جن کا اک اک لفظ پھولوں کی طرح ہوتا حسیں
وہ فراست کے امیں شکر بیاں چپ ہو گئے
(مسرور بدایونی)
*("تحریر زندگی "کے حوالے سے تحریر )*
فیصل آباد سے متعلق سید مسرور بدایونی کا شمار وطن عزیز پاکستان کے نام ور ، ثقہ ، مستند ، کہنہ مشق ، جید اور مشاق اردو کے شعرا کرام میں ہوتا ہے ۔۔آپ نے اردو شاعری کی روایت کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے ۔۔شاعری سے لگاؤ اور وابستگی فطری اور بے ساختہ ہے ۔سالہا سال کے وسیع مطالعہ سے اردو زبان و ادب کو اپنے اندر سمو لیا ہے ۔۔۔ان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی ۔۔
وہ زندگی کی اعلی اقدار نظریات کو اپنے ذہن اور فکر و خیال کے دائرے میں قید رکھنے کا ہنر نہیں جانتا بلکہ اس کے اظہار کے لیے سخنوری کو وسیلہ قرار دیتا ہے ۔۔زمیندار ہے لیکن ایک مستند شاعر اور ادیب بھی ہے ۔۔۔۔۔۔شاعر بھی ایسا جو بدایوں کے قبیلہ سادات کے خصائل کا عملی نمونہ تھے ۔۔۔۔بدایوں کے سادات راست گوئی ، بے باکی ،غیرت منڈی ،مہمان نوازی ،دلنوازی اور جفاکشی کے لیے خصوصی شہرت رکھتے ہیں گویا مسرور بدایونی کو سخن وری ،سخن فہمی اور ذات غم ان کو میراث میں ملا ہے
سید مسرور بدایونی نے اردو ادب کو ایک نیا ، اچھوتا ،چلبلا انداز سخن دیا ہے جو ادب میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔
ان کی شاعری میں آتش عشق کے شرارے اور شراب محبّت کی وہ سر مستی ضرور ملتی ہے جو ادب براۓ زندگی کی عکاس ہے ۔۔کہتے ہیں۔ ۔۔
€ طبیب ہو گئے نا کامیاب اس میں سبھی
دواے غم چلو پیر مغاں سے لائیں گے
" تحریر زندگی" ان کی تخلیقی دنیا کا ایک نمونہ ہے۔ ۔ان کی سخن وری آفاقیت کو جنم دیتی ہے لیکن ان کے اشعار میں آتش عشق کے شرارے اور محبّت کی سر مستی ملتی ہے جو ادب جو ادب برائے زندگی کی عکاس ہے، وہ وہ اپنے دل کی بات دھیمے لہجے میں کچھ یوں کہتے ہیں ۔۔
€ سوچ لو اظہار میں کیا کچھ ہے اور کیا کچھ نہیں
جرم کے اقرار میں کیا کچھ ہے اور کیا کچھ نہیں
سید مسرور بدایونی کی شاعری گہرے تاثر کی اثر پذیری اور براہ راست متاثر کرنے والے جذبات کے سہارے آگے بڑھتی ہیں ۔۔وہ احساس و خیال کی لفظیات ،جذبات کے اثبات اور شعریات کی تہذیب کو اس کی شناخت کے ساتھ باقی رہنے کا حوصلہ اور عزم عطا کرتے ہیں۔شاعری میں درون بینی کا عنصر ہویا لغات کی تحسین اور احساس جمال کی تہذیب کا خوشنما عکس ہو جذبات کا بالائی حسن ان کی شاعری ان سب کے بین بین اپنی منفرد مھاجات تشکیل کرتی ہے ۔۔سید مسرور بدایونی کی شاعری کا مجموعی تاثر ان کا وہ گہرا تاثر ہے جو تازہ شعری احساس کا ضامن بن کر مکمل شریات کی تخلیق کرتا ہے ۔۔
€ طبیب ہوگئے ناکام اس میں سبھی
دوائے غم چاہ پیر مغاں سے لائیں گے
ان کا انداز سخن ہی دوسرے شعرا کے مقابلے میں ان کو ممتاز بھی کرتا ہے اور میکدے میں انفرادیت بھی عطا کرتا ہے ان کے سینے میں اس کی زندگی کی وہ اک الفاظ کے دائرے بن کر نکلتی ہے اور یہ الفاظ جب شعر کے سانچے میں ڈھلتے ہیں تو اپنے ساتھ سخن فہم کے دامن کو بھی سوزش سے ہمکنار کرتی ہیں ،سید مسرور بدایونی کی غزل کا یہ شعر ملاحظہ کریں ۔۔
€حالات خرابات نے یوں زد میں لیا ہے
انسان تو کیا ،ہو گیا شیطان پریشان
اپنی شاعری میں سید مسرور بدایونی نے جس عام فہم دل کر سادہ اور رواں دواں زبان میں اپنے پاکیزہ شائستہ احساسات اور خیالات کا اظہار کیا ہے اور جس میں مختصر اور جامع انداز میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے وہ بادہ و سرمستی کی وہ آمیزش ہے جس نے ان کے اشعار کی شراب کو اتنا تیز کر دیا ہے جو کہ انہی کا طرہ امتیاز ہے اسی پاکیزگی و حلاوت و شرینی و جامعیت کی وجہ سے ان کے کلام میں حضرت بہار کوٹی کے انداز سخن کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔۔۔
غزل کلاسیکل شاعری کی ایک منہ بولتی تصویر ہوتی ہے اور مسرور بدایونی کی شاعری میں یہ تصویریں آپ کو سطر سطر دکھائی دیں گی ،انہوں نے غزل میں مختلف موضوعات پر مضامین بنے ہیں قبل ازیں انھوں نے " آیہ رحمت "اور "باب رحمت" دو نعتیہ مجموعے پیش کئے ہیں، ان میں بھی ان کے دینی اور مذہبی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے اور عقیدت و محبت کے جذبات نعتیہ اشعار سے قاری کے قلب و نظر کو منور کرتے ہیں ۔۔
سید مسرور بدایونی اپنی شاعری پورے جذبے سے کرتے ہیں ان کے لہجے کی بنیادی خصوصیات استحکام اور ٹھہراؤ ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام تر شاعری جذباتیت پسندی کا خلاصہ قرار دی جا سکتی ہے ۔۔شاعری اور شخصیت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں اگر مسرور بدایونی سے اشعار کو الگ کردیا جائے تو تصویر یک رخی دکھائی دے گی لہذا ایک ہی کردار کے دو روپ ہیں جو مسرور بدایونی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔۔وہ پوری زندگی غزل نظم کے سحر میں گرفتار رہے ہیں اور اسی سحر کاری کا نام" تحریر زندگی" ہے ۔۔۔
محبت ایک ایسا کارگل تیار ہے جو کسی بھی قسم کی سخت نفرت پر پڑھتا رہے تو اسے توڑ دیتا ہے یہ قانون فطرت ہے کہ پہاڑوں کی برف گرتی ہے تو سے محبت کرتے دریا اپنا دامن پھیلا دیتے ہیں اور اپنے دامن میں سارے پانی کو سنا کر اسے اپنائیت ثبوت دیتے ہیں سب دریا اپنے اپنے اپنے ظرف کے مطابق بانٹ لیتے ہیں مگر یہ انسان ہے جو آسمانوں کو تسخیر کرچکا ہے اور خلاؤں کو مٹھی میں کر چکا ہے لیکن زمین پر جینے کا ہنر اور اسے ابھی تک نہیں آیا وہ نفرتیں بغض کینہ حسد لعنت دھوکہ انسان کو انسانیت کے بلند مقام سے گرا دیتا ہے ۔۔سید مسرور بدایونی معاشرے کی ایک غلط سوچ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ وقت کب آئے گا جب آدمی آدمی کے دکھ درد کو سمجھے گا اور اس کے دکھوں کا مداوا کرے گا ۔۔
میں نے جسے بھی اپنا مقدر سمجھ لیا
مجھ کو اسی نے راہ کا پتھر سمجھ لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدلتی رت میں کہیں بھی وفا تلاش نہ کر
جو ہو سکے تو یہ سودا ہے دلخراش نہ کر
یہ دل کہ کعبہ کی مانند جس کی عظمت ہے
اسے جفاؤں کے پتھر سے پاش پاش نہ کر
نہیں ہے پہلے ہی کچھ کم جفا کا مارا دل
خدارا اور اسے صاحب فراش نہ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوچنے والا انسان اگر غلط راستے پر چل رہا ہوں تو کبھی امید ہے کہ ایک وقت آئے گا جب وہ اپنا سیدھا راستہ چلے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس راستے پر چل کر منزل نہیں ملے گی وہ اپنا تزکیہ ضرور کرے گا مگر ایک ایسا شخص جو بغیر سوچے سمجھے راستے کا انتخاب کرتا ہے صحیح اور غلط کی پہچان کئے بغیر سفر کرتا ہے وہ منزل سے بہت دور نکل جاتا ہے اتنی دور نکل جاتا ہے کہ یا تو دوسرے کے لیے خبر جاتا ہے یا افسانوں میں ڈھل جاتا ہے ۔سید مسرور بدایونی ایک ایسا شاعر ہے جو محبت کا داعی ہے اس کا پیغام محبت کو عام کرنے والا پیغام ہے ،وہ ایک ایسے حسن انداز سے دوسروں کو سمجھاتے ہیں کہ جس کے ذریعے ان کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی ۔وہ کہتے ہیں ۔
۔
وہ ایک شخص کہ جو میری جان جیسا ہے
زمین پر ہے مگر آسمان جیسا ہے
اسے میں یاد کہوں غم کہوں کہ درد تیرا
یہ کیا ہے دل پہ مرے جو نشان جیسا ہے
اسے جو دور سے دیکھوں تو پھول کی مانند
قریب جاؤں تو ایک چٹان جیسا ہے
اکیلا چھوڑ کے جائے گا یہ یقین تو نہیں
مگر خیال سا ، یوں ہی گمان جیسا ہے
وہ شخص جس کی محبت ہے صرف میرے لئے
مرے لیے تو حسیں آک جہان جیسا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی ہمیشہ امتحان لیتی ہے زندگی کے امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے عزم و استقلال اور ثابت قدمی کی بہت ضرورت ہے۔ثابت قدمی کا تعلق پختہ ارادے سے ہے ثابت قدمی ایک ایسی تدبیر ہے جس کے ذریعے سے دنیا کا مشکل سے مشکل کام بھی کیا جا سکتا ہے ۔اپنے موقف پر قائم رہنا دراصل ثابت کرنی ہے زندگی کے ہر میدان میں کامیاب رہنے والا شخص ہی کامیاب ہوتا ہے اس خصوصیت کو دوسرے معنوں میں مسلسل محنت و جدوجہد بھی کہہ سکتے ہیں۔۔ایک ایسی کوشش جو لامتناہی ہو، سخت چٹان کی طرح کھڑے ہو جانا ہی ثابت ہے تاریخ گواہ ہے کہ میدان چاہے کھیل کا ہو یا عشق کا ، ان میں کامیاب وہی ہوتے ہیں جنہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہوتا ہے ۔۔
سید مسرور بدایونی کہتے ہیں ۔
بے شک ہوائیں اس کے مخالف چلیں مگر
کوشش تو کر رہا ہے پرندہ اڑان کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالق کائنات میں عالم رنگ و بو میں ہر طرح کی کشش رکھی ہے یہ دنیا انسان کے لیے بنائی گئی ہے اور اس دنیا کو اگر روکھا سوکھا اور پھیکا بنایا جاتا، دنیا میں رنگینی نہ ہوتی تو انسان دنیا کی طرف توجہ نہ دیتا ۔۔تارک الدنیا ہوجانا لیکن خالق لم یزل نے اس کی رنگینی و دلکشی کے لیے ہر طرح کا سامان فراہم کیا۔۔ انسان کو اتنی عقل سے نوازا کہ دنیا کا کاروبار چلانے کے لئے یہ خود محنت کر رہا ہے اور دنیا کی تعمیر و ترقی، مادیت پرستی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے ۔۔امتحان یا آزمائش قول و فعل کو پرکھنے کے لئے لی جاتی ہے ۔۔یہ دنیا آزمائش گاہ ہے اس دنیا میں ہم جو بوئیں گے وہی آخرت میں کاٹیں گے ۔۔۔۔۔اللہ تعالی نے یہ کائنات بغیر کسی مقصد کے نہیں بنائی اس میں رہنے والوں کو حساب دینا ہو گا ۔۔ فلسفہ اخلاق میں پہلا درس ہی دنیا سے بے رغبتی کا دیا جاتا ہے ۔دنیا سے محبت آخرت میں عذاب کا باعث بن سکتی ہے ۔۔لہذا فلسفہ اخلاق ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا تم آنے والو سن لو آخرت میں تمہیں کوئی حصہ نہیں ملے گا اگر آخرت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو دنیا کی چکاچوند آنکھوں کو خیرہ کرنے والی اس روشنی سے بچ کے رہو جو دلوں میں اندھیرا پھیلا دیتی ہے ۔۔دنیا کی روشنی قلب و اذہان پر زیادہ بڑھ جائے توروح تک متاثر ہوجاتی ہے اس دھوکہ آمیز سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت کی روشنی اپنے قلوب و اذہان میں اتار دی جائے ۔۔ہماری اردو شاعری میں کائنات کی بے ثباتی بنیادی اہمیت کا حامل موضوع ہے ۔۔ اردو زبان جن عروج و زوال کی ادوار سے گزری ہے ان کو پیش نظر رکھیں تو یہ موضوع زیادہ آپ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔ہمارا معاشی معاشرتی سیاسی و سماجی پس منظر اس دنیا کی ناپائیداری پر واضح ثبوت ہے ۔۔
سید مسرور بدایونی کیکی شاعری اصلاحی شاعری ہے محبت کی شاعری ہے یہ محبت دنیا میں محبت سے بہت دور ہیں اس محبت میں اخلاقی پہلو نمایاں ہے وہ انسان کو یہ بات سمجھانے کی بابر کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ دنیا میں آنے والا ہر شاہ و گدا ،امیروغریب، چھوٹا بڑا ایک دن موت کی آغوش میں سوئے گا ۔۔۔تقدیر موت کے بغیر مکمل نہیں ہے موت ہی ہے جو تقدیر کے ہونے کا ثبوت ہے اگر موت نہ آئے تو لوگوں کا تقدیر سے اعتماد اٹھ جائے اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں ۔۔۔
€ مرجھاے جا رہے ہیں باغات زندگی کے
ہر شعر میں ملیں گے حالات زندگی کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
€ جو مزین نظرآتا ہے زر خالص سے
آدمی خاک مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
€ میں نے سمجھا تھا کہ یہ ہے شجر سایہ دار
اس میں سوکھی ہوئی کونپل کے سوا کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید مسرور بدایونی کے ہاں زندگی کے آشوب کوایک تنقید نگار کی آنکھ سے اور کبھی المیہ بیان کرنے والے کی آنکھ سے دیکھا گیا ہے ۔۔ان کے اسلوب بیان کا انداز ان کے مجموعہ کلام سے لگایاجاسکتا ہے انہوں نے اپنی غزلوں میں عامیانہ انداز سے قطع نظر انداز کی طرح ڈالی ہے ۔۔ایک فرض شناس شاعر کی طرح انہوں نے اپنا فریضہ بہت احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے اپنے عہد کی نمائندگی کی ہے ۔وہ اپنی ذات کے خول میں بند نہیں ہوئے بلکہ عصر حاضر کی نمائندگی بھی کی ہے کیونکہ شاعر صرف اپنی زندگی کے احوال و واقعات کی کو احاطہ قلم میں نہیں لاتا بلکہ اپنے عہد کے آشوب کا نمائندہ بھی ہوتا ہے ۔۔وہ اپنے دور کے سیاسی اور سماجی اور عمرانی جغرافیائی حالات و واقعات کو بھی قلمبند کرتا ہے کیونکہ وہ انہیں حالات کا پروردہ ہوتا ہے ۔۔اور اسی ماحول میں سانس لے رہا ہوتا ہے ۔۔ایک فن پارہ اپنے دور کے اہم واقعات کا جس طرح نمائندہ ہوتا ہے اسی طرح شاعر بھی اپنے حق کے مدوجزر اور سرگرم کا مشاہدہ کرنے والا ہوتا ہے اسے دوسروں سے کی طرح سے واسطہ پڑتا ہے اور سماج کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے اسے بھی معاشرہ متاثر کرتا ہے۔۔ اس کا سر کی گہرائی اور گیرائی کا عنصر ان کی زندگی پر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ جب وہ کہنے بیٹھتا ہے تو وہ ان کا ذکر کیے بغیر اپنے اشعار کو ادھورا سمجھتے ہیں بس یہی وجہ ہے کہ ایک شاعر کے ہاں اس کا عہد سانس لیتا ہوا اور زندہ جاوید جیتا جاگتا محسوس ہوتا ہے ۔۔کیوں کہ کوئی بھی شخص اپنے ماحول سے منقطع ہو کر آسمان اور زمین کے مابین خلائے بسیط میں زندگی نہیں گزار سکتا اعلی ہذا القیاس جو شخص جس شعبہ زندگی سے متعلق ہوتا ہے اور شعبے کے مجموعی ماحول کے اثرات بھی اس پر بڑے گہرے طور پر منقش ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
€ حالات خرابات نے یوں زد میں لیا ہے
انسان تو کیا ، ہو گیا شیطان پریشان
۔۔۔۔۔۔۔۔
€اک زرہ حقیر کہاں آسماں کہاں
ہو گا ہمارا ذکر تمھارے یہاں یہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
€نہ جانے کیوں وہ حسیں آج بے حساب لگا
زمین پر تھا مگر مجھ کو آفتاب لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید مسرور بدایونی کی شاعری نہ مقامی ہے نہ علاقائی بلکہ آفاقی ہے اور جب وہ آفاقی پیغام دیتے ہیں تو توقیرِ آدم اور احترام انسانیت اُن کی شاعری کے خاص موضوع بن جاتے ہیں۔وہ انسان کواتنی قدر و منزلت دیتے ہیں جتنا کہ اسلام نے اللہ تعالیٰ کی اس حسین و جمیل تخلیق کو دی ہے۔اُنھوں نے قلب انسان کو عرش تک رسائی دی ہے اوردلوں کا خیال رکھنے کی تلقین کی ہے۔۔۔
*ذہن انساں کو جلا سوچ کی بینائی دے*
*روشنی دے جو زمانے کو وہ صہبا ہو جا*
*سید مسرور بدایونی کے نزدیک بنی نوع انسان ایک جسم کی طرح ہیں۔اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم درد سے تڑپ اُٹھتا ہے۔ اس لئے اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کو تکلیف دیتا ہے تو وہ دراصل اُس جسم کو تکلیف دے رہا ہوتا ہے جس کا وہ خود ایک حصہ ہے لہٰذا تکلیف اُسے بھی پہنچتی ہے۔اسی طرح انھوں نے دوسروں کے ساتھ اچھائی کرنے کی اس حد تک تلقین کی ہے کہ اگر کوئی تمھارے ساتھ بُرائی کرتا ہے توتم پھر بھی اُس کے ساتھ نیکی کرو۔اس لئے کہ اَچھے لوگ وہ ہیں جو برائی کا جواب اچھائی سے دیں۔۔ اُنھوں نے ایک خوبصورت مثال دی ہے:
*کلی کا رنگ گلوں کا حسیں نکھار بنوں*
*چمن میں آوں تو میں ابر نو بہار بنوں*
*بنوں میں سرمہ تسکیں چشم گریاں کو*
*کسی کے دل کو میں کھویا ہوا قرار بنوں*
*یہ ایک حسرت دل بھی نکل سکی نہ مری*
*کسی کے دل کا کسی کے گلے کا ہار بنوں*
سید مسرور بدایونی جس شخص سے عقیدت رکھتے ہیں اس کی محبّتوں اور احسانات کو دلوں بجانوں تسلیم بھی کرتے ہیں اور انھیں مختلف انداز سے بہت خوبصورت شعری نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ایک ایک شعر عقیدت و احترام میں ڈھوبا ہوا ہے ۔۔۔ایک ایک شعر لافانی شعر بن گیا ہے ۔۔ذیل میں ایک ایسی ہی غزال ، جس کے تمام اشعار حوالے کا مقام رکھتا ہے ۔۔میں(راقم : اظہار احمد گلزار ) یہاں پوری غزل ہی لکھ رہا ہوں کہ میری نظر میں غزل کا کوئی شعر چھوڑا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ شخص کہ جو میری جان جیسا ہے
زمین پر ہے مگر آسمان جیسا ہے
اسے میں یاد کہوں غم کہوں کہ درد تیرا
یہ کیا ہے دل پہ مرے جو نشان جیسا ہے
اسے جو دور سے دیکھوں تو پھول کی مانند
قریب جاؤں تو وہ اک چٹان جیسا ہے
وہ شخص جس کی محبت ہے صرف میرے لیے
مرے لیے تو حسیں ایک جہان جیسا ہے
میرا وجود بھی ہے جو عدم وجود ہوا
مکان بھی ہے مگر لامکان جیسا ہے
وہ جس کو کہتے ہیں مسرور اس کی بات نہ کر
زبان رکھتے ہوئے بے زبان جیسا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے یہ دنیا بنی ہے اس میں طرح طرح کے لوگ آئے اوراپنی زندگی گزار کر چلے گئے۔ایک مرتبہ اس دنیا سے لوٹ کر چلے جانے والا شخص کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ شاہ و گدا‘ آقا و غلام کسی نے بھی اس دنیا میں لوٹنے کی آرزو نہ کی۔اس موضوع کو چھیڑتے ہوئے مسرور بدایونی یہ حقیقت حال بیان کر رہا ہے کہ اگر دنیا کوئی جاذبِ نظر جگہ ہوتی تو لوگ اس میں آنے کی خواہش کرتے اور ہمیشہ ا س میں رہنے کی جستجو کرتے۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا ایک ناپسندیدہ مقام ہے۔ یہ کوئی امن و آشتی اورسکون کا گہوارہ نہیں کہ اس سے محبت کی جائے اوراس کی رنگینیوں میں دل لگایا جائے۔ اس مرکز میں ہرکوئی مصیبت میں مبتلا رہتا ہے‘ کسی کوسکون اور چین میسر نہیں۔ یہ ایک کانٹوں کا بستر اور دکھوں کی آماجگاہ ہے۔ تمام خواہشات کے پورے ہونے کا مرکز صرف آخرت ہے جہاں کی زندگی ابدی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کا ہر فعل آخرت کے مطابق کریں اور دنیا کی دلچسپیوں سے بے رغبت رہیں۔۔۔۔
کیا کبھی یہ سوچا ہے حسیں کے حسیں لمحے
آپ کو ملے ہیں گر یہ، تو جا بھی سکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھریاں آ گئیں اب وقت کی پیشانی پر
اس کے چہرے پہ نشاں ہے میں بتا رہا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*جن کی آوازوں میں ملتی تھی بلا کی گھن گرج*
*آج وہ مسرور سب پیر و جواں چپ ہو گئے*
(مسرور بدایونی)