سادہ اوربے فیض شب وروز میں بنے بنائے راستوں سے گزرتے ہوئے، الجھے سوالوں میں مزید الجھتے ہوئے دنوں میں، کسی ایک ایسے ہی دن سیدفخرالدین بلے کی شاعری سے میرا تعارف بھارت کے ایک بزرگ شاعر کے توسط سے ہوا۔ان کی شاعر ی اور چنیدہ اشعار کو پڑھتے ہوئے ان کے معنوی نظام سے انسلاک کرتے ہوئے ،ان کے شخصی وجود کا خاکہ ذہن میں بنا رہی ہوں تو ایک خوش فکر شاعر سے پورے طمطراق سے ملاقات ہو رہی ہے اور میں اس مرحلے پر پروفیسر صاحب کی شکرگزار ہو رہی ہوں کہ درمیان میں فاصلے ہونے کے باوجود اچھی شاعری سے متعارف کرایا۔
اس ملاقات میں ،میں نے جانا ہے کہ ان کے افکار نے ان کے شخصی وجود کو ایسا اجال رکھا ہے کہ ان کے خاکی وجود پر ان کا باطنی سراپا فوقیت حاصل کرکے ان کو زندہ تر کر رہا ہے کہ خاکی وجود تو تہہِ خاک ہے، لیکن شعور کا جلایا ہوا چراغ جھلملا رہا ہے۔
فخرالدین بلے علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ ارضیات جیسے مضمون پڑھنے والے کو ارض ِ وطن سے ہجرت کرکے نئی سرزمینوں کو وطن کرنا پڑا۔ سو پاک سرزمین پہ قدم رکھے ہی نہیں۔ اس کی ارضیت میں رچ بس گئے اور اس کی خاک کو اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے۔ سائنس پڑھنے والا یہ طالب علم اپنے دورِطالب علمی میں خود کو منوا چکا تھا۔ تحریرو تقریر پر ان کو یکساں دسترس حاصل تھی۔ دیکھاگیا ہے کہ خوب صورت اوردل نشیں گفتگو کرنے والے عموماً بہت حد تک اپنا کتھارسس تقریر میں کرلیتے ہیں۔ بلے صاحب جتنے اچھے مقرر تھے ، تحریر میں قدرت رکھنے کے باوجود تخلیقی جوہرکو بھی منوایا اور آج ہم ان کو ان کی تحریر کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔
یہ عجیب واقعہ ہے کہ فخرالدین بلے نے بہت متحرک زندگی گزاری۔ یارباش قسم کی شخصیت رکھتے تھے۔ کم وبیش تین چار دہائی ادب کے منظر نامے میں موجودرہے۔ادباء شعرا ء کے ساتھ نشست وبرخاست رہی، فنونِ لطیفہ کی ترویج میں مصروف رہے،کئی تخلیقی محاذوں پر نبردآزما رہے۔ محکمہ اطلاعات اورصحافت سے باقاعدہ منسلک رہے اور کئی رسائل و جرائد کی ادارت کی، جن کی ڈیڑھ درجن کے قریب تعداد بنتی ہے۔ ایسے میں بھرپور مواقع حاصل رہے کہ وہ “ناموری”حاصل کرتے۔مگرایسا نہیں ہوا، محفل میں ہوتے ہوئے سب کے درمیا ن موجود ہوتے ہوئے وہ زیرِلب گنگناتے رہے۔
ہنگامہ ہائے کارگہِ روز و شب نہ پوچھ
اتنا ہجوم تھا کہ میں تنہا سا رہ گیا
یہ تنہائی ان کی تخلیقی بے چینی کے سبب تھی، انہوں نے زیر ِ ِلب خود سے گفتگو کی اور اس گفتگو کو اندر امڈنے والے خیال کو بہت اچھے الفاظ میں ترتیب دے کراپنے شعورکو شعر کیا اور اپنے اندر کی تنہائی کے احساس کو بامعنی کیا۔
بھیڑ میں ایسے گھرے کہ بڑھ گئیں تنہائیاں
ساتھ ہی لیکن ہوئے آباد ویرانے کئی
اور ان کی شاعری کو مولوی عبدالحق ، فیض احمد فیض، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، وزیرآغااورخواجہ زکریا جیسے مشاہیر نے بے حد سراہا۔بلے صاحب اردو شاعری کے بنیادی مطالبے پر ارتکاز کرتے ہیں اور پیکرِغزل میں خیال کی جہتوں کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خوش نظرآنکھیں،بیکراں کائنات میں حسن تلاش کرتی ہیں۔فطرت کی نغمہ گری، سرخوشی، سرشاری آنکھوں سے ہوتی ہوئی روح میں اترتی چلی آتی ہے۔ فطرت کا جمال ایک سرمدی نغمے کی طرح جذب وکیف میں ڈھلتا ہے اور روح میں تازگی بھردیتا ہے کہ یہاں فطرت سے ان کا تعلق الہامی محسوس ہونے لگتا ہے اور اس سنہری کیفیت کے زیرِاثر ان کی شعری جمالیات نکھر ی ہوئی سامنے آتی ہے۔ یہ کچھ اشعار دیکھئے
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہوئے ہیں پھول نکھرنے کے باوجود
ہے فضا صبح کی بھیگی بھیگی
رات پھر اوس پڑی ہو جیسے
فطرت سے ان کا لگاؤ بہت گہرا ہے۔ وہ زندگی کے رمز اورکنایوں کو فطرت کے حوالے سے سمجھنے کی کوششوں میں نظر آتے ہیں۔ وہ بھید بھری وسعتوں کو ،روزوشب،شام وسحر کےپیمانوں میں ناپنے کی تگ و دو میں ہیں۔ وہ بنتے بگڑتے دائروں کو تاریخ کے تسلسل میں دیکھ رہے ہیں۔اس تسلسل میں قوموں کی زندگیاں الٹتی پلٹتی نظر آ رہی ہیں۔ وہ پیچیدہ معاملات کو بہت سادہ لہجے میں کہتے ہیں۔
دائرے بنتے ، بگڑتے دیکھنے والوں نے بھی
کب سنا ہے جھیل میں گرتے ہوئے کنکر کا شور
فطرت ِزندگی کا حسن اپنی جگہ وفور ِ حسن کی کرشمہ سازیاں الگ، ان کا حساس دھڑکتا ہوا دل، کبھی کبھی اپنی بیٹ مس کر دیتا ہے کہ لطف و انبساط کا احساس گہری اداسی میں گھر جاتا ہے۔ وقت کی چاپ دھیرے دھیرے سب کچھ ختم کردینے کے درپے ہے۔ کیف وسرور کو ثبات نہیں کہ زندگی میں ٹھہراؤ کب ہے؟۔
سوچ کے آسماں سے اتری ہے
دل کے آنگن میں چاندنی چپ چاپ
دل کی دھڑکن اگر نہ بند ہوئی
کیسے گزرے گی زندگی چپ چاپ
پھر ان کی حسن بین آنکھ زمین پر پھیلے ہوئے بدنما مناظر سے نظر نہیں چراتی۔ وہ زندگی کے آشوب کو دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھ زخماجاتی ہے ، اداسی ان کے وجودمیں ٹھہرجاتی ہے۔ بے کیف کر دینے والی سرد ہوا، تمام بہار رُتوں کو بجھادیتی ہے۔
آگ ، پانی میں ہے کیا فرق کہ ہم سب کے بدن
کبھی بارش میں، کبھی دھوپ میں نم ہوتے ہیں
وہ الم ناک منظروں سے پہلوتہی نہیں کرتے۔ وہ اس درد کو محسوس کرتے ہیں، جو زندگی کی رگوں میں زہر کی طرح پھیلا جا رہا ہے کہ ایسے عالم میں خواہش، خواب دم توڑ رہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ استعجابیہ نشان ان کی فکر کا ماخذٹھہرتا ہے۔
چمن کے دیدہ وروں سے سوال ہے میرا
بہار کا ہے یہ موسم تو پھر گھٹن کیوں ہے؟
اس کائنات میں قطرہ بھر زندگی کا ادراک انہیں رنجور کرتا ہے، جہاں لمحہ بھرکو آنکھ کھلتی ہے اور نظارگی کی خواہش،سیر بھی نہیں ہوتی کہ مندجاتی ہے۔
پیڑ پودوں کی کچھ کمی تو نہیں
ایک سوکھا شجر نہیں نہ سہی
ایسے مرحلے پہ ان کی کھلی آنکھ اندر کی سمت دیکھنے لگتی ہے۔نفسِ انسانی کی لاشعوری بوالعجبیوں پر غور و فکر ان کا شعار نظر آتا ہے۔ باطن کی اتھاہ پراسرار گہرائیوں میں خود کو دریافت کرنے میں ان کا انہماک اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ درویشانہ فقر ان کا مزاج ٹھہرتا ہے۔اطراف میں بھرپور زندگی جیتے ہوئے اس کے شوخ رنگوں کو دیکھتے ہوئے ، چپکے سے اپنے اندر اتر جاتے ہیں اور اس پیچیدہ نظا م میں”ہونے” کا سوال ان کی تلاش ٹھہرتی ہے۔ اس سوال میں نکل جاتے ہیں کہ فکروشعور،داخلی انکشافات کا در وا کرتے ہیں تو ان کا لہجہ خاص ہوجاتا ہے۔
خدا گواہ کہ میں نے خود آگہی کے لئے
سمجھ کے خود کو حرم عمر بھر طواف کیا
بہت امکان تھا کہ اس مرحلے پر وہ کسی لا یعنی نقطے پر کھڑے ہوجاتے ۔وہ پہنائیوں میں گم ہوجاتے، کسی چیستاں کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے۔ مگر ان کا فلسفیانہ شعور ان کی رہنمائی کرتا ہے اور ان کے اندر طمانیت کے خوش رنگ پھول کھلنے لگتے ہیں کہ دور تک راستہ مہکنے لگتا ہے اور خیال کی راہداریوں میں چراغ سے جل اٹھتے ہیں اور یہ روشنی ان کے وجدان سے پھوٹتی ہے۔
احساس وفکرکے ممکنہ دائروں کو پھیلاتے ہوئے ان کے اندر جرأتِ رندانہ پیدا ہوجاتی ہے ۔وہ خالق ِحقیقی سے مکالمہ بھی کرنے لگتے ہیں ۔اور مکالمہ کرتے ہوئے شکوہ کناں ہوتے ہیں۔
اسی کے رحم و کرم پر ہے عاقبت میری
نہ جس نے پہلی خطا کو مری معاف کیا
یہاں شاعر کا احساس اور شعورِ ذات مستحکم نظر آتا ہے اور نئی جمالیات کا نقطہء آغاز ثابت ہوتا ہے۔ وہ لطافت سے زندگی کی فلسفیانہ قدروں کو شعرکرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کا لہجہ ندرت کا حامل ہوجاتا ہے۔ ایسے اشعار جابجا ملتے ہیں۔
زیرِ قدم ہے چاند، ستارے ہیں گردِ راہ
دھرتی پہ آسماں سے اترنے کے باوجود
اور یہی تیور، ان کو خوش فکرشاعر کی حیثیت سے نمایاں کرتے ہیں۔
سیدفخرالدین بلے ۔ ایک خوش فکر شاعر۔دیدہ ور ادیب اوربزرگ صحافی
تحریر:سائرہ غلام نبی ،ہیڈ آف اسکرپٹ ، ایم ڈی پروڈکشن ، ہم ٹی وی ، چینل، اسلام آباد۔جو خواتین ڈائجسٹ کی مدیرہ کی حیثیت سے بھی برسوں اپنے ادیبانہ جوہر دکھاکر اپنی عظمت کالوہا منواچکی ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...