(Last Updated On: )
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔
تقاریر ومقالات ”قائدِ اعظم ؒقومی کانفرنس“ 2009ء کی مطبوعہ کتاب میں لکھتے ہیں:
قائدِ اعظم کی واضح ہدایت تھی کہ مسلم لیگی کارکنان مظاہروں، دھرنوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ بابائے قوم کی تعلیمات پر عمل نہ کرکے پاکستانی قوم جس انتشار کا شکارہے،وہ ہمارا قومی المیہ ہے۔جس کے ذمہ دار ہمارے سیاسی اورسماجی اکابرین ورہنماہیں۔ نئی نسل کی تربیت سے غفلت برتی گئی۔
تقاریر ومقالات ”قائدِ اعظم ؒقومی کانفرنس“ 2010ء کی مطبوعہ کتاب میں ”حرفِ چند“ کے عنوان میں رقم طراز ہیں:
8/اگست2010ء کو چھٹی ”قائدِ اعظم ؒقومی کانفرنس“ بقائی یونیورسٹی کے سعیدہ آڈیٹوریم میں جاری تھی۔ اسی دوران اللہ کی رحمت بھی برس رہی تھی۔میں دفتر میں بیٹھا جب تک تقاریر کی ایڈیٹنگ کرتا رہا یہ منظر آنکھوں میں سمایا رہا۔
مقررین کی زبان سے پاکستان بنانے میں بلوچستان کاحصہ، اردو زبان کا تحریکِ پاکستان میں فعال کردار، پاکستان کی خارجہ پالیسی:رجحانات۔ خطرات۔ ممکنات،تعلیم کے میدان میں اہداف کے حصول میں کمزوریاں،خامیاں جیسے امورجب باربار مناظر کی شکل میں نظروں کے سامنے سے گزرے تو احساس ہوا کہ ملک میں بہت کچھ غلط ہو رہا ہے۔ کیوں ہوا اور کیوں ہو رہا ہے؟وجہ کی تلاش میں نکلا تو بابائے قوم کی پشاور میں سرکاری افسروں سے خطاب کے الفاظ سامنے آگئے:
”میں سیاسی رہنماؤں پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ سرکاری ملازمین کے کارِ منصبی میں دخل دیں گےاور ان پر سیاسی دباؤ ڈالیں گے تو اس کا نتیجہ بد عنوانی، رشوت ستانی اور اقرباپروری کی شکل میں برآمد ہو گا“۔
تقاریر ومقالات ”قائدِ اعظم ؒقومی کانفرنس“ 2011ء کی مطبوعہ کتاب میں ’حرفِ چند‘ میں منفی پروپیگنڈہ اور نوجوان نسل پر اس کے زہر کش اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے ذہن میں مایوسی درآتی ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں میں مجموعی طور پر حکومتوں نےنوجوانوں کو مایوس کیا ہے۔قیامِ پاکستان کے ہمارے خوابوں کو مسمار کیا گیا۔ توقعات اور بہتر مستقبل کا تصور جذبہ آزادی میں شامل تھا۔ حکمرانوں، سیاسی شعبدہ بازوں کی نااہلی، سیاسی تقرریاں، کنبہ پروری اور حصول مفادات کے کھیل نے عام آدمی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔
تقاریر ومقالات ”قائدِ اعظم ؒقومی کانفرنس“ 2012ء کی مطبوعہ کتاب کے ”حرفِ چند“ کے تحت ”تو بھی پاکستان ہے — میں بھی پاکستان ہوں اورپاکستان سورہ یٰسین کی تفسیر ہے“میں پاکستان کے وجود کی فکری اساس پر دلی کیفیات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میرا مدعا پاکستان اور پاکستانیت کو اجاگر کرنا ہے اور یہ بات ذہن نشین کرانی ہے کہ پاکستان اللہ کی دین ہے۔ ہمیں غلامی سے 27رمضان المبارک کو آزادی ملنا محض اتفاق نہیں، مشیتِ ایزدی ہے۔ پاکستان کی زمین میں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے ایسی نعمتیں بھر دیں ہیں، جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ان سے فائدہ حاصل کرنے کا حق سب پاکستانیوں کا ہے۔
تقاریر ومقالات ”قائدِ اعظم ؒقومی کانفرنس“ 2015ء کی مطبوعہ کتاب میں ”چند حرف“ میں سیّدناصر علی نے —جو اس کانفرنس کے معتمدِ اعزازی بھی تھے اور اس کتاب کے ایڈیٹر بھی—کچھ ان الفاظ میں اظہارِ خیال کیا ہے:
قائدِ اعظم بھی طلباکی قوت اور اہمیت کو تسلیم کرتے تھے۔ وہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنی مصروفیات سے وقت نکالتے اور تعلیمی اداروں کے پروگراموں میں شرکت کے لیے وہاں جاتے۔۔۔تاہم انہوں نے طلبا کو عملی سیاست سے دور رہنے کا مشورہ بھی دیا۔
بقائی یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر بقائی مرحوم نے میڈیکل کے شعبہ کے ساتھ ساتھ تاریخی، سماجی، ادبی اور نشر واشاعت کی طرف بھی خصوصی توجہ مرکوز رکھی نیز اردوزبان وادب کے لیے بھی نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ اردو زبان کی ترویج کے لیے انہوں نے یونیورسٹی کا ترجمان ماہنامہ ”بقائے صحت“ اردو میں جاری کیا جس کی ادارت کی ذمہ داری سیّد محمدناصرعلی کے کندھوں پر ڈالی گئی۔اس حیثیت میں انہوں نے اس کے اداریے لکھے اور کئی رودادیں شاملِ اشاعت ہوئیں۔ان اداریوں اور رودادوں کو پڑھ کر با آسانی ان کی جولانی ئ طبع اور زورِ قلم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
قبلہ ناصر علی صاحب کا ”بقائے صحت“ میں شائع ہونے والے مضامین کا انتخاب”گلدستہئ مضامین: ماہنامہ بقائے صحت سے انتخاب“ کے نام سے 2018ء میں منصہ شہود پرآیا۔ اس میں مختلف موضوعات پر لکھے گئے ان کے سنتیس(صحت مند طرزِ زندگی:شہد غذا بھی دوا بھی، بقائی میڈیکل اور ڈینٹل کے نو وارد طلبہ وطالبات کا یومِ آغازِ تعلیم، رودادا آٹھویں قائد ِ اعظمؒ قومی کانفرنس، 3/جون 1947ء کا منصوبہ، ڈینگی بخار سے بچاؤ، تحریکِ پاکستان، پریس اور قائدِ اعظم، قومی کردار، مستقبل کی تعمیر میں جت جائیں، BMUکے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس، 1976ء BMUسنگہائے میل بقائی یونیورسٹی، کشمیر میں میڈیکل کالج کے قیام کی تیاریاں، ابتدائی تعلیم۔۔۔اعلیٰ تعلیم کی بنیاد، ایک سلگتا مسئلہ، بقائی دل کا ہسپتال، بقائی یونیورسٹی کی بیس سالہ خدمات، صحت کے اصول، اپنے مسیحاؤں سے، دل پر نمک پاشی کیوں۔۔۔؟، محرمِ حروف ومعانی، شہرِ بقاکی دوسری متبرک تقریب، پانچواں جلسہ تقسیمِ اسناد، بقائی گریجوایٹس کی انفرادیت، ذرائع ابلاغ اور ذیابیطس سے آگہی، بقائی میڈیکل یونیورسٹی کی داخلہ پالیسی:ڈاکٹر زاہدہ بقائی سے انٹرویو، پہچان، عالمی یومِ امتناع تمباکو، معاشرتی + طبی نظام، بقائی میڈیکل یونیورسٹی میں تقریب یومِ آغازِ تعلیم، امن کا پیغام نوجوانوں کے نام، نجی شعبہ میں امراضِ قلب کا پہلا ہسپتال بقائی دل کا ہسپتال، بقائی دل کا ہسپتال تقریبِ تعارف، مقامی ضروریات پر مبنی طبی تعلیم، ماں و بچوں کی صحت، ادارہ سوشل آبس:بقائی میڈیکل یونیورسٹی، تعلیم اور تعمیرکردار، فروغِ تعلیم میں استاد کا منصب، معاشرہ کے ارتقاء میں تعلیم کا کردار اور بقائی جوڑے کی کوششیں)مضامین کا انتخاب شامل ہے۔ گلدستہئ مضامین میں محمود عزیز صاحب نے ”تابندہ مثال“ کے عنوان سے لکھا ہے کہ:
ناصر علی نے اچھا کیا کہ صحت، تعلیم، تحفیف غربت جیسے مسائل، پاکستان شناسی اور ان دونوں میاں بیوی کیبے لوث سماجی، تعلیمی اور ثقافتی خدمات کو چھاپ کرپڑھنے والوں کی فکر،عمل کو مہمیزکیاورنہ ان کی خدمات پرانے رسائل کےانبار میں گم ہو جاتی۔
اور حرفِ آغاز میں خود ناصر علی صاحب رقم طراز ہیں:
وقت اور تعلیم پھیلاؤکے ساتھ موضوعات کی وسعت میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ مضامینمیں تنوع اور معیاربلندتر ہوتا گیاتاآنکہ اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے والوں کے مزاج میں بھی تبدیلی آتی گئی۔طلب کے بارے میں معلومات میں بھی اضافہ ہوا۔ اسی کے مطابق طلب اور فراہمی بھی بڑھی۔
گلدستہئ مضامین میں ”قومی کردار“کے عنوان سے لکھے گئے ایک مضمون میں، جس کا آغاز بابائے قوم کے ایک قول سے کیا گیا ہے دورِ حاضر میں خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ارشاداتِ بانی ئ پاکستان پر عمل کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے نہ تھی۔اس مضمون کا درج ذیل اقتباس اس بات کا ثبوت ہے کہ قبلہ سیّد صاحب نے حالات کا ادراک کرتے ہوئے ان مضامین کا انتخاب کیا ہے۔
تاریخ کے اوراق نے بتایا کہ منزل صرف باکردار کو ملتی ہے۔ مضبوط کردار کے حامل ہی وقت کے منہ زور گھوڑے کو لگام دیتے ہیں اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ قائدؒ کے قول کے تناظر میں خود محمد علی جناحؒ کی زندگی کاتجزیہ کریں تو وہ ہر لحاظ سے اس پر پوری اترتی ہے۔ انہوں نے اپنے کردار کو اسلامی تعلیمات پر استوار کیا گو انہوں نے کبھی اپنے دینی جذبہ و خیال کی تشہیر نہیں کی مگر باطنی اوصاف اور طرزِ عمل سے اچھے پیروکار ہونے کی مثال پیش کی۔ انہوں نے سیاسی منظرنامے میں بدلتے ہوئے مصنوعی حالات کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایسا واضح راستہ متعین کیا جس نے انہیں پاکستان کی منزل تک پہنچادیا۔
ئ اسی مضمون میں آگے چل کر بابائے قوم کے ارشادات کی روشنی میں وہ دس خصوصیات رقم کی ہیں جو کسی بھی قوم کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں:ایمانداری،جانفشانی، ذہانت، ملکیت، جذبہئ قربانی، سادگی، ہمت، منصوبہ بندی، قوت برداشت اوردور اندیشی۔ سیّد ناصر علی لکھتے ہیں:
اگر ان دس خصوصیات کے ساتھ بابائے قوم محمد علی جناحؒ کی بتائی ہوئی چار خوبیاں کسی قوم میں ہوں تو وہ مضبوط، پائیدار قوم بن کر اُبھرتی ہے۔
اوّل: بے غرض لیڈر شپ، واضح مقاصد اور دور اندیش قیادت۔
دوم: معاشرہ میں ایسی قوتوں کا ہونا جو لوگوں کی دلچسپی کو اُبھاریں۔ انہیں خوش دلی سے راغب کریں۔ کردار سازی کی طرف توجہ دیں۔ پختہ عزم کے ساتھ۔ قانون کی پاسداری پر سختی سے عمل پیرا ہوں۔
سوم: قومی اداروں کا کردار حکومتی پالیسی سازی اور ان پر عمل سے لوگوں میں جذبہ خود مختاری ملکیت اور حب الوطنی۔ اور
چہارم: لوگوں کی اکثریت میں بہتر مستقبل کی خواہش۔ اگر ہم پاکستان میں لیڈروں کی چومکھی لڑائی پر نظر ڈالیں تو پہلے عشرہ کے سوا کسی بھی لیڈر یا ادارے نے قومی کردار سازی کی تشکیل میں قابل ذکر اقدامات نہیں کئے۔ اگر ہم کردار سازی کے چار بالا عوامل کی روشنی میں پاکستانی قوم کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ قوم میں چاروں عوامل موجود ہیں۔ اس کے باوجود قومی کردار کا تشخص کیوں نہیں اُبھرسکا؟ ہمیں اس ناکامی پر بھی غورکرنا چاہئے!!
قومی کردار کے حوالے سے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہوئے وہ صحافت کے کردار پر رقم طراز ہیں:
دوسرے یہ کہ میڈیا کی سمت کو مثبت رُخ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا دونوں کے لئے ضروری ہے۔ انہیں عوام تک خبریں اور معلومات پہنچانے سے پہلے اس کی چھان پھٹک کرنی چاہئے۔
تحقیق کے بعد خبر اور معلومات کا اجرا نشر کرنے والے ادارے کی ساکھ مضبوط بنائے گا۔ میڈیا کو قومی مفاد میں قوم کی کردار سازی پر توجہ دینا چاہئے۔ میڈیا کا بنیادی مقصد معلومات میں اضافہ، ناظرین و سامعین کی سوچ میں وسعت، اخلاقی اور معاشرتی اقدار میں مثبت تبدیلی اور مملکت و معاشرہ کا استحکام ہونا چاہئے۔ لوگوں کے دل و دماغ میں میڈیا اہم اور مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔
”گلدستہ مضامین“میں شامل ایک اور اہم مضمون تعلیم کے موضوع پر ہے اور اس کا عنوان”ابتدائی تعلیم۔۔اعلیٰ تعلیم کی بنیاد“ رکھا گیا ہے جو اس بات کا واضح اظہار ہے کہ سیّد صاحب کو وطنِ عزیز پاکستان کے موجودہ نظامِ تعلیم پر سخت تحفظات ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم کاجو معیار اور مقام مملکتِ خداداد میں ہونا چاہیے تھا وہ پروان نہ چڑھ سکا۔یہی وجہ ہے کہ سیّد صاحب نے پرائمری تعلیم کی ضرورت پر بہت زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ پرائمری تعلیم کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے نیز ان وجوہات کو جاننے اور ان کا تدارک کرنے کی بھی ضرورت ہے جن کے باعث بچے پرائمری سے آگے پڑھ نہیں پاتے۔ سیّد ناصر علی اپنے اس مضمون میں لکھتے ہیں:
پرائمری تعلیم کو علم کے شعبہ میں وہی حیثیت حاصل ہے جو مکان کی تعمیر میں بنیاد یا درخت کی نمو میں بیج کو حاصل ہوتی ہے۔ پرائمری تعلیم کا قبلہ درست کرکے ہم تعلیم کے ڈھانچے کو مستحکم کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے سائنس دان اور ماہرِ تعلیم کا تمام تر زور پی ایچ ڈی اور اعلیٰ تعلیم پر ہے مگر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ خشت ِ اوّل کے بغیر عمارت کیسے بنے گی۔
ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان وجوہ کا تدارک کیا جائے جو پرائمری کے بعد بچوں میں ترک تعلیم کا سبب بنتی ہیں۔ 42 فیصد لڑکے اور 62 فیصد لڑکیاں پرائمری تک پڑھ کر اسکول کو خیر باد کہنے پر مجبور ہیں۔ لڑکوں کی تعلیم والدین کی کمزور معاشی حالت اور لڑکیوں کی تعلیم فرسودہ خیالی کے سبب رُک جاتی ہے۔
لڑکوں کو باپ کے پیشے میں مدد کے لئے یا کسی ہنر کو سیکھنے کے لئے بیٹھنا پڑتا ہے اور لڑکیاں اس تصور کے تحت گھر بٹھالی جاتی ہیں کہ ان کو کونسی نوکری کرنی ہے۔