پاکستانی جرائد میری تخلیقات مسلسل شائع کرتے رہتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ متعدد قلمکاروں سے میرے قریبی مراسم رہے۔اسی قربت کے سبب ڈاکٹر وزیر آغا نے میرے پہلے شعری مجموعہ ‘لب گویا’ کا دیباچہ بھی لکھا تھا۔
پچھلے دنوں مجھے سید فخرالدین بلے علیگ کی گراں قدر شخصیت کو بڑی تفصیل کے ساتھ جاننے کا موقع ملا۔ مختصر لیکن جامع نگارشات پڑھنے کے نتیجے میں مجھے ایک اہم اور یگانہء روزگار ہستی سے ملاقات کااعزاز ملا۔ قلمکار کہیں بھی ہو، وہ اپنے خاندان سے جدا نہیں رہتا۔
سید فخرالدین بلے علیگ سے میری قرابت داری کی دو وجوہات ہیں۔ اول ان کا ‘علیگ’ ہونا اور دوئم ان کا ‘فنی اجتہاد۔
وہ فن کی جس بلندی پر ہیں، اگر وہاں نظر ڈالنے کی کوشش کرونگا تو دستار میرے ہاتھوں میں ہوگی۔ لہذا یہ کہنے پر اکتفا کرنا چاہونگا کہ زبان ، تفکر ، تحقیق ، صحافت ، تجزیہ نگاری اور عقیدے کے استحکام کوسید فخرالدین بلےعلیگ کہا جاتا ھے۔وہ اظہار کےجس عروج پر ہیں، اب اس کا خال خال دیدار بھی محال ہے۔
متعدد ذی علم ہستیوں نے سید فخرالدین بلےعلیگ کو انجمن قرار دیا ہے، لیکن میں ان کے طویل ، با مقصد اور کامیاب تخلیقی سفر کو دیکھتے ہوئے ادارہ کہنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ نثر و نظم پر ان کی بھر پور گرفت احباب کیلئے رشک اور اغیار کیلئے حسد کا سبب بنی ہو تو کوئی تعجب نہیں! میرا یہ اعتماد اخلاص پر مبنی ہونے کے باوصف ان کے تخلیقی خزانہ کے پس منظر میں ھے۔
سید فخرالدین بلے علیگ کی شخصیت اور فن پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ھے کہ اب اگر میں اور کچھ لکھنا بھی چاہوں تو اسے آموختہ کہا جائے گا۔
مختلف اصناف ِ ادب میں ان کے بھاری بھرکم اضافے کے بجائے ان کا عقیدہ میری نگاہ میں ھے۔
میں نے ‘غالب اور علی’ کل غالب’ میں غالب کے عقیدے پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا کہ حضرت علی کا نام زبان پر آتے ہی ان کی روح کھل اٹھتی ھے۔اہل ِبیت ِاطہارع خصوصاً حضرت علی علیہ السلام سے ان کی عقیدت کا اندازہ لگا پانا ممکن ہی نہیں ھے۔
کل کے لئے نہ آج ہو خصت شراب میں
صدقہ اک اور ساقیء کوثر کے باب میں
انہیں اعتماد تھا کہ اگر انہیں دوزخ کی آگ میں ڈالیں گے تو اس لئے کہ دشمنان ِ اہل ِ بیت کے لئے اس کی آنچ کو تیز کریں۔اس کے علاوہ مثنوی ءابر گہربار کے مسلسل اشعار اسی معرفت سے لبریز ہیں۔سید فخرالدین بلے علیگ بھی غالب کے ہم عقیدہ ہیں۔ان کی کتاب ولایت پناہ حضرت علی مرتضی ٰ کرم اللہ وجہہ در حقیقت ایمان افروزہے ، روح تر و تازہ ہو جاتی ھے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول "میں جس کا مولا، اس کا مولا علی” کے قائل ہیں۔
مرا سفینہء ایماں ھے، ناخدا بھی علی
مری نماز علی ھے، مری دعا بھی علی
بہ اعتبار ِمشرب سید فخرالدین بلے تصوف کی صفِ اول میں نظر آتے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کا قول ترانہ ہے۔ اس کے بارے میں میرے ہم وطن علامہ سید کلب ِحسن نونہروی کی تحریر اتنی گراں قدر ھے کہ اس کے آگے قلم اٹھانا اپنی کم علمی نمایاں کرنے کے مترادف ھے۔ بس اتنا کہا جاسکتا ھے کہ سید فخرالدین بلے علیگ کی دینی معلومات باضابطہ مذہبی علمائے کرام سے کسی طرح کم نہیں تھیں اور وہ روحانیت کے اس عروج پر تھے، جو صوفیایے کرام کی منزل ھے
ہر سالک و عارف کا بَلؔے یہی مسلک ھے
اللہ و نبی مولا ‘ و اللہ و علی مولا
اور اس بند کو تو ان کی عقیدت کا آئینہ کہہ سکتے ہیں
اللہ غنی مولا ، اللہ قوی مولا
اللہ خفی مولا ، اللہ جلی مولا
مولا کا نبی مولا ، مولا کا ولی مولا
لاریب نبی مولا، و اللہ علی مولا
سید فخرالدین بلے علیگ کے علمی ، ادبی اور دینی سرمایہ کا تحفظ بےحد ضروری ھے ، کیوں کہ یہ کسی ایک فرد نہیں بلکہ عہد اور عقیدے کی شناخت ھے۔
سید فخرالدین بلےعلیگ ۔ایک ادبی شخصیت ۔ایک ادارہ
تحریر: ڈاکٹر علی عباس امید علیگ ۔ دہلی ۔ بھارت
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...