آج – 14؍نومبر 1949
معروف خطیب،معلم اور " شاعرِ ہفت زبان" ” سیّد نصیر الدین نصیر گیلانیؒ صاحب “کا یوم ولادت…
پیر نصیر الدین نصیر چشتی ایک شاعر ،ادیب ،محقق ،خطیب ،عالم اور صوفی باصفا و پیر سلسلہ چشتيہ تھے۔ آپ اردو، فارسی اور پنجابی زبان کے شاعر تھے۔ اس کے علاوه عربی، ہندی، پوربی اور سرائیکی زبانوں میں بھی شعر کہے۔ اسی وجہ سے انہین "شاعر ہفت زبان" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ پیر غلام معین الدین (المعروف بڑے لالہ جی) کے فرزند ارجمند اور پير مہر علی شاہ کے پڑپوتے تھے۔ آپ کی ولادت 14؍نومبر 1949ء میں گولڑه شریف میں ہوئی۔ آپ گولڑہ شریف کی درگاہ کے سجادہ نشین تھے۔ پیر صاحب کا انتقال 13؍ فروری 2009ء کو ہوا ۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
معروف شاعر پیر نصیر الدین نصیر کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
دین سے دور، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں
تیری دہلیز پہ ہوں، سب سے الگ بیٹھا ہوں
ڈھنگ کی بات کہے کوئی، تو بولوں میں بھی
مطلبی ہوں، کسی مطلب سے الگ بیٹھا ہوں
بزمِ احباب میں حاصل نہ ہوا چین مجھے
مطمئن دل ہے بہت، جب سے الگ بیٹھا ہوں
غیر سے دور، مگر اُس کی نگاہوں کے قریں
محفلِ یار میں اس ڈھب سے الگ بیٹھا ہوں
یہی مسلک ہے مرا اور یہی میرا مقام
آج تک خواہشِ منصب سے الگ بیٹھا ہوں
عمرکرتا ہوں بسر گوشہ ء تنہائی میں
جب سے وہ روٹھ گئے، تب سے الگ بیٹھا ہوں
میرا انداز نصیر اہلِ جہاں سے ہے جدا
سب میں شامل ہوں، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں
══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══
کبھی ان کا نام لینا کبھی ان کی بات کرنا
مرا ذوق ان کی چاہت مرا شوق ان پہ مرنا
وہ کسی کی جھیل آنکھیں وہ مری جنوں مزاجی
کبھی ڈوبنا ابھر کر کبھی ڈوب کر ابھرنا
ترے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے
نہ کسی کی بات سننا، نہ کسی سے بات کرنا
شب غم نہ پوچھ کیسے ترے مبتلا پہ گزری
کبھی آہ بھر کے گرنا کبھی گر کے آہ بھرنا
وہ تری گلی کے تیور، وہ نظر نظر پہ پہرے
وہ مرا کسی بہانے تجھے دیکھتے گزرنا
کہاں میرے دل کی حسرت، کہاں میری نارسائی
کہاں تیرے گیسوؤں کا، ترے دوش پر بکھرنا
چلے لاکھ چال دنیا ہو زمانہ لاکھ دشمن
جو تری پناہ میں ہو اسے کیا کسی سے ڈرنا
وہ کریں گے نا خدائی تو لگے گی پار کشتی
ہے نصیرؔ ورنہ مشکل، ترا پار یوں اترنا
●━─┄━─┄═•✺❀✺•═┄─━─━━●
مری زیست پر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
کوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
مجھے حسن نے ستایا، مجھے عشق نے مٹایا
کسی اور کی یہ حالت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
وہ جو بے رخی کبھی تھی وہی بے رخی ہے اب تک
مرے حال پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
وہ جو حکم دیں بجا ہے، مرا ہر سخن خطا ہے
انہیں میری رو رعایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
جو ہے گردشوں نے گھیرا، تو نصیب ہے وہ میرا
مجھے آپ سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
ترے در سے بھی نباہے، در غیر کو بھی چاہے
مرے سر کو یہ اجازت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
ترا نام تک بھلا دوں، تری یاد تک مٹا دوں
مجھے اس طرح کی جرأت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
میں یہ جانتے ہوئے بھی، تری انجمن میں آیا
کہ تجھے مری ضرورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
تو اگر نظر ملائے، مرا دم نکل ہی جائے
تجھے دیکھنے کی ہمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
جو گلہ کیا ہے تم سے، تو سمجھ کے تم کو اپنا
مجھے غیر سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
ترا حسن ہے یگانہ، ترے ساتھ ہے زمانہ
مرے ساتھ میری قسمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
یہ کرم ہے دوستوں کا، وہ جو کہہ رہے ہیں سب سے
کہ نصیرؔ پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
پیر نصیر الدینؒ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ