سید انجم معین بلّے نہ صرف اچھے شاعر ہیں بلکہ شعری روایت کے امین بھی ہیں۔ ایک ایسی روایت کے جو قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ یہ دلچسپ امانت ان کے ورثے میں یوں آئی ہے کہ ان کے والد بھی شاعر تھے اور ان کے سب بھائی بھی شعر و ادب سے وابستہ ہیں اور سب کے اپنے اپنے ادبی زاویے تھے اور ہیں۔ سید فخرالدّین بلّے صاحب، یعنی ان کے والد، ادب جن کا اوڑھنا بچھونا تھا، اس روایت کو بزرگوں سے ملاتے ہیں۔ ان کے منجھلے بھائی سید عارف معین بلے جو نہ صرف اچھے شاعر ہیں بلکہ مترجم بھی ہیں اور عربی اور فارسی کلام کے منظوم تراجم کر چکے ہیں۔ ان کے جواں مرگ چھوٹے بھائی آنس معین جو صاحبِ اسلوب شاعر تھے اور اس روایت کو جدّت کے رنگوں سے سجاتے ہیں اور ان کے سب سے چھوٹے بھائی ظفر معین بلّے جو زندگی بھر ادب سے وابستہ رہے ، نثر نگاری ، شاعری ، انٹرویوز اور ادبی رسائل آواز جرس اور ادبِ لطیف کی دہائیوں پر محیط ادارت ان کی پہچان ہیں۔ یعنی بات صرف شعری روایت کی نہیں ہے، ان کے اور ان کے گھر والوں کو ترکے میں ایک مکمّل ادبی روایت ملی ہے جو نظامِ زندگی کی شکل وضع کرتی ہے اور پھر اس سے جڑی محبتوں کی روایت ہے۔ محبّت جس خاندان کے رگ و پے میں ہو ، اس کا لائق امین اس سے کسی طرح الگ ہو بھی نہیں سکتا۔ یہی محبت ہے جو سوز کی آبیاری کرتی ہے اور ساز میں سنائی دیتی ہے۔ اسی سوز و ساز کا ایک سنگم سید انجم معین بلّے کی یہ نظم ہے جس کا عنوان ہے۔ اک سمندر درمیاں ہے ، اک سمندر درمیاں۔
محبّت میں گندھی یہ پر سوز نظم ، انجم معین بلّے نے اپنی بیوی اور بیٹے کی یاد میں لکھی ہے جس پر اداسی کے بادل چھائے نظر آتے ہیں۔ ان دونوں کی یاد کا یہ ایسا سفر ہے جو خیالوں کا سفر ہے مگر اس کا آغاز نہیں ہو پا رہا۔ جیسے پانی کی سطح پر آتی جاتی لہروں میں کوئی کشتی ایک ہی جگہ ہچکولے کھاتی رہے مگر اس مقام سے نہ آگے جاسکے نہ پیچھے۔ اس نظم کا جو عنوان ہے، وہی اس کا ٹیپ کا مصرع بھی ہے جس میں نظم کا خلاصہ موجود ہے۔ یہ نظم دراصل ہر اس شخص کے یادوں میں ڈوبے، دکھے دل کی آواز ہے جو اپنوں سے اور اپنے دل کے قریب رہنے والوں سے دور ہوجائے۔ یہ دوری وقتی بھی ہو سکتی ہے اور زندگی بھر کی بھی ہو سکتی ہے۔ ان کے ہاں اگرچہ ایک مستقل جدائی کا دکھ ہے مگر وہ دوری میں قربت محسوس کیے بغیر نہیں رہتے اور اس قربت میں جو فاصلے ہیں، ان سے بھی نظر نہیں ہٹا پاتے، کہ جو ان کے پاس نہیں، وہ ہر وقت دل میں دھڑکتے ہیں۔ گفتگو کا سلسلہ کٹ جانے کے باوجود وہ اپنے ان دونوں محبوبوں سے ہم کلام رہتے ہیں۔
یہ نظم ان سب لوگوں کے دلوں کو چھونے والی نظم ہے جنھوں نے دوری محسوس کی ہو۔ کوئی جسمانی طور پہ دور ہو یا جذباتی طور پہ۔ کوئی زمینی فاصلے کی وجہ سے دور ہو جائے یا دنیا سے جا چکا ہو اور ہر طرح کے فاصلے درمیان میں آگئے ہوں۔ اس نظم میں سمندر ان تمام فاصلوں کا استعارہ ہے جسے پار کرنا کسی کے بس میں نہیں کیونکہ یہ وہ سمندر ہے جسے پار کرنا ممکن نہیں۔ یہ سمندر زمانی بھی ہو سکتا ہے، زمینی بھی اور روحانی بھی۔
اس نظم کو معنویت سے ہٹ کر پڑھنے کا بھی ایک اپنا لطف ہے۔ سادہ اسلوب میں لکھی یہ نظم جذبوں کے پرخلوص اور تصنّع سے عاری اظہار سے عبارت ہے۔ لفظوں کا چناؤ سوچ کے بہاؤ کے مطابق ہے۔ بہت سے عام بول چال کے الفاظ اس میں بہت سادگی سے سمو دیے گئے ہیں۔ اس نظم کی ہیئت اور روانی گیت کا سا انداز رکھتی ہے۔ یعنی اس نظم کا بہاؤ بھی لہروں کے بہاؤ کی طرح ہے۔ اس میں جو آہنگ ہے وہ قاری کی شاعرانہ طبیعت کو مہمیز دیتا ہے اور پڑھنے والا اس کی موسیقیت سے بھی محظوظ ہوتا ہے۔ لیکن اس موسیقیت اور آہنگ میں جذب کی کیفیت بہرحال قائم رہتی ہے جو دل میں سوز جگائے رکھتی ہے اور یہی اس نظم کی خاص بات ہے۔
_______________________________________________________________
کینیڈا میں کم و بیش ربع صدی سے سکونت پزیر غزل و نظم کے عمدہ شاعر ، خوبصورت تجزیہ کار اور نثر نگار جناب فیصل عظیم صاحب کا جناب سید محمد انجم معین بلے صاحب کی نظم نگاری کے حوالے سے شاندار اور جاندار ناقدانہ تجزیہ ملاحظہ فرمانے کے بعد اب ملاحظہ فرمائیے جناب سید محمد انجم معین بلے صاحب کی وہ شاہکار نظم کہ جس کو جناب فیصل عظیم صاحب نے اپنے مضمون کا موضوع بنایا ہے۔
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
نظم نگار : سید محمد انجم معین بلے
… 1 …….
تُو وہاں کیسی ہے؟ مجھ کو ، کیا بتائے گا جہاں
کیسے تیری یاد پھیلی ، ہر گلی اور ہرمکاں
چاہتاہوں پھول بھِیجوں ،پَر تجھے کیسے وہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
…… 2 …
غم کے بادل آگئے ہیں ، اب بھلا کیسے چھٹیں
ہجرتوں کی زد میں آکر رات دن کیسے کٹیں
فاصلوں کی مٹھیوں میں آگئی ہے داستاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……….. 3 ……..
زندگی سے حسرتوں کا ساتھ کیسے چھوڑدیں
ہم امیدوں کے شجر سے پھول کیسے توڑدیں
دیکھو تنہا رہ گئی مونا وہاں، اور میں یہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……. .4 ……
مجھ کو اب تک تیرے وعدے تیری قسمیں یاد ہیں
چاہتوں کے دم سے میرے سب جہاں آباد ہیں
اب تِری آہٹ نہیں ہے ،جس سے کھولوں کھڑکیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……. .5 ……
راحتوں نے آنکھ کھولی کس طرح ہنستے ہوئے
ہر نظر پتھرا گئی ہے راستہ تکتے ہوئے
اب یہاں ملتے نہیں ہیں، تیرے قدموں کے نشاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………-6 …….
توگئی تو ساتھ اپنے، ہر خوشی ہی لے گئی
وقت کی دہلیز پر اک نا اُمیدی دے گئی
بے بسی سے دیکھتا ہوں میں زمین و آسماں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………-7………
وہ گئے دن کی مسافت ساتھ چلنے کا جنوں
ایک لمحے کی جدائی ، چِھن گیا میرا سکوں
رہ گئی ہیں ساتھ تیری یاد کی پرچھائیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……..-8…………
برتھ ڈےمونا مبارک ،اے مِری جان ِ وفا
اب اگرچہ کٹ گیا ہے گفتگو کا سلسلہ
سب درو دیوار ،آنگن ہوگئے ہیں بے زباں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
…….-9…..
ہر مسرت، ہر خوشی ، ہر اِک تمنا ،آرزو
ناامیدی کے سفر میں کھوگئی ہے جستجو
دوریوں میں کھو گئی ہے زندگی کی کہکشاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……..-10……
میں نے سوچا ہی نہیں تھا اس طرح ہوجائے گا
سارا رستہ دو قدم کے بعد ہی کھو جائے گا
چہچہاتے گلستاں میں، ایک سونا آشیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……-11……
لمبی شامیں رہ گئی ہیں میرے جلنے کے لیے
دن ملے ہیں مجھ کو اب تو ہاتھ ملنے کے لیے
مولا ، کتنا رہ گیا ہے ؟ زندگی کا امتحاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………-12………
اک تڑپ رہتی تھی تجھ کو مجھ سے ملنے کے لیے
ہمسفر جس کو چنا تھا ساتھ چلنے کے لیے
اب تو تیری یاد میں ہی بس رہا ہےیہ جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
…………-13………
پھول پتے چاند تارے یاد کرتے ہیں تجھے
راستوں کے پیڑ سارے یاد کرتے ہیں تجھے
تیری یادیں، تیری سوچیں، تیرے سپنے جان ِ جاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……..-14……
تیری جانب قافلوں کا راستہ چلتا نہیں
جاگنے تک یاد کا سورج کبھی ڈھلتا نہیں
اب فضا میں پھیلتا ہے ناامیدی کا دھواں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……….-15………
میرے سر سے دور ہے اب راحتوں کا سائباں
دیکھ کر کیسےمیں چلتا تیرے قدموں کے نشاں
آرزوئیں کر رہی ہیں میرے دل کی دھجیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………-16………
نقش ہے دِل پر مِرےعمّار کی ایک ایک بات
دورہےوہ مجھ سے پر،اب بھی ہے میرے ساتھ ساتھ
اُس کی یادوں کے اُجالوں سے ہے روشن یہ مکاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
…………-17………
ساتھ وہ تنہائی میں ہے،راز کی یہ بات ہے
لگتاہے کہ ہر قدم پر میرا بیٹا ساتھ ہے
فاصلوں میں قربتیں ہیں ، قُربتوں میں دُوریاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……….-18………
مونا اور عمّار دونوں ہی اَثاثہ ہیں مِرا
رشتے تو باقی رہے ، ٹوٹا رہا پَر رابطہ
بے سہارا کھینچتا کیسے؟ وہاں تک بادباں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………. -19………
مونا اور عمار بے شک ہیں مِرےگھر کے مکیں
دنیا والوں کو مگر ، دونوں نظر آتے نہیں
دَم قَدم سے ان کے ہی آباد ہے میرا جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………-20………
رب العزّت تجھ سے میری ایک یہ بھی ہےدُعا
رکھنا اِن پرگرمیوں کی دھوپ میں سایہ گھنا
میں کہوں پر تُو یہ مت کہنا اے ربّ ِ دو جہا ں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………-21………
کیا کہو ں عمار کی ہر اِک شرارت یاد ہے
مونا نے جتنی لُٹائی ہے محبت یاد ہے
میں بھی جی اُٹھتا ہوں اب تو یاد کرکے شوخیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………-22………
عید اور تہوار بے شک ، اب بھی آتے ہیں مگر
پیار میں کرتا ہوں جن سے، وہ نہیں آتے نظر
کس سے پوچھوں دور کیسے ہوں مِری تنہائیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………-23………
دیکھئے ، توجابسے ہیں دونوں مجھ سے کوسوں دور
موناہے دل کاسکوں ، عمار ہے آنکھوں کا نور
ختم کب ہوں گی ، خدا جانے مِری بے تابیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………-24………
گھر کادروازہ کھلا رکھتا ہوں اکثر رات بھر
ملنے کو شاید چلے آئیں وہ ، مجھ سے اپنے گھر
عید سے پہلے ہی ہوگا ، عید کا گھر میں سماں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
…………-25………
جب بھی ہو ممکن چلے تم آؤ ، دونوں میرے پاس
کہہ رہی ہے میری آنکھوں کی نمی، دل ہے اداس
دور ہوسکتی ہیں ، یہ دونوں طرف کی دوریاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
……..-26…….
مونا اور عمار کا رہتا ہے ہر دَم انتظار
جاچکا پت جھڑ ، نظر آنے لگے رنگ ِ بہار
تُم بھی لوٹ آؤ تو اب لوٹ آئیں گی رعنائیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
………..-27………
دور ہو نظروں سے یوں دیدار کرسکتا نہیں
پیار تو کرتاہوں میں ،اظہار کر سکتا نہیں
کیا کہوں ؟ ہے بے زبانی جان ِ من میری زباں
اک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
…….… 28 ………
دُوریاں تو مجھ سے ہوسکتی نہیں مولا ، عبور
بخش دے میری خطائیں اے مِرے رب ِ غفور
پھر سے تُوآباد کر دے ، یہ مِرا اُجڑا جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
…….… 29 ………
ہے سمندر پار انجم میری منزل کا نشاں
سامنے ہیں مونا و عمّار ، ملتے ہیں کہاں
ہوگیا ہے کارواں سے دور میر ِ کارواں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
…… .30 …………
ہے سمندر میں سفینہ ، دور تک ساحل نہیں
مولا تُندو تیز موجیں تو مِری منزل نہیں
ا لامان و الحفیظ ُ ، الحفیظ و الا ماں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں