فیض احمد فیض پکستان کے عالمی شہرت کے حامل تخلیقکاروں میں سر فہرست شمار کیے جاتے ہیں۔ میں ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی اور مسعود اشعر صاحب والد گرامی کے پاس آۓ بیٹھے تھے کہ اچانک بڑے بھیا سید انجم معین بلے صاحب وارد ہوۓ اور فرمایا کہ فیض انکل ( فیض احمد فیض صاحب) تشریف لاۓ ہیں۔ یہ سنتے ہی تمام اصحاب کے چہرے کھل اٹھے اور سب کے سب فیض صاحب کا استقبال کرنے اٹھ کھڑے ہوۓ۔ ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بادشاہ سلامت کی تشریف آوری ہورہی ہے۔ ہم نے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے ، برادر محترم سید عارف معین بلے اور آنس معین کو ایسی متعدد شعری نشستوں اور ادبی محافل میں اپنا کلام پیش کرتے اور حضرت جوش ملیح آبادی ، فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی اور سجاد حیدر خروش جیسے قادرالکلام شعرا ء اور محمد طفیل اور انتظار حسین جیسے صاحبان علم و ادب سے ملنے والی بھر پور داد سمیٹتے دیکھا ہے۔ فیض احمد فیض کو سید فخرالدین بلے سے فرمائش کرکے پتنگ ، ڈسپلن ، بازیافت ، تسخیر ، سالگرہ کا ،تحفہ جیسی شاہکار نظمیں اور بہت سی غزلیں سنتے دیکھا۔ جبکہ سید عارف معین بلے سے صلیب شاخ اور دیگر نظمیں اور غزلیں فرمائش کرکے سننا بھی یاد ہے اور ایسی ہی نشستوں میں فیض احمد فیض کو یہ بھی کہتے سنا کہ سید فخرالدین بلے نے تعلق داری کو ہر اچھے برے وقت میں اپنے مخصوص انداز میں نبھایا حتی کہ عہد آمریت میں مجھ جیسے کو غدار اور ملک دشمن قرار دیئے جانے والے قیدی سے بھی ، خود اعلی سرکاری افسر ہوتے ہوئے بھی نتائج کی پرواہ کیے بغیر کسی نہ کسی طرح ملاقات کے لیے جیل آتے تھے سادے کاغذ ، روشنائی کی شیشیاں ، مختلف رنگوں کے قلم ، پاکٹ ڈائریاں ، نمکو اور گڑھ بطور تحائف لایا کرتے تھے۔ اور مجھے تعجب اس وقت ہوا کہ جب حبیب جالب صاحب نے بھی سید فخرالدین بلے صاحب کے حوالے سے اسی طرح کا تجزیہ اور تجربہ بیان کیا۔ ایک اور قصہ بھی ہمیں بہت اچھی طرح سے یاد ہے اور بعد ازاں یہی واقعہ ہم نے متعدد بار خود سجاد حیدر خروش سے بھی مختلف محافل میں سنا۔ حضرت جوش ملیح آبادی ، فیض احمد فیض ، سید فخرالدین بلے ، محمد طفیل (مدیر ماہنامہ نقوش لاہور) ، اداکار محمد علی چند اور ادبی شخصیات جوش صاحب کی اقامت گاہ پر یکجا تھے۔ بھرپور مگر غیر رسمی بیٹھک شعری نشست میں بدل گئی۔ سجاد حیدر خروش صاحب نے بابا جانی حضرت جوش سے نشست کا باقائدہ آغاز کرنے کی اجازت چاہی اور سب سے پہلے آنس معین کو زحمت کلام دی گئی۔ آنس معین کا کلام سن کر تمام شرکائے محفل دم بخود رہ گئے۔ جہاں جوش صاحب نے آنس معین کو کمسن سقراط کے خطاب سے نوازا اور دوران تقریب متعدد بار آنس معین کو کمسن سقراط کہہ کر ہی مخاطب فرمایا وہیں فیض صاحب نے برجستہ طور پر فرمایا
I am yet to see a more grown up intellectual
آنس معین چھوٹی عمر کا بزرگ دانشور ہے۔ میں نے آنس معین جیسا زیرک دانشور ، اس عمر میں نہیں دیکھا-
آج فیض احمد فیض کا تذکرہ کرتے ہوئے خیال آ رہا ہے کہ فیض صاحب کے اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کے لگ بھگ ایک سال دو ماہ اور پندرہ روز بعد آنس معین نے بھی رخت سفر باندھ لیا تھا۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں جنہیں ہمارے بچپن کے یادگار واقعات کا نام دیا جاسکتا ہے۔ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا یہ شعر بصد تعظیم اور خلوص فیض احمد فیض صاحب کی نذر کرتا ہوں۔
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ ، آج بھی مرنے کے باوجود
ہمارے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے کی بیٹھک ہمیشہ آباد رہتی تھی۔ لاہور، سرگودھا، راولپنڈی ،کوئٹہ، قلات ،خضدار ،بہاولپور اور ملتان میں، ہم جہاں جہاں بھی رہے ، ہمارے گھر بڑے بڑے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کا آنا جانا لگارہتاتھا۔جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض ، ڈاکٹر سید عبداللہ ، ممتاز مفتی ، اشفاق احمد، بانو قدسیہ ، انتظار حسین ، منشا یاد ، بشریٰ رحمان ، مرتضیٰ برلاس ، احمد ندیم قاسمی ، ڈاکٹر وزیرآغا ، شہزاد احمد، جون ایلیا ، محسن بھوپالی ، محسن نقوی ، مصور صادقین ، اخترحسین جعفری ، محسن احسان ، پریشان خٹک ، طارق محمود ، جمیل الدین عالی، علامہ سید غلام شبیربخاری، قتیل شفائی ، طفیل ہوشیار پوری، ریاض بٹالوی، صدیقہ بیگم، حنیف رامے ، ڈاکٹر اسلم کمال ، مسعود اشعر ، سید سلطان احمد ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، ڈاکٹر انورسدید منورسعید ، اسرارزیدی ، امجد اسلام امجد ، عطاالحق قاسمی ، اداکار محمد علی، میرزا ادیب ،حبیب جالب ، مدیر نقوش جناب محمد طفیل ، ڈاکٹر آغا سہیل ، پھوپی اماں ادا جعفری ، ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا ، پروفیسر غلام جیلانی اصغر ، پروفیسر ڈاکٹر اصغر ندیم سید ، ظفر علی راجہ ، خواجہ نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف، بیدارسرمدی ، اور جاوید قریشی سمیت بہت سے ادبی ستارے میری آنکھوں کے سامنے جگمگارہے ہیں ، جوکبھی ہمارے آنگن میں جلوے بکھیر رہے ہوتے تھے۔یادوں کی کھڑکیاں کھلی ہیں تو بہت سے بیتے مناظر میری آنکھوں کے سامنے آگئے ہیں۔ اس ماحول میں ہم بہن بھائی پلے اور پروان چڑھے یونیورسٹیوں سے زیادہ مجھے ، ہمارے سب سے بڑے بھائی سید انجم معین بلے ، اور عارف بھائی کو ان محفلوں میں بیٹھ کر سیکھنے کے بہت مواقع ملے۔ اسی لئے نامور ادبی شخصیات کے ساتھ ہماری بہت سی یادیں جُڑی ہوئی ہیں
عہد آمریت میں تخلیق ہونے والا ادب خاص طور پر لہو رنگ شاعری کو محض فن پارہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کو ایک درد مند اور غیر جانبدار مورخ کی لکھی ہوئی مستند تاریخ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف کے تمام تر تقاضے بالائے طاق رکھ کر پھانسی دیئے جانے کے عمل کو عدالتی قتل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس تناظر میں اب ملاحظہ فرمائیے جناب سید عارف معین بلے صاحب کی یہ شاہکار نظم صلیب شاخ کہ جسے جناب فیض احمد فیض صاحب نے بھی متعدد بار عارف معین بلے صاحب سے فرمائش کرکے سنی ۔
نظم : صلیب شاخ
نظم نگار : سید عارف معین بلے
ہوا کی ہچکی بندھی ہوئی ہے
صبا پریشان حال، غم سے نڈھال
بکھرائے بال ، باصد ملال
چُپ چاپ نوحہ خواں ہے
فضا چمن کی دھواں دھواں ہے
بہار روٹھی ہوئی کھڑی ہے
نسیم ہے اس قدر پریشاں کہ اپنے ہاتھوں کو مل رہی ہے
زمیں بھی تیور بدل رہی ہے
فلک کی آنکھوں میں ہے شفق رنگ اشک حسرت کا بحرِ کاہل
عجیب عالم ہے گلستاں کا
چمن میں ہے ایک حشر برپا
شجر کھڑے ہوکے باادب گویا سوگ سااِک منارہے ہیں
گزرچکی ہے چمن پہ جو کچھ ،خموش رہ کر بتارہے ہیں
بتارہے ہیں اُجاڑ ڈالا ہے شہریاروں نے شہر کو
گھر بسا لیا ہے
چمن کوویران کردیا ہے
پراپنا گلداں سجا لیاہے
کسی بھی غنچے سے لب کُشائی کاجرم سرزد ہواتواس کو
صلیب شاخ شجر پہ فوراً چڑھادیا ہے
ہوئی ہے سبزے کی پائمالی
جھکی ہوئی ہے ہرایک ڈالی
ہے آج شاخوں کی گود خالی
کوئی بتائے ، کہاں ہے مالی؟
جہاں پہ آباد اِک جہاں تھا، وہاں پہ اب خاک اُڑرہی ہے
عجیب عالم ہے گلستاں کا
چمن میں ہے ایک حشر برپا
سنی ہے گوش نظر سےمیں نے
شجر کی یہ دُکھ بھری کہانی
شجر کی اِس دُکھ بھری کہانی کا
مجھ پہ کوئی اثر نہیں ہے
کہ میں تو لوح جبین اشجار کی عبارت کو
پڑھ کے یکدم ٹھٹھک گیا ہوں
کہ جس پہ لکھا ہوا ہے شبنم کے آنسووں سے
ہمارے گلشن کاکیا بنے گا؟
فیض احمد فیض کا ذکر ہو اور بین الاقوامی شہرت کے حامل قادرالکلام شاعر ، ممتاز محقق ، نقاد اور مایۂ ناز فیض شناس اسکالر جناب اشفاق حسین صاحب کا حوالہ شامل نہ ہو یا تذکرہ نہ کیا جائے یہ کیسے ممکن ہے۔ اشفاق حسین فیض شناسی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع ہے۔ دھرتی پوجا اور دیش بھگتی فیض کی طرح ان کی بھی پہچان ہے۔ وہ کینیڈا سے اکثر ماں دھرتی کی سلامی کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور جب جب بھی آتے ہیں راقم السطور ظفر معین بلے جعفری کو بھی یاد رکھتے ہیں اور مطلع فرماتے ہیں اور ہم ہمیشہ ہی ان کی بصیرت افروز گفتگو اور شخصیت سے فیض پاتے ہیں ، ان کی زیارت اور ان سے گفتگو اور ان کے اعزاز میاں منعقد کی جانے والی تقاریب میں شرکت کا اپنا ہی جداگانہ احساس ہے۔ جیسی بے قراری میں قرار آجاتا ہے۔ بے شک یہ بھی ان کی بڑائی ہے کہ وہ اپنے قیمتی وقت میں سے ہمارے لیے بھی چند گھڑیاں مخصوص فرماتے ہیں۔ اشفاق حسین صاحب ہمارے سینئر ہیں۔ ان کے ذہن میں آج بھی ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے ملاقاتوں کے حسین لمحات محفوظ ہیں اور ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت آج بھی بخوبی یاد ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ اشفاق حسین کے مراسم اور روابط قابل صد احترام شعیب بن عزیز صاحب سے بھی ہیں کہ جو ہمارے والد گرامی کی ادبی اور دفتری زندگی کے رفیق بھی رہے ہیں اور ہم ان کا شمار فخریہ طور پر محبان سید فخرالدین بلے میں کرتے ہیں۔ اشفاق حسین یکم جنوری ۱۹۵۱ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ جیکب لائن گورنمنٹ ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں کراچی گورنمنٹ کالج، ناظم آباد ، نیشنل کالج اور اسلامیہ کالج سے تعلیمی مراحل اور منازل طے کرتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ ملازمت کے سلسلے میں گورنمنٹ کالج، کورنگی، کراچی اور آرٹس کونسل، کراچی سے وابستہ رہے۔مارچ۱۹۸۰ء میں کینیڈا چلے گئے جہاں ان کی ٹریول ایجنسی ہے۔ کینیڈا سے ہی انہوں نے اردوانٹرنیشنل کا اجرا کیا جو ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۷ء تک جاری رہا۔ شاعری کے علاوہ انہوں نے تنقیدی مقالات اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کی مشہور و مقبول تصانیف کی گو کہ فہرست طویل ہے پھر بھی یہاں چند تصانیف کے نام پیش کیے جا رہے ہیں۔ ہم اجنبی ہیں ، فیض ایک جائزہ ، فیض کے مغربی حوالے ، کینیڈا سے کچھ نئی اور پرانی نظموں کا ترجمہ انگریزی میں ۔That Day Will Dawn
کے نام سے۔ فیض شناسی اور فیض فہمی کے حوالے سے اشفاق صاحب۔ کی متعدد کتابیں کینیڈا ، بھارت اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ آج دنیا بھر
میں اشفاق حسین صاحب کو فیض شناسی کے حوالے سے اتھارٹی اور سند کے طور پر گردانا چاہتا ہے۔
جب اس موجودہ صدی کا آغاز ہوا تو جب تک اے لیول اردو زبان و ادب کے نصاب میں ایک عجیب تشنگی سی تھی۔ اردو ادب اے لیول کا نصاب شعر و شاعری سے محروم تھا۔ اردو افسانہ ، ناول اور ڈرامہ پڑھانے کا لطف بے شک بہت ہوتا ہے لیکن شعر و سخن بنا اردو نہ تو پڑھنے کا لطف آتا ہے اور نہ پڑھانے کا۔ برٹش کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ متعدد ورکشاپس میں کیمبرج یونیورسیٹی کے سینئر اساتذہ اور اراکین مجلس مرتبین نصاب سے ملاقات اور نصابی امور پر گفتگو بھی ہوتی ہی رہتی تھی۔ بارہا ان کو لکھ کر بھی گزارش پیش کی بعد ازاں بذریعہ میل بھی کہ اے لیول اردو کا نصاب نامکمل اور ادھورا ہے۔ اللہ جانے کس کی دعا لگی کہ جہد مسلسل کے نتیجے میں محض حصۂ نثر پر مشتمل اے لیول اردو کے نصاب میں حصۂ نظم بھی شامل ہوگیا۔ فیاض احمد فیض غزل کے حصے میں نہ تھے اور نہ ہیں بلکہ نظم کے حصے میں شامل تھے ہر ہر شاعری کی تین تین نظمیں شامل ہوا کرتی تھیں۔ فیض صاحب کی تینوں نظمیں بچے بہت شوق سے سننے اور سمجھنے کے خواہش مند ہوتے تھے۔ ایک تو مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ، دوسری چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز اور تیسری نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں۔ شاعر سے پہلے شاعر کا مکمل تعارف ، فن ، شخصیت ، خدمات اور اردو ادب پر اثرات کا احاطہ کرنا ہوتا تھا۔ تعارف سن کر ہی طالب علموں کی دلچسپی شاعر کے بعد شاعری میں بھی حد سے زیادہ پیدا ہونے لگی بس پھر کیا تھا فیض صاحب کی دیش بھگتی ، وطن پرستی ، دھرتی پوجا ، حب الوطنی ، جمہوریت پسندی اور آمریت مخالف رویے کا مفصل تجزیہ ضروری ہوتا تھا۔ مسلسل بیس بائیس برس سے اللہ رب العزت نے یہ کرم جاری رکھا ہوا ہے کہ ہمیں ملک بھر میں او اینڈ اے لیول اردو زبان و ادب کے بہترین نتائج پیش کرنے کا اعزاز شامل ہے اپنی یادوں کو تازہ کرنے بلکہ ان یادوں میں قارئین کرام کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ فیض صاحب کی ان شاہکار نظموں کا مطالعہ کرنے کا بھی ایک الگ ہی لطف ہے
جب جنازگاہ میں دادا جانی حضرت جوش ملیح آبادی صاحب کی ایک مسلک کے ماننے والوں کی جانب سے نماز جنازہ پڑھی جا چکی تھی اور تھوڑے ہی وقفے کے بعد فقۂ جعفریہ کے مطابق نماز ادا کرنے کے لیے صف بندی کا عمل جاری تھا تو فیض احمد فیض بھی بس انہ لمحات میں بذریعہ کار لاہور سے لانگ ڈرائیو کے بعد سیدھے جناز گاہ ہی پہنچے تھے اس طرح فیض صاحب جوش صاحب کی نماز جنازہ میں شرکت کرپائے تھےاور نمازجنازہ ادا کرنے کے بعد فیض صاحب نےاپنا سرجوش صاحب کےقدموں پر دھر دیا اوردہاڑیں مارمارکرروتےرہے اورکہتےرہے کہ” آج اردو یتیم ہوگئی”۔ یہ بہت ہی رقت آمیز منظرتھا۔ فیض صاحب بھی تو والدگرامی سیدفخرالدین بلے کی طرح عارضۂ قلب میں مبتلاتھےاوران دونوں کی حالت بگڑتی چلی جارہی تھی۔ سجادانکل یتیمی کا گھاؤ برداشت کرنے کی کو شش میں مصروف تھے۔ تدفین کےمراحل سے گزرکر تینوں بزرگوں کو ایمرجنسی میں لے جایا گیا. یہاں یہ امرقابل ذکر ہےکہ فیض صاحب نےجوش صاحب کی تدفین سےقبل ہی بابا جانی سید فخرالدین بلے صاحب اور سجاد انکل کے قریب آکر فرمایا میں تھوڑی دیر کے لیے اجازت چاہوں گا۔ اہمارے بابا جانی کے اس استفسار پرکہ تدفین ہونےکو ہے، فیض صاحب نے فرمایا “بلےصاحب میں اردو کو دفن ہوتے ہوئےنہیں دیکھ سکتا “ اور واقعی فیض صاحب اس مرحلے پر وہاں موجود نہ تھے۔