں گے۔
مجھے پی آئی آئی اے ( Pakistan Institute of Industrial Accountants)کے وہ سفید کرتا پاجامہ میں ملبوس غفور صاحب یاد آتے ہیں جن کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ہوتی تھی اور جنہیں طلبہ لیکچر کے بعد بھی گھیرے رہتے تھے۔ جی ہاں۔۔۔یہ پروفیسر غفور احمد تھے، جماعت اسلامی کے رہنما۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب اس تربیت اور تعمیر اخلاق کا پر تو تھے جو سید مودودی نے اپنے رفقاء اور پیروکاروں میں پیدا کی۔ اور جن کی تربیت سے ان کے رفقاء ور کارکنان شرافت اور اعلی کر داری کے اس درجے پر پہنچے ان کا اپنا کیا حال ہوگا۔
اور میرا اپنا یہ حال کہ سید صاحب کی تصویر دیکھتا ہوں تو نظریں احترام میں جھکتی چلی جاتی ہیں، ان کو پڑھتا ہوں تو ایک ایک بات دل و دماغ میں روز روشن کی طرح واضح ہوتی چلی جاتی ہے اور جب انہیں سنا تو ایک جہان حیرت میں گم ہوگیا کہ یہ اتنے بڑے، بلکہ یوں کہئیے کے ہمارے دور کی سب سے بڑی شخصیت کی آواز اور ان کا کلام ہے۔ اتنا دھیما پن، اتنی سادگی، اتنے آسان ترین الفاظ میں گفتگو۔ کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ وہ ہستی ہے ایک دنیا جنہیں اپنا فکری رہنماء مانتی ہے۔
اور بخدا یہ سید مودودی علیہ رحمہ کے بارے میں کوئی مقالہ یا معلوماتی مضمون نہیں ہے۔ میں کیا اور میری اوقات کیا جو عالم اسلام کی اس عظیم ترین ہستی کے بارے میں کچھ کہہ سکوں، اور میرے پاس کہنے کے لئے ہے ہی کیا، سورج کی روشنی ہی اس کے وجود کی دلیل ہے۔ سید مودودی کی عظمت اور مرتبے سے کون واقف نہیں۔
یہ تو وہ اظہار عقیدت اور محبت ہے جو نجانے کب سے اس دل میں گھر کئے ہوئے ہے۔بلکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اس وقت سے جب میں سید صاحب کا پورا نام بھی نہیں جانتا تھا۔
چھٹی یا ساتویں جماعت کی بات ہے۔ ہمارے اردو کے استاد جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ ان کا طریقہ تعلیم دیگر اساتذہ سے مختلف تھا۔ وہ نصاب سے کم پڑھاتے تھے لیکن تربیت کے دیگر پہلوؤں پر زیادہ توجہ رکھتے۔ ہم سے اکثر کہتے کہ کوئی سوال کرو۔ ہمیں اکثر قصے کہانیاں اور لطیفے بھی سناتے اور ان سے بہت بے تکلفی بھی تھی۔
کسی طالبعلم نے سوال کیا کہ مولانا مودودی کو موت کی سزا کیوں ہوئی تھی۔ ہمارے استادنے، ایثار عبداللہ جن کا نام تھا ، کچھ قادیانی تحریک وغیرہ کے بارے میں بتایا جو کچھ زیادہ سمجھ میں نہیں آیا۔ لیکن جو بات یاد رہی وہ یہ کہ مولانا نے سزا کو بہادری سے قبول کیا اور کوئی رحم کی اپیل نہیں کی اور یہ کہ بعد میں شاہ سعود اور عالم اسلام کے دیگر ممالک کی مداخلت کے سبب ان کی سزائے موت منسوخ کردی گئی۔
لیکن اس کے بعد سے جو فرق سید صاحب میں اور دیگر علماء میں نظر آیا اور تازندگی ذہن پر سوار ہے وہ یہ کہ دیگر مفتیان کرام اور اہل جبہ ود ستار تائید ستم اور حکومت وقت کی مداح سرائی کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے اور ایک نہایت آرام دہ اور پرسکون زندگی گذارتے ہیں ۔ دار ور سن کے تجربے اور قید بند کی صعوبتوں سے انہیں کوئی علاقہ نہیں۔
اور یہ سید صاحب ہیں کہ تین فوجی افسر جنہوں نے ان پر مقدمہ چلایا ، انہیں جیل کی کوٹھڑی میں سزا سنانے آتے ہیں کہ قادیانی مسئلہ نامی کتابچے کی اشاعت کے جرم میں آپ کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ آپ اس سزا کے خلاف اپیل نہیں کرسکتے ہاں رحم کی درخواست کرسکتے ہیں
اور ہمت وعزیمت کا یہ کوہ گراں ان فوجیوں کو جواب میں کہتا ہے مجھے تمہارے رحم کی ضرورت نہیں۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں، آسمان میں ہوتے ہیں۔ اگر آسمان پر میری موت کا فیصلہ ہوگیا ہے تو مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اور آگر وہاں میری زندگی کا فیصلہ ہوگیا ہے تو تم میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ "
عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے دعویدار بے شمار ملیں گے۔ وہ بھی ملیں گے جنہوں نے اس عقیدے کی خاطر جانیں بھی لیں لیکن ساتھ ہی رحم کی درخواست بھی کرتے رہے۔ اس ساری تحریک میں صرف ایک نام ہے جو
اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مکر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجزداغ ندامت
کی تعبیر بنے رہے اور کبھی طاغوت کے سامنے سر نہ جھکایا اور وہ ہیں میرے سید صاحب۔
ان کے نکتہ چیں جس قدر ان پر تبرا بازی کرتے وہ سید صاحب کے حق میں اللہ تعالی کی رحمت ہی ثابت ہوتی۔ مخالفین کی دشنام طرازی ، سننے والوں میں تجسس پیدا کرتی اور وہ متوجہ ہوتے کہ ایسی کیا بات کہی ہے اور یہ مولانا کی تحریر کا اعجاز تھا کہ جو کوئی انہیں پڑھتا ہے ان کا گرویدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال مشہور قانون دان اے کے بر وہی کی ہے۔ مولانا کے خلاف کسی مقدمے کی تیاری میں مولانا کی تحریر پڑھنا پڑی اور وہ مولانا کی تحریر، فکر اور شخصیت کے اسیر ہوگئے۔
اور جس قدر ان کے مخالف ہیں اس سے کہیں زیادہ بڑی تعداد ان صاحبان علم کی ہے جو مولانا کے دسترخوان کے خوشہ چیں رہے اور رفعتیں پاگئے۔ صرف تحریر کے میدان میں دیکھیں تو مولانا کے متاثرین کی ایک لامتناہی فہرست ہے جن میں ماہر القادری، نعیم صدیقی ، اسعد گیلانی، جیلانی بی اے، ارشاد حسین حقانی اور بے شمار نام ہیں۔
بر وہی صاحب کے علاوہ الطاف گوہر جیسے دانشور بھی مولانا کے فکری متاثرین میں سے ہیں۔ اور ان میں وہ بھی ہیں جو مولانا کی زیر تربیت رہے پھر ان سے اختلاف بھی کیا لیکن مولانا کی عظمت ومرتبہ کے معترف بھی رہے ان میں ڈاکٹر اسرار احمد اور جاوید غامدی جیسے نام بھی ہیں۔
جس خوبی، جامعیت اور دقّت نظری سے سید صاحب نے شریعت اسلامیہ اور قرآنی اصول اور احکام کی تفسیر تعبیر کی اس کی نظیر ان کے ہم عصروں کے ہاں ہی نہیں ، اسلام کی ہزار بارہ سو سالہ تاریخ میں بھی اس پیمانے پر کسی نے شاید ہی کام کیا ہوا۔ انسانی زندگی کا ہر شعبہ چاہے وہ تعلیمی، تہذیبی، اخلاقی اور مذہبی ہو یا اقتصادی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی ہو، سید صاحب کے ہاں ان کا اسلامی نقطہ نظر سے گہرا مطالعہ نظر آئے گا۔ اور پھر موضوعات کا تنوع اور ہمہ گیری دیکھئے۔
الجہاد فی السلام، پردہ، سود، تنفیحات، تعلیمات، خطبات، اسلام اور ضبط ولادت، سنت کی آئینی حیثیت، اسلامی ریاست کے اصول، خلافت وملوکیت غرض ملت اور امت سے متعلق ہر موضوع پر مولانا کی تحریر جامعیت کے ساتھ ملے گی۔
سید صاحب کو خدا نے دین کا صحیح فہم عطا فرمایا تھا۔ قرآن میں غوطہ زن ہونے کی وجہ سے ان کی نظر سراسر اسلام کی نظر بن گئی اور پھر بقول ماہر القادری ، تفہیم القرآن تو مولانا کے علم وفضل اور دینی بصیرت کی سب سے بڑی شہادت، سند اور صداقت ہے ۔
سادگی، پرزوراستدلال، متانت وسنجیدگی، عالمانہ وقار، زور بیان اور سلامت و شستگی غرض ایک تحریر میں جو خوبیاں ہیں وہ سید صاحب کے ہاں اعلی درجہ پر نظر آئیں گی۔
اور سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ کرتے ہیں تنقید بھی انہی پر ہوتی ہے۔ مولانا کوئی فرشتہ یا نبی نہیں تھے۔ ان سے بہت سی اجتہادی غلطیاں بھی ہوئی ہونگی۔ لیکن مولانا نے اپنی جانب آنے والے کسی پتھر کو نہیں لوٹایا۔ خاموشی سے سہنا لیکن اپنی بات سے پیچھے نہ ہٹنا۔ یہ وہی صفت ہے جو پیغمبروں میں ہوتی ہے۔
ہمارے دور کے ایک نابغہ اور فلسفی جناب احمد جاوید کے بقول کردار کی انتہائی بلندی، علم کا انتہائی اوج، ارادے کی انتہائی مضبوطی اور اخلاق کا انتہائی کمال تاریخ اسلام کی جن شخصیات میں جمع ہوئی ہیں ، مولانا مودودی اس سلسلے کے آخری آدمی تھے۔
اسلام کی ہزار سال سے زیادہ کی تاریخ میں اپنی معاصر دنیا پر اثرانداز ہونے والی کوئی شخصیت مولانا کے برابر نہیں ۔ آج چیچنیا، سوڈان، الجزائر، ترکی، مصر، انڈونیشیا یہاں تک کہ ایران میں احیائے دین کی جو تحریکیں بھی چل رہی ہیں ، بلاشبہ سید صاحب ان تمام تحریکوں کے امام ہیں۔
سید صاحب کے بارے میں کچھ کہنے کی تمنا نجانے کب سے تھی لیکن جب بھی یہ خیال آتا زبان گنگ ہوجاتی، قلم زنگ آلود محسوس ہوتا اور اپنی کم علمی اور کم مائیگی کا احساس شدید تر ہوتا چلا جاتا۔ اپنی عقیدت کو نجانے کب سے سینے میں دبائے ہوئے سوچتا رہتا کہ اتنی بڑی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے کہیں قلم لڑکھڑا نہ جائے اور کوئی گستاخی سرزد نہ ہو،
ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم اس عظیم شخصیت کے دور میں پیدا ہوئے جس کے ذکر سے دل ونگاہ احترام سے جھکتے چلے جاتے ہیں۔
مولانا کی زندگی تو مثالی تھی ہی موت بھی ایک مثال بن گئی۔ بفیلو، امریکہ سے ان کا جسد خاکی جہاں جہاں رکا، لاکھوں لوگوں نے ان کی نماز جنازہ ادا کی اور شاید یہ واحد واقعہ ہے کہ میت کی موجودگی میں کئی جگہ نماز جنازہ ہوئی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ملت کو سیّد صاحب جیسی ہستی ملتی ہے یا نہیں۔
دگر دانائے راز آید کہ ناید
رب کریم اس دانائے راز کی قبر کو اپنے نور سے بھردے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔