سید فخرالدین بلے (ولادت : 6 ۔ اپریل 1930 ۔۔۔۔۔ رحلت : 28 ۔جنوری 2004)
سید فخرالدین بلے (ولادت : 6 ۔ اپریل 1930 ۔۔۔۔۔ رحلت : 28 ۔جنوری 2004) کاروانِ انسانیت ابتدائے آفرینش سے رواں دواں ہے اور جب تک یہ دنیا اپنی قبائے رنگیں میں جلوہ گر ہے ،شیرازہ ءآب و گل یونہی بنتا ،سنورتا اور پھر بگڑتا رہے گا۔ لوگ آتے اور جاتے رہیں گے ۔کن فیکون کا پیمانہ گردش میں رہے گا ۔اس لیے کہ ہست و نیست، وجود وعدم اور بقا و فنا کا مرحلہ قسامِ ازل نے ہر ذات اور ہر شے کے لیے مقدر فرما دیا ہے۔ اس سے مفرکہاں؟۔ مگر بعض ہستیاں ایسی بھی گزری ہیں ،جنہوں نے اپنے علم و عمل سے فکر و شعور کی ایسی شمعیں فروزاں کی ہیں ،جو قندیل آسمانی کی طرح اپنی روشنیءجہانتاب سے دنیا کو اپنے چلے جانے کے بعد منور کیے ہوئے ہیں ۔جنوں نے اپنے منفرد اندازِ نگارش سے اپنی انشائے لطیف سے‘ اوراپنے حیران کن شعری ذوق سے قبائے علم و ہنر کو کچھ اس طرح زیب تن کیا کہ وہ سب کچھ جوان کا حاصلِ جستجو اور مرکزِ آرزو تھا ،انتہائی چابکدستی سے قارئین کو مسحور کر گیا۔ انہوں نے علم و ادب کے اس بے کنار سمندر کو اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں کس طرح کشید کر لیا ۔یہ ایک حیران کن تجربہ ہے۔
اندیشہ ہائے دور ودراز ہوں کہ اندیشہ ہائے قریب و قریں ،جب وہ کسی بھی صاحب ِخیر و خبر اہلِ علم و ہنر کی گرفت میں آ جاتے ہیں تو امر بن جاتے ہیں۔
کسی جبیں پہ شکن آئے،کوئی برہم ہو
زبانِ خلق پہ جو کچھ ہے وہ، سُناتا جا
وہ یاسیت کے شاعر نہیں اور لگتا ہے کہ وہ انگریزی شاعری کے اس قول سے بھی متفق نہیں کہ “ہمارے شیریں ترین نغمات وہ ہیں جو غم و اندوہ کے مظہر ہیں”۔ وہ قلم کو جبر کے خلاف ایک موثر طاقت سمجھتے ہوئے اس کے دانشورانہ اور فنکارانہ استعمال پر قادر ہیں۔
ظلمتِ شب میں بھی جو صبح کے امکاں دیکھے
اس کا ایماں کوئی دیکھے، کوئی ایقاں دیکھے
وہ اپنے قاری کے لیے نئی دنیا تشکیل دیتے ہیں اور سوچنے والوں کے لیے فکر و خیال کے نئے دریچے واکرتے ہیں تاہم ان کی شاعری مقدار میں کم ہونے کے باوجود ابلاغ ِ افکار کا موثر وسیلہ ثابت ہوئی۔ ان کے کلام میں روانی کے علاوہ تجربہ بھی بولتا ہے۔ وہ عام روش سے ہٹ کر شعر کہتے ہیں۔ معاشرتی و معاشی ناہمواری ،سیاسی افراتفری اور تمام منفی اثرات سے بالاتر ہو کر تعمیری سوچ اور مثبت طرزِ فکرکے مالک ہیں۔ ان کے مطابق زندگی کے حقائق عمل کے متقاضی ہیں۔ اخلاقیات کی پاسداری ان کا شیوہ رہا ۔جس کی تبلیغ اپنے کلام میں جابجا کرتے نظر آتے ہیں۔ دینوی و اخروی مسائل سے نجات کا ذریعہ عشق ِمصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور محبتِ اہلِ بیتِ اطہار کو سمجھتے ہیں۔
اب مجھے یہاں یہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ تحریر کردہ مندرجہ بالاسطور میں جن خصوصیات و حقائق کا اظہار کیا گیا ہے ،اس کے حامل ملتان ِذیشان کی عظمتوں کے نقیب، پہلو دار شخصیت، ادیب و شاعر، صحافی، مقرر، مولف، تخلیق کار، دانشور اور صوفی صافی دل گویا کہ اپنی ذات میں انجمن ہونے کے حوالے سے ایک بے پناہ ہمہ گیر‘ انتہائی چیدہ اور چنیدہ شخصیت سید فخر الدین بلے مرحوم و مغفور ہیں۔ ان کی علمی فتوحات کے حضور خاموش خراجِ تحسین ہی پیش کیا جا سکتا ہے کہ یہاں ہم جیسوں کی لب کشائی سے بات کے سنورنے کی بجائے بگڑ جانے کا خطرہ ہے۔ ان کے عشقِ کتابی نے اس وحشت آباد ویرانے کو ایک روح پرور اور فردوسِ نظر علمی دبستان میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہی نہ تھے بلکہ ایک ادارہ بھی تھے۔ ایک متحرک کتب خانہ تھے۔ انہوں نے انجمن سازی بھی کی ۔ادارے بھی ترتیب دیئے اور ادبی پڑاﺅ کے ذریعے شعری تحریک کا سبب بھی بنے اور یہ ادبی پڑاﺅ بھی ایک ذریعہ بن گیا ،اس نئی نسل کی شعری تربیت کا۔
علی گڑھ جیسے عظیم دارالتربیت اور دارالتعلیم کے بعد انہوں نے تجربے کے مدرسے میں طبیعت کے مکتب میں ،پیرِ خرد افروز کے سامنے، فکر کے صحیفے سے بہت کچھ سیکھا۔ بہت دنیا دیکھی ۔اس سیر دنیا میں سیر الللہ بھی ہوئی ۔دل و دماغ کو روشنی بھی ملی ۔صحیح عقیدے کا تحفہ بھی نصیب میں آیا ۔اہلِ درد اور اہلِ حال صوفیا سے معرفتِ قلب ،اہلِ نظر سے معرفتِ نظر اور اہلِ عشق سے گداز عشق میسر آیا۔ پھر سید فخر الدین بلے کی شخصیت کی تکمیل ہوئی۔ کون جانے کس گدڑی میں کونسا لعل ہے ؟کس کان میں کونسا گوہر ِنایاب ہے ؟کس عقل کو کتنی
فراست عطا کی گئی ہے اور کس دل کو شورِ رومی اور سوز ِخسرو سے نوازا گیا ہے۔ جب انسان کو تصوف کی موشگافیوں کی توفیقِ ارزانی ہوتی ہے تو جب ہی ُگل سرسبد کی خوشبو سے ایک عالم مستفیض ہوتا ہے۔
سید فخر الدین بلے کو بحرِ معرفت سے “رنگ ” اور “قول” کا گوہر ِ آبدار عطا ہوا۔ انہوں نے حضرت امیر خسرو رحمة اللہ علیہ کی تخلیق قوالی کے آخر میں جو رنگ گایا جاتا ہے ،اس کی تجدید اور اس میں اضافہ کا کارنامہ سرانجام دیا ۔بقول معروف دانشور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری‘ فخر الدین بلے صاحب نے سات صدیوں کے بعد نیا رنگ دے کر تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اور بقول غزائی زماں رازی ءدوراں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اللہ علیہ”قول کی جو نئی تصریحی تہذیب سید فخر الدین بلے نے فرمائی ہے ،وہ ان کی علمی قابلیت، روحانی ذوق بالخصوص بارگاہ ِسیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے کمال محبت کی آئینہ دار ہے۔ قول کی تصریحی اور صوتی تہذیب کا جو کام حضرت نظام الدین اولیاءنے حضرت امیر خسرو کے سپرد فرمایا تھا،بلے صاحب کی یہ نئی تصریحی تہذیب اسی کا تکملہ نظر آتی ہے”۔ ان کایہ کارنامہ بلاشبہ قابل ِداد اور موجب ِ ستائش ہے۔ پیر حسام الدین راشدی ،این میری شمل اور ڈاکٹر وزیر آغا جیسے اپنے دور کے محققین حضرات نے بھی بلے صاحب کے تصوف کے حوالے سے انوکھے انداز میں اس تحقیقی کام پر انہیں تصوف پر اہم اتھارٹی قرار دیا ہے۔ رنگ کا نمونہ دیکھئے۔
سات زمینیں ،سات فلک، ہیں سات دھنک کے رنگ
سات سُروں کی سنگیتا ہے، سرگم ہفت آہنگ
سا۔رے۔ گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ نی۔ دھا۔ پا۔ ما۔گا۔ نی۔ سا۔رنگ
لکھ چوبیس ہزار سجیلے لے کر آئے رنگ
رنگینی پر مہاراج کو رب نے دی فرہنگ
اک دروازہ سات جھروکے، مولا ہفت اورنگ
ایک علامت مرکز کی چھ سمتوں کے سرہنگ
سات سو سال سے قوالی کی محفلوں میں حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ کا مقبول عام “قول ترانہ” اور رنگ گایا جا رہا ہے۔ قوالی کا لفظ قول ِ امام الانبیاءمحبوبِ رب العالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول سے مشتق ہے۔”من کنت مولیٰ فعلی مولا” سید فخر الدین بلے نے اس قول کی جو تصریح کی ہے، اس کا نمونہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
اللہ تو واللہ ” ھو اللہ احد ” ہے
وہ قادرِ مطلق ہے، وہ خالق ہے، صمد ہے
احمد میں اِدھر ”میم “ اُدھر ”منی ومنہ “
اک پردہ ءاِدراک ہے، اِک عقل کی حد ہے
انہوں نے قول کی تصریح بھی کی ہے۔ تہذیب بھی کی ہے اور تضمین بھی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سید نصیر الدین نصیر آف گولڑ ہ شریف رحمتہ اللہ علیہ نے کتنی اچھوتی داد دی ہے۔ بیشک اہلِ علم و دانش کے فرمودات بھی عام گفتگو نہیں ہوتے ۔پیر سید نصیر الدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا”حضرت امیر خسرو کے بعد قول ترانے کی تخلیق کا اعزاز دوسری بار ملتان کا مقدر بنا ہے کہ حضرت امیر خسرو نے بھی یہ کارنامہ ملتان ہی میں انجام دیا تھا”۔ 1976 میں وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا کوثر نیازی اسلام آباد کی ایک محفل میں سید فخر الدین بلے کا یہ قول اور رنگ سن کر ششدر رہ گئے اور کہا کہ بلے صاحب کی شخصیت کا یہ رخ میرے سامنے آج آیا ہے۔ ذرا نمونہ بھی دیکھتے چلیں کہ سید فخر الدین بلے نے کس سلیقے اور کس کاوش ِروحانی کے ذریعے قول کی تصریح کی ہے۔
معراجِ ِ نبی برحق، معراجِ ِ علی برحق
ہے کعبہءمولا میں بردوشِ نبی مولا
من کنت مولا ہ ،فعلی مولا+ من کنت مولا ہ،فھٰذا علی مولا
اقرار کُنم بلے من بندہ ءمولائی
اللہ و نبی مولا ،و اللہ علی مولا
من کنت مولا ہ فعلی مولا
من کنت مولاہ فھٰذا علی مولا
اس قول پر جو داد حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ نے بے ساختگی کے ساتھ دی تھی ،وہ قابل توجہ ہے۔
”سبحان اللہ سبحان اللہ۔ بلے بلے۔ بلاشبہ بلے صاحب کا یہ قول قابلِ تحسین و آفرین بھی ہے اور موجبِ صد ستائش تاریخی کارنامہ بھی “۔
بلاشبہ سید فخر الدین بلے نے جو حضرت خواجہ غریب نواز ،خواجہ بزرگ اجمیری ،خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں۔ انہوں نے خانوادہء چشتیہ کی روایات میں بہت خوب اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے صوفیانہ شاعری پر توجہ دی تو اس کمال تک پہنچے۔
دیکھن میں تو ہر ڈھولے کا الگ الگ ہے انگ۔
رنگ الگ، آہنگ الگ اور الگ الگ ہیں ڈھنگ۔
آﺅ سکھیو مل کر کھیلیں رنگ سجن کے سنگ۔
اس کلام کی موسیقیت عقل و خرد کو کیسے باطنی سرور سے سرشار کرتی ہے۔ ایک روحانی کیف ہے، جو سرتال سے نشاطِ قلب و نظر بن جاتا ہے۔ریڈیوپاکستان ملتان نے بلے صاحب کے اس نئے قول ترانے اورسات صدیوں بعد تخلیق کئے گئے رنگ کی کئی دُھنیں بنانے کااعزاز حاصل کیا۔اسٹیشن ڈائریکٹر حمید اصغر نے اس کام میں ذاتی دلچسپی لی۔محمودغازی کی نگرانی میں یہ کام ہوا اور ہوا کے دوش پر اس کلام کی صدائیں دور دور تک پہنچیں۔
برصغیر پاک و ہند میں قوالی کے بانی حضرت امیر خسرو ہیں ۔انہی کا قول ترانہ اور رنگ قوالی کی محفلوں میں پڑھاجاتاہے۔امیر خسرو کے بعد قول کی تصریحی تہذیب کسی شاعر نے نہیںکی ۔یہ اعزاز سید فخرالدین بلے کے حصے میں آیا۔
میں قوالی کے تاریخی پس منظر میں ” امیر خسرو سے سید فخرالدین بلے تک ” ایک تحقیقی کتاب لکھ رہاہوں ۔کچھ کام باقی ہے،دعافرمائیں کہ میں اپنے اس خواب کی تعبیر جلد اپنی آنکھوں سے دیکھوں ۔
شاعری کا کمال اگرچہ فکرِ عمیق اور معانیءدقیق میں ہے مگر اندازِ بیاں کی جدتِ اظہار اور ندرت ِاحساس نہ ہو تو ایسی شاعری مقبول و معتبر نہیں ہو سکتی۔ شاعر کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کی سوچ اور پسندو ناپسند سے آگہی رکھتا ہو کیونکہ یہ امر تخلیقی عمل کے لیے ناگزیر ہے۔ جناب طفیل ہوشیار پوری نے لکھا ہے کہ سید فخر الدین بلے کی زندگی کی بھرپور تصویر اس شعر میں مصور ہو گئی ہے۔
تلاشِ رزق ہو یا جستجوئے معرفت بلے
ہماری زندگی شعرو ادب یوں بھی ہے اور یوں بھی
ان کی ایک نظم “بازیافت” میں دیکھئے جس میں وہ اپنی تمناﺅں کا کس چونکا دینے والے انداز میں اظہار کر رہے ہیں۔
حرا سے نسبت یہ چاہتی ہے
کہ بابِ حکمت پہ بیٹھ جاﺅں
اُدھر سے کوئی پیام آئے
+ پیام روح الامین لائے
اور اس کے ذریعے ۔۔۔۔
میں اپنے اشکوں کے جام بھیجوں
سلام بھیجوں ۔۔۔۔
اور اس سے پہلے کہ خوں چکیدہ سحر کو دیکھوں
حجاب اُٹھے ۔۔۔۔
میں خود کو دیکھوں ۔۔۔۔ میں خود کو جانوں
میں خود کو پرکھوں ۔۔۔۔
میں خود کو سوچوں ۔۔۔۔
میں خود کو لکھوں
میں خود کو ڈھونڈوں ۔۔۔
میں خود کو پاﺅں
{یہ تھا سید فخرالدین بلے کی ایک نظم بازیافت سے ماخوذ ایک اقتباس}
سید فخرالدین بلے اس مٹی کا قرض چکانے کے لیے بھی کتنے فکر مند رہے ہیں
جیتے جی ہے اس مٹی کا قرض چکانا مشکل
بڑھ جائے گا قبر میں جا کر اس مٹی کا قرض
ایک اور غزل کے دو شعر دیکھئے، جومیرے ان دعووں کی تائید میں ہیں۔ جو میں نے بلے صاحب کے کلام سے متعلق کیے ہیں
ازل سے عالمِ موجود تک سفر کر کے
خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
خدا گواہ کہ میں نے خود آگہی کے لیے
سمجھ کے خود کو حرم عمر بھر طواف کیا
یہ شاعری کی نئی جہتیں ہیں۔ نئے مفاہیم ہیں جو ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتے۔
سید فخر الدین بلے نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا عرصہ ملتان میں بسر کیا اور اپنے کلام کے ذریعے ملتان کی رہائش کا حق بھی ادا کیا۔ ان کی نظم”ملتان ِ ما” میں الفاظ کا چناﺅ، تراکیب کااستعمال اور شاعری کا کمال ملاحظہ فرمائیے۔ چند اشعار
تاریخ سے پہلے کے زمانوں میں بھی ملتاں
تھا زندہ و رخشندہ و تہذیب بداماں
دنیا کے ہنر مند و سلاطینِ زمانہ
صدیوں رہے اس شہر کے منتِ کشِ احساں
جو اس کی قدامت پہ جھگڑتے ہیں ،وہ سن لیں
رگ وید ہے اس شہر کی تہذیب پہ نازاں
اور اس کی جلالت کا یہ عالم تھا کہ لاہور
تھا عہد میں ہجویری کے اک قریہءملتاں
ولیوں کا مدینہ اسے کہتے ہیں کہ یہ شہر
ہے جلوہ گہہِ منزلتِ خاکِ نشیناں
سید فخر الدین بلے نے جدید شاعری کی صنف “ہائیکو” میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ فرماتے ہیں۔
اُس نے پوچھا علوم کتنے ہیں
میں نے بھی اس سے یہ سوال کیا
آسماں پر نجوم کتنے ہیں
دیکھا آپ نے کتنا منفرد انداز ہے۔ بات کہنے کا کیا انوکھا سلیقہ ہے۔ سید فخرالدین بلے کا۔ ایک قطعہ ہے۔
اپنے احساس کو معکوس نہ ہونے دوں گا
فکر کو شعر میں ملبوس نہ ہونے دوں گا
مجھ پہ جو کچھ بھی گزرتی ہے مِری جانِ وفا
انتقاماً تجھے محسوس نہ ہونے دونگا
اس قسم کی قادرالکلامی کے مظاہر ان کے کلام بلاغت نظام میں اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے مندرجہ ذیل شعر نے تو جوش ملیح آبادی جیسے عظیم شاعر کو بھی چونکا دیا تھا اور جوش صاحب نے فرمائش کر کے یہ شعر بار بار سنا۔
اپنی کتابِ زیست پہ تنقید کے لیے
آخر میں چند سادہ ورق چھوڑ جاﺅنگا
جناب سید فخرالدین بلے کی اس سے بڑی انفرادیت اور کیا ہوگی کہ انہوں نے علی گڑھ کی تربیت گاہ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے مولانا حسرت موہانی رحمتہ اللہ علیہ جیسے عظیم غزل گو اور جوش جیسے جسیم نظم گو کے ساتھ اور دیگر مشاہیر شعراء کے ساتھ مشاعرے پڑھنے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ انگریزی ، اردو ، فارسی اور ہندی پر یکساں عبوررکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری میں جدت پیدا کی اور جدیدیت کو رواج دیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق ۔ فراق گور کھپوری ۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد ۔ رشید احمد صدیقی۔ حضرت جگر مراد آبادی۔ علامہ خیر بھوروی ۔ جوش ملیح آبادی ۔ آل احمد سرور، محمد علی صدیقی ، کمال احمد رضوی ، جمیل الدین عالی ، افتخار احمد، انتظار حسین اور مصطفی زیدی دنیائے علم و ادب کے بڑے نام ہیں ۔ یہ وہ چیدہ اور چنیدہ شخصیات ہیں ، جنہوں نے سید فخرالدین بلے کے کام ، ان کے کلام اور ان کی نثری تخلیقات پر اپنی اپنی پسندیدگی کے ساتھ حیرت کا بھی اظہار کیا ہے ۔اس امر پر کہ اپنی دفتری اور نجی مصروفیات یعنی محکمہ تعلقات عامہ و اطلاعات کی رات دن کی سرگرمیوں کے باوجودعلمی ، ادبی اورتحقیقی کاموں کے لیے واقعی وہ پچیسواں گھنٹہ نکال ہی لیتے تھے۔ ملتان میں پچیس روزہ جشن تمثیل جیسا انفرادی کارنامہ سید فخرالدین بلے ہی کر سکتے تھے ۔جس پر آج تک اہلِ فن حیرت زدہ ہیں ۔وہ ایک کثیر الجہت شخصیت اور علم و ادب کی آبرو کئی حوالوں سے تھے۔ صحافت و ثقافت کے فروغ اور فنون ِ لطیفہ کی آبیاری کے حوالے سے ان کی زندگی کا ہر پہلو بہت دلچسپ، وقیع، سرفراز اور سربلند رہا ہے۔
اس خود غرضی اور بدنیتی کے دور میں جو متعصبانہ رویئے ہیں اور جو منافقانہ تعلق کارنگ ہے ۔اس پر ان کا تبصرہ ایک چھوٹی بحر کے شعر میں دیکھئے ۔کیا کمال کیا ہے۔
ہم نے اے دوست خود کشی کے لیے
آستینوں میں سانپ پالے ہیں
اور جب بلے صاحب کے قلبِ رقیق کو عشق ِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تپش نے جلا بخشی تو اس بحرِ ناپیدا کنار کی موجوں کی نذر ہو کر رہ گئے اور پتا نہیں کس عالم ِ تحیر میں کیا انوکھی لغت کہہ گئے ہیں اور کس توجیہہ کے ساتھ۔
ہے خوفِ خدا! اُن کو خدا کہہ نہیں سکتے
کچھ اور مگر اس کے سوا کہہ نہیں سکتے
اِلاّ کو اگر لا سے جدا کہہ نہیں سکتے
حق بات بہ انداز ِ ثنا کہہ نہیں سکتے
الفاظ جھجکتے ہیں، لرزتے ہیں معانی
کچھ اور بجز صَلِّ علیٰ کہہ نہیں سکتے
سید فخر الدین بلے بہت خوش لباس ،خوش گفتار اور محبتوں کے سفیر تھے۔ اپنی بے پناہ شفقتوں سے ایک عالم کو اسیر کر گئے ۔ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہو کر انسانیت کے درد کا درس دے گئے ہم جیسے لوگ ان کے بچوں کی طرح تھے۔ اب ان کے دست ِشفقت کے لمس سے محرومی اکثردکھی کر دیتی ہے ۔ان کی یادگار مودت ومحبت ۔۔۔۔ اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔ جو شخص علم و ادب،شعور و معرفت، صحافت و ثقافت، شعر و ادب کو اتنا کچھ دے گیا مگر اپنے لیے ایک مکان بھی مہیا نہ کر سکا۔ عمر خیام نے کہا تھا۔
آناں کہ محیط فضل و آداب شدند
در جمع کمال شمع اصحاب شدند
رہ زیں شب تاریک نبردند بہ روز
گفتند فسانہ ای و در خواب شدند
یعنی وہ لوگ جو تمام علوم سے آشنا ہوئے اور حقیقت میں علم و فضل کی منازل کو طے کیا اور عام لوگوں کے درمیان شمع کی مانند رہے، انہیں روشنی مہیا کرتے رہے اور انہیں درس ِ محبت دیتے رہے۔ پھر بھی اس دنیا سے اپنی تمام تاریک شب کے لیے دن کی روشنی حاصل نہ کر
سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمر خیام کی یہ رباعی محترم و مکرم بلے صاحب پر پوری طرح صادق آتی ہے۔
اس مضمون کا اختتام بلے صاحب ہی کے ایک لافانی شعر پر کرتا ہوں۔
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
سید فخرالدین بلے کا نیا رنگ
تحریر:محمد انور معین زبیری
(یہ مضمون محمد انور معین زبیری کی کتاب “قوالی ۔ امیرخسرو سے سید فخرالدین بلے تک” سے ماخوذ ہے)