بین الاقوامی شہرت کی حامل ادبی تنظیم قافلہ کے زیر اہتمام جشن آزادی پاکستان کے حوالے سے پروقار انداز میں پڑاؤ ڈالا گیا۔ نظامت کے فرائض معروف صحافی اور راوی نامہ کے عنوان سے گزشتہ پچاس برس سے زائد عرصے سے مسلسل کالم نگار کی حیثیت سے جانے پہچانے جانے والے سرفراز سید المعروف شاہ جی انجام دے رہے تھے۔ حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب اور شاعر پاکستان جناب کلیم عثمانی صاحب، جناب اختر حسین جعفری، جناب خالد احمد صاحب، طفیل ہوشیار پوری اور میر قافلہ، قافلہ کے بانی اور قافلہ پڑاؤ کے مستقل میزبان سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے ان کا شاہکار کلام سنا گیا۔
شرکائے گفتگو میں حضرت اشفاق احمد، علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ، جناب مختار مسعود، ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی، اسلم کمال، قائم نقوی، اسرار زیدی، بیدار سرمدی، شہزاد احمد، محترمہ صدیقہ بیگم اور اداکار محمد علی سمیت دیگر مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ بھی شامل تھے۔ حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب نے گفتگو کے لیے ”مٹی کا قرض“ کا موضوع تجویز فرمایا تھا۔ یہاں یہ وضاحت یقیناً بے محل نہ ہوگی کہ میر قافلہ سید فخرالدین بلے صاحب کی وطن عزیز کے حوالے سے ایک شاہکار نظم کا عنوان ”مٹی کا قرض“ ہے۔ اسی کی نسبت سے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے گفتگو کے لیے یہ عنوان تجویز اور طے فرمایا تھا۔
پاکستان کے جشن آزادی کے موقع پر قافلہ کے اس پڑاؤ میں عجیب اور رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ ہم نے پہلی مرتبہ جناب مختار مسعود صاحب، علامہ سید غلام شبیر بخاری، جناب اشفاق احمد خاں صاحب، احمد ندیم قاسمی صاحب، جناب کلیم عثمانی، جناب اختر حسین جعفری، جناب طفیل ہوشیار پوری، سید فخرالدین بلے صاحب، اداکار محمد علی اور ڈاکٹر اجمل نیازی سمیت دیگر بہت سے حاضرین محفل کی آنکھوں میں آنسو، گفتگو میں ملال اور لہجہ کرب سے لبریز تھا۔
ان میں سے اکثر نے قیام پاکستان کے اذیت ناک مراحل اور ہجرت کے لہو رنگ مناظر اپنی آنکھوں دیکھ رکھے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب لگ رہا ہے کہ جھیل رکھے تھے۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ اور سید فخرالدین بلے علیگ کی رفاقت میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے جذبے سے سرشار نوجوانان ملت کے بہت سے واقعات تو جناب مختار مسعود صاحب نے بیان فرمائے اور اس کے بعد احمد ندیم قاسمی اور کلیم عثمانی اور طفیل ہوشیار پوری نے تو تحریک پاکستان کی نم ناک آنکھوں اور سوگوار انداز اور الفاظ سے جو منظر کشی فرمائی اس کو سن کر سامعین و حاضرین پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی جسے کم از کم میں تو رقت کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دے سکتا۔
معروف اور ممتاز ترین اداکار محمد علی صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنی بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کے لرزہ خیز واقعات بیان فرمائے۔ جناب محمد علی نے بھری محفل میں میر قافلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو بیٹھے سے کھڑے ہو کر خراج پیش کیا اور کہا کہ لاہور میں باب پاکستان کے نام سے تعمیر کی جانے والی یادگار کا سہرا جن عظیم المرتبت شخصیات کے سر ہے ان میں جناب سید فخرالدین بلے صاحب بھی سرفہرست ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس منصوبے کے تصور میں بھی کلیدی کردار سید فخرالدین بلے بھائی صاحب کا ہے۔
جناب محمد علی صاحب اپنے خطاب اور اپنے خیالات کا اظہار فرمانے کے دوران متعدد بار غمگین ہو گئے اور ان کی آواز بھرا گئی اور آنکھیں نم ناک نظر آئیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں سید فخرالدین بلے صاحب کی متعدد نظموں کے حوالے بھی دیے اور اپنے خطاب کے اختتام پر وضاحت فرمائی کہ میں اور اہل خانہ اسی راستے سے ہجرت کر کے آئے تھے کہ جہاں آج باب پاکستان کے نام سے یادگار قائم ہے۔
قافلہ کے جشن آزادی پڑاؤ میں اداکار محمد علی نے وطن عزیز سے متعلق حضرت جوش ملیح آبادی ، فیض احمد فیض ، ابوالاثر جفیظ جالندھری ، عطا شاد ، سید فخرالدین بلے اور خالد احمد کے کلام سے انتخاب تحت اللفظ میں پیش کرنے سے قبل فرمایا کہ ہماری اور ہمارے بعد آنے والی نسل میں ارض پاک سے ٹوٹ کر محبت کرنے کا جو جزبہ اور ولولہ اور جوش ہے میں نے دنیا کے بیشتر ممالک میں جاکر جائزہ لیا مجھے ایسی حب الوطنی کہیں نظر نہ آئی ۔ جناب محمد علی نے اس کے بعد ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی صاحب سے گزارش کی کہ جشن آزادی پڑاؤ کی کارروائی تو جاری ہے مگر میری خواہش ہے کہ اب نظامت کی ذمہ داری آپ سنبھال لیں کیونکہ آپ پاکستان سے ایک ماہ اور دو دن عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود خود کو پاکستان کا ہم عمر گردانتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے کمال عاجزی و انکساری سے محمد علی صاحب کی خواہش کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرے لیے باعث اعزاز اور صد افتخار ہے ۔
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صاحب نے اپنی گفتگو کے آغاز میں فرمایا کہ محترم سید فخرالدین بلے بھائی باوجود اس کہ قافلہ سالار اور قافلہ پڑاؤ کے مستقل میزبان کی حیثیت سے سب سے پہلے کلام پیش کرنے کی خواہش ظاہر فرمائی ہے لیکن میں کیا کروں خالد احمد میرا سجن ہے بیلی ہے بھائی ہے اور مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اور مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں حکم دے چکا ہے کہ قافلہ سالار بلے بھائی سے پہلے وہ اپنا کلام پیش کریں گے ۔ ظفر معین بلے ، سرفراز سید اور کلیم عثمانی بھائی اس بات کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس کے بعد اجمل نیازی صاحب نے جناب خالد احمد کی پاکستان کے ساتھ قلبی ، ذہنی ، قلمی اور روحانی وابستگی بلکہ جنون کو موضوع بنایا اور کہا کہ قائداعظم کا سپاہی اور سچا عاشق خالد احمد دراصل پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے ۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے مذید فرمایا کہ خالد احمد کے ادبی مریدوں کی تعداد میرے شاگردوں کی تعداد سے دوگنا ہے اور میں ہی کیا ظفر معین بلے ، قائم نقوی ، شہزاد احمد اور ہم میں سے بہت سے متاثرین خالد احمد میں شامل ہیں ۔ ابھی اجمل نیازی صاحب کا خطاب جاری تھا اور اس دوران احمد ندیم قاسمی صاحب اور سید فخرالدین بلے صاحب اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کر برادر محترم قبلہ خالد احمد کے پاس گئے انہیں گلے سے لگایا دعائیں دیں اور پھر انہیں اپنے قریب بٹھا لیا ۔ جب یہ مرحلہ تمام ہوا تو ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے جناب خالد احمد صاحب کو زحمت کلام دی اور انہوں نے وطن عزیز کے حوالے سے کلام پیش کرکے خوب خوب داد سمیٹی اور پھر حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب کی فرمائش پر جو نظم قائداعظم کے لیے پیش کی۔ وہ بصد احترام نذر قارئین ہے ملاحظہ فرمائیے
نظم: قائداعظمؒ کے لیے
نظم نگار : خالد احمد
ہم آہوئے رَم خوردہ تھے
تیز ہوا کے شور سے لرزاں
تند لہو کے زور سے ترساں
اک آہوئے دَم خوردہ تھے
غم خوردہ تھے، سم خوردہ تھے
جنگل کی بوجھل تاریکی
بزدل سوچوں کی چادر تھی
ہم آہوئے ستم خوردہ تھے
بجلی کے کوندے کی لپک پر
خوف سے خود ہی سمٹ جاتے تھے
قد سے بڑھ کر، گھٹ جاتے تھے
ہم بادل کی ایک کڑک پر
سوکھ کے پھول، ببول ہوئے تھے
آہو، راہ کی دُھول ہوئے تھے
رہ برؒ آیا، رہ گرؒ آیا
تیز نگاہ ستارا چمکا
آخر بخت ہمارا چمکا
ساونتا سانول گھر آیا
پھولوں سے بھی نازک تن تھا
مشعل آنکھیں، راہ نما تھیں
ہر تاریک بدن کا دیا تھیں
گرم نوا تھا، نرم سخن تھا
رنج ہمارا جان لیا تھا
تاریکی کیکر ٹھہرائی
کیکر کے تن آگ لگائی
کیا بھاری احسان کیا تھا
ہم کو، اُس نے جان لیا تھا
ہم نے، اُسے پہچان لیاتھا
جیسے ہی قبلہ سرکار خالد احمد نے اپنا منظوم خراج مکمل فرمایا تو ہم نے دیکھا کہ محمد علی صاحب اپنی نشست سے اٹھے اور جناب کلیم عثمانی صاحب کو بیٹھے سے اٹھایا اور ان کو ساتھ لے کر سرکار خالد احمد کو جاکر گلے لگایا ان کا ماتھا چوما اور جناب کلیم عثمانی صاحب کے ہاتھوں شاعر پاکستان خالد احمد کو گلدستہ پیش کیا اسی اثنا میں قائم نقوی اور ظفر علی راجا بھی شاہد واسطی کے ہمراہ وارد ہوئے اور با آواز بلند کہا کہ ساڈا پیر ، ساڈا مرشد خالد احمد سرکار مکرر ، مکرر اور اس طرح جناب خالد احمد صاحب نے یہی نظم قائداعظم کے لیے دوبارہ پیش کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے فرمایا کہ میرا دل ، میرے دل کی دھڑکن اور میری جان خالد احمد قافلہ پڑاؤ میں مہمان نہیں بلکہ ایک میزبان کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں کیونکہ وہ بلے بھائی کے مجھ سے کم بڑے مداح اور پرستار نہیں ہیں اور یہ جو وہ یہاں آکر کثرت سے سگریٹ نوشی فرماتے ہیں یہ بھی ان کی ہمارے پیارے فخرالدین بلے بھائی سے محبت کا اظہار ہے اور اس طرح وہ بلے بھائی کو یاد دلاتے ہیں کہ وقت ہوا چاہتا ہے۔ کیونکہ خالد احمد نہیں چاہتے کہ بلے بھائی کی کوئی ایک بھی قضا ہو جبکہ میں کبھی کبھار بلے بھائی ہی کے پیکٹ سے سگریٹ لے کر اس لیے پیتا ہوں تاکہ میری وجہ بلے بھائی کم از کم ایک سگریٹ کم پئیں ۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے مذید فرمایا کہ قافلہ پڑاؤ آکر خالد احمد صاحب اکثر ایسی نشست پر بیٹھنا پسند فرماتے ہیں کہ جہاں سے انہیں دیوار پر آویزاں شاعر کرب آنس معین کا یہ پورٹریٹ اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آئے اس بیان کے بعد اجمل نیازی صاحب نے آنس معین کا یہ پڑھا
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا ؟
برادر محترم قبلہ خالد احمد صاحب نے ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کو متوجہ اور مخاطب فرمایا اور چند جملوں میں شاعر کرب آنس معین کی شاعری کا تجزیہ پیش فرمایا اور پھر ایک کے بعد ایک کرکے آنس معین کے بارہ ، پندرہ اشعار پڑھ ڈالے اور اس سے قبل کہ ڈاکٹر اجمل نیازی انہیں یاد دلاتے ہیں کہ یہ قافلہ پڑاؤ جشن آزادی پڑاؤ ہے جناب خالد احمد صاحب نے آنس معین کی شہرہ آفاق اور شاہکار نظم پیش کرنے کا اعلان فرمادیا اور اعلان میں وضاحت فرمائی کہ میں میزبان کی حیثیت سے آنس معین کو شعراء کی فہرست میں شامل کر رہا ہوں اور پھر انہوں نے آنس معین کی یہ نظم کہ جو انہیں زبانی یاد تھی شاندار تحت اللفظ میں پیش فرمائی ۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے اور برادر محترم خالد احمد صاحب کے حافظے اور حسن انتخاب کی داد دیجے
نظم : تو میرا ہے ۔۔۔
نظم نگار : آنس معین
تو میرا ہے
تیرے من میں چھپے ہوئے سب دکھ میرے ہیں
تیری آنکھ کے آنسو میرے
تیرے لبوں پہ ناچنے والی یہ معصوم ہنسی بھی میری
تو میرا ہے
ہر وہ جھونکا
جس کے لمس کو
اپنے جسم پہ تو نے بھی محسوس کیا ہے
پہلے میرے ہاتھوں کو
چھو کر گزرا تھا
تیرے گھر کے دروازے پر
دستک دینے والا
ہر وہ لمحہ جس میں
تجھ کو اپنی تنہائی کا
شدت سے احساس ہوا تھا
پہلے میرے گھر آیا تھا
تو میرا ہے
تیرا ماضی بھی میرا تھا
آنے والی ہر ساعت بھی میری ہوگی
تیرے تپتے عارض کی دوپہر ہے میری
شام کی طرح گہرے گہرے یہ پلکوں سائے ہیں میرے
تیرے سیاہ بالوں کی شب سے دھوپ کی صورت
وہ صبحیں جو کل جاگیں گی
میری ہوں گی
تو میرا ہے
لیکن تیرے سپنوں میں بھی آتے ہوئے یہ ڈر لگتا ہے
مجھ سے کہیں تو پوچھ نہ بیٹھے
کیوں آئے ہو
میرا تم سے کیا ناطہ ہے
جب برادر محترم خالد احمد اپنے مخصوص انداز میں آنس معین کی یہ نظم سنا کر ہر طرف سے بھر پور داد سمیٹ چکے تو تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ، تحریک آزادی میں قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت کے جلسوں کو اپنی ولولہ انگیز شاعری سے گرمانے والے اور قیام پاکستان کے بعد بھی متعدد مشہور و مقبول ملی اور قومی نغمے تخلیق کرنے والے قادرالکلام شاعر اور ماہنامہ محفل لاہور کے بانی مدیراعلی طفیل ہوشیارپوری صاحب نے تحریک پاکستان کے متعدد واقعات بیان فرمائے اور ان جلسوں میں سے بھی کچھ کا احوال بیان کیا کہ جن میں قائداعظم محمد علی جناح ، قائد ملت لیاقت علی خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کے دیگر راہنماؤں بشمول میر غلام معین الدین جعفری الچشتی صاحب خطاب فرمایا کرتے تھے جبکہ خود طفیل ہوشیارپوری صاحب اپنی جزبہ ء آزادی سے بھر پور ولولہ انگیز نظمیں پیش کیا کرتے تھے۔ طفیل ہوشیارپوری صاحب نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ایسے متعدد جلسوں کا بھی مفصل ذکر کیا کہ جو بلند شہر ، میرٹھ ، علیگڑھ ، کانپور ، سکندر آباد ، اجمیر شریف ، دہلی ، غازی پور ، بمبئی ، امروہہ ، بجنور اور سلطان پور سمیت دیگر مختلف شہروں میں منعقد ہوئے اور ان کے تمام تر انتظامات میر غلام معین الدین جعفری الچشتی نے فرمائے ۔ قافلہ کے جشن آزادی پڑاؤ میں طفیل ہوشیار پوری صاحب نے اپنے ہی لکھے ہوئے ایک طویل تحقیقی مقالے کے چند اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے جو حضرت ابولکلام آزاد ، مولانا حسرت موہانی ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، جوش ملیح آبادی ، سید ہاشم رضا زیدی ، تَلوک چند محروم کے قریبی دوست ، محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی انتخابی مہم کے مشترکہ نگران اعلی و منتظم ، ہاپوڑ میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ہمسائے اور بچپن ، لڑکپن اور جوانی کے انتہائی قریبی اور بے تکلف دوست بلکہ لنگوٹیا اور سید فخرالدین بلے کے والد گرامی میر غلام معین الدین جعفری الچشتی کی عظیم سیاسی ، سماجی اور ادبی خدمات کے حوالے سے لکھا تھا۔ اس مقالے میں طفیل ہوشیارپوری نے میر غلام معین الدین جعفری الچشتی کی خدمات ، کارناموں اور انتظامی صلاحیتوں کا بھرپور تجزیہ فرمایا اور میر صاحب غلام معین الدین جعفری الچشتی کی شخصیت اور کردار کے مختلف پہلوؤں پر بھرپور روشنی ڈالی۔اس کے بعد ممتاز اور قادرالکلام شاعر جناب اختر حسین جعفری صاحب کو جب ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے دعوت کلام دی تو حضرت طفیل ہوشیار پوری نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ انہیں کہیں دور جانا ہے اور پہنچنے میں خاصا وقت لگے گا لہذا انہیں رخصت عطا کی جائے ۔ اس پر احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ یہ سید فخرالدین بلے صاحب کی اقامت گاہ ہے اور ہم سب شرکائے قافلہ پڑاؤ یہاں مہمان نہیں میزبان کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ ہو اور آپ کے کلام سے ہم محروم رہیں لہذا ایک ہی صورت ہے کہ آپ عمر میں ہم سب سے سینئر ہیں اور ہماری خواہش تھی کہ آپ سب سے آخر میں اپنا کلام عطا فرماتے لیکن اب مجبوری ہے تو ہماری فرمائش اور اپنی پسند کے مطابق اپنا کلام عطا فرمادیجے اور اس کے بعد آپ کو یہاں سے جانے کی اجازت دی جاسکے گی ۔ اس طرح جناب اختر حسین جعفری صاحب سے بھی قبل جنا طفیل ہوشیار پوری صاحب سے خصوصی فرمائش کرکے بہت سا کلام سنا گیا خاص کر کہ وہ جو طفیل ہوشیار پوری صاحب قائداعظم کے جلسوں میں پڑھا کرتے تھے اور اختتام پر طفیل ہوشیار پوری صاحب نے
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
نغمہ پیش فرمایا۔ حضرت طفیل ہوشیار پوری صاحب کے بعد ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے جناب اختر حسین جعفری صاحب کو زحمت کلام دی۔ تو انہوں نے شرکائے قافلہ پڑاؤ کی ہر ہر فرمائش پوری کی ۔ تمام تر کلام تو نہیں البتہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے حوالے سے جو نظم پڑھی وہ نذر قارئین ہے۔
نظم : وہ جو تجھ سے پہلے کی راہ تھی
(قائد اعظم کے حوالے سے نظم)
نظم نگار : اختر حسین جعفری
وہ جو تجھ سے پہلے کا ذکر تھا
وہ جو تجھ سے پہلے کی راہ تھی
کہیں صبح ذات لٹی ہوئ
کہیں شام عشق بھجی ہوئی
کہیں دوپہر رہ ماندگاں پہ تنی ہوئ
سہی
کہیں چاند پچھلے وصال کے
کہیں مہر صبح کمال کے
کہیں زلف وصل مزاج پر تہہ گرد ہجر جمی ہوئی
کہیں آس تھی کہیں پیاس تھی
کہیں خشک حلق میں تیر تھا
کہیں بادبان جلا ہوا
کہیں سائبان میں چھید تھا
کوئی راز تھا کوئی بھید تھا
جسے مخبروں جسے تاجروں نے رقم کیا تو کتاب میں
مرا حکم میرے خلاف تھا
مرا عدل مری نظیر تھا
سو حقیر تھا
میرا بادشاہ بھی فقیر تھا
یہ جو تیرے ہونے کا ذکر ہے
جو تیرے ظہور کی بات ہے
میری بات ہے
میرا عشق ہے میرا درد ہے
میرے حرف و صوت کی ذات ہے
میری راہ پر میری چھاؤں ہے
میرے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے
نظم : وہ جو تجھ سے پہلے کی راہ تھی
نظم نگار : اختر حسین جعفری
جب جناب اختر حسین جعفری اپنا کلام سنا چکے تو اشفاق احمد خاں صاحب نے اختر حسین جعفری صاحب کی جاندار اور جزبہ ء حب الوطنی سے بھرپور شاعری سے ہی سرا ملاتے ہوئے حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے چند پہلوؤں کے حوالے سے گفتگو فرمائی اور ان کے بعد علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ صاحب نے بھی تحریک پاکستان میں علیگڑھ مسلم یونیورسیٹی کا کردار کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا ۔ محترمہ بانو قدسیہ آپا اور محترمہ صدیقہ بیگم نے تحریک پاکستان میں خواتین کے کردار کے تناظر میں بہت خوبصورت اور معلومات سے بھرپور گفتگو فرمائی ۔ محترمہ بشری رحمن صاحبہ نے بھی گفتگو میں بھرپور حصہ لیا اور اس خاص موقع کی مناسبت سے کلام بھی پیش کیا ۔ اس کے اداکار محمد علی صاحب نے ماحول پر چھائی ہوئی سنجیدگی اور رنجیدگی کو ختم کرنے کے لیے ہجرت سے جڑے چند ایسے واقعات سنائے کہ جو تھے تو سنجیدہ نوعیت کے مگر مزاح کے تاثر سے بھرپور ۔ سینئر صحافی ، شاعر اور اخبار جہاں کے ادبی رپورٹر اور کالم نگار اسرار زیدی صاحب نے قیام پاکستان میں قلم کاروں کی خدمات کے موضوع پر اظہار خیال فرمایا ۔ اس کے بعد ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی صاحب نے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب سے بصد احترام قافلہ پڑاؤ کی کاروائی مذید آگے بڑھانے کے لیے کچھ ان الفاظ میں اجازت طلب کی کہ قاسمی صاحب اگر آپ اجازت دیں تو اب میں قافلہ سالار جناب سید فخرالدین بلے صاحب کو زحمت کلام دوں۔ اس کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا جی جی ضرور آپ زحمت کلام دیجے اور فرمائش کرنے کے لیے میں ، محمد علی صاحب ، جناب کلیم عثمانی صاحب ، اختر حسین جعفری صاحب اور آپ سب تو موجود ہیں ہی ۔ لہذا میری خواہش ہے کہ سید فخرالدین بلے صاحب سب سے پہلے تو
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
نظم – چھ ستمبر عطا فرمادیں اور اس کے بعد نظم مٹی کا قرض اور اس کے بعد آپ سب کی جو جو بھی فرمائش ہو لیکن اس سے قبل کہ آپ سید فخرالدین بلے کو زحمت کلام دیں ، میں سید فخرالدین بلے صاحب کا ایک قطعہ پیش کردوں کہ جو میں نے کسی سیاسی تجزیے میں پڑھا تھا ملاحظہ فرمائیے
جان گئے ہیں جب سے درباں سلطانی کے راز
زاغ و زغن کے نرغے میں ہیں شاہین و شہباز
بھٹک رہا ہے صحرا صحرا قافلہ ء جمہور
شامل ہے آواز جرس میں بوٹوں کی آواز
سید فخرالدین بلے
(نوٹ: برسوں بعد یہی قطعہ آواز جرس کی زینت بھی بنا: مطبوعہ اگست 1995
جلد 7 ، شمارہ 30)
اس کے ڈاکٹر اجمل نیازی نے سید فخرالدین بلے صاحب کو زحمت کلام دی تو انہوں نے کمال انکساری اور عاجزی سے فرمایا کہ احمد ندیم قاسمی صاحب نے جو حکم فرمایا ہے اسی کے مطابق پہلے پیش خدمت ہے نظم چھ ستمبر
نظم ۔6۔ ستمبر: آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
(ایک نظم 65 کی پاک بھارت جنگ پر )
نظم نگار :۔ سید فخرالدین بلے
چھ ستمبر کی سحر لائی تھی ظلمت کا پیام
وحشت و حیوانیت کا بربریت کا پیام
بھارتی سینا نے شب خوں مار کر لاہور پر
اہل ِایماں کو دیا قربِ قیامت کا پیام
۔۔۔
دُھن پہ توپوں کی اہنسا کے بھجن گاتے ہوئے
سوتے شہروں پر بموں کے پھول برساتے ہوئے
رات کو پچھلے پہر “پربھات پھیری” کےلئے
سورما! آئے لہو اشنان کرواتے ہوئے
۔۔۔۔
امتیازِ حق و باطل کو مٹانے کےلئے
آٹھ صدیوں کا ہر اک قرضہ چکانے کےلئے
بھارتی اور جنگ بازی توبہ توبہ‘ رام رام
آئے تھے وہ پاک بھارت کو ملانے کےلئے
۔۔۔۔
شرمیں پنہاں خیر تھا اور حق کی عظمت کا پیام
جرأت و پامردمی و عزم و شجاعت کا پیام
شکر ہے رب کا ہمیں بھارت کے اس شب خون سے
مل گیا بیداری و تنظیم ِ ملت کا پیام
۔۔۔
اپنی کثرت اور طاقت پر وہ نازاں تھے اُدھر
اہلِ ایماں بے نیاز ِسازوساماں تھے اِدھر
دیدنی تھا درحقیقت منظرِ میدانِ جنگ
وہ بھی حیراں تھے اُدھر اور ہم بھی حیراں تھے اِدھر
۔۔۔۔
ٹینکوں کے سامنے ہم ہو گئے سینہ سپر
ہر جواں باندھے ہوئے تھا جان دینے پر کمر
منظرِ کرب و بلا تھا شہر میں اقبال ؒ کے
اُڑ رہا تھا رفعتوں پر پرچم ِخیرالبشر
۔۔۔۔
پی رہے تھے حق کے متوالے شہادت کے سبو
راہِ حق میں جان دے کر ہو رہے تھے سرخرو
سرزمینِ پاک کے جانباز، حق کے پاسباں
پڑھ رہے تھے کلمہء حق خون سے کر کے وضو
۔۔۔۔
مصطفی و مرتضیٰؓ و فاطمہؓ کے نورِعین
منتظر تھے حوضِ کوثر پر شہیدوں کے حسینؓ
آ رہی تھی سبز گنبد سے ندائے الجہاد
غزوۂ لاہور تھا ہمرشتۂ بدر و حنین
۔۔۔۔
ہاتھ میں لے کر اُٹھے تھے ہم صداقت کا علم
خود ارادی اور انسانوں کی عظمت کا علم
دیکھ لیں اہل ِ نظر اب بھی شفق کے رنگ میں
اُڑتے ہیں شام و سحر شوقِ شہادت کے علم
۔۔۔۔
اُن کے بکتربند دستوں، ٹینکوں کی دھجیاں
ہر طرف بکھری پڑی تھیں “ہنٹروں” کی دھجیاں
معجزہ اک ہو رہا تھا ہر محاذِ جنگ پر
اُڑ رہی تھیں چودھری کے “ارجنوں” کی دھجیاں
۔۔۔۔
شانتی کی بھیک ڈر کر مانگتی سینا کا حال
سر پہ رکھ کر پاؤں رَن سے بھاگتی سینا کا حال
سامراجی ناخداؤ آؤ آ کر دیکھ لو
اپنے آلاتِ حرب اور بھارتی سینا کا حال
۔۔۔۔
یُدھ کرتے ہی ظفر مندی کے دعوے کیا ہوئے
ہند میں لاہور پر قبضے کے چرچے کیا ہوئے
بھارتی آ کاشوانی آج کیوں خاموشی ہے
بج رہے تھے چھ ستمبر کو جو ڈنکے کیا ہوئے
۔۔۔۔
اپنی پسپائی سے “رَن کچھ” میں تو پچھتائے تھے تم
اب بتاؤ کس کی شہ تھی ؟کس پہ اِترائے تھے تم
بھول کر تاریخ اپنی جنگ کرنے کےلئے
سورماؤ! یہ بتاؤ کس لئے آئے تھے تم
۔۔۔۔
جیتنے آئے تھے تم جب ارضِ پاکستان کو
رو رہے تھے کس لئے پھر چھمب و راجستھان کو
اپنی کثرت اور ہتھیاروں پہ تھا جب تم کو مان
یُدھ میں پھر کیوں بچاتے پھر رہے تھے جان کو؟
۔۔۔۔
حق کی خاطر کھیل جائیں گے ہم اپنی جان پر
بچہ بچہ جان دے دے گا وطن کی آن پر
چھمب ، واہگہ اور چونڈہ کے شہیدوں کی قسم
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
نظم ۔6۔ ستمبر: آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
(ایک نظم 65 کی پاک بھارت جنگ پر )
نظم نگار :۔ سید فخرالدین بَلّے
شرکائے قافلہ پڑاؤ نے اس شاہکار نظم پر بھرپور داد دی ، سبحان اللہ سبحان اللہ ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، مکرر مکرر ، پھر سے عطا ہو کی آوازوں سے ہال گونج اٹھا ۔ سید فخرالدین بلے صاحب نظم کا ایک اک بند تین تین ، چار چار مرتبہ پڑھنے پر مجبور ہوگئے- ڈاکٹر اجمل نیازی ، علامہ سید غلام شبیر بخاری اور جناب اشفاق احمد صاحب نے بیک زبان کہنا شروع کردیا کہ اج تے ہوگئی بلے بلے ، اج تے ہوگئی بلے بلے۔ بلکہ اشفاق احمد خاں صاحب نے تو یہ تک فرمایا کہ
جے میں ویکھاں اوہدے ولے ، بلے ، بلے ، بلے
اداکار محمد علی صاحب اور شرکائے قافلہ نے اشفاق احمد صاحب کی تائید فرمائی۔ احمد ندیم قاسمی صاحب ، اختر حسین جعفری صاحب ، شہزاد احمد صاحب اور جناب خالد احمد صاحب نے داد دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
پر ابھی داد و تحسین اور واہ واہ ، سبحان اللہ ، کیا کہنے کا سلسلہ جاری تھا اور اس سے قبل کہ فرمائش کے مطابق سید فخرالدین بلے صاحب اپنا کچھ مذید کلام عطا فرماتے اچانک احمد ندیم قاسمی صاحب نے گفتگو کا آغاز فرمادیا اور چند ایک ایسے واقعات بیان فرمائے کہ جو حاضرین محفل کے لیے حیران کن تھے ۔ قاسمی صاحب نے بیان فرمایا کہ جب عہد آمریت میں انہیں قید کرلیا گیا اور میں نے قید خانے میں بھی لکھنے پڑھنے کا عمل جاری رکھا ہوا تھا تو ایک دن اچانک سید فخرالدین بلے صاحب مجھ سے ملنے پہنچ گئے ۔ فخرالدین بلے صاحب اپنے ہمراہ دو ٹفن کیرئیر لے کر آئے تھے اور دونوں انہوں نے ضابطے کے مطابق قید خانے کے اعلی افسر کہ جن سے بلے صاحب سے پہلے سے جان پہچان بھی تھی کو دے کر کہا کہ ان میں سے ایک آپ تسلی کرکے احمد ندیم قاسمی صاحب کو بھجوادیں اور دوسرا ہم دونوں بیٹھ کر کھا لیتے ہیں اور میں آپ کے ساتھ کھانا کھا کر پھر اصل مقصد کی طرف آؤں گا اور وہ یہ کہ میں احمد ندیم قاسمی صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح فخرالدین بلے صاحب نے کھانے کی فراہمی کے ساتھ ملاقات کو بھی یقینی بنا لیا جو کہ اس وقت کے حالات میں ہرگز بھی آسان نہیں تھا۔ جب فخرالدین بلے صاحب مجھ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تو ظاہری سی بات ہے مجھے حد درجہ حیرت ہوئی ، تعجب ہوا ۔ سید فخرالدین بلے صاحب نے خیریت دریافت کی ، مزاج پرسی کی ۔ مجھ سے کہ آپ کو دیکھے ہوئے بہت روز ہو چکے تھے اور بس آپ کس دیکھنے اور ملنے آگیا تھا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ بلے صاحب کے ہر ہر انداز اور رویے سے محبت ٹپک رہی تھی ۔ انہوں نے مجھے اپنا خیال رکھنے کی ہدایت دی اور مجھ سے ماہنامہ “ فلاح “ لاہور کے لیے(کہ جس وہ بانی مدیر اعلی تھے )تازہ ترین افسانہ بھی لکھنے کیلیے کہہ دیا۔ تمام شرکائے قافلہ ، حاضرین محفل محو سماعت تھے اور قاسمی صاحب پر نظریں جمائے ان کے بیان کو ایسے سن رہے تھے کہ جیسے احمد ندیم قاسمی صاحب منظر ہوں اور وہ سب کے سب ناظر ۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے مذید فرمایا کہ بحثیت سرکاری ملازم یا پبلک سروینٹ کے فخرالدین بلے صاحب کا اس دلیرانہ انداز میں مجھ سے ملنے کیلیے آنا یقیناً ان کے بے باک ، نڈر اور دبنگ افسر ہونے کا ثبوت تھا ۔ قاسمی صاحب نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ فخرالدین بلے صاحب میرے لیے چند تحائف بھی لائے تھے جو میری نظر میں بہت قیمتی ہیں اور وہ تھے لکھنے کے لیے کاغذوں کے دس بارہ دستے ، چار پانچ قلم اور نیلی اور کالی ایگل کی روشنائی کی بڑی بڑی تین چار شیشیاں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے کہا کہ دوران ملاقات تو فخرالدین بلے صاحب نے کمال ضبط اور حوصلے کا مظاہرہ فرمایا لیکن تین روز میں افسانہ مکمل کرنے کی تاکید فرمائی اور بوقت رخصت مجھے غمگین نظر آئے۔ اور ٹھیک چار روز بعد اسی دلیرانہ انداز میں مجھ سے میرا تازہ ترین افسانہ وصول کرنے اور چند ہی دنوں میں جب افسانہ شائع ہوگا تو فخرالدین بلے صاحب نے مجھے قید خانے میں ہی ماہنامہ فلاح لاہور کا وہ شمارہ بھی خود دینے کےلیے تشریف لائے کہ جس میں افسانہ اشاعت پذیر ہوا تھا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے فرمایا کہ ہم جیسے قیدیوں سے قید خانے میں رابطہ کرنا یا ہم سے ملنے کے لیے آنے کو اتنا سہل مت سمجھیے یہ بہت دشوار گزار مرحلہ ہوتا تھا اور اس کے نتائج حد درجہ بھیانک بھی ہو سکتے تھے۔
اس کے بعد احمد ندیم قاسمی صاحب نے فخرالدین بلے صاحب کی مزاحمتی شاعری پر بھی اظہار خیال فرمایا اور اپنی بات کو سید فخرالدین بلے صاحب کے اس شعر کے ساتھ مکمل فرمایا
دماغ عرش پہ ہیں اور چڑھی ہوئی آنکھیں
ابھی نوشتہ ء دیوار کون دیکھے گا ؟
(سید فخرالدین بلے)
قاسمی صاحب کا خطاب ہونے پر برادر محترم ڈاکٹر اجمل نیازی نے سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ وہ اپنی شاہکار نظم مٹی کا قرض عطا فرمائیں۔ اس پر قاسمی صاحب نے باور کر وایا کہ ان کی فرمائش ہے ۔
مٹی کا قرض … سید فخرالدین بلے
اس دھرتی کی ہر شے پر ہے اس مٹی کا قرض
میرے لئے ہے فرض سے پہلے اس مٹی کا قرض
کیوں نہ دھرتی سیوا کرکے خون پسینہ بوئیں
ممکن ہے کچھ کم ہو جائے اس مٹی کا قرض
اکِ مدت سے دیکھ رہی ہیں میری بھیگی آنکھیں
بڑھ جاتا ہے جب مینہ برسے اس مٹی کا قرض
پیا ملن کو مانگ رہی ہے دھرتی ہار سنگھار
کم کر دیں گے سبز دو شالے اس مٹی کا قرض
میرے لئے جب بارِ امانت ہے شانوں پر سر
سر سے میرے کیسے اترے اس مٹی کا قرضِ
ارضِ وطن سے پوچھو ہم سب ہیں کب سے مقروض
پنجند نے تو اب مانگا ہے اس مٹی کا قرض
جہلِ خرد کے اندھیاروں میں گھٹ تو سکتا ہے
پلکوں پہ جلدیپ سجا کے اس مٹی کا قرض
قوم کو گروی رکھنے والو ، خوب چکایا ہے
مٹی کا کشکول بنا کے اس مٹی کا قرض
روز و شب مقروض ہیں میرے ، سانسیں تک مقروض
مجھ کو تو ورثے میں ملا ہے اس مٹی کا قرض
جیتے جی ہے اس مٹی کا قرض چکانا مشکل
بڑھ جائے گا قبر میں جا کے اس مٹی کا قرض
سید فخرالدین بلے
جیسے ہی سید فخرالدین بلے صاحب نے اپنی شاہکار نظم “ مٹی کا قرض “ مکمل کی اس کے ساتھ ہی اس نظم پر شرکائے قافلہ پڑاؤ کی جانب سے گفتگو کا آغاز ہوگیا ۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور کلیم عثمانی صاحب کو متوجہ فرماتے ہوئے کہا کہ مختار مسعود صاحب ، مشتاق احمد یوسفی صاحب اور میرے علاوہ دیگر بہت سے محبان سید فخرالدین بلے علیگ کو یہ بھی ایک اعزاز حاصل ہے کہ ہم زمانہ ء طالب علمی سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے عہد سے بلے علیگ صاحب کو مسلسل دیکھتے آرہے ہیں کہ جب ان کی عمر بمشکل سولہ برس ہوگی۔ ہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سپوتوں نے کس طرح تحریک آزادی کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا تھا ، غلامی سے نجات اور جزبہ ء آزادی سے سرشار سر سید کے علمی ، ادبی اور سیاسی وارثوں نے تاریخ ساز کارنامے سرانجام دیئے اور فخرالدین بلے اور انجم اعظمی جیسے نوجوان جناب مختار مسعود علیگ کی قیادت ہر ناممکن کو ممکن بنانے میں پیش پیش تھے۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ نے بتایا کہ ہم سب اس وقت سے بلے علیگ کی خطابت اور دل میں اتر جانے والی شاعری کے مداح ہیں۔ جناب مختار مسعود علیگ نے علامہ صاحب کے موقف کی تائید اور تصدیق فرماتے ہوئے چند واقعات بھی بیان فرمائے اور حاضرین محفل کو بتایا کہ آج بھی کہ جب میرے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ میں گوشہ نشین ہوگیا میں مہینے بھر میں کم از کم ایک یا دو مرتبہ علامہ صاحب اور فخرالدین بلے علیگ سے ملاقات کو یقینی بناتا ہوں اور جب میری صحت یا طبیعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تو میں انہیں زحمت دیتا ہوں اور یوں ہمارا پینتالیس ، پچاس برس پرانا پرخلوص رشتہ اور تعلق آج بھی برقرار ہے بلکہ وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے کم و بیش پندرہ بیس منٹ گفتگو فرمائی ہوگی انہوں نے فرمایا کہ ایک میں احمد ندیم قاسمی ہی کیا فیض صاحب ہوں یا جالب صاحب سید فخرالدین بلے صاحب ہوں یا احمد فراز صاحب یا دیگر ہر ہر عہد آمریت میں ہماری حب الوطنی اور وطنی پرستی پر سوال اٹھائے جاتے رہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں غدار وطن تک قرار دیا گیا لیکن وطن اور قلم کی حرمت پر ہم میں سے کسی نے کبھی آنچ تک نہ آنے دی کیونکہ یہ دھرتی ، یہ ملک اور یہ دھرتی ماں یہ ہمارا پیارا وطن ہمارا مان بھی ہے اور ایمان بھی۔ یہ کہہ کر احمد ندیم قاسمی صاحب اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فخرالدین بلے صاحب کہا کہ میں کھڑے ہوکر آپ کو اور آپ کی دیش بھگتی ، وطن پرستی اور حب الوطنی کو سلام پیش کرتا ہوں اور آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنی شاہکار نظم ایک مرتبہ پھر عطا فرمادیں۔ فخرالدین بلے صاحب نے قاسمی صاحب کے حکم پر ایک مرتبہ پھر اپنی نظم مٹی کا قرض پیش کی۔
اس کے بعد ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے جناب کلیم عثمانی صاحب کو زحمت کلام دی۔ جناب کلیم عثمانی صاحب نے تو ابھی اپنا کلام سنانا شروع ہی کیا تھا کہ قتیل شفائی صاحب اور استاد مہدی حسن خاں صاحب تشریف لے۔ ان کے آتے ہی ماحول یکسر تبدیل یوگیا قتیل صاحب نے کلیم عثمانی صاحب سے کہا بھی کہ آپ کلام سنانا جاری رکھیے لیکن انہوں نے کلام پیش کرنے کا توقف سے کام لیا البتہ کیا حسن اتفاق ہے کہ یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے کے خالق جناب کلیم عثمانی صاحب سے یہ ملی نغمہ سنا جائے اور پھر استاد جناب مہدی حسن خاں صاحب سے گزارش کی جاٸے کہ اس کے ایک دو شعر گنگنادیں۔ ڈاکٹر اجمل خاں نیازی صاحب سے ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے استفسار فرمایا کہ اجمل نیازی صاحب آپ اس قافلہ پڑاٶ میں مہمان کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں یا میزبان کی حیثیت سے ۔ اجمل نیازی صاحب نے فرمایا بلے بھائی ہم نے اس گھر میں خود کو کبھی مہمان نہیں سمجھا ۔ یہ سن کر فخرالدین بلے شاہ صاحب نے فرمایا کہ اب آپ کلیم بھائی سے میزبان کی حیثیت سے بنفسِ نفیس گزارش فرمائیے کہ وہ ہماری ، ہم سب کی اور آپ کی پسند کا یہ نغمہ شرکاٸے قافلہ پڑاٶ کو عطا فرمادیں۔ قصہ مختصر جناب کلیم عثمانی صاحب نے یہ مشہور اور مقبول ترین ملی نغمہ اپنی بیاض میں سے پڑھ کرسنایا ۔
یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسباں اسکے,
یہ چمن تمھارا ہے،تم ہو نغمہ خواں اسکے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر زرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمھاری ہے بحروبر تمھارے ہیں
کہکشاں کے یہ اجالے راہگزر تمھارے ہیں.
یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسباں اسکے…
اس زمین کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا،
ارض پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میر کارواں مانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو.
یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اسکے….
یہ زمیں مقدس پے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت دولت یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو…..
یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسباں اسکے…..
میر کارواں ہم تھے روح کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا
یہ وطن تمھارا ہے ،تم ہو پاسباں اسکے
حضرت کیلم عثمانی صاحب نے اپنے نہایت مخصوص انداز میں مکمل نغمہ سنایا تو شرکائے قافلہ پڑاٶ نے جی بھر کر داد دی اور خوب سراہا تو اللہ جانے ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کو کیا ہوا انہوں نے داد کے طور پر یہ مصرعہ پڑھا
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
مہندی حسن خاں صاحب نے اس مصرعے پر بے ساختہ داد دی اور فرمایا بہت خوب مکمل شعر پڑھیے اجمل نیازی صاحب
اجمل نیازی صاحب نے فرمایا کہ بلے بھاٸی صاحب کی نظم چھ ستمبر کا مصرعہ ہے ۔ پوری نظم تو بلے صاحب سے ہی فرماٸش کرکے سنی جاسکتی ہے۔ اس کے جواب میں کلیم عثمانی صاحب نے فرمایا کہ اجمل نیازی صاحب میں نے اور میرے ساتھ بیٹھے ہوٸے یہ جناب طفیل ہوشیارپوری بَلّے میاں سے بارہا اس خواہش کا اظہار کیا کہ فلمی گیت نگاری کی طرف آٸیے اور ملی نغمے لکھیے ۔ کلیم عثمانی صاحب کی یہ بات سن کر جناب استاد مہدی حسن خاں صاحب نے فرمایا کہ ابھی چند ماہ قبل بھی جب میں آیا تھا تو آپ میں سے اکثر احباب بھی موجود تھے اور میں نے جناب سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے گزارش کی تھی کہ اپنا کلام عطا فرماٸیے تاکہ مجھے بھی یہ اعزا حاصل ہو کہ میں نے آپ کا کلام گایا ہے لیکن بلے صاحب نے توجہ نہیں فرماٸی۔ کلیم عثمانی صاحب نے استاد مہدی حسن خاں صاحب کی بات غور سے سن کر فرمایا کہ ابھی پچھلے برس کی بات ہے اسی جگہ ہم سب کی موجودگی میں بلے میاں کہ زمانہ طالب علمی کے دوست ڈاکٹر فوق کریمی صاحب علیگڑھ ۔ بھارت سے تشریف لائے ہوئے تھے انہوں نے اپنی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حسین یادوں کے حوالے سے ایک نہایت خوبصورت مضمون پڑھا تھا اور ان حسین یادوں میں ڈاکٹر فوق کریمی صاحب نے اس بات کا بھی ذکر کیا تھا کہ
شکیل بدایونی جب بھی علی گڑھ آتے ، بلے سمیت ہم دوستوں سے بھی ملتے تھے اور بلے کی ادبی اٹھان دیکھ کر انہوں نے کئی باراسے گیت نگاری کی طرف آنے کی ترغیب بھی دی لیکن بلے نے اس پیشکش کی طرف کبھی رغبت کا اظہار نہیں کیا۔
سید فخرالدین بلے صاحب کا شکیل بدایونی کو عاجزانہ انداز میں یہی جواب ہوتا تھا کہ میں کسی کے جذبوں کی ترجمانی نہیں کرسکتا ، صرف اپنی فکر کو شعر کا ملبوس دے سکتاہوں ۔ کوئی اور نوجوان ہوتا تو سوچتا اب میرے گیت لتا ، آشا اور محمد رفیع کی زبان پر ہوں گے۔غیر معمولی شہرت میرے قدم چومے گی لیکن بلے اس طرح نہیں سوچتاتھا ۔نہ کبھی ایسا سوچا جناب کلیم عثمانی صاحب کی بات کو توجہ سے سن کر اجمل نیازی صاحب نے فخریہ انداز میں ایک قافلہ پڑاٶ کا حال ان الفاظ میں سنایا کہ طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے مخاطب ہوکر کہا آپ کی سفارش بھی کام نہ آئی میں نے بارہا جناب سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ وہ میرے شو میں مہمان شاعر و محقق کے طور پر شرکت فرمائیں اور وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹلا دیتے ہیں کہ نہ تو آپ کہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی میں ۔ قاسمی صاحب آپ ہی فرمائیے کہ میں کیا کروں اور بلے صاحب سے احتجاج بھی کروں تو کیسے کہ وہ میرے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں۔ میں ان کا بےحد احترام کرتا ہوں اور وہ بھی حد درجہ شفقت فرماتے ہیں ۔ طارق عزیز صاحب نے حاضرین محفل کو بتایا کہ اسی کی دہائی کے اوائل کی بات ہے سید فخرالدین بلے صاحب ڈائریکٹر راولپنڈی آرٹس کونسل کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے ۔ اسی عرصہ میں میرے پہلے شعری مجموعے اللہ میگھ دے کی تقریب رونمائی فخرالدین بلے صاحب نے شاندار انداز میں راولپنڈی آرٹس کونسل میں سجائی تھی ۔ احمد ندیم قاسمی صاحب مسکرائے اور ان کی مسکراہٹ دیکھ کر طارق عزیز صاحب نے پوچھا قاسمی صاحب میری بات کے جواب میں آپ کی مسکراہٹ ، میں سمجھ نہیں پارہا ۔ اس سوال کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ سید فخرالدین بلے صاحب سے صہبا لکھنوی صاحب کو ہم نے افکار کےلیے ۔ محمد طفیل صاحب کو نقوش کےلیے اور محترمہ صدیقہ بیگم کو (کہ جو خود سید فخرالدین بلے صاحب کے افراد خانہ میں شمار کی جاتی ہیں) ادب لطیف کےلیے اظہر جاوید صاحب کو تخلیق کےلیے اور مسعود اشعر صاحب کو دھنک کےلیے ، جعفر شیرازی صاحب کو گہرائ کے لیے ، طفیل ہوشیارپوری صاحب کو محفل کےلیے اور شبنم رومانی صاحب کو اقدار کے لیے بارہا کلام کی فرمائش کرتے سنا اور دیکھا ہے اور جبکہ میں نے خود فنون کےلیے متعدد بار ان سے ان کا کلام طلب کرچکا ہوں لیکن وہ ہمیشہ ہی نہایت کمال خوبصورتی سے ٹال جاتے ہیں۔ اور تو اور حسن رضوی اور اجمل نیازی کافی عرصہ کوشش کرتے رہے کہ فخرالدین بلے صاحب انہیں جنگ اور پاکستان کےلیے انٹرویو دے دیں حسن رضوی کو تو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی البتہ اجمل نیازی سے پوچھنا ہوگا کہ کیا کرنا ہوگا کہ انہوں نے کیا حربہ استعمال کیا تھا کس طرح فخرالدین بلے صاحب نے انہیں انٹرویو دے دیا ۔
قافلہ کے جشن آزادی پڑاؤ میں اچانک سے گفتگو کا موضوع ایک مرتبہ پھر آزادی کے پیروز بن گئے ۔ دنیا بھر میں آواز کے دوش پر پاکستان کا تعارف فرمانے والے عظیم محب وطن اور دیش بھگت سید مصطفی علی ھمدانی کو پاکستان اور ریذیو پاکستان کی پہچان مانا جاتا ہے ۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے اعلان نشر ہوا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے ۔ یہ اعلان انتہائی قابل تعظیم و تکریم ہستی کہ جنہیں آواز و بیان کے حوالے سے ایک اتھارٹی اور ادارہ تسلیم کیا گیا جناب سید مصطفی علی ھمدانی صاحب نے فرمایا تھا۔ کلیم عثمانی صاحب کا بھی جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب سے برسوں کا تعلق رہا اور ہم نے ہمیشہ انہیں مصطفی ھمدانی صاحب کا ذکر انتہاٸی احترام سے کرتے سنا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے مصطفی علی ھمدانی صاحب کو کبھی کسی حوالے سے بالخصوص معیار کے حوالے سے سمجھوتہ کرتے نہیں دیکھا۔ مہینے بھر میں بارہ پندرہ ملاقاتیں تو طے شدہ تھیں کیونکہ ریڈیو پاکستان بھی ہمارا مسکن ہوا کرتا تھا۔ حضرت وقار انبالوی کا بھی کہیں نہ کہیں تذکرہ فرماتے تھے لیکن موضوع گفتگو جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب ہی رہا کرتے تھے کہ جن کے ساتھ ان ہوں نے ایک طویل عہد گزارا تھا۔ جیسے ہی کلیم عثمانی صاحب نے اپنی بات کو سمیٹا تو استاد جناب مہدی حسن خان صاحب نے کلیم عثمانی صاحب سے فرمائش کرکے جو ملی نغمہ سنا وہ نذر قارئین ہے
اس پرچم کے سائے تلے ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے ، ایک گگن کے تارے
ایک گگن کے تارے
ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے
سب دریاؤں کے دھارے
جدا جدا ہیں لہریں ، سرگم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت قوم ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
پاک وطن کی عزت ہم کو اپنی جان سے پیاری
اپنی جان سے پیاری
اپنی شان ہے اس کے دم سے ، یہ ہے آن ہماری
یہ ہے آن ہماری
اپنے وطن میں پھول اور شبنم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت کلیم عثمانی کے ملی نغمے پر شرکائے قافلہ پڑاؤ نے بھرپور انداز میں داد دی۔ کلیم عثمانی صاحب نے احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کریم قافلہ سالار سید فخرالدین بلے صاحب کو صحت و سلامتی عطا فرمائے اور پروردگار عالم قافلے کا سفر جاری رکھے ۔ آمین ۔ ہم سب آج یہاں بلے ہاؤس میں یکجا ہوئے ہیں اور اکٹھا کر بٹھانے کا اہتمام فخرالدین بلے صاحب نے قافلہ کے زیراہتمام کیا۔ آج ہم سب اپنے اندر وہی جزبہ ، جوش اور ولولہ کر رہے ہیں کہ جو قیام پاکستان کے وقت تھا اور جو انیس سو پینسٹھ کی مسلط کردہ جنگ کے وقت دیکھنے میں آیا تھا۔ ہم سب کے قابل احترام جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ میں نے متعدد مشاعرے پڑھے ہیں اور بہت سی تقریبات میں شرکت کی ہے لیکن میں نے قاسمی صاحب کو کبھی اس قدر پر جوش نہیں دیکھا لیکن آج تو اللہ نظر بد سے محفوظ رکھے میری ہی کیا ہم میں سے اکثر کی نظریں قاسمی صاحب پر مرکوز ہیں ۔ اس کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے اپنی مخصوص اور حسین مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا کہ
“آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر”
ان کے اس معنی خیز جواب پر بھی شرکائے قافلہ پڑاؤ نے اپنا بھرپور مثبت ردعمل ظاہر کیا۔
اور پھر فوراً ہی احمد ندیم قاسمی صاحب نے علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ صاحب اور ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صاحب کو متوجہ فرمایا اور ان سے کچھ اس انداز میں مخاطب ہوئے کہ میں کسی ادبی رسالے میں اشتہار دیکھا ہے کہ ڈاکٹر فوق کریمی علیگ اور طفیل ہوشیار پوری صاحب اور آپ دونوں بھی مل کر سید فخرالدین بلے شخصیت ، فن اور خدمات کے حوالے سے کسی تالیف کا اہتمام فرما رہے ہیں ۔ یہ ایک احسن اقدام ہے میں آپ سب کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ اس سلسلے میں آپ کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتا ہوں مجھے مطلع ضرور فرمائیے گا کہ میں کیا خدمت سرانجام دے سکتا ہوں۔ قاسمی صاحب کے بیان پر شرکائے قافلہ پڑاؤ کی حیرت دیدنی تھی اور سب نے ہی اس انکشاف اور قاسمی صاحب کے تعاون کی یقین دہانی کو بےحد سراہا ۔ اس سے قبل کہ ڈاکٹر اجمل نیازی بحثیت نظامت کار قافلہ پڑاؤ کی کاروائی کو آگے بڑھاتے کچھ فرماتے برادر محترم قبلہ خالد احمد کے گنگنانے کی آواز سنائی دی تو قاسمی صاحب نے فرمایا کہ خالد احمد صاحب کیا آپ کو طفیل ہوشیار پوری صاحب کا یہ نغمہ یاد ہے تو عطا فرمائیے خالد احمد صاحب نے فرمایا جی بالکل اور یوں انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں یہ ملی نغمہ پیش فرمایا
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
سر رکھ کے ہتھیلی پر جانا
ہے ظلم سے تجھ کو ٹکرانا
ایمان کا ہے تو متوالا
اسلام کا ہے تو رکھوالا
ایمان ہے تیرا سرمایہ
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
باطل کی نظر للچائی ہے
انسان پہ تنگ خدائی ہے
سر کفر نے دیکھ ابھارا ہے
اسلام کو پھر للکارا ہے
تقدیر نے یہ دن دکھلایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
تو ہاتھ مین اب تلوار اٹھا
رکھ سر پہ کفن میدان میں آ
تقدیر تیری تدبیر تیری
سب دنیا ہے جاگیر تیری
تاریخ نے ہے یہ بتلایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
جاں جاتی ہے بے شک جائے
پرچم نہ تراجھکنے پائے
غازی کو موت سے کیا ڈر ہے
جان دینا جہادِ اکبر
قرآن میں ہے یہ فرمایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
محبوبِ خداﷺ کے پروانے
دہرا اے اجداد کے افسانے
پیغامِ اخوت دینا ہے
یہ کام تجھ ہی سے لینا ہے
پھر کفر مقابل ہے آیا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر اللہ اکبر
(شاعر : طفیل ہوشیارپوری)
جیسے ہی قبلہ خالد احمد صاحب نے یہ ملی نغمہ ختم کیا تو علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ صاحب نے قاسمی صاحب اور دیگر شرکائے قافلہ پڑاؤ کو متوجہ فرما کر کہا کہ فخرالدین بلے علیگ پچاس کی دہائی کے اواخر میں وحدت کالونی میں رہائش پذیر تھے اور بلے میاں کے والد گرامی میر غلام معین الدین جعفری الچشتی (اللہ ان کو غریق رحمت کرے) حیات تھے ۔ ان کا جناب جوش ملیح آبادی اور سید ہاشم رضا زیدی (سیٹلمینٹ کمشنر) سے بہت پرانا دوستانہ اور یا رانہ تھا۔ زیدی صاحب کی خواہش تھی کہ میر صاحب جائیداد کے کلیم کے فارم پر دستخط فرمادیں لیکن میر صاحب غلام معین الدین جعفری الچشتی اس بات کے لیے ہرگز تیار نہ ہوئے تو مجبور ہوکر انہوں نے جوش صاحب کو ساتھ لے جاکر معاملہ سلجھانے اور ڈلوانے کی کوشش کی لیکن سید غلام معین الدین جعفری صاحب کا سوال یہ ہوتا تھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی ، ہماری اور ہم سب کی وہاں سے یہاں منتقلی ہجرت تھی ؟ تو ہر کسی کا جواب ہوتا تھا کہ جی بالکل ، بے شک یہ جواب سن کر قبلہ غلام معین الدین چشتی صاحب استفسار فرماتے تھے کہ کیا ہجرت کا کوئی معاوضہ بھی ہوتا ہے ؟ اور واقعی انہوں نے جائیداد کا کلیم داخل نہیں کروایا حتی کہ ان کے جوش صاحب سے تو نہیں البتہ زیدی صاحب سے اس بنا پر تعلقات بھی کچھ کشیدہ رہے ۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری صاحب کا کہنا تھا کہ ان کا جب بھی لاہور آنا ہوتا تو ان کا قیام فخرالدین بلے صاحب کے ہاں ہی ہوتا تھا- اس پر احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے خود زیدی صاحب سے یہ تمام ماجرا سن رکھا ہے۔ اور فخرالدین بلے صاحب کی وحدت کالونی والی رہائش گاہ پر میرا ، محمد طفیل (نقوش والے) ، طفیل ہوشیارپوری صاحب ، وقار انبالوی، ناصر کاظمی صاحب ، انتظار حسین ، انیس ناگی ، اسرار زیدی صاحب کا بہت جانا آنا رہا ہے۔ آنس معین کی ولادت پر بھی ساٹھ یا اکسٹھ میں ہم سب جمع ہوئے تھے اور پینسٹھ کی جنگ سے پہلے فخرالدین بلے صاحب کے والد گرامی کا انتقال کا بھی تمام منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔
مہینےمیں دو ایک مرتبہ تو ہم لازمی طور پر وحدت کالونی میں فخرالدین بلے صاحب کے ہاں یا پھر محمد طفیل (نقوش والے) کے ہاں مل بیٹھا کرتے تھے۔ جاوید طفیل ہم میں سے کسی کی بھی گود میں آبیٹھا کرتے تھے
احمد ندیم قاسمی صاحب اور علامہ سید غلام شبیر بخاری صاحب کی حسین یادوں پر مشتمل باتوں کو تمام تر شرکائے قافلہ پڑاؤ بہت محو ہو کر سن رہے تھے۔ اداکار محمد علی صاحب نے بھی اپنی یادوں کا دفتر کھول دیا اللہ جانے کب کب اور کہاں کہاں کی باتیں انہیں یاد آگئیں۔ شوٹنگ کے سلسلے میں انہیں اپنے بلوچستان کے دورے بھی یاد آگئے اور فخرالدین بلے بھائی صاحب کے ہاں کوئٹہ ، قلات اور خضدار میں اپنا قیام بھی اور زیارت کا وزٹ بھی۔ عطاء شاد صاحب اور فخرالدین بلے بھائی صاحب کے ساتھ طویل نشستیں بھی۔ جیسے ہی محمد علی صاحب نے گفتگو میں توقف فرمایا تو ڈاکٹر اجمل نیازی نے پھر سے احمد ندیم قاسمی صاحب کو اپنی گفتگو جاری رکھنے کی گزارش کی تو جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے سید فخرالدین بلے صاحب کے ساتھ اپنی رفاقت کے حوالے سے بہت سے دلچسپ واقعات بیان فرمائے اور پھر انہوں نے سید فخرالدین بلے فن ، شخصیت اور خدمات کے تناظر میں اظہار خیال فرمایا۔ اپنے خطاب میں قاسمی صاحب نے مفصل تجزیہ اور تبصرہ فرمایا۔ راقم السطور (ظفر معین بلے جعفری) نے جب اپنی یادوں کو قلم بند کرنے کے سلسلے کا آغاز کیا تو انہی دنوں عالمی اخبار انگلینڈ (جس کے بانی مدیر اعلی ممتاز صحافی ، براڈکاسٹر ، ادیب اور قادرالکلام شاعر صفدر ھمدانی صاحب ہیں) کے زیر اہتمام شائع ہونے والی نہایت عمدہ کتاب – سید فخرالدین بلے ۔ بلے بلے کا مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا ۔ جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے سید فخرالدین بلے صاحب کی شخصیت ، فن اور خدمات کے حوالے سے تاثرات پر مشتمل اس کتاب سے ایک مختصر سا اقتباس نذر قارئین ہے ملاحظہ فرمائیے- “سیّد فخرالدین بَلّے ایک قادرالکلام شاعر، خوبصورت نثرنگار اور اپنی ذات میں ایک انجمن ، ایک قافلہ اور ایک تہذیبی ادارہ ہیں۔ علم و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
تلاش رزق ہو یا جستجوئے معرفت بَلّے
ہماری زندگی شعرو ادب یوں بھی ہے اور یوں بھی
اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور کچھ حکمرانوں کے ساتھ ذاتی سطح پر قریبی مراسم ہونے کے باوجود اپنا کوئی مکان نہیں بنا سکے۔ دوران ملازمت سرکاری بنگلوں اور کوٹھیوں میں رہے اور پھر کرائے کے مکانوں میں زندگی اطمینان کے ساتھ گزاری ۔ہمیشہ ان کی زبان پر کلمہء شکر رہا۔ اس صورت حال پر بھی ان کا اپنا ایک شعر ان کی مثبت سوچ کا پتا دیتا ہے۔
سر اُٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چُھپانے کو گھر نہیں ، نہ سہی
بلے صاحب برائی کا بدلہ ہمیشہ بھلائی سے دیتے نظرآئے۔ دائیں ہاتھ سے مدد کریں تو اپنے بائیں ہاتھ کو پتا نہیں چلنے دیتے۔ خوبصورت محفلیں سجانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سیّد فخرالدین بَلّے پندرہ جرائد کے بانی ایڈیٹراور ایڈیٹر بھی رہے ہیں لیکن اس کے باوجود خود نمائی سے ہمیشہ کوسوں دور دکھائی دئیے۔اخترحسین جعفری ان کے کمالات فن کے مداح تھے۔ ان کی دل میں اتر جانے والی نعت سن کر اہل محفل نے حفیظ تائب کی آنکھیں بھیگتی دیکھیں، ضمیر جعفری کو با آواز بلند سرِ بزم جے میں ویکھاں اوہندے ولّے بلے بلے بلے کہتے سنا ۔ فیض احمد فیض انہیں چُھپا رستم کہتے تھے۔ اور وقت نے ان کے اس تبصرے پر مہر تصدیق ثبت کردی ۔ان کی تخلیقی شخصیت کے بہت سے رنگ دنیائے ادب پر شعروں کے معانی کی طرح رفتہ رفتہ کھلے۔ سید فخرالدین بلے صاحب کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ادب دوست ان کا ذکر عزت و احترام سے کرتے دکھائی دئیے۔ اس لئے کہ وہ اپنے حلقہءیاراں کےدلوں میں آج بھی بسے ہوئے ہیں۔ سید فخرالدین بَلّے بے شک ادب وثقافت کی متحرک شخصیت تھے”(احمد ندیم قاسمی)
(اقتباس از کتاب : سید فخرالدین بلے ، بلے بلے)
جب احمد ندیم قاسمی نے سید فخرالدین بلے صاحب کے حوالے سےاپنی گفتگو کو سمیٹ لیا تو خالد احمد صاحب ، محمد علی صاحب اور قبلہ کلیم عثمانی صاحب نے قاسمی صاحب سے
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
کی فرمائش کردی جبکہ راقم السطور (ظفر معین بلے جعفری) نے شاہکار نظم ایک درخواست کی فرمائش کی اور موقف یہ اپنایا کہ وہ تو دعا ہے اور دعا سے پہلے کڑوا سچ ضروری ہے ۔ شکر ہے کہ اجمل نیازی صاحب نے ہماری تائید فرمائی۔ قاسمی صاحب نے ہماری فرمائش پر اپنی شاہکار نظم ایک درخواست عطا فرمائی جو قارئین کی نذر ہے
نظم : ایک درخواست
نظم نگار : احمد ندیم قاسمی
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں
دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے خداوندان ایوان عقائد
اے ہنر مندان آئین و سیاست
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیئے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیئے
جب احمد ندیم قاسمی صاحب نے اپنی شاہکار نظم ایک درخواست مکمل فرمائی تو حاضرین محفل نے قاسمی صاحب سے دعائیہ نظم خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے عطا فرمانے کی گزارش کی۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو ، زندگی وبال نہ ہو
( احمد ندیم قاسمی )
بین الاقوامی شہرت کے حامل ممتاز محقق ، اسکالر ، نقاد ، سیاست کار ، صحافی ، ادیب ، مصنف ، مولف ، قادرالکلام شاعر اور عظیم تہذیبی ، اخلاقی ، انسانی ، ادبی ، مجلسی اقدار و روایات کے پاسدار و پاسبان اور والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے علمی ، ادبی ، صحافتی اور سیاسی رفیق کار حضرت سید تابش الوری صاحب کی بہاول پور میں مستقل اقامت گاہ پر آج بھی ہر ماہ کی سولہ تاریخ کو بعد از نماز مغرب سید فخرالدین بلے صاحب کی قائم کردہ ادبی تنظیم قافلہ کا پڑاؤ ڈالا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ سلسلہ گزشتہ کم و بیش بیس برس سے جاری ہے۔ قبلہ سید تابش الوری صاحب نے اپنے عزیز از جان دوست اور رفیق سید فخرالدین بلے صاحب کی زندگی میں ہی ان سے عہد فرمایا تھا کہ آپ کی صحت اور عارضہ ء قلب کے باعث اب کیونکہ آپ کے لیے ہر مہینے قافلہ کے پڑاؤ کا اہتمام کرنا دشوار ہے تو آپ کے دوست تابش الوری کا یہ وعدہ ہے زندگی نے جب تک وفا کی آپ کا قافلہ رواں دواں رہے گا اور قافلہ کے پڑاؤ میں کبھی کوئی تعطل نہیں آئے گا۔ آج سید فخرالدین بلے صاحب کے وصال کو اٹھارہ ، انیس برس ہونے کو آئے اور وہ اسی شہر بہاول پور کہ جسے ہم شہر تابش الوری کہتے ہیں میں آسودہ ء خاک ہیں اور اسی شہر میں آج بھی سید فخرالدین بلے کے قافلہ کا سفر جاری ہے اور اب قافلہ سالار محترم و مکرم حضرت سید تابش الوری صاحب ہیں۔ اللہ کریم رحمت اللعالمین اور اہل بیت اطہار ع کے صدقے میں ہمارے پیارے اور شفیق بزرگ جناب سید تابش الوری صاحب کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ان کا سایہ ادب پر اور ہم سب پر سلامت و قائم رکھے۔ آمین
عالی مرتبت جناب سید تابش الوری (تمغہ امتیاز) کے منفرد اور قابل رشک اعزازات کی فہرست بہت طویل ہے لہذا ہم یہاں چند ایک کے ہی ذکر پر اکتفا کریں گے۔ سیدی و مرشدی جناب تابش الوری صاحب کے غیر منقوط نعتیہ مجموعے کو نقادان فن اور محققین نے ایک باکمال تخلیقی شاہکار اور بے مثال کارنامہ قرار دیا اور وجہہ موجودات ، ختم المرسلین سرادارالانبیاء حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی مدحت نے انہیں بین الاقوامی بلکہ عالمی شہرت اور مقبولیت عطا فرمائی۔
بعد ازاں جناب سید تابش الوری صاحب نے اپنے دوست ، سجن ، بیلی اور رفیق سید فخرالدین بلے کے فن ، شخصیت اور خدمات کے حوالہ سے متعدد ضخیم جلدوں پر مشتمل کتاب “سید فخرالدین بلے ۔ ایک داستان ، ایک دبستان” تالیف فرمائی۔ اور بحثیت مولف جناب سید تابش الوری صاحب نے سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط اپنی داستان رفاقت کے پس منظر میں جو دیباچہ تحریر فرمایا اس کا اپنا ہی مقام اور مرتبہ ہے۔ سید فخرالدین بلے ۔ ایک داستان ، ایک دبستان کے مولف سید تابش الوری صاحب کا دیباچہ بلا شبہ ایک تاریخی دستاویز ہے کہ جو پاکستان کے متعدد روزناموں اور ادبی جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔ یہاں یقینا” اس بات کی وضاحت بے محل نہیں ہوگی کہ سید تابش الوری صاحب کی تالیف
سید فخرالدین بلے ۔ ایک داستان ، ایک دبستان کے پبلشر و ناشر عالمی اخبار ، انگلینڈ ہے۔ جبکہ اس تالیف کے چند ایک مضامین ، اقتباسات ، حصے اور چند ایک ہی ابواب عالمی اخبار انگلینڈ اور اردوئے معلی جیسی معتبر ویب سائیٹز کی زینت بن چکے ہیں ۔ بےشک حب الوطنی ، دھرتی پوجا ، دیش بھگتی اور وطن پرستی میں محترم سید تابش الوری صاحب اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی ادبی ، ثقافتی ، سیاسی ، سماجی ، صحافتی اور تحقیقی و تصنیفی خدمات پر ضخیم کتابیں مرتب کی جاسکتی ہیں۔ ذاتی طور پر میرے علم میں ہے کہ ادب کے حوالے سے ان کے متعدد حیرت انگیز تخلیقی کارنامے خیر سے تکمیل کے آخری مراحل ہیں۔ حال ہی میں ان کی علالت کے باعث بہت تشویش اور پریشانی رہی لیکن اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور وجہہ موجودات ، رحمت اللعالمین ، رحمت اللعالمین حضرت محمد ص کے صدقے میں ماشاء اللہ اب صحت یاب ہورہے ہیں ہماری دعا ہے پروردگار عالم سید تابش الوری صاحب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہم سب پر اور اردو ادب پر ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین ۔ آخر میں ہم اس حقیقت کا اعتراف بھی کرنا چاہیں گے کہ ہمیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ہم مستقل اور روزانہ کی بنیادوں پر قبلہ سید تابش الوری صاحب کی انمول دعاؤں کا فیض پانے والوں میں سے ہیں۔ ہمیں آج بھی قدم قدم پر ان کی راہنمائی حاصل ہے اور ہم ان کے قیمتی مشوروں سے مستفید ہوتے ہیں۔
سینئر پارلیمینٹیرین سید تابش الوری صاحب کی تحریروں اور خطبات میں ہمیں ایک واضح پیغام ملتا ہے اور وہ یہ کہ “آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر” سید فخرالدین بلے کا ادبی قافلہ اب بھی رواں دواں ہے ۔ آج بھی ہر ہر قافلے کے پڑاؤ میں قافلہ سالار سید تابش الوری صاحب مختلف انداز سے اور مختلف حوالوں سے سید فخرالدین بلے کی یادوں اور باتوں اور ادبی خدمات کو تازہ بھی کرتے رہتے ہیں اور اجاگر بھی ۔ گزشتہ ماہ سید تابش الوری صاحب کی اقامت گاہ پر جو پڑاؤ ڈالا گیا وہ پاکستان کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی کی مناسبت سے تھا جبکہ رواں ماہ کے قافلہ پڑاؤ میں جشن آزادی پڑاؤ کی بازگشت بھی سنائی دی گئی اور یوم دفاع کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔ قافلہ سالار حضرت قبلہ سید تابش الوری صاحب نے جس انداز میں اور جس شان سے پاکستانیت کو پروان چڑھایا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
ہم بھی عزم کرتے ہیں کہ “آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر”
============================================================