ڈاکٹر انور سدید کو اکثر ادبی محافل اور نجی تقریبات میں سید فخرالدین بلے کے گھر کو آرٹس کونسل سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ عموما ایسا ہوتا تھا کہ جب ڈاکٹر انور سدید احباب تشریف لایا کرتے تو انجم معین بلے بھائی صاحب اپنی مصورانہ تخلیق میں محو ہوتے۔ محض کہنے کی حد تک نہیں بلکہ اپنے چند ایک مضامین میں ڈاکٹر انور سدید نے برملا طور پر خوبصورت پیرائے ، جاندار الفاظ اور شاندار انداز میں اس کا تذکرہ بھی فرمایا ہے۔ ہمہ خانہ آفتاب کہہ کر وہ فردا” فردا” سید فخرالدین بلے ، سید محمد انجم معین بلے ، سید عارف معین بلے اور آنس معین کی منفرد تخلیقی صلاحیتوں کا خود کو مداح کہا کرتے تھے۔ یہی انداز سرگودھا میں انجم خان نیازی اور پرویز بزمی صاحب اور جبکہ لاہور میں مسعود اشعر ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، طفیل ہوشیار پوری ، سرفراز سید اور بیدار سرمدی صاحب سمیت دیگر احباب کا رہا۔ جبکہ ملتان میں ڈاکٹر سید مقصود زاہدی ، سید سلطان احمد ، شمس ملک ، ڈاکٹر عاصی کرنالی ، پروفیسر عرش صدیقی اور غنی چوہدری جیسے دیگر محبان سید فخرالدین بلے کا بھی یہی انداز رہا۔
سید محمد انجم محمد بلے نے مصورانہ اور شاعرانہ جلوے دکھانے کے بعد فرانس یاترا لکھ کر سفرنامہ نگاری میں بھی خود کو یکسر منفرد ادیب تسلیم کروایا۔ یہ سفر نامہ بہت سے حوالوں اور زاویوں سے منفرد قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سفر نامے کا قاری سفرنامہ شروع کرتے ہی یہ راز بھانپ جاتا ہے کہ یہ کسی عام ناظر کی لکھی ہوئی منظر کشی نہیں ہو سکتی بلکہ سفرنامہ نگار نے مصورانہ بصارت سے کام لیا ہے اور فنکارانہ ذہن و قلب سے محسوس کر کے شاعرانہ قلم سے ایک شاہکار تراشہ ہے۔ مصورانہ بصارت اور شاعرانہ قلم کے کمالات قاری کو مسلسل اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔
اور اب سید محمد انجم معین بلے صاحب کی ایک غزل سے چند اشعار
غزل۔ سید انجم معین بلے
غم کی فصلیں اگ جاتی ہیں کاٹیں گے ہم خوشیاں کیسے
اجیارے کو ڈس جاتی ہیں مایوسی کی رتیاں کیسے
ہر اک چڑیا اڑ جائے گی گھر کے پھیلے آنگن سے
تنہائی کے ڈیروں میں ہم ڈھونڈیں گے وہ سکھیاں کیسے
دن ڈھلنے کے سارے موسم آنکھ میں پنہا رہتے ہیں
بیٹھ کے خالی دروازے پر یاد کروں وہ گلیاں کیسے
جو سردی کی راتوں میں تھی ہم دونوں کی سرگوشی
لیٹ کے تنہا بستر پر میں یاد کروں وہ بتیاں کیسے
وعدے کرنے والے اب تو پاس نہیں ہیں جو پوچھیں
ہم تو خود سے پوچھ رہے ہیں چار ہوئیں تھیں انکھیاں کیسے
رفتہ رفتہ پھیل رہی ہے ویرانی گلدانوں میں
دھیرے دھیرے جھڑ جاتی ہیں پھولوں سے یہ پتیاں کیسے
آئیے اب سید محمد انجم معین بلے کی پروفائل کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہم منظر کے ساتھ ساتھ پس منظر کے بارے میں بھی کچھ جان سکیں۔
سید محمد انجم معین بلے
نام :۔ سید محمد انجم معین بلے
والد کا نام :۔ سید فخرالدین بلے
والدہ کا نام : مہر افروز بلے
بہن بھائی۔ اسمائے گرامی بالترتیب :۔
عذرا کمال۔ سید انجم معین بلے۔ اسما رضوان۔ سید عارف معین بلے۔ آنس معین۔ ناز اظہر۔ سیدہ آمنہ آصف چشتی۔ ظفر معین بلے جعفری۔
مقام و تاریخ ولادت :۔
لاہور۔ 3۔ نومبر 1955۔
تعلیم :۔ ایم۔ اے اردو۔
آغاز مصوری :۔ 1970۔
آغاز شعر گوئی:۔ 1971۔
اصناف سخن :۔ غزل اور نظم
مزاج کے اعتبار سے مشاعروں میں شرکت سے گریزاں ضرور رہے اور ہیں لیکن سلسلہ شعر و سخن بدستور جاری ہے۔
منتخب کلام :۔ مختلف ادبی رسائل و جرائد کے علاوہ انتخاب کلام، منتخب غزلیات اور سخنوروں کے انتخاب میں سید محمد انجم معین بلے کا کلام بھی شامل ہے۔
آغاز ملازمت :۔ 16۔ مارچ 1981
ادارہ :۔ پنجاب آرٹس کونسل۔
تعیناتی بحیثیت پروگرام افسر ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر :۔
ملتان۔ بہاولپور۔ فیصل آباد۔ سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسلز میں خدمات انجام دیں
غیر ملکی سفر :۔ دبئی اور فرانس
فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے خدمات۔ 35۔ برس سے زائد عرصے پر محیط ہیں :۔
پنجاب آرٹس کونسل کی ڈویژنل شاخوں بہاولپور۔ سرگودھا۔ فیصل آباد۔ راولپنڈی۔ ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں بحیثیت پروگرام افسر / اے۔ ڈی/ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر خدمات انجام دیں۔
سفر نامہ نگاری:
فرانس یاترا کی شکل میں ایک خوبصورت سفرنامہ سامنے آیا۔
صحافت :۔ شعبہ ٔ صحافت سے وابستگی بھی کم و بیش پچیس تیس برس جاری رہی۔ انگریزی اور اردو اخبارات سے وابستگی کے ساتھ ساتھ رسائل و جرائد سے بھی اہم تعلق برقرار رہا۔
بحیثیت ریزیڈینٹ ڈائریکٹر :۔
بہاولپور، سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسلز میں بحیثیت ریزیڈینٹ ڈائریکٹر قابل ذکر خدمات انجام دیں
ریٹائرمنٹ :۔ 2۔ نومبر۔ 2015۔
ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پر سکونت ملتان میں اختیار کر رکھی ہے