پھر وہ زمانہ بھی آگیا جب سید ماجد شاہ اپنے پہلے افسانوں کے مجموعے”ق”کے ساتھ 2016 میں ادبی مراکز میں آن کھڑا ہوا۔اس کتاب کی تیاری بھی کسی جنگ کی تیاری سے کم نہ تھی۔ہم دونوں دن رات اس کتاب کی سیٹنگ اور تزئین و آرائش کے بارے میں فکر مند رہتے۔سرورق کے بارے میں ہم نے اتنا سوچا کہ خود ہمارے چہرے سرورق بن کر رہ گئے۔ماجد نے جس طرح کتاب کے نام رکھنے میں تمام پرانی روایتوں کو پس پشت ڈال دیا بالکل اسی طرح سرورق بھی ہم دونوں کی جان کو آیا ہوا تھا۔خدا خدا کر کے ماجد نے ایک سرورق فائنل کیا لیکن عینک کے پیچھے مجھے جھانکتا چہرہ صاف بتا رہا تھا کہ وہ اب بھی کچھ بہت زیادہ مطمئین نہیں ہے۔بہرحال کتاب چھپ گئی اور اس کی اولین پذیرائی حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی کے حصے میں آئی۔اس مجموعے میں شامل تمام افسانے سماجی شعور کا پتا دیتے ہیں۔ویسے تو ادب کی ہر صنف سماجی شعور کی دعوے دار ہیں لیکن فکشن کا دعوی قدرے مختلف اور مبنی برحقائق ہے۔ماجد نے سقراط کو پڑھے بغیر یہ سمجھ لیا تھا کہ انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور فرد کی نفسیات معاشرتی رویوں میں ڈھل کر بے انت جزیروں کو منکشف کرتی ہے۔اس حقیقت کو پا لینا آسان نہ تھا۔ماجد نے اس کے حصول میں اپنی زندگی کا قیمتی وقت صرف کر دیا تھا۔تب کہیں جا کر وہ اس قابل ہوا کہ اپنے تمام تر حاصلات کو ایک خاص ترتیب و تہذیب کے ساتھ افسانے میں پیش کر سکے۔اس ریاضت میں اس نے انسانی نفسیات کے ساتھ ساتھ میتھالوجی کو بھی اپنا راہ نما بنایا اور تاریخی کے قدیم اوراق سے بھی اپنی مرضی کا عطر کشید کیا۔یہ سب کچھ ہمیں ماجد کے پہلے افسانوی مجموعے میں نظر آتا ہے۔”ق”کے جن افسانوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ان میں “مکروہ”،”صبورہ”اور “پیوند”شامل ہیں۔مجھے اس سے پہلے اس طرز کے افسانے پڑھنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ان افسانوں میں قدرے وجودی رنگ حاوی ہے کیوں کہ انسان کا بنیادی وصف یا کیفیت وہ اضطراب یا بے چینی ہے جو اس کی باقی ماندہ کیفیات کو وقفے وقفے سے متاثر کرتی ہے۔ہمارے وجود کے تمام امکانی جہات یہاں کسی نہ کسی صورت موجود ہیں۔ان افسانوں میں آپ کو جنت کے پھل دوزخ کی گرمی سے پکتے نظر آئیں گے۔”ق”کے افسانوں میں ہمیں نئی تکنیک،نئے اظہاری پیٹرن،نفسیاتی پہلو داری،فلسفیانہ تفکر اور شاعرانہ احساس کی خوب صورت اور متوازن ترجمانی ملتی ہے۔تاہم یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ماجد اپنے افسانوں میں جو المیہ تخلیق کرتا ہے اس کی بنیاد میں انسانی جبر شامل ہے یا اختیار کی کوئی صورت راہ پا گئی ہے۔اگر یہ جبر ہے تو پھر فانی بھی ماجد کا ہم خیال نظر آتا ہے۔۔۔۔۔
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
ماجد کے افسانوں میں انکشاف ذات کا مرحلہ قاری کو خاص طور پر اپنے ساتھ مصروف رکھتا ہے۔ماجد اس کے ہمراہ حقیقت نگاری کا جمالیاتی پہلو بھی سامنے لایا جو منفرد فلسفہ حیات اور کئی نئے رجحانات کا عکاس بھی ہے۔حقیقت نگاری کے ضمن میں ی یہ بات کہنا لازمی ہے کہ” ق”کے افسانوں میں حقیقت نگاری کے زاویے تخلیقی وجدان سے کسی طور الگ نہیں ہیں۔غیر معمولی قوت مشاہدہ اور فن کا گہرا شعور ان افسانوں کے وہ نمایاں اوصاف ہیں جسے کوئی قاری کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...