روشنی کا سفر علی گڑھ سے شروع ہوا تھا۔
منزل نصیب ہوئی مدینة الاولیا ملتان میں۔
میں نے اپنی تیز رفتار جوانی میں۔ طلوع اور غروب ہوتی جمہوریت کے دنوں میں ادبی اور سیاسی محفلوں میں یہ نام بہت سنا تھا۔ بلّے صاحب۔ سید فخر الدین بلّے۔ عالی جی بہت ذکر کرتے تھے۔ حنیف رامے سے بھی بہت حوالے سنے۔ لاہور کے ایڈیٹرز۔ صحافی۔ شاعر بھی بلّے بلّے کرتے تھے۔ آج نصف صدی بعد عالمگیر وبا کے دَور میں جب تنہائی ہماری ہمدم ہے۔ میں ایک گہرے تاسف میں ہوں۔ میرے سارے بزرگ۔ ہم عصر ۔ سید فخر الدین بلّے کی تخلیقی۔ تحقیقی ۔ تصدیقی صلاحیتوں اور قربتوں کا ذکر کررہے ہیں۔ میں اپنی یادوں کے ہجوم میں اس مشفق۔ مونس۔ محترم چہرے کی تلاش میں ہوں۔ ماہ و سال تیزی سے بن برسے بادلوں کی طرح گزر رہے ہیں۔ وہ چہرہ وہ منزل نظر نہیں آرہی ۔ ہر سمت دُھند پھیلی ہوئی ہے۔ غبار اُڑ رہا ہے۔ چھٹنے ہی نہیں پاتا۔ دھواں ہی دھواں ہے۔
ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود
دنیا سمٹ رہی ہے بکھرنے کے باوجود
راہ ِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفس پہ موت سے ڈرنے کے باوجود
میں سیاستدانوں کی بھیڑ میں کھویا رہا۔ قیمتی لمحے تاریکیوں میں ڈوبتے رہے۔ اہلِ علم۔ صاحبان ِدانش کی صحبتوں سے محروم رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود بھی جنگلوں۔ جھاڑیوں میں بھٹکتا رہا۔ پھول فخر الدین بلّے صاحب کی محفلوں میں کھلتے رہے۔ حکمت کی مے لاہور۔ ملتان اور بہاولپور میں بٹتی رہی۔
ظفر معین بلّے کا شکر گزار ہوں کہ کووڈ کے اندھیروں میں انہوں نے میرا ہاتھ تھاما ہے۔ دوسرے ہاتھ میں” سید فخر الدین بلّے ۔ ایک آدرش ایک انجمن” تھمائی ہے۔ تو 70 اور 80 کی دہائیاں کہکشاں بن کر میرے سامنے سج رہی ہیں۔
آل احمد سرور میری رہنمائی کررہے ہیں۔ ’فخر الدین بلّے نے دانشوری اور پُر سوز عقلیت کی جو شمعیں جلائیں ، ان کی روشنی سرحد پار بھی پہنچی ہے۔‘
بر حق۔ برملا۔ علم کی روشنی۔ دانش کی خوشبو کو سرحدیں نہیں روک پاتیں۔ خار دار باڑ بھی احساس اور ادراک کی راہ مسدود نہیں کرسکتی۔پروفیسر منظر ایوبی اپنے مخصوص گھن گرج والے لہجے میں نور میرٹھی کے حوالے سے مجھے بتارہے ہیں۔
"عمر کے ابتدائی اور تعلیمی ادوار میں مولانا ابوالکلام آزاد۔ ڈاکٹر ذاکر حسین۔ مولانا حسرت موہانی۔ مولوی عبدالحق ۔ رشید احمد صدیقی۔ جگر مراد آبادی۔ تلوک چند محروم۔ علامہ نیاز فتح پوری۔ سیماب اکبر آبادی۔ سر شاہنوار بھٹو اور مولانا عبدالستار نیازی جیسے اکابرین کی محبتیں حاصل رہیں۔ ہم عصر صاحبان ِ علم میں احمد ندیم قاسمی ۔ سعادت حسن منٹو۔ فیض احمد فیض۔ میرزا ادیب۔ ڈاکٹر سید عبداللہ۔ احسان دانش۔ قدرت اللہ شہاب۔ صہبا لکھنوی۔ ڈاکٹر وحید قریشی۔ جگن ناتھ آزاد۔ صادقین۔ حفیظ جالندھری۔ مشکور حسین یاد سے خصوصی مراسم رہے۔”
اللہ اللہ ۔ کیسی کیسی با کمال ہستیوں۔ ایک ایک اپنی جگہ مکتبِ خرد۔ جسے یہ صحبتیں حاصل رہی ہوں۔ اس کا ذہن کتنا تاباں۔ فکر کتنی درخشاں ہوگی۔
میرے جھنگ کے خوبرو عاشق ِ ٰ اُردو خواجہ محمد زکریا افسوس کررہے ہیں کہ مجھے بلّے صاحب سے صحبت نہیںرہی۔ وہ تو خوش قسمت ہیں کہ فخر الدین بلّے صاحب کے کوارٹر کے عین سامنے سکونت پذیر رہے۔ ان کو یہ افتخار حاصل رہا کہ بلّے صاحب کی رہائش گاہ پر ہونے والی غیر رسمی محفلوں میں شریک ہوتے رہے۔ جہاں سوال جواب ہوتے۔ بذلہ سنجی اور ذکاوت کے مظاہرے بھی۔ بلّے صاحب تحمل کا پیکر تھے۔ ان کے بچوں نے بھی باپ ہی کے مزاج پر خود کو ڈھال رکھا تھا۔ ظفر معین بلّے اکثر میرے ہاں تشریف لاتے رہتے تھے۔ بڑے شائستہ اور منکسر المزاج نوجوان تھے۔ معلوم نہیں آج کل کہاں ہیں۔؟
میں بزم خیال میں خواجہ صاحب کو بتارہا ہوں کہ ظفر معین بلّے شہر قائد میں ہیں۔ بحیرہ عرب کے کنارے۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ وہ میرے حلقہ ءاطراف میں ہیں۔ بہت مہربان ہیں۔ شام اطراف میں شریک ہوتے ہیں۔ شعرو ادب کی محفلوں کی جان ہیں۔ ہمیں ان میں بھی فخر الدین بلّے صاحب کی شفقت۔ انس ۔تبحّر۔ مزاج شناسی دکھائی دیتی ہے۔
بابائے اُردو مولوی عبد الحق جب یہ کہہ رہے ہوں کہ سید فخر الدین بلّے کی نظم ہو یا نثر، اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔
فراق گورکھپوری کی آواز سنئے۔”سید فخر الدین بلّے رنگوں کی بجائے الفاظ سے تصویریں بنانے کا ہُنر جانتے ہیں۔”
ڈاکٹر وزیر آغا سے ہماری قربت رہی ہے۔ جھنگ شہر سے سرگودھا ان کی 58 ۔سول لائنز والی کوٹھی پر حاضر ہوتا رہا ہوں۔ سرگودھا ہمارا ننھیال بھی ہے۔ سسرال بھی۔ ڈاکٹر وزیر آغا خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ نظم گوئی اور انشائیے کی طرف ہمیں رغبت دلاتے رہے۔ وہ کہہ رہے ہیں۔
"تصوف کے موضوع پر ان کی نظر اتنی گہری ہے کہ آپ بلا تکلف انہیں اس سلسلے میں ایک اہم اتھارٹی قرار دے سکتے ہیں۔”
میرزا ادیب اُردو کہانی میں ایک بالکل منفرد آواز۔ ان سے ہماری نیاز مندی رہی ہے۔
کہتے ہیں۔” ہر ملاقات میں ان کی شخصیت کا ایک نیا رُخ سامنے آیا۔ میں اس کثیر الجہت شخصیت کو پورے اعتماد کے ساتھ علم و ادب کی آبرو۔ قرار دے سکتا ہوں۔”
جمیل الدین عالی جو خود ایک ہمہ جہت انسان تھے۔ ’انسان‘ پر ان کی طویل نظم ایک شاہکار ہے۔ ’جنگ‘ میں ان کے کالم کئی عشروں تک ذہن و دل کو ولولہءتازہ دیتے رہے۔ وہ بات ہی یہاں سے شروع کررہے ہیں۔” سید فخر الدین بلّے ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک ادارے۔ ایک تنظیم۔ ایک انجمن اور ایک جہان کا نام ہے۔ وہ ایک گھنا اور سایہ دار پیڑ تھے ،جس کے سائے تلے آکر بہت سے لوگ دھوپ سے بچے اور اس پیڑ کے پھل سے لطف اندوز ہوئے۔ اس سے آکسیجن بھی حاصل کی۔ اور اس کی خوشبو سے مشام ِ دل و جاں کو معطر بھی کیا۔ انہیں اُردو ،فارسی۔ انگریزی اور ہندی زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔”
ظفر معین بلّے صاحب۔ آپ نے مجھے اپنی عاقبت سنوارنے کا موقع دیا۔ بلّے صاحب جیسی طرحدار مجموعہ ءاوصاف ہستی کے بارے میں جاننے میں تعاون کیا۔ حکومتی حلقوں میں آج کل ایسی ہمہ صفت شخصیات کہاں ملتی ہیں؟ جو شعر و ادب کی پرورش کرتی ہوں۔ اہل ِعلم و دانش سے صحبت رکھنے کے لیے بے تاب ہوں۔ علم و دانش کی روشنی پھیلانے والی محفلیں برپا کرتی ہوں۔
آج کل تو سرکاری رہائش گاہوں میں ٹھیکیداری کے مجمع لگتے ہیں۔ ڈالروں اور درہموں کی باتیں ہوتی ہیں۔ تبادلے تقرریاں زیر بحث آتی ہیں۔ اَن پڑھ حکمرانوں سے تعلق اور رابطے تلاش کیے جاتے ہیں۔
سید فخر الدین بلّے میرے لیے اس وقت ایک مرشد اور محبوب کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ میں ان کی صحبت میں زیادہ عرصہ گزارنا چاہتا ہوں۔ ظفر معین بلّے ہی یہ پیاس بجھانے میں میری رہنمائی کریں گے۔ ان کی شاعری سے باضابطہ فیض حاصل کروں گا۔ ان کے مخطوطات۔ مکتوبات ۔ مضامین سے
گزروں گا۔ پھر اپنے اس سفر کی داستان اپنے قارئین اپنے سامعین کی نذر کروں گا۔
اپنی بات بلّے صاحب کے اس شعر پر ختم کروں گا کہ یہی آج کا چلن ہے۔
ہم شب میں رند بن کے رہے ، دن میں متّقی
دنیا میں اس چلن سے بڑی آبرو رہی