انگریزی کا مشہور مقولہ ہے کہ”آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے“۔یہ کہاوت ہمیشہ نفیس، شائستہ اور اچھے لوگوں کی یاد دلاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی ساکھ ان کی صحبت یا ان کے دوستوں پر منحصر ہوتی ہے۔ اچھی صحبت معاشرے میں کسی فرد کی شناخت کے لیے بہت اہم ہے۔ اگر کوئی اچھا ہے اور اچھی صحبت رکھتا ہے تو، دوسرے اس کا ہمیشہ استقبال کریں گے اور دوست بننا پسند کریں گے۔ہمارے ارد گرد اور تاریخ میں بے شمار مثالیں موجود ہیں، جو اس نقطہ نظر کو ثابت کرتی ہیں۔ حضرت محمدﷺ سب سے بڑی مثال ہیں۔ وہ انسانیت کے لئے ایک کھلی کتاب ہیں۔چنانچہ جب ہم پیغمبرِ اسلامﷺ کی زندگی کے آئینے میں کسی مخلص اور ایماندار شخص کے خصائص کا تجزیہ کرنا چاہیں تو اس شخص میں جو خوبیاں نظرآنی چاہیں، ان کا اگر ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو وہ کچھ یو ں ہونا چاہیں کہ وہ اللہ کا مطیع وفرمانبردارہو،اس کے احکامات کی پابندی کرنیوالاہو،منہیات سے دور رہنے والاہو،فرائض کو ادا کرنے والاہو،سنن کی پابندی کرنے والاہو،حدود اللہ کا لحاظ رکھنے والاہو،اچھے اور اعلی اخلاق سے پیش آنے والاہو،برے اخلاق سے بچنے والاہو،صلہ رحمی کرنے والاہو،والدین سے حسن سلوک کرنیوالاہو، ہمسائے سے احسان کرنے والاہو،احقر العباد ہواوربردبارو عاجزہو۔
اب اگر مندرجہ بالا خصائص کو حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے تو فی زمانہ ایسی شخصیات خال خال ہی نظر آتی ہیں لیکن اس قحط الرجالی کے باوجود آج بھی ہمارے آس پاس ایسی شخصیات موجود ہیں جو مذکورہ صفات میں سے اکثر پر پورا اترتی نظر آتی ہیں۔ مجھے اس مضمون میں ایک ایسی ہی شخصیت کے علم وفن اور ادبی وصحافتی خدمات کے اعتراف میں کچھ کہنا ہے جو صفاتِ مذکورہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہ شخصیت سیّد محمد ناصرعلی کی ہے جوکراچی کے موقر حلقوں میں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔آپ بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ نشرو اشاعت اور تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ اسم بامسمہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں جب سے انہیں جانتا ہوں، وہ تب سے ویسے کے ویسے ہیں؛ نہ ان کے قول میں کبھی تبدیلی دیکھی اور نہ کے کردار میں کبھی کوئی تغیر دیکھا۔ دھیما لہجہ اور شیرینیئ گفتار سے دوسروں کو اپنا گرویدہ بنانے کا اگر کوئی سبق لینا چاہیں تو اسی ”اسم بامسمہ“ شخصیت سے درس لینا چاہیے۔ قبلہ سیّد محمد ناصر علی جوبلاشک و شبہ ایک اچھے انسان اوردوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں؛ جب کوئی ان سے پہلی بار ملتا ہے تو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ پہلی ملاقات ہے بلکہ سالہا سال کی قربت معلوم ہوتی ہے۔میرے خیال میں ہر انسان پر اس کے خاندان، ماحول اور ثقافتی رسم ورواج کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ تمام امور کسی شخصیت کے پنپنے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں ان کا عمل دخل جزو لاینفک کی طرح ہوتا ہے۔جہاں تک قبلہ سیّد محمد ناصر علی کا تعلق ہے توان کی شخصیت کا ایسا منکسر المزاج ہونا ایک فطری امر بھی ہے کہ:
جس خاندانِ سادات میں انہوں نے آنکھیں کھولیں اور تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوئے، یہ سب اسی کا فیضانِ نظر
ہے۔۔۔ دنیا میں جتنی بڑی بڑی شخصیات گزری ہیں ان کے آباؤ اجداد کا عکس ان کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں ضرور
ظہور پذیر ہوتا رہا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محض خاندانی تعلق کی بنیاد پر اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع جاننا کوئی
معنی نہیں رکھتا تا وقت کہ مذکورہ شخص خود بھی انہی صفاتِ جمیلہ و جلیلہ کی تصویر ہو۔چنانچہ میں اپنی مقادیرِ معلومہ کے
مطابق یہ کہہ سکتا ہوں کہ شاہ صاحب کی شخصیت اپنے آباؤ اجداد کی آئینہ دار بھی ہے اور اور بجائے خود اپنے بزرگوں
کی صفاتِ جلیلہ وجمیلہ کا مظہر بھی۔ان کی ذات میں استمالت اور مباہات کا نشان تک نہیں نیز انہوں نے کبھی اپنی
استعلا جتلانے کی کوشش بھی نہیں کی۔وہ ایک منجھے ہوئے صحافی اور قلم کار ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے قلم سے نکلنے
والے الفاظ جچے تلے اور ادیبانہ رنگ میں ڈھلے ہوتے ہیں۔
1 سیّد محمد ناصر علی یکم جنوری 1945ء میں ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے شہر ”بریلی“ میں پیدا ہوئے جو ایک زمانے سے علم وادب اور دینِ اسلام کی اشاعت کا مرکز ہے۔ یہی وہ شہر ہے جہاں عالمِ اسلام کے جید عالم امام احمد رضا بریلوی ؒ پیدا ہوئے اور اپنی حیات کے شب وروزگزار کر نیزپچھلی نسلوں کے لیے علم وادب کا خزینہ حبا کرکے اس عالمِ فنا سے اس عالم ِ بقا ء کا حصہ بن گئے جہاں سے کوئی اس عالمِ فنا کی طرف لوٹنا نہیں چاہتا۔سید ناصر علی کے مطابق ان کے آباؤ ا اجداد عراق سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے اوربریلی کے گرد ونواح میں بس گئے اور جیسا کہ پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے لکھا ہے کہ:
ان ]سیّد ناصرعلی[ کے جدِ امجد کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادقؒ سے ملتا ہے۔ اس حوالے سے وہ جعفری ہیں
اور رائے بریلی کے حوالے سے بریلوی۔یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ نہ تو جعفری اور نہ ہی بریلوی
لگاتے ہیں۔
2 قیامِ پاکستان کے بعد جب بھارت اور پاکستان میں کسی حد تک امن وامان قائم ہو گیا اور پاکستان کو ایک نئے اسلامی مملکت کے طور پر دنیا نے تسلیم کر لیا تو بہت سے وہ خاندان جو تقسیم کے وقت ہجرت نہ کرسکے ان خاندانوں کی ہجرت کا آغاز ہوا چنانچہ سیّد صاحب کے والدین نے بھی اپنے اہل وعیال کے ہمراہ 1950ء میں بریلی سے ہجرت کرکے کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔یہی سے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے اور کراچی یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں بھی ایم۔اے کی سند حاصل کی۔
سیّد محمدناصر علی ایک اعلیٰ درجے کے محقق،مضمون نویس، کہانی نویس اورخاکہ نویس ہیں۔ ان کے پروفیشنل کیرئیرکا آغاز وزارتِ خارجہ کے ریسرچ ڈائریکٹریٹ سے ہوا۔ بعد ازاں سعودی عرب چلے گئے جہاں اپنی حیات کے کم وبیش دو عشرے بسر کیے۔اسی دوران سیّدہ راشدہ سے رشتہ ئ ازدواج میں بندھ گئے اور پھر سعدیہ ناصر علی کے والد ہونے کا اعزاز بھی مل گیا چنانچہ بیٹی کی فرمائش پراکیسویں صدی کے آغاز پر پاکستان منتقل ہوگئے کیونکہ سعدیہ ناصر علی کو سعودی عرب کے مقابلے میں پاکستان رہنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔ پاکستان آکر2001 ء سے 2003 ء تک فری لانسر رہے اور پھر 2003ء میں بقائی یونیورسٹی سے ایسے منسلک ہوئے کہ آج تک اپنی ذمہ داریاں احسن انداز سے ادا کررہے ہیں اگرچہ اس دوران کچھ عرصہ کے لیے کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز میں ڈائریکٹر پریس اینڈ پبلی کیشنز بھی رہے؛ لیکن بقائی مرحوم کے ایماء پر واپس بقائی میڈیکل یونیورسٹی آگئے۔
سیّد ناصر علی صاحب کی تصانیف میں ”قلم رکنے سے پہلے“، ”خاکے کہانیاں“، ”بہ زبانِ قلم“،اور ”گلدستہئ مضامین“، شامل ہیں۔علاوہ ازیں انہوں نے مختلف اخبارات اوررسائل وجرائد میں نہ صرف کئی مضامین اور کالم لکھے بلکہ بقائی یوینورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف قائد اعظم اسٹڈیز کے تحت منعقدہ کانفرنسز میں پیش کیے جانے والے مضامین اور تقاریر کوذہین عالم سروہا صاحب کے ساتھ مل کر مرتب بھی کیا ہے اور ان کانفرنسز کی رودادیں بھی رقم کی ہیں نیز یونیورسٹی کے میگزین ”بقائے صحت“ کے اداریے بھی لکھتے رہے ہیں۔ ”The Sounds of Baqai“اور ”ہمارے خواب، ہمارا عزم“ڈاکٹر فرید الدین بقائی مرحوم و مغفور اورڈاکٹر زاہدہ بقائی کے انگریزی اور اردوزبان میں انٹرویوز کا مجموعہ ہیں جنہیں سیّد صاحب نے تحقیق کے بعد مرتب کیا ہے اور ان کا پیشِ لفظ بھی تحریر کیا ہے۔
سیّدمحمد ناصر علی صاحب کی پہلی تصنیف”قلم رکنے سے پہلے“ 2014ء میں منظرِ عام پر آئی۔ اس میں مصنف کے دو چار عشرے قبل لکھے گئے اٹھائیس مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے عنوانات یہاں درج کیے جارہے ہیں:اپنی بھی ہے ایک کہانی،کس نمی پر سد،انوکھا تعارف،ہائے میرا بٹوا،منصوبے ایک نوجوان کے،ایک کپ شکر ادھار مانگ کر،ایک برہمن نے کہا ہے کہ…،جہیز جنازہ،عورتوں کی نظر میں مرد ایک لطیفہ،چابیوں کا گچھا کھوتارہا ملتا رہا،چند دن خالد علیگ کے ساتھ،دل اس کی گواہی کیا دے گا!،عزیز دوست کا زندگی نامہ، میراعظم علی عمران کی تخلیقات کی نمائش،کھوکھر ساہم کو یار ملا،حاصل موقع پر عمل کیجئے،خارجی اثرات کا شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار،بے راہرووالدین،کیا تمام مجرم کالے ہوتے ہیں؟،خود کشی کیوں؟،چھین لے حافظہ میرا!،سست پڑھا نقصان دہ ہے،پودے بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،وادیئ کالام،عیدالفطر،جدوجہد وعمل کی تصویر،جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی،بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے۔
سیّدناصر علی صاحب کی اس کاوش پر ”کام ہوتا ہے کام کرنے سے“کے عنوان سے ڈاکٹر فریدالدین بقائی لکھتے ہیں:
خوشی کی بات ہے کہ وہ اپنی فرصت کے لمحات کا عمدہ اور مثبت استعمال کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کتاب سے بہتر کوئی ہم نشین نہیں۔اس کی صحبت اور اس سے تعلق سے فائدہ ہی ہوتاہے۔ اچھا انسان اپنے بھلے کے ساتھ دوسرے انسانوں کی بھلائی کے لئے سوچتا ہے۔ پڑھا لکھا انسان اپنی تحریر کے ذریعے دوسروں تک اپنے خیالات، مشاہدہ اور علم پہنچاتا ہے سید محمد ناصر علی ہماری یونیورسٹی کا اہم حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی طورپر علم وادب کے آدمی ہیں وہ ہروقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا لکھنے لکھانے کا شوق ان کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔