زبان ِاردو مسلمانوں کی برصغیر میں آمد سے وجود میں آئی اورصدیوں کا شعری اور نثری سفر طے کرکےارتقائی منازل سے ہم کنارہوئی۔ کلاسیکی اردو شعرا ءکا اس زبان پر بہت احسان ہے۔اٹھارہویں صدی سے انیسویں صدی تک شاعری کے ذریعے اصلاح ِزبان کی تحریک چلی ،پلی،بڑھی اور بڑی بارآور ثابت ہوئی۔الفاظ کاذخیرہ بڑھ گیا۔ محاورات کا دامن پھیلا اور مالامال بھی ہوگیا۔طرح طرح کے مضامین اردو شاعری میں سمولئے گئے۔ انیسویں صدی سے بیسویں صدی تک بڑی شخصیات نے اردو شاعری اور نثرنگاری کے ذریعے قوم کی بیداری میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ ادیبوں ،شاعروں اور تخلیق کاروں نے آزادی کا جذبہ جگانے ،آتش شوق کوبھڑکانےاور معاشرتی اصلاحات لانے کےلئے فکرانگیز مضامین باندھے۔ استحصال سے نجات پانے کے بعد اسی اردو ادب نے لوگوں کو الجھنیں دورکرنے کےرستےسُجھائے۔ اردو میں افسانوی اور واقعاتی اصناف ادب پوری کامیابی سے منظرعام پر آگئیں۔اعلی ٰ پائے کاادب تخلیق کیا گیا اور اردو زبان و ادب کی خوشبو جغرافیائی سرحدوں کوعبور کرکےدنیاکے بہت سے ملکوں کو مہکاتی نظرآئی۔ اردو ادب کا ارتقائی سفر بھرپور انداز میں جاری ہے۔عالمی سطح پر دوسری زبانوں کے ماہرین ادب بھی اس کی اثرآفرینی کاکھلے دل سے اعتراف کرتے نہیں تھکتے ۔ دنیا کی دوسری زبانوں کے ادب کے ساتھ اردو ادب اپنا سفر تمام تر توانائیوں اوررعنائیوں کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ بلاشبہ اس نے اتنی کامیابیاں سمیٹ لی ہیں کہ پورے اعتماد کے ساتھ اردو زبان و ادب کا تقابلی جائزہ دوسری زبانوں کے ادب عالیہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ادب پاروں میں فن کاروں کے خون جگر سے قطرہ قطرہ ٹپک کرایک سمندر بن گیا ہے۔جس میں لعل و جواہر بھی ہیں ، نایاب موتی بھی اور اتنے خزائن کے جہان، جو کسی بحر بیکراں ہی میں ہوسکتے ہیں ۔یہ سب ہمارے ان قد آور ادیبوں اور شاعروں کی کاوشوں کاثمر ہے ،جنہوں نے ادب کواپنا اوڑھنابچھونا بنائے رکھا ۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسے تمام عظیم فنکاروں کو ان کا حق ملا ہے؟ اکثر ایسا ہوتا ہےکہ فنکاروں کی زندگی میں ان کو داد نہیں ملتی ،جب وہ نذر خاک ہوتے ہیں بلکہ ان کی موت کی دہائیوں کے بعد ان کی قدر کی جانے لگتی ہے۔ بہت کم ایسے تخلیق کار ہوتے ہیں، جنہیں قید حیات میں خراج تحسین پیش کیاجاتا ہے۔خاص طور پر معاصر ادبا و شعرا کے ہجوم میں بڑے بڑے ادیب اور شاعر گمنام ہی رہ جاتے ہیں ۔ کلاسیکی ادب کےحوالے سے تحقیق اورانکشافات تو ہروقت ضروری ہوتےہیں مگر ساتھ ساتھ زیادہ توجہ معاصرادب پر مرکوز ہونی چاہیے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادبا وشعرا کے سوانحی حالات کا تعارف کرایا جائے؛ ان کے ہر ایک بلکہ ایک ایک فن پارے کاجائزہ لیا جائے۔ایسی کاوشیں جاری رہیں تو اس کے مثبت اثرات حاصل ہوں گے۔سب سے اہم کام یہ ہوگا کہ ادیب یا شاعر کی حوصلہ افزائی ہوگی۔دوسری بات یہ کہ ادب کا میدان اور پھیل جائے گا۔یہ پتا چل جائے گا کہ کیا خامیاں ادب میں رہ گئی ہیں اورانہیں دور کرنے کے لئے کیسے کیسے راستے نکالے جاسکتے ہیں اور اسی طرح علمی کام کے لیے نئے نئے مآخذتک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔
ہر زبان کے ادب میں فن کاروں یاان کے فن پاروں پربکھرےبکھرے مقالات اور مسودے موجود ہیں ،جن تک رسائی بہت مشکل ہوتی ،اگر انہیں یکجا نہ کیاجاتا۔ البتہ ایک ہی شخصیت یا ایک ہی موضوع پرساری چھپی ہوئی تحریریں اور معلومات اکٹھی کرنا مقبول اور قابل ِقدر کاوش ہے، اس کے لیے ایک حوصلہ مند مرتبہ کی ضرورت ہے ،جو پوری ذمہ داری سے ایک ایک ماخذ کا سراغ لگائے اور سلیقہ مندی سے انہیں ترتیب دے۔ سید فخرالدین بلے ایک ایسی شخصیت ہیں ،جوادبی دنیا میں جانی پہچانی ہی نہیں جاتی بلکہ علمی، ادبی،ثقافتی اور صحافتی حلقوں میں معروف اور مقبول بھی ہیں ۔ انہیں اپنی زندگی ہی میں بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے پہچان لیاتھا اور یہ جان لیاتھاکہ ان کے اندر معرفت اور علم کاایک جہان آبادہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ان کے عہدجوانی ہی میں یہ کہہ دیاتھا کہ بلے صاحب کی نظم ہو یا نثر اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔آل احمد سرور نے انہیں بلند پایہ کلام کاخالق قراردیا۔ سید فخرالدین بلے ایک سو پچاس سے زیادہ مطبوعات تالیف کرچکے ہیں اوریہ سب ایسی کتابیں ،بروشرز، سووینئیرز،اور کتابچے طرح طرح کے موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں ۔وہ لاہور،اسلام آباد ،کراچی،سرگودھا،بہاولپور، ملتان، اور علی گڑھ سمیت مختلف شہروں میں کئی رسائل اور جرائد کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں اور چند رسالے خود بھی نکال چکے ہیں ، وسیع پیمانے پر مختلف نوعیت کے جرائد کی ادارت ان کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کی غمازی کرتی ہے۔
دنیائے ادب میں یہ امر مسلمہ ہے کہ وہ لوگ جو صحافت میں سرگرم ہوتےہیں، ان کے مشاہدات و تجربات کا کینوس بھی بڑا وسیع اور وقیع ہوتاہے۔ اس تناظر میں آپ سید فخرالدین بلے کے صحافتی ،تصنیفی اور تالیفی کام کو دیکھیں تو علمی و ادبی رنگا رنگی ان کی تالیفات کی جان اور پہچان نظرآتی ہے۔ یہ تنوع ایسا ہے، جس نے ان کی شاعری اور نثرپاروں کی دلکشی بڑھا دی ہے ۔ وہ مذہبی میدان میں بھی لکھتےرہےہیں،۔”ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ و تعالیٰ وجہہ الکریم” اور ” فنون لطیفہ اور اسلام” ان کی دوایسی تحقیقی کتابیں ہیں، جن میں ان کاتبحر علمی بولتاہوا دکھائی دیتا ہے ۔یہی نہیں انہوں نے علمی ، ادبی ،ثفاقتی ، اورروحانی شعبوں میں جوکام کئے ،باکمال کئے اور ارباب عرفان و ادب کو حیران کردیا۔
تصوف، تاریخ اورسیاست کےموضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں۔راقمہ کا یہ تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ لوگ، جن کاتعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہوتاہے،یا رہا ہے ، ان کی ایک مضبوط علمی شخصیت بنتی ہے۔ یہ ایسا ماحول ہے ،جس جس کواس ماحول اور دھرتی نے پالا،وہ ہمہ گیر شخصیت کا مالک نکل آیا۔سرسید اور ان کے رفقا کی کوشش و شفقت سے جوروح علی گڑھ کے تعلیمی نظام میں پھونکی گئی ،وہ ابھی تک وہاں کی فضا ؤں میں موجود ہے اور محسوس بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ روح و عظمت سید فخر الدین بلے میں رچ بس گئی ہے۔ وہ اس روح کو پاکستان ہجرت کر کے ساتھ لے آتے ہیں۔ یہاں ان کا ایک ہی جگہ پر ٹھہراؤ نہیں ، وہ مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہوتےہیں ، وہ تعلقات عامہ اور صحافت سے وابستہ رہتےہیں ، انہی وجوہات کی بناء پر ان کے مختلف پہلوؤں میں گہرائی اورگیرائی پیدا ہوتی ہے۔ ہر فن کار کی تخلیقات ، اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہیں ۔ چنانچہ دیکھتے ہیں، بلے صاحب روشن دماغ اور مستقل مزاج آدمی تھے، وہ کسی تحریک سے وابستہ نہیں ہوتے، محترمہ بانو قدسیہ اور اسرار زیدی کے بقول:” وہ اپنی ذات میں انجمن ہی نہیں ، قافلہ بھی ہیں” یہی آزاد خیالی، یہی وسیع العلمی ان کی نثر ی اورنظمی تخلیقات میں نمایاں ہیں۔ اسی طرح ان کا مطالعہ مختلف میدانوں میں ہے ،جیسے علم نفسیات، علم الفلکیات، علم الاعداد ۔علم البشریات، علم المعدنیات وغیرہ وغیرہ اور ان تمام علوم و فنون کی چھاپ ان کے فن پاروں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی نظمیں اور غزلیات جدت پسندی کی مظہرہیں اور ایک الگ راستے میں ان کا شعری سفر نظرآتاہے ،جسے انہوں نے خود اپنے لیے تراشا ہے ۔اس لئے پورے اعتماد کے ساتھ آپ انہیں صاحبِ طرز شاعر قراردےسکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہےکہ انہوں نے غزل کو وطن دوستی اور جمالیات سے ہم کنار کردیاہے۔ وہ عالمی واقعات سے بھی متاثر ہوکراپنے تاثرات کا شاعری میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے عہد کے بڑےبڑے لوگوں نے بھی ان کی ادبی عظمت کوتسلیم کیا ہے ۔
“سید فخرالدین بلے ۔ایک آدرش، ایک انجمن” ایک خوبصورت کتاب ،نادر تالیف اور ایک ایسی کاوش کا نتیجہ ہے ،جس میں سید فخرالدین بلے کے بارے میں بہت سی اہم معلومات کویکجاکردیاگیا ہے۔بلے صاحب کی ذاتی شخصیت اور ان کی وسیع علمی خصوصیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اس کتاب کا عنوان ہی نہیں بلکہ اس میں شامل تمام مضامین کے عنوانات بھی بڑی مہارت اورسلیقہ مندی سے چنے گئے ہیں ۔بلاشبہ کتاب کا یہ عنوان بلے صاحب کی ہمہ گیریت کو زیب دیتا ہے۔روزنامہ جنگ میں جمیل الدین عالی نے اپنے سلسلہ وار کالم ”نقارخانے میں ”بلے صاحب پر ایک یا دو نہیں، قسط وار تین کالم لکھےاور۔”سید فخرالدین بلے ۔ایک آدرش، ایک انجمن” کےتحت انہوں نے اپنی یادداشتوں کومرتب کردیا۔اہل ادب اور مرتبین کو یہ عنوان اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اپنی کتاب کو اسی عنوان کےتحت یکجاکردیا۔ اس کتاب میں تمام مشہورزمانہ علمی اور ادبی شخصیات کےمضامین شامل ہیں ۔ اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہےکہ علامہ سید غلام شبیر بخاری نے جو نصف صدی کی رفاقت بلے صاحب سے رکھتے تھے، ا یسا جامع خاکہ قلمبند کیا ہے, جسے پڑھنے کےبعد قاری کی تشنگی نہیں رہتی ۔ ان کے آبا و اجداد سے لے کر ان کی پیدائش ، ان کے نام کی وجہ تسمیہ، تعلیم، معاشرتی اور علمی سرگرمیوں کو تفصیلی بیان کیا ہے اور سوانحی حالات کے ساتھ ساتھ ان کی دل کش شخصیت کے خدوخال کی بھی تصویر کشی کی ہے ۔ یہ سوانحی خاکہ اتنی جزئیات کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے کہ باقی تمام مضامین ان کی شخصیت اور خدمات کی شرح معلوم ہوتے ہیں ۔اس سوانحی خاکے کوپڑھ کر بلے صاحب کی مینارقامت شخصیت قارئین کی آنکھوں کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ الفاظ و مضامین ہی نے اس کتاب کی وقعت اور قیمت نہیں بڑھائی بلکہ سجاوٹ،لے آئوٹ اور کچھ اور عناصر بھی کتاب کی قدر بڑھاتے نظر آتے ہیں ۔ یہ عناصر کتاب کی علمی و معلوماتی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے یادگار اور تاریخی تصویریں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یہ مجموعہ اسی کا مصداق ہے۔
اب ذرا کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات دیکھئے۔پاک و ہندکے معروف افسانہ نگار انتظارحسین نے” یہ سید کام کرتاہے”کےعنوان کےتحت بلےصاحب کوایک متحرک شخصیت قراردیاہے۔افتخارعارف نے ”سیدفخرالدین بلے۔ایک فرد۔ ایک روایت ”کاعنوان اپنے مضمون کیلئے منتخب کرکے مختصر سی عبارت میں سید فخرالدین کا بھرپورتعارف کرادیا ہے۔ سیدآل احمد سرور نے انہیں” بلندپایہ کلام کاخالق ” ماناہے۔پرو فیسرمنظرایوبی کےمضمون کاعنوان قاری کو سوچنے پر اکساتا ہے اور اس عنوان “دیکھئے ،اس شخص میں کتنے جہاں آباد ہیں ” میں جہان ِمعانی آباد نظرآتاہے ۔ڈاکٹرخواجہ زکریا نے” سیدفخرالدین بلے۔ بڑے حلم و آبرووالے ” کےعنوان کےتحت انہیں محبت اور عقیدت کانذرانہ پیش کیاہے اورمجیدامجد کی شاعری کاسہارا لے کر انہیں بڑے احترام کےساتھ یاد کیاہے۔”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے”،یہ عنوان ہے پروفیسر قیصرنجفی کے مضمون کا۔ ”سید فخرالدین بلے،تصوف پرایک اہم اتھارٹی ”کا عنوان دےکر ڈاکٹروزیرآغانے دریاکوکوزے میں بندکردیا ہے۔یہ عنوان ہی بتارہاہےکہ ان کی نظر میں تصوف کےحوالے سےسیدفخرالدین بلےکا مرتبہ اورمقام کیا ہے؟۔ڈاکٹرانورسدیدکےمضمون کاعنوان ہی سیدفخرالدین بلے کو”ایک قادرالکلام شاعر ”قراردےرہاہے۔ڈاکٹرفوق کریمی علیگ نے”فخرادب۔ علی گڑھ کابلے” کا عنوان دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ سید فخرالدین بلے کی یادوں کو اپنے مخصوص انداز میں تازہ کیا ہے اور بتایاہے کہ یونیورسٹی کےتلامذہ ہی نہیں اساتذہ بھی ان کی علمیت،ذہانت اور فطانت کے معترف اور مداح تھے۔طفیل ہوشیارپوری نے” کئی دنیائوں کا ایک بڑا آدمی” کو موضوع بناکر اپنے تاثرات اور مشاہدات کو پینٹ کیاہے۔”فخرالدین بلے علی گڑھ سے ملتان تک”عنوان ہے پروفیسر جاذب قریشی کے فکرانگیز مقالے کا،ڈاکٹرعاصی کرنالی نے” فخرالدین بلے۔ ایک تہذیبی ادارہ، ایک یونیورسٹی”کوعنوان بناکرحرف ستائش بڑی محبت کے ساتھ پیش کیاہے۔اصغرندیم سید نے”سید فخرالدین بلے۔ایک تہذیب سازہستی”کےعنوان کی بنیادپران کی شخصیت اور خدمات کی تصویرکشی کی ہے۔”ایک داستان ۔ایک دبستان ”ہے پروفیسر افتخاراجمل شاہین کے مبسوط مقالے کا خوبصورت عنوان ۔ ظفرعلی راجہ نے” صوفی بلے اوران کی صوفیانہ شاعری”کےموضوع پر صرف لکھاہی نہیں ،اس موضوع سےخوب خوب انصاف بھی کیاہے ۔”قول اور رنگ ۔بلے بلے”کوموضوع بناکر سیدسعیداحمدجعفری علیگ نے سید فخرالدین بلے کی قوالی کےحوالے سے تاریخی اور تاریخ ساز خدمات کااحاطہ کرنے کی سعی ءمشکور کی ہے۔غزالی ء زماں، رازی ء دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی مرحوم نے امیرخسرو کے سات سو سال بعد سید فخرالدین بلے کےقول ترانے کوایک قابل قدرکارنامہ قراردیاہے ۔امیرخسرونے ساڑھے سات سوسال پہلے جنوبی ایشیامیں قوالی کی بنیادرکھی تھی ،ان کے بعد کسی نے قول کی تصریحی تہذیب کی جسارت نہیں کی،یہ سہرا بھی سید فخرالدین بلے کےسرہےکہ انہوں نے نیا رنگ تخلیق کیا اور نیاقول ترانہ بھی۔ اس کتاب میں ان کانیارنگ اور نیاقول ترانہ بھی شامل کرلیاگیاہے ۔سید فخرالدین بلے کی کثیرالوصف اور کثیرالجہت شخصیت درحقیقت ان گنت شخصیات کاخوبصورت گلستاں نظرآتی ہے۔کمال احمدرضوی جیسی باکمال شخصیت نے انہیں” علم و ادب کااثاثہ ”لکھا،پروفیسرخالد پرویز نے سید فخرالدین بلے کوبجاطور پر مین آف دا اسٹیج کی حیثیت سے محبت اور عقیدت کاخراج پیش کیا ۔اس لئے کہ سید فخرالدین بلےنے پچیس روزہ جشن تمثیل کااہتمام کرکے ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل کی حیثیت سے جو ثقافتی دھماکہ کیا تھا ،اس کی گونج سرحد پار بھی سنی گئی،اوراسٹیج کےجو فن کار سامنے آئے، وہ ٹی وی اسٹار بن گئے ۔اسی لئے ان کے ساتھ ایک خوبصورت شام کااہتمام کرکے انہیں محسن فن اور مین آف دا اسٹیج کےخطابات سے نوازا گیا۔شبنم رومانی نے”سید فخرالدین بلےکےادبی نقوش ”کواپنا موضوع بھی بنایا اورانہیں اختصار کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں اجاگربھی کیاہے ۔ڈاکٹرانورسدید نے ”لاہورمیں قافلے کاسفر” لکھا ،جوسید فخرالدین بلےکی ادبی ہنگامہ آرائیوں کی بڑی دلکش داستان ہے ،اسی طرح اسرارزیدی نے ”قافلے کےپڑائو ۔ایک مستحکم روایت ”میں بلے صاحب کی ادبی اورثقافتی تنظیم قافلہ کی عالمی بیٹھکوں کی تصویرکشی کی اور بھولی بسری یادوں کو نئی زندگی بخشی ہے ۔ یہ کتاب مرتب کرکے سید فخرالدین بلےکی تخلیقی جہتوں ،ان کے فکری آفاق کی وسعتوں، ان کے کارناموں ،اورقافلےکی سرگرمیوں کااحاطہ کرنے کےلئے قابلِ تحسین قدم اٹھایاگیا ہے۔مشہور زمانہ اوریگانہءروزگار شخصیات کےفکرانگیز مقالات اوربصیرت زا تاثرات اکٹھےکرنے سےیہ کتاب سید فخرالدین بلے کےفن ،سخن ،افکار،خیالات اورخدمات کےحوالے سے اہم مرقع اور ایک کلیدی ماخذ کی حیثیت سے سامنے آئی ہے ۔انٹرنیٹ پربھی لوگ اس سے مستفیض ہوئے ہیں ۔اور اب منتظمین نے “سید فخرالدین بلے ۔ایک آدرش، ایک انجمن” کو سپردقرطاس و قلم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اسے لائبریریوں کی زینت بھی بنایا جاسکے۔
بلے صاحب اپنی نگارشات ،تخلیقات اور تالیفات ہمارے پاس چھوڑکر چلے گئے ہیں۔اب وقت کو ہاتھ سے کھونے نہیں دینا چاہیے۔ ان کی تخلیقات کو نشان تنقید بناناچاہیے اور ان کے فن پاروں کو مختلف زاویوں سے جانچنا چاہیے۔ بہترین طریقہ یہ ہےکہ یہاں جن بڑے نقادوں ، محققوں اورادیبوں نے ان کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوؤں کو سراہاہے اور ان کےلئے جو خیالات پیش کئے ہیں، ان کو مد نظر رکھ کر انہی عنوانات پر مضامین لکھے جائیں، مثا ل کے طور پر وزیر آغا نے فرمایا: “وہ تصوف پر ایک اہم اتھارٹی ہیں” اور “بلے صاحب کے چلے جانے کے بعد دبستان سرگودھا کی کمر ہی ٹوٹ گئی ہے” یہ بات قابل غور ہے اور اس پر تحقیق کی جانی چاہیے اور دلائل کے ساتھ اس بات کا ثبوت دیا جانا چاہیے۔اور اسی طرح فراق گورکھپوری نے بلےصاحب کو لفظوں کا مصور قرار دیا ہے؛ عاصی کرنالی کی یہ رائے:” بلے صاحب ملتان کو حیات نو عطا کرنا چاہتے تھے”؛ یہ بھی کہاگیا کہ بلے صاحب عصری تقاضوں اور عصری مسائل سے بخوبی واقف تھے، پھر ان کے مسودوں میں عصری حالات کی جھلکیاں اور حالات بہتر بنانے کے لیے مشورے ملتے ہوں گے۔
ہر زبان کی جڑ اور پیدائش کےبارے میں کبھی کوئی قطعی نظریہ ثابت نہیں ہوا ۔ اسی طرح حافظ محمد شیرانی، نصیرالدین ہاشمی، سلیمان ندوی، مسعودحسین خان اورمحمدحسین آزاد جیسے ماہر لسانیات کےاردو زبان کی جڑ اور اس کے تاریخی پس منظر پرخیالات، بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ، چاہے ان کا کوئی نظریہ ابھی تک ثابت شدہ نظریہ کے طورپرسمجھا نہ گیا ہو۔ چنانچہ بلےصاحب کی اردو زبان کی پیدائش کے بارے میں رائے جوانوکھا انکشاف ہے، انہی نظریات میں شامل ہونا چاہیے اور دوسرے نظریات سمیت مآخذ میں اپنی جگہ بناناچاہیے۔
بلے صاحب کو فارسی زبان پر اتنا عبور تھا کہ اس زبان میں روانی سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ فارسی صرف ان کی زبان میں نہیں ،ان کی شاعری میں بھی روانی سے جاری ہے۔ و ہ انوکھی فارسی تراکیب و الفاظ جیسے رعنائی و شوخی ءگل ِتر، دامن برگ ،زندہ داران شب، کو برتتے ہوئے اردو شاعری کو موسیقی اور بحر سے جوڑدیتے ہیں۔ ان کی شاعری پر فارسی کے اثرات کا جائزہ بھی اہم نتائج مرتب کرسکتا ہے۔
اس کتاب کے آخری صفحات میں سیدفخرالدین بلے کی نعتیں،منقبت علی ،سلام بحضور امام عالی مقام کےساتھ ساتھ بلے صاحب کی کچھ شاہکار نظمیں اور غزلیں بھی شامل کی گئی ہیں ، جواس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ انہوں نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اوراپنے عہد کے استادان ِفن و سخن سے دادو تحسین ہی نہیں سمیٹی ،بلکہ اپنی شاعرانہ عظمت کا لوہابھی منوایا ہے ۔
ضرورت اس امرکی ہےکہ بلے صاحب کی بکھری ہوئی تخلیقات پر کاوشیں جاری رہیں اور ان کو طباعت تک پہنچا دیا جائے۔بلا شبہ ان کی تحریروں سے تاریخ ، ثقافت اور ادب کے تمام گوشے لاعلمی کے اندھیروں سے نکل کر علم پر روشنی ڈالیں گےبلے صاحب کے وسیع المشربی اور ملنساری کے بارے میں اصغر ندیم سید کایہ کہنا کہ ” ان کا دسترخوان ان کی آخری سانس تک بے حد وسیع رہا”، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سید فخرالدین بلےصاحب کی علمی اور ادبی شخصیت ایک دسترخوان ہے، جس میں طرح طرح اور رنگ برنگ کلیاں کھل گئی ہیں اور ان کی مہک سے اردو ادب کو مہکایا جائے گا۔
میں بعد مرگ بھی بزم ِوفا میں زندہ ہوں
تلاش کر مری محفل ، مرا مزار نہ پوچھ
پروفیسر ڈاکٹر وفا یزدان منش
شعبۂ اردو ، یونیورسٹی آف تہران ، ایران
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...