سیّد محمد ناصر علی کے متعلق پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے درست لکھا ہے کہ”مطالعہ، فوٹوگرافی اور مصوری سید ناصر علی کے خاص شوق ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے، کہانیاں اور مضامین ان کے صاحب طرز ادیب ہونے کی عکاسی کر تے ہیں“۔بلاشک و شبہ آپ ایک اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں۔ان کی کتاب ”قلم رکنے سے پہلے“ پر تبصرہ کرتے ہوئے خورشید عابد لکھتے ہیں:
اردو ادب میں کئی بیوروکریٹس نے بہت نام کمایا ہے، شہاب صاحب ایک عمدہ مثال کی صورت
ہمارے سامنے ہیں۔حال ہی میں کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف علمی و ادبی شخصیت سید
محمد ناصر علی کی کتاب ”قلم رکنے سے پہلے“ منظرِ عام پر آئی ہے۔اس کتاب کی سب سے بڑی
خوبی اس کی readability ہے یعنی اس کتاب میں سوانح، کالم،مزاح، یادنگاری، سیاست،
فلسفہ اورایسے کئی محاسن ہیں جو سیّدمحمد ناصر علی کی تحریروں میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔
بقائی میڈیکل یونیورسٹی کراچی نے 2005ء میں انسٹیٹیوٹ فار قائدِ اعظم ؒ اسٹڈیز قائم کیا اور سیّد محمد ناصر علی اس کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ اس ادارے کے قیام کے ساتھ ہی پہلی ”قائد اعظم ؒقومی کانفرنس“ اسی سال منعقد ہوئی۔سیّد ناصر علی صاحب نے ان کانفرنسز کے موقع پر پڑھے جانے والے مقالات اور تقاریر کی تدوین کی اور انہیں زیورِ طباعت سے آراستہ کیا۔ کانفرنسز کے ان کتابچوں پر ناصر صاحب نے ”حرف چند“ کے عنوان سے ان کی ضرورت، اہمیت وافادیت اور ان کے متن پر نہایت اختصار سے روشنی ڈالی نیز کانفرنسز کی رودادیں بھی رقم کیں۔ اب سطورِ ذیل میں ان کتابچوں پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے گی۔
تقاریر ومقالات”قائدِ اعظم ؒقومی کانفرنس“ 2005ء کو مدون کرنے اور قرطاسِ ابیض پر منتقل کرنے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے سیّد ناصر علی رقم طراز ہیں؛
اس کاوش کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ پاکستان اور اسلام کے بارے میں قائدِ اعظمؒ کے حوالے سے گزشتہ کئی سال
سے اپنی اپنی من پسند تاویلات نے صورتِ حال کو انتہائی گنجلک کر دیا ہے۔جب کہ اصل حقیت یہ ہے کہ اسلام مکمل
دین اور ابدی ضابطہ حیات ہے۔سیاسی، سماجی، فوجی، معاشی، معاشرتی غرض کہ زندگی کی سب جہتوں پر محیط ہے۔یہ
امن وسلامتی کا دین ہے۔مغرب کی موجودہ یلغار میں یہ پرپیگنڈہ کہ مسلمان ہی نہیں اسلام میں بھی دہشت گردی کا
عنصر ہے۔ مغرب کا رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے آئینے میں دوسروں کا چہرہ دیکھتا ہے۔
مندرجہ بالا اقتباس اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ موصوف کا قلم پاکستان اور اسلام کے سنہری اصولوں کا پاسدار ہے اور وہ ہر اس کہ محمد علی جناح کی شخصیت اور فکر ابھر کر سامنے آجائے۔قائدِ اعظم پر ان کے نام کے اثرات تھے۔محمد ﷺ اور
حضرت علی ؓ کے اسمائے گرامی کے مجموعے کے حامل محمد علی جناحؒ کو پاکستان بننے کے بعد موجودہ نسل خصوصاً
طلبہ وطالبات کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے۔
اسی تناظر میں بقائی یونیورسٹی کے ”انسٹیٹیوٹ فار قائد اعظم اسٹڈیز“ کے زیرِ اہتمام تیسری ”قائدِ اعظم ؒقومی کانفرنس“کا انعقا د اگست 2007ء میں ہوا جس میں کی جانے والی تقاریر اور مقالات کو مدون کرکے کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا۔ اس کتاب میں ”دل کی بات“ کے عنوان سے ناصر صاحب رقم طراز ہیں:
میں اپنی سادگی میں گزشتہ دو برس سے لکھ رہاہوں کہ بقائی میڈیکل یونیورسٹی نے سائنسی، طبی وتعلیمی ادارہ ہونے کے باوجودقائد اعظمؒ قومی کانفرنس کا اجرا کرکے پاکستان اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے تعلق اورمحبت رکھنے والوں کی روح کو سرشار کر دیا ہے۔۔۔بقائی کی جانب سے اس قومی کانفرنس کا انعقاد محض ایک رسمی کاروائی نہیں بلکہ ذہن سازی اور اس عمل کے ذریعے کردار سازی ہے۔
تقاریر ومقالات”قائدِ اعظم ؒقومی کانفرنس“ 2008ء کے مرتبہ کتاب کے آغاز میں سیّد ناصر علی ڈاکٹرفریدالدین کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
قائدِاعظمؒ محمد علی جناحؒ تحریکِ پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے، ان کے دو مشترکہ حریف انگریز اور ہندو تھے جب کہ
تیسرے ہمارے اپنے ملاّ تھے؛ جن کے ہاتھ اور خیالات کسی اور سے ملے ہوئے تھے۔قائدِ اعظم ؒنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ان تینوں عناصر کو شکست دی۔ اسی کانفرنس کی روداد کو نہایت سلیقے اور ادبی قرینے سے رقم کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
قائدِ اعظم ؒ ہند کی سیاست سے بدظن ہو کر لندن میں بے فکری کی زندگی گزار رہے تھے۔ علامہ نے خطوط لکھے اور وطن واپسی کے لیے زور دیا۔ 1934ء میں وہ علامہ اور دیگر صاحبان کے اصرار پر ہندوستان واپس آئے۔
دونوں رہنماؤں کی فکری یکجہتی نے مسلمانوں کو منزل تک پہنچایا __اور پاکستان بن گیا__ آج ہم قائدِاعظم اورتحریکِ پاکستان کی یاد منارہے ہیں۔ اس یاد میں دونوں بزرگ ہستیوں کا تذکرہ ہورہاہے۔
ڈاکٹر عفان سلجوق نے حالات ِ زمانہ پر اقبال کی زبان میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کردے
مورِ بے مایا کو ہم دوش سلیماں کردے
جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کردے
ہند کے دیرنشینوں کو مسلماں کردے