سید محمد انجم معین بلے
نام :- سید محمد انجم معین بلے
والد کا نام :- سید فخرالدین بلے
والدہ کا نام : مہر افروز بلے
بہن بھائی ۔ اسمائے گرامی بالترتیب :۔
عذرا کمال ۔ سید انجم معین بلے ۔ اسما رضوان ۔ سید عارف معین بلے ۔ آنس معین ۔ ناز اظہر ۔ سیدہ آمنہ آصف چشتی ۔ ظفر معین بلے جعفری۔
مقام و تاریخِ ولادت
لاہور۔3.نومبر 1955
تعلیم :- ایم۔ اے اردو۔
آغازِ مصوری :- 1970
آغازِ شعر گوئی:- 1971
اصنافِ سخن :- غزل اور نظم
مزاج کے اعتبار سے مشاعروں میں شرکت سے گریزاں ضرور رہے اور ہیں لیکن سلسلہ شعر و سخن بدستور جاری ہے۔
منتخب کلام :۔ مختلف ادبی رساٸل و جراٸد کے علاوہ انتخابِ کلام ، منتخب غزلیات اور سخنوروں کے انتخاب میں سید محمد انجم معین بلے کا کلام بھی شامل ہے۔
آغازِ ملازمت :- 16.مارچ 1981
ادارہ :- پنجاب آرٹس کونسل ۔
تعیناتی بحثیت پروگرام آفیسر ، اسسٹینٹ ڈائریکٹر
ملتان ۔ بہاولپور ۔فیصل آباد ۔ سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسلز میں خدمات انجام دیں
غیر ملکی سفر : ۔ دبئی اور فرانس
فنونِ لطیفہ کے فروغ کےلیے خدمات .35.برس سے زاٸد عرصے پر محیط ہیں:۔
پنجاب آرٹس کونسل کی ڈویژنل شاخوں بہاولپور ۔سرگودھا۔ فیصل آباد ۔ راولپنڈی ۔ ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں بحیثیت پروگرام آفیسر/ اے۔ڈی/ ریزیڈنٹ ڈاٸریکٹر خدمات انجام دیں۔
صحافت :۔ شعبہ ٕ صحافت سے وابستگی بھی کم و بیش پچیس تیس برس جاری رہی۔ انگریزی اور اردو اخبارات سے وابستگی کے ساتھ ساتھ رساٸل و جراٸد سے بھی اہم تعلق برقرار رہا ۔
بحثیت ریزیڈینٹ ڈائریکٹر
بہاولپور ، سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسلز میں بحثیت ریزیڈینٹ ڈائریکٹر قابل ذکر خدمات انجام دیں
ریٹائر مینٹ :-2.نومبر.2015
ریٹائرمینٹ کے بعد مستقل طور پر سکونت ملتان میں اختیار کر رکھی ہے۔
اور اب آخر میں سید محمد انجم معین بلے صاحب کی ایک غزل سے چند اشعار
غزل ۔۔۔۔۔۔ سید انجم معین بلے
غم کی فصلیں اگ جاتی ہیں کاٹیں گے ہم خوشیاں کیسے
اجیارے کو ڈس جاتی ہیں مایوسی کی رتیاں کیسے
ہر اک چڑیا اڑ جاٸے گی گھر کے پھیلے آنگن سے
تنہاٸی کے ڈیروں میں ہم ڈھونڈیں گے وہ سکھیاں کیسے
دن ڈھلنے کے سارے موسم آنکھ میں پنہا رہتے ہیں
بیٹھ کے خالی دروازے پر یاد کروں وہ گلیاں کیسے
جو سردی کی راتوں میں تھی ہم دونوں کی سرگوشی
لیٹ کے تنہا بستر پر میں یاد کروں وہ بتیاں کیسے
وعدے کرنے والے اب تو پاس نہیں ہیں جو پوچھیں
ہم تو خود سے پوچھ رہے ہیں چار ہوٸی تھیں انکھیاں کیسے
رفتہ رفتہ پھیل رہی ہے ویرانی گلدانوں میں
دھیرے دھیرے جھڑ جاتی ہیں پھولوں سے یہ پتیاں کیسے