ناصر صاحب کا قلم سے ٹوٹارشتہ جوڑنے کی سعی کرنیوالی شخصیت بھی بڑے رکھ رکھاؤ،تہذیب کی آئینہ دار ہے اورمیرے لیے بہت محترم ہے کہ جب کبھی ان سے فون پر گفتگو ہوتی ہے تو اس میں چاہ کے ساتھ چاہت کا عنصربھی نمایاں ہوتا ہے۔درحقیقت ناصر علی سرکاری ملازمت ترک کرکے بیرونِ ملک چلے گئے اور پھر دو عشروں تک قلم سے ان کا تعلق ٹوٹا رہا تا وقت کہ وہ پاکستان واپس آگئے اور بقائی یونیورسٹی میں محترم ذہین عالم سروہا سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چنانچہ ذہین عالم سروہا صاحب کی تحریک پران کے اندر کا سویا ہوا ادیب جاگ اٹھا اور اپنی ملازمت کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہوگئے۔ اس سلسلے میں سروہا صاحب کا یہ کہنا بہت ہی اہم ہے کہ:
مجھے ان کے بے ساختہ اور سادہ اندازنے متاثر کیا تھا۔ ان کی تحریر میں مزاح کی ایسی آمیزش تھی جو پیدا نہیں کی گئی تھی بلکہ وہ ایسی قدرتی رچاؤ اور روانی کی حامل تھی جس کااخراج ذہن کی جولانی اور طبیعت کی موزونیت کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ اہل علم کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مزاح لکھنا مشکل کام ہے مگر یہاں معاملہ برعکس تھا۔ سید کے پاس یہ مشکل کام آسانی سے ہورہا تھا۔ مگر ظلم یہ تھا کہ ایسا ادیب ملازمت کے گرداب میں گم ہوکر ہاتھ سے قلم جدا کر بیٹھا تھا۔
4 خود مصنف نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے اندر کے ادیب کو جگانے کا سہرا جناب سروہا صاحب کے سر جاتا ہے؛ کیونکہ اگر وہ انہیں اس طرف مائل نہ کرتے اور مزید لکھنے کے لیے قائل نہ کرتے تو اس کتاب کا منظرِ عام پر آنا نہ ممکن تھا۔ میں نے اس کتاب کو چار پانچ سال پہلے پڑھا تھا اور ایک سرسری گفتگو میں مصنف کی خوب ستائش کی تھی کیونکہ اس کتاب کا مواد واقعی تخلیقی محسوس ہوا تھا۔ اگرچہ یہ مضامین مصنف کے حالیہ دنوں کے نہیں اس کے باوجود ان میں ادبی اور کہنہ مشقی کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ خود مصنف کا یہ کہنا کہ:
اس کتاب میں شامل مضامین کئی دہائیوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ان میں سے بیشتر روزنامہ جنگ کراچی، روزنامہ مساوات کراچی،، ہفت روز نصرت اور اخبار جہاں میں چھپ چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو وزارت خارجہ اسلام آباد میں ملازمت و تحقیق کے دور میں لکھے گئے اور اخبارات کی زینت بنے۔ دورِ طالب علمی کا صرف ایک مضمون ”ادب و صحافت کا فرق“ شامل ہے۔
5 مصنف کے کہنہ مشق ہونے کی نوید سناتاہے۔ ”اپنی بھی ہے ایک کہانی“ میں ناصر صاحب نے اپنی داستانِ حیات مختصر لیکن خوبصورت پیرائے میں بیان کردی ہے، جو آنے والے وقت میں محققین کے کام آسکتی ہے۔”قلم رکنے سے پہلے“ میں شامل مضامین کوایک نقاد تین مختلف حیثیتوں سے دیکھ سکتا ہے کیونکہ ان میں زندگی نامہ بھی ہے اور مزاح کے عنصرکے ساتھ ساتھ افسانوی رنگ بھی ہے گویا مصنف نے تین مختلف اصنافِ ادب کو یکجا کردیا ہے۔ان مضامین میں ”انوکھا تعارف“__ ”منصوبے ایک نوجوان کے!“، ”ایک کپ شکر ادھار مانگ کر“ اور ”چابیوں کا گچھا __ کھوتارہاملتا رہا“ ایسے مضامین ہیں جو اپنے اندر مزاح کی شگفتگی اور الفاظ کی تازگی سمیٹے ہوئے ہیں۔اگرچہ مزاح لکھنا جان جوکھوں کا کام ہے لیکن اگر کوئی اسے پھکڑپن کا شکار نہ ہونے دے تو ادبِ لطیف میں اس کا مقام بہت بلند تصور کیا جاتا ہے۔جہاں تک ناصر صاحب کا تعلق ہے تو ان کے قلم سے فطری طور پر ایسے جملے اور فقرے لکھے گئے ہیں جو قاری کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔ذیل میں ان کے مضمون”ہائے میرا بٹوا“ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ سکوں۔ اس نے آگے بڑھ کر نعرہ لگایا۔ ”اوچور،بدمعاش“ چند قدم آگے کھڑے ہوئے نوجوان کو دبوچ لیا۔ چور۔ چور۔ کا شور مچادیا۔ بس میں ایک شور مچ گیا۔ ایک ہنگامہ الاامان حفیظ! جتنے منہ اتنی باتیں۔ صورت حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے ڈرائیور نے بس سٹرک کے کنارے کھڑی کردی کنڈکٹرلیڈیز کمپارٹمنٹ سے بھیڑ کو چیرتا پھاڑتا ہواس جگہ پہنچا۔ جہاں شاہد گرہ کٹ سے دست وگربیان تھے۔ ”کنڈکٹر“ شاہد نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔میں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ یہ ان بزرگ کی جیب سے بٹوہ نکال رہا تھا۔ اب بچہ کو پتہ چلے گا۔ نہ معلوم کتنے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کرچکا ہے۔
ٹھہرئیے! ذرا میری بھی تو سنئے۔ نوجوان عاجزی سے گڑگڑایا”پولیس کو بلاؤمردوو۔۔۔مار لگاؤ“ ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں۔میں جب اس سفید ریش بزرگ کی طرف متوجہ ہوا جن کی جیب سے بٹوا نکالاگیاتھا۔ وہ غصہ پر قابو پانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ آخر کار ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ خاموش! وہ چیختے ہوئے بولا۔ غصہ ضبط کرنے کی ناکام کوشش میں اس کا چہرہ تمتارہا تھا۔”یہ نوجوان جیب کترا نہیں ہے۔ یہ میرا بیٹا ہے میں نے اس سے کہا تھا کہ میری جیب سے بٹوہ نکال کر ٹکٹ لے لے۔
6 اسی طرح ”ایک کپ شکر ادھار مانگ کر“میں مزاح کا ہلکا سا رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔
ہمارا سامان ٹرک سے اتررہا تھااس وقت ایک صاحب کھڑے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ہم آٹھ بچے مختلف سائز کے اور پرانے قسم کا فرنیچر جو ہمارے ساتھ ساتھ گھومتا رہتا تھا۔ ہمارا یہ پڑوسی کئی ہفتوں تک ہماری نقل و حرکت کو بغور دیکھتا رہا۔ ایک دن اس کا پیمانہ تجسس لبریز ہوگیا۔ تو ہمیں بلا کر پوچھنے لگا۔ ”بچوں تم شورنہ مچاتے ہو نہ لڑتے جھگڑتے ہو؟کیا بات ہے؟
7 جیساکہ پہلے بیان ہو چکا کہ ناصر علی صاحب کے ان مضامین میں کہیں افسانوی جھلک بھی دیکھائی دیتی ہے اس سلسلے میں ”جہیز جنازہ“ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے ناجائز جہیز کی لعنت کو موضوع بنایا ہے کہ کس طرح اس کے اثرات معاشرے میں ناہمواریاں پیدا کرتے ہیں۔گویا اس افسانہ نما مضمون میں ناصر علی صاحب کے اندر چھپے ہوئے افسانہ نگار کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔بقول سروہا صاحب:
”جہیز جنازہ“ ناصر علی کے اندر چھپے ہوئے اچھے افسانہ نگار کو ظاہر کررہا ہے۔ انہوں نے جہیز کی لعنت اور اس کے اثرات لڑکیوں کی زندگی پر مبنی کہانی کی خوبصورت بنت کرکے افسانہ نگاری کے تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ اچھا افسانہ نگار ہونے کے لئے انسانی نفسیات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ان مضامین ”خارجی اثرات کا شخصیت کی تعمیر میں کردار“ __ ”بے راہ رو والدین“ اور ”خودکشی کیوں“ اس لحاظ سے اچھی کوشش ہیں۔
8 اسی افسانے سے اقتباس ملاحظہ کیجیے:
گھر میں قدم رکھتے ہی چھوٹی نند نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ بھابی میکے سے کیالے کرآئیں۔ ساڑھیاں اور کوئی ایک زیور ضرور ملاہوگا اور بھائی جان کے لئے سوٹ پیس بھی۔ اللہ ہمیں بھی دکھادیجئے۔ اس نے جھٹ سوٹ کیس کھول ساری چیزیں پلنگ پر بکھیردیں۔ چھوٹی نندکی ان باتوں پر اسے بے حد غصہ آیا لیکن وہ خاموش رہی۔ کہنے کے لئے اس کے پاس موزوں الفاظ نہیں تھے۔ وہ ایک معمولی ساڑھی کے سوا کچھ نہیں لائی تھی۔ ماں باپ کی سفید پوشی کا بھرم کس زبان سے کھولتی۔ یہ عورتیں تو صرف مال وزر کی زبان سمجھتی ہیں۔ چھوٹی نند جس کی عمر ۲۱ سال ہوگی۔مجسم فتنہ تھی۔ وہ بھاوج اور اس کے گھروالوں کے بارے میں ہتک آمیزباتیں کہہ گزرتی۔ ساس اور شوہر خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہتے۔ گھر میں کوئی بھی تو اس کا ہمدردوغم خوار نہیں تھا۔ وہ شدت غم سے غش کھا کر گرپڑی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس وقت بھی وہ فرش پر پڑی تھی۔
9 سیّد ناصر علی یونیورسٹی کے زمانے میں ایک اچھے فوٹو گرافر اور مصور کی حیثیت سے مشہور تھے لیکن بعد ازاں کسبِ روزگار میں کچھ ایسے پھنسے کہ یہ سب خواب ہو گیالیکن ان کے اس ہنر کی جھلک ان کے مضمون ”وادیئ کالام“میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اس وادی کی خوبصورتی کو دریائے سوات نے دو چند کردیا ہے۔ یہاں دریا زیادہ پرشور ہوگیاہے۔ دریا کے ایک جانب کالام کی چھوٹی سی بستی ہے جو صدیوں سے آباد ہے نیم پختہ مکانات پر مشتمل اس بستی کے مکانوں کا اپنا ایک طرز تعمیر ہے۔ اس کی تعمیر میں پتھر اور لکٹری استعمال کی گئی ہے۔ پتھروں کو لکٹری کے ٹکڑوں کے کھانچے بنا کر جوڑا گیا ہے۔ دیواروں کی جھریوں کو بندکرنے کے لئے کہیں کہیں مٹی کے گارے اور سیمنٹ سے کام لیاگیا ہے۔ یہاں مشکل سے سوگھرہوں گے۔ مکان پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر بھی تعمیر کئے گئے ہیں یہاں رہنا ان افراد کے سوا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس بستی کے پس منظر میں دیو قامت پہاڑ ہیں جن کی چوٹیوں پر برف اور ڈھلوانوں پر چیڑکے اونچے اونچے درخت کھڑے ہیں۔موسم بہار میں پھول اور پھل لگتے ہیں اور پس منظر میں دودھ کی طرح سفید دریائے سوات بہتا ہے جس کے پانی کو کئی جگہ سے کاٹ کر بڑی بڑی پن چکیاں لگائی گئی ہیں۔ان پن چکیوں میں بستی کے لوگ مکئی،گیہوں اور دوسرا اناج پیسنے کیلئے لاتے ہیں۔ مکئی یہاں کی خاص پیدا وار ہے گیہوں، نمک اور ضروریات زندگی کا دوسرا سامان سوات سے آتا ہے۔