سید مبارک شاہ کی کلیات شائع ہو گئی ہے۔ سلطان ناصر صاحب کی عنایت سے یہ تحفہ وصول ہوا۔ نہایت اعلی پائے کی عارفانہ شاعری ہے۔ مجھے ان کی شاعری نے بہت متاثر کیا۔
سید مبارک شاہ کے بقول ان کے اور منصور حلاج کے کلام میں بہت توارد پایا جاتا ہے۔
سید مبارک شاہ سے صرف دو ملاقاتیں ہو سکیں۔ ان کی وفات پر لکھا ہوا اپنا مضمون دوبارہ پیش کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید مبارک شاہ
صبحِ دوامِ زندگی مبارک ہو!
27 جون ،2015 کو یہ اطلاع ملی کہ نامورصوفی مزاج شاعر سید مبارک شاہ صاحب علالت کے باعث اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ۔ شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات دسمبر 2013 میں ان کے گھر، واقع لالہ زار ، راولپنڈی میں ہوئی۔ ان کی رہائش گاہ میرے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی ، لیکن میں ان سے واقف نہ تھا۔ ان کی شاعری سے تعارف ایک شاعر دوست، شہباز رسول فائق کے توسط سے ہوا۔ ان کے اکثر اشعار نے مجھے چونکا کر بلکہ ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی شاعری میں مجھے اپنے دبے ، تلملاتے ہوئے خیالات اور جذبات کا پرتو نظر آیا۔ وہ جو میں سوچتے ہوئے بھی گھبراتا تھا وہ ان کے ہاں مسطور بلکہ منظوم مل رہا تھا ۔ ان کا شعر
؎ بتا ان اہل ایماں کی سزا رکھی ہے کیا تو نے
خداوندا جو تجھ کو احتیاطا ً مان لیتے ہیں
تو میرا وردِ زبان بن گیا ۔ جس محفل میں بھی ہوتا میں یہ شعر اکثر اپنے احباب کو سناتا اور وہ سب داد دینے سے زیادہ سوچ میں پڑ جاتے اور یہی اس شعر کی کامیابی تھی۔ میری آشفتہ سری ان کے ان جیسے اشعار سے ہم آہنگ تھی:
؎ ہمارے خالی ہاتھ میں تھما کے کاسئہ طلب
جواب کیا دیا گیا ،سوال کر دیا گیا
ترا کرم ہے زندگی تو پھر وہ لوگ کون ہیں
کہ جن پہ یہ کرم ترا وبال کر دیا گیا
ہمیں تری عنائیتون سے ہیں بڑی شکائتیں
ہمیں ہمارا رزق بھی اچھال کر دیا گیا
اس شعر میں ' ہمارا رزق' کہ کر شاہ صاحب نے انسانی خود داری کو کس ناز سے خدا کے مقابل مقابل لا کھڑا کیا ہے یہ ان کا ہی کمال ہے۔ جب یہ شعر پڑھا :
؎ کتنے پہرے سوچ پر ہیں دوستو
اور پھر بھی سوچتا کوئی نہیں
تیرگی حدّ نظر تک تیرگی
اور پھر بھی دیکھتا کوئی نہیں
تومیں ان کی شاعری پر فریفتہ ہو گیا۔ شاہ صاحب سے ملاقات ناگزیر محسوس ہوئی۔ اگرچہ میں اہل فکرونظر سے ملاقاتوں کا اتنا خواہاں نہیں ہوں، اس لیے کہ یہ ضروری نہیں کہ اہل فکرونظر کی فکرونظر ان کی شخصیت یا کردار سے ہم آہنگ بھی ہو۔ نیز مجھے شخصیت سے زیادہ اس کے کلام سے غرض ہوتی ہے۔ تاہم اپنے فکری مثنی کو پالینے کے بعد اس سے ملاقات کی یہ بے تابی فطری بات تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کو پہلا برقی پیغام بذریعہ موبائل فون ارسال کیا تھا۔ جس میں ،میں نے لکھا تھا کہ آپ کی شاعری مجھے قتل کیے دے رہی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ ناموری کے لئے نہیں ، بلکہ اپنے اندر ہونے والی کشمکش کےاظہار کے لیے لکھنے پر مجبور ہیں۔ اس پر ان کا فون مجھے آیا اور مجھے ملاقات کی دعوت دی۔
ان سے مل کر میرا وہی حال ہوا جو رشید احمد صدیقی کا علامہ اقبال کو دیکھ کر ہوا تھا۔ لیکن یہاں ترتیب الٹ گئی تھی۔ ان کی شاعری میں خدا سے جو شکوہ شکایت تھی اس سے مجھے لگا کہ وہ ایک پراگندہ حال، بےزار قسم کے، سگریٹ پہ سگریٹ پھونکنے والے شاعر ہوں گے ،لیکن وہ نہات نفیس، سلجھے ہوئے انسان تھے ، جو ایک اعلی عہدے پر فائز تھے۔ تب ان کی شاعرانہ عظمت میرے دل میں دو چند ہو گئی ۔ خدا سے ان کا شکوہ ، ان کے ذاتی حالات کی بنا پر نہیں تھا، یہ وہ آفاقی ، انسانی درد تھا جو صرف ایک حساس دل میں قیام منظور کرتا ہے ، کہ
؎ 'ہر ظرف کہا ں ہے اس قابل بن جائے غمِ جاناں کا امیں
شاہ صاحب گویا ' سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے' کا عملی اور علمی نمونہ تھے۔
میں نے ان کو اپنے اندازے سے زیادہ گہرا پایا۔ ان کی ساری فکر کا محور خدا تھا۔ وہ اس پر گویا حق الیقین کے ساتھ ایمان رکھتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ بقول ان کے، وہ لڑتے بھی تھے، ناراض بھی ہوتے ، سرگوشیاں بھی کرتے، گلے بھی کرتے، گویا لا ملجاء من الله الا الیه والا حال تھا۔
انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ میں علوم اسلامیہ میں ڈاکٹریٹ کر چکا ہوں تو وہ نہایت خوش ہوئے۔ وہ سمجھے تھے کہ میں محض ادبی ذوق کی بنا پر ان کے پاس آیا تھا۔ لیکن علوم اسلامیہ سے میرے تعلق کا سن کر وہ کچھ مطمئن سے ہو گئے کہ میں ان کی شاعری کو بہتر طور پر سمجھ سکوں گا کیونکہ ان کی ساری شاعری قرآن اور تصوف سے کشید کی گئی تھی ۔ چناچہ وہ زیادہ گہرائی سے اپنی شاعری اور اس کے فکری ماخذات (یعنی قرآن اور تصوف خصوصا منصور حلاج) کی وضاحت مجھ سے کرنے لگے۔ اس کے علاہ وہ اپنے دیگر کاموں اور فکری مسائل کا ذکر بھی کرنے لگے۔ وہ ایک کتاب بھی لکھ رہے تھے جن میں اسلامی فقہی اور کلامی مسائل پر اپنی تحقیق لکھ رہے تھے۔ اس کتاب کے تناظر میں مجھے یاد ہے ان کا یہ فرمانا، 'عرفان، میری اور تمہاری بہت لڑائی ہونے والی ہے'۔ اور میں نہایت مشتاق تھا کہ کب یہ 'لڑائی ' ہوگی مگر افسوس کہ وہ لڑائی کبھی نہ ہوسکی۔
وہ قرآن مجید کا مطالعہ بہت کرتے تھے ، قرآن مجید اور منصور حلا ج کا کلام ہی تھا جن سے وہ اپنی فکرکبھی کشید کرتے تو کبھی اپنا جگر کشید کر کے دیکھتے کہ آیا قرآن اور کلامِ حلّاج ان کے ان خیالات کی موافقت کرتے ہیں یا نہیں۔ اس ملاقات میں وہ اپنی شاعری اور قرآن کی آیت سے ان کی تطبیق مجھے دکھاتے اور سمجھاتے رہے۔ ان کی شاعری کا تیسرا حوالہ علامہ اقبال کا کلام تھا، جس سے وہ بہت متاثر تھے۔
اگلی ملاقات میں انہوں نے اپنی شاعری اور منصور حلاج کے دیوان سے اس کی مناسبت اور مطابقت مجھے بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ منصور حلّاج کا کلام ان کو بہت بعد میں کسی دوست کے توسط سے ملا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حلاج کا کلام پڑھ کر ان کو شدید حیرت ہوئی تھی کیونکہ منصور اور شاہ صاحب کے کلام میں توارد کثرت سے تھا۔ انہوں نے اس کے شواہد مجھے دکھائے کہ کس کس جگہ منصور اور ان کے کلام میں توارد ہوا، انہوں نے منصور حلاج کے کلام میں وہ تمام مقامات نشان زد کیے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی پوری کی پوری نظمیں منصور حلاج کے کسی ایک مربوط کلام کا توارد معلوم ہوتی تھیں۔ یہ امر میرے لیے بھی باعثِ حیرت تھا۔ حلاج اور شاہ صاحب کے کلام کے توارد پر تحقیقی کام ہونا چاہیے۔منصور حلاج کے ساتھ ان کے اس تعلق کا سارا خلاصہ ان کی نظم ' زمانے کی تاریخ شاہد رہے گی' میں آ گیا ہے۔ اور یہ نظم بھی شاہکار ہے۔
ان کو arthritis کا مرض لاحق تھا ۔ جس سے وہ سخت تکلیف کا شکار تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ۔ تاہم وہ خدا کی رحمت سے مایوس نہیں تھے ا انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ راتوں کو تہجد میں خدا سے شکوہ ، دعا اور مناجات کرتے تھے۔ خدا سے ان کے مضبوط تعلق اور ان کی روحانی طاقت کا سب سے بڑا ذریعہ شاید یہی تھا۔ انہیں احساس تھا کہ موت بہت تیزی سے ان کی طرف بڑھتی آ رہی ہے، لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کو موت سے ذرا بھی وحشت نہیں تھی۔ بڑے اطمینان سے کہتے کہ میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ اسی لیے شاید وہ تھوڑے وقت میں پہت کچھ بولتے تھے جیسے دل و دماغ کی ساری دولت اس تہی دست دنیا میں جلد سے جلد لٹا کر جانا چاہتے ہوں۔ موت کے بارے میں تو ان کی بے نیازی کا یہ حال تھا کہ لکھتے ہیں:
؎ اتنی ذرا سی بات کو اتنا نہ طول دے
اس داستانِ عمر کا اب اختتام کر
نیز
یہ ہر دن تھوڑا تھوڑا کر کے مرنے کا تکلف کیا
یہ کام اک روز بہتر ہے کہ سارا کر لیا جائے
اور
؎ جادہ شوق مسافت دیکھتا ہی رہ گیا
سانحہ یہ ہے کہ منزل راستے میں آ گئی
انہوں نے اپنی کتابوں پر کسی بڑے شاعر یا ادیب سے تقریظ نہیں لکھوائی۔ انہیں یہ پسند نہیں تھا کہ وہ اپنی پراڈکٹ کی پبلیسٹی کے لیے کسی بڑی شخصیت سے مارکٹنگ کروایئں۔ یہ بات ان کے بڑے پن کی عکاس ہے ۔ ان کی کتاب پر پیش لفظ لکھا تو محترم سلطان ناصر صاحب نے۔ اور وہی اس کے مستحق بھی تھے۔ سلطان ناصر صاحب ، نے وہ مقدمہ لکھ کر شاہ صاحب کی شاعری کے تعارف کا حق ادا کر دیا۔ ایسا فنا فی الممدوح مقدمہ میں نے فقط مولانا تقی عثمانی صاحب کا ان کے بھائی ذکی کیفی کے کلیات 'کیفیات' میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سلطان ناصر کا پڑھا۔
میری کوشش تھی اور ان کی تمنا بھی تھی کہ ان پر کوئی اچھا تحقیقی کام ہو جائے۔ ان پر ایک تحقیقی کام پہلے ہو چکا تھا۔ میں نے اس سلسلے میں اپنی شریکِ حیات ، ڈاکٹر صائمہ نذیر، جو کہ نمل کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ، سے کہہ رکھا تھا کہ شاہ صاحب پر کسی قابل طالبِ علم سےکام کروانا ہے۔ حال ہی میں ان کی شاعری پر ایک مقالہ منظور ہوا تھا۔ جس میں ان کے حسبِ خواہش ترمیم بھی کردی گئی تھی مگر افسوس وہ اس کاوش کو شرمندہ تعبیر دیکھنے سے پہلے ہی اپنے خالق سے جا ملے۔ شاہ صاحب ایک بڑے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کلام اردو ادب کا اہم اثاثہ ہے ، اور اس کا ادراک جتنا جلد ہو جائے اتنا اچھا ہے ۔ شاہ صاحب کو یقین تھا اور مجھے بھی ہے کہ:
؎ آسماں تک جائے گی خوشبو مرے افکار کی
جب تعفّن جسم کا زیرِ زمیں ہو جائے گا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“