اگر آپ اندرون سندھ، پنجاب یا پشاور وغیرہ کے پرانے مُحلّوں میں جائیں بلکہ ہر وہ جگہ جہاں تقسیم سے قبل ھندو آباد تھے تو ایک خاص طرزِتعمیر اور بھاری منقش لکڑی کے دروازوں، گھر کی پیشانی پر عین دروازے کے اوپر ہندی میں اوم ( ॐ ) لکھا ہوا نظر آئے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو ہر گھر کی دیوار میں طاق بنا ہوا ضرور نظر آئے گا۔ یہی طاق آپ کو گھر کے اندر بھی نظر آئیں گے۔ میں نے جب بھی لال اینٹوں سے بنے ہندؤں کے یہ مکانات دیکھے تو اندر کے گھٹے گھٹے نیم تاریک ماحول میں یہ طاق بڑے پراسرار محسوس ہوئے۔ جن گھروں میں بہت عرصہ سے رنگ و روغن نہیں ہوا یا کھنڈرات میں موجود یہ طاق دھویں سے سیاہ نظر آئے۔ جاننے کی جستجو ہوئ اور کچھ جاننے والوں سے پوچھا تو ان طاقوں کے بارے میں عجیب معلومات حاصل ہوئیں جن کو اس تحریر میں شامل کردیا ہے۔ طاق مطلب محرابدار ڈاٹ جو دیوار میں بناتے ہیں۔ طاقچہ جو دیوار میں بناتے ہیں۔
پرانی دہلی میں ہر ہندو کے گھر میں ایک سید کا طاق ہوتا تھا جسے سید کا آلہ بھی کہتے ہیں اب بھی یہ ہیں ۔ ہندؤوں کا مزہب یا عقیدہ یہ ہے کہ ہر طاقتور کی پوجا کی جائے یا جس سے خوف آتا ہو سانپ، بچھو ، شیر، پہاڑ ، ندی ، آگ ، سورج ، شہنشاہ، ہاتھی یا کوئی بھی طاقتور انسان ۔ سلطنت پیریڈ مغل دور میں اولیاء کرام سب سید تھے ان سے سب کو ہی فیض حاصل ہوتا تھا ان کے درباروں میں مسلمانوں سے زیادہ غیر جاتے تھے اور فیض پاتے تھے ان اولیاء حضراتِ کے دروازے سب کے لیے کھلے تھے بس آپ یہ سمجھ لیں کہ سید نام ہی ولی سے جڑا ہوتا تھا اور اہل وطن ان کی عزت و احترام کرتے تھے اس عمل کو وہ پوجا بھی کہتے تھے اور آج بھی ان کا یہی عمل ہے
ایک وقت آیا کہ درگاہ اور آستانہ پر جانا کچھ مشکل ہوا تو ان لوگوں نے اپنے گھروں میں سید کے آلے یا طاق بنا لئے اس طاق میں جمعرات کو شام کے وقت کچھ اگر بتیاں جلائی جاتی ہیں پھولوں کی ایک لڑی طاق کے ماتھے پر باندھی جاتی ہے اور دعا مانگی جاتی ہے۔ یہی عمل ہم مسلمان پیروں فقیروں کی قبور پر کرنے لگے ہیں۔
جمعرات دراصل گرووار یعنی گرو کا دن کہلاتا ہے گرو یعنی برھسپتی یعنی جوپیٹر (مشتری) اور یہ گرو وار ہندوؤں/ سناتنیؤں کا دن کہلاتا ہے جیسے ہمارا جمعہ یعنی شکروار یعنی وینس (زہرہ) کا دن .
برصغیر ہندو پاک میں خود ساختہ جعلی سیدوں سے قطع نظر ہندوستان میں آج بھی سادات ہیں ۔۔اسکا انکار نہیں ۔۔کئی بڑے خانواده آج بھی ہیں ۔۔مثلا حضرت مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی ندوی رحمتہ اللہ اور انکا پورا خانوادہ جنکا پورا گاؤں یہاں لکھنؤ کے پاس ضلع رائے بریلی میں تکیہ کلاں کے نام سے مشہور ہے ۔۔سید احمد شہید رح. شاہ اسمعیل شہید یہ انہیں کے آباؤ اجداد میں سے ہیں ۔۔یہ تو ہیں حسنی سادات ۔۔ایک اور ہے حسینی سادات جن میں ہندوستان کے مشہور مقرر مولانا سید سلمان حسینی ندوی شامل ہے ۔۔اور انکا خانوادہ ۔۔۔یہ دو خاندان ایسے ہیں جن کے سید ہونے کی گواہی یہ خود نہیں دیتے ۔۔بلکہ مؤرخین دیتے ہیں.. اور سادات کی جو نشانیاں آنمحترم نے بتلائی ہے ۔۔اس سے کئی زیادہ ان لوگوں۔میں پائی جاتی ہے ۔کمال کی بات یہ ھے کہ اس خانوادہ نے اپنی نسل کو کھچڑی نہیں کیا ہے ۔۔۔آج تک شادیاں، رشتہ ناطے اپنوں ہی میں کرتے ہیں ۔۔یہ تو اصل الاصول میں نے آپ کو بتاٰے ۔۔اس کے علاوہ اور بھی سادات ہیں جو شیعہ ہو چکے ہیں ۔۔بلکہ شیعوں میں بھی سادات اور اصل سید ہوتے ہیں ۔۔اس پر میرا مطالعہ ہے
ہندوستان میں آج بھی سادات ہیں ۔۔اسکا انکار نہیں ۔۔کئی بڑے خانواده آج بھی ہیں ۔۔مثلا حضرت مولانا سید ابوالحسن علی الحسنی ندوی رحمتہ اللہ اور انکا پورا خانوادہ جنکا پورا گاؤں یہاں لکھنؤ کے پاس ضلع رائے بریلی میں تکیہ کلاں کے نام سے مشہور ہے ۔۔سید احمد شہید رح. شاہ اسمعیل شہید یہ انہیں کے آباؤ اجداد میں سے ہیں ۔۔یہ تو ہیں حسنی سادات ۔۔ایک اور ہے حسینی سادات جن میں ہندوستان کے مشہور مقرر مولانا سید سلمان حسینی ندوی شامل ہے ۔۔اور انکا خانوادہ ۔۔۔یہ دو خاندان ایسے ہیں جن کے سید ہونے کی گواہی یہ خود نہیں دیتے ۔۔بلکہ مؤرخین دیتے ہیں.. اور سادات کی جو نشانیاں محترم نے بتلائی ہے ۔۔اس سے کئی زیادہ ان لوگوں۔میں پائی جاتی ہے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ اس خانوادہ نے اپنی نسل کو کھچڑی نہیں کیا ہے ۔۔۔آج تک شادیاں، رشتہ ناطے اپنوں ہی میں کرتے ہیں۔
ہمارے ایک بہت محترم دوست مسعود پرویز قریشی جن کا پشاور سے تعلق ہے نے اس سلسلے میں اپنی کچھ یادیں شیئر کی ہیں۔ انہی کی زبانی سنئے۔
پشاور کے بہت زیادہ گھروں میں ایسی جگہیں ھیں۔ھمارے گھر میں بھی تھا۔ھر جمعرات کو دیا جلتا اور پھول ڈالے جاتے ۔ھمیں بزرگوں نے یھی بتایا تھا کہ یہ شھیدوں اور نیک مردوں عورتوں کے ٹھکانے ھوتے ہیں۔ اکثر اندھیری گلیوں کے کونے میں بھی یہ آلے بنے ھوتے ھیں ۔برساتی والی گلیوں میں تو ضرور ھوتے ھین ۔برساتی دوگھروں کے درمیان یا ایک ھی گھر کی چھت گلی پر ھوتی ھے۔ ہہاں چراغ شاید رات کے اندھیرے سے بچنے کیلۓ ھوتے ھیں۔کافی داستانیں ہیں قسم قسم کی باتیں ہیں ۔ ھمارے ایک گھر کے اندر ایک لمبی گلی تھی جو کہ گھر کا حصہ تھی۔اس میں ایک نالی تھی۔میں اکثر رات بجاۓ ٹوائلٹ جانے کے اس نالی پر پیشاب کرتا تھا ۔ایک رات خواب میں میں نے پانچ سبز پوش بزرگ دیکھے۔ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ اپ اس جگہ پیشاب نہ کیا کریں کیونکہ یہ ھماری گزرگاہ ھے اور ھمیں اچھا نہیں لگتا۔میں ڈرا اور میں اپنی حرکت سے باز آیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ھے کے ھمارے گھر اور نانی ماموٶں کے پانچ گھروں میں یہ آلے تھے اور باقائدگی کیساتھ ھر جمعرات کو پھول ڈالے جاتے اور دیۓ جلاۓ جاتے۔ میرا بچپن پشاور میں گزرا ھے اور میں اپنی آنکھوں سے یہ آلے پشاور کی قدیم آبادیوں والے گھروں میں دیکھے ھیں- دیا تو وھاں روز ھی جلتا تھا مگر اگر بتی اور پھول ھر جمعرات کو چڑھائے جاتے تھے ۔
ایک اور دوست اس بارے میں اپنا مشاھدہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے گھر میں بھی آلہ تھا اور مشہور تھا کہ انکا تعلق ایک نیک خاتون جنہیں ہندکو میں بی وڈی کہتے تھے سے تھا۔ میرے والد مرحوم ومغفور نے ایک دفعہ بتایا کہ کوٸ نصف صدی پہلے وہ ڈیوڑھی میں چارپائ پر لیٹے ہوۓ تھے تو کسی نسوانی آواز نے انہیں نام لے کر پکارا۔ جب وہ اٹھے تو دیکھا کہ ایک برقعہ پوش لمبی خاتون کھڑی تھیں اور کہا کہ آج ہمارے مہمان آ رہے ہیں ، آپ باہر چلے جائیں۔ میرے والد بڑے جری شخص تھے، انہوں نے بے خوفی سے کہا کہ گھر میں کوٸ نہیں اور اس کی حفاظت کون کریگا۔ تو بی وڈی نے کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اس پر والد صاحب باہر چلے گۓ اور شام کو واپس لوٹے۔ اب یہ ایسے واقعات ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی کوٸ سائنسی توجیح پیش کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!
پرانے گھروں میں یہ آلے آج بھی نظر آتے ھیں ،میرزا ادیب نے اپنی آپ بیتی میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ہند کے ایک بڑے نام جناب احمد رضا خان بریلوی صاحب کی تصنیف و تالیف شمع شبستانِ رضا میں بھی سید کے آلے کا ذکر مل جائے گا.
ہماری ایک فیسبک فرینڈ اس بارے میں اپنا مشاھدہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب میں چھوٹی سی تھی تو ہمارے محلے میں ایک گھر تھا جس میں ایسا آلہ موجود تھا۔ وہاں وہ لوگ روزانہ مغرب کے وقت دیا اور اگربتی جلایا کرتے تھے۔ ان کی بیٹی میری سہیلی تھی ۔ ہم لوگ جس کمرے کے باہر کھیلتے تھے اس کے اندر ایک دیوار میں سید کا آلہ تھا۔ ایک مرتبہ کھیلتے ہوئے ہماری گیند اس کمرے میں چلی گئ۔ مجھے ہمیشہ سے اس اندھیرے گھٹے ہوئے کمرے سے خوف آتا تھا۔ میں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ وہ اندر جا کر گیند لے آئے۔ وہ گیندلینے اندر گئ اور زرا دیر میں روتی چیختی بھاگتی ہوئ باہر آئ کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ کسی نے اس کے گال پر زور دار تھپڑ مارا ہے۔ تھپڑ اتنا زور رار تھا کہ کان کا پردہ پھٹ گیا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ اس بیچاری کا کان پھر کبھی ٹھیک نہیں ہوسکا۔ بعد میں اس بچی کی دادی نے یہ بتایا کہ اس کمرے میں جو بزرگ رہتے ہیں وہ ناپاکی کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور کیونکہ یہ بچی ناپاکی کی حالت میں وہاں چلی گئ تھی تو ان کو سخت ناگوار گزرا ہوگا اور انہوں نے اس کی سزا دی۔اس واقعے کے بعد میں اتنی خوفزدہ ہوگئ کہ پھر دوبارہ کبھی ان کے گھر نہیں گئ۔
یہاں تک سید کے آلے کے بارے میں میری جو معلومات تھیں وہ تحریر کردی ہیں- اب میری قابل احباب سے گزارش ہے کہ اس پر مزید روشنی ڈالیں کیونکہ میں نے روحانیات سے دلچسپی رکھنے والے کچھ حضرات سے سنا ہے کہ گھر میں سید کا آلہ کی جگہ مخصوص کر کے اس کو ایکٹو( Active) کیا جاتا ہے اور پھر اس جگہ ناپاکی کی حالت میں نہیں جایا جاتا اور نہ وہاں ہر ایک کو جانے کی اجازت ہوتی ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...