سید ماجد شاہ صاحب اردو اور ہندکو زبان کے معروف شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار اور کالم نویس ہیں ۔ ان کی سوچ اور خیالات عام ادباء اور شعراء سے ذرا مختلف ہیں اس لیئے وہ اپنی شاعری، اپنی تحریروں اور اپنی گفتگو میں بھی انفرادیت پسند اور منفرد نظر آتے ہیں ۔ شاہ صاحب کا شمار ایسے شعراء اور ادباء میں ہوتا ہے جو روایتی ادبی سرگرمیوں سے لاتعلق سے نظر آتے ہیں اس بارے میں ان کا اپنا ایک جواز ہوتا ہے ۔ میرے ایک سوال پر کہ وہ مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں یا نہیں جس پر ان کا جواب تھا کہ کبھی کبھار دوستوں کے اصرار پر شرکت کرتا ہوں ورنہ ان کے خیال میں مشاعروں میں اکثر شعراء اور شاعرات صرف اپنی شاعری سنا کر بھاگ جاتے ہیں جبکہ پسندیدہ شعراء ، شاعرات اور ادباء کے بارے میں بھی ان کی اسی طرح کی سوچ ہے ۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ وہ صرف ادب کو پسند کرتے ہیں ادبی شخصیات کو کبھی اپنا آئیڈیل نہیں بنایا ۔
سید ماجد شاہ صاحب 10 جنوری 1966 کو ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے ان کے والد صاحب کا نام سید محمد شاہ ہے ۔ ان کے والد صاحب پاک فضائیہ میں ملازم تھے جن کی پوسٹنگ کا زیادہ تر عرصہ راولپنڈی میں رہا ۔ سید ماجد شاہ نے ایم اے اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا ۔ جس کے بعد وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے اور کچھ عرصہ راولپنڈی میں اپنا ایک نجی کالج بھی چلاتے رہے ۔ وہ گزشتہ 22 سال سے اسلام آباد میں مقیم ہیں ۔ شاعری کا شوق انہیں بچپن سے ہی تھا ۔ وہ زیادہ تر اپنے ہم خیال شعراء کے ساتھ نجی محفلوں میں ایک دوسرے کو شاعری سناتے ہیں اور سنتے بھی ہیں ۔ انہوں نے شاعری کی ابتدا اردو سے کی اور کافی عرصہ بعد اپنی مادری زبان ہندکو میں بھی شاعری شروع کی ۔ انہوں نے اردو اور ہندکو میں غزل، نظم، ناول اور مختصر ترین افسانے بھی لکھے جبکہ اخبات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے ہیں ۔ ان کی اب تک 3 کتابیں شایع ہو چکی ہیں اور کچھ مزید کتابیں زیر طبع ہیں ۔
شاہ صاحب کی اردو شاعری سے چند خوب صورت منتخب اشعار ، اردو اور ہندکو میں چند نظمیں قارئین کی نذر ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب اردو اشعار
عکس پانی کا آسماں تھا بس
اک سفر تھا کہ رائیگاں تھا بس
بہتے لاوے میں ڈال دی کشتی
اتنا دیکھا کہ یہ رواں تھا بس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اردو غزل کے چند اشعار
کسی صورت میں پھر باہر نہیں ہوں
اگر میں جسم کے اندر نہیں ہوں
یہ دیکھو آسماں کہنے لگا ہے
میں دھوکہ ہوں کوئی چادر نہیں ہوں
تقاضے سچ کے پورے کر رہا ہوں
میں خود کہہ رہا ہوں میں گھر پر نہیں ہوں
میرے بچو تلاشو اپنی راہیں
میں اپنے باپ کی رہ پر نہیں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو نظم….(سید ماجد شاہ)
سلطانی گواہ
وہ کہہ رہا ہے
تمھارے اعضا
زبان پا کر
مخالفت میں
گواہی دیں گے
جو کر رہے ہیں
وہ سب کہیں گے
میں سوچتا ہوں
مخالفت میں جو بولتا ہے
اسی کے جبڑے کے بیلنے میں
زباں سلامت پڑی ہوئی ہے
اسی کی کشت بیاں میں نم ہے
اسی کے لفظوں میں خوشہ خوشہ سنہری رنگت ابل رہی ہے
وہ لاکھ زم زم پکارتا ہے مگر یہ چشمہ فزوں سے بڑھ کراچھل رہا ہے
میں سوچتا ہوں
یہ کس کا دست کرم ہے ایسا
جو یوریا کی بھری ہوئی بوریاں الٹ کر
مرے ہی اعضا مرے مقابل بڑھا رہا ہے
یہ کون ہے جو مجھی کو مجھ سے لڑا رہا ہے
میں اب کٹہرے میں بے زبانی کی بیڑیوں میں
کسا ہوا ہوں
میں اپنے اعضا سے ہٹ کے اب بھی یہ سوچتا ہوں
کہ جب بھی اعضا پلٹ کے آئے
جو میں کہوں گا
وہی کریں گے
……..
اردو نظم (سید ماجد شاہ)
زاویہ بدلو
جہاں قدرت نے رکھا ہو وہیں سے رزق ملتا ہے
وہاں سے لینا پڑتا ہے
اسی سے جسم کی بالیدگی کا رقص ہوتا ہے
تمیز ء گل گٹر اک واہمہ ہے اور ہوتا ہے
مگر یہ کچھ نہیں ہوتا
کلی سے اور نالی سے نکلتی نور کی کرنوں کی حدت ایک جیسی ہے
دکان ء عطر سے اٹھتی مہک بھی اک حقیقت ہے
مگر آدھی حقیقت ہے
دکان ء عطر کے نیچے کثافت سے بھرے نالے کے بھبکے میں حقیقت کا وہ حصہ ہے
جو کل کو کل بناتا ہے
زمیں نیچے فلک اوپر
زمیں کو دوسرے رخ سے اگر دیکھو
زمیں اوپر فلک نیچے بھی ہوتا ہے
نیا منظر بھی بنتا ہے
کہ جس منظر میں الٹے اور سیدھے کی کوئی حالت نہیں ہوتی
ذرا سا زاویہ بدلو نئے رنگوں میں کھو جاو
…………….
اردو نظم …..(سید ماجد شاہ)
خوش فہمی گمشدہ نظموں کے باب میں
یہ دیکھو حافظہ میرا
کہ میں نے کل کسی کے لمس کی خوشبو میں ڈوبی
نظم لکھی تھی
مگر وہ اب نہیں ملتی
کئی دن کی جگر کاوی
کئی شب کی عرق ریزی
کسی گوشے میں رکھی تھی
مگر وہ گم شدہ گوشہ
میرے نسیاں کے اژدر نے نگل کر خاک کر ڈالا
اور اس سے پیشتر بھی بارہا یہ حادثہ گزرا
مگر لکھتے ہوئےنظمیں
بلند آواز میں پڑھنا میری اک ایسی عادت ہے
تسلی جس سے رہتی ہے کہ جب بھی بعد کی نسلیں
فضا میں گم ہوئی آواز چن لیں گی
میری نظمیں بھی سن لیں گی…
………….
ہندکو نظم…..(سید ماجد شاہ)
عنوان……شرم پردہ
بلی اتے کاں کاں ہویا
خالی کٹوی
موندی تھالی
چھڑی کلہوٹی
زاری کر کے آخیا,ربا!
دیخیں اج مزمان نہ آوے
……………………….
ہندکو نظم……(سید ماجد شاہ)
عنوان…… صبر
صبر مسہری اتے بہہ کے
ملاں آخے "
اتھے دیر اے"
فیقا پلا ٹہڈوں چا کے
چینکا مارے "نینھ….ہنیر اے"