ایران میں انقلاب سے قبل پہلوی خاندان کے چشم وچراغ رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی ۔بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی تیسری بیوی ملکہ فرح دیبا پہلوی جو سلطنت کی طرح بادشاہ کے حواسوں پر مکمل طورپر چھائی ہوئی تھی ایک بار بادشاہ کے ہمراہ دربار میں موجود تھی۔ملکہ نے جب ہاتھ پر بندھی گھڑی پر وقت دیکھا تو اس کو احساس ہوا کہ اس کی گھڑی مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پیچھے چل رہی ہے۔ملکہ نے دربار میں موجود ایک وزیر کو گھڑی دی کہ وہ وقت کو ٹھیک کردے تو بادشاہ کی محبت کا قلزم جوش میں آیا اور اسی وقت ایک فرمان شاہی جاری ہوا کہ سلطنت میں موجود تمام گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کردی جائیں اور ان کا وقت ملکہ کی گھڑی کے ساتھ ملا دیا جائے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا وقت پیچھے ہوگیا۔
مگر افسوس جب انقلاب آیا تو بادشاہ کا شاہی فرمان اس برے وقت کو پیچھے نہیں کرسکا اور شاہی تخت انقلاب کی نذر ہوگیا اوربادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ 16 جنوری 1979 کو بیرون ملک جانے کے لیے خصوصی طیارے پر سوار ہونے لگا تو زاروقطار رو رہا تھا۔پھر وقت نے دیکھا کہ ایک بادشاہ کس طرح دنیا بھر میں پناہ کے لیے دربدر خوار ہوتا رہا۔اور بالآخر اس کا یہ سفر جولائی 1980 کو قائرہ کے ایک ہسپتال میں موت پر اختتام پذیر ہوا۔
ایران میں انقلاب کے بعد یہاں کا تمام ترسیاسی نظام بدل گیا۔انقلاب سے قبل ایران 12 صوبوں میں تقسیم تھا ۔جن کو 1950 میں 10 ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔1960 سے 1981تک ریاستوں کومزید تقسیم کیا گیا اور نئے صوبے بنائے گئے جس سے صوبوں کی تعداد بڑھتی گئی اور 2004 میں خراسان کی تقسیم کے بعد ایران میں کل 31 صوبے ہوگئے ۔اس وقت ایران میں صوبے جن کو استان کہاجاتا ہے کی تعداد 31،کاونٹیاں جن کو شہرستان کہتے ہیں 324،اضلاع جن کو بخش کہتے ہیں 865،قصبات جن کو شہر کہتے ہیں 982اور دیہی ہم بستگی جن کو دہستان کہتے ہیں کی تعداد 2378 ہے
انقلاب کے بعد ایران میں ایک ایسا سیاسی نظام رائج کیا گیا ہے جو بنیادی طورپر ایک پیچیدہ سیاسی نظام سمجھا جاتا ہے۔اس نظام میں دینی طرز حکومت اور جمہوریت کو ایک ساتھ شامل کیا گیا ہے۔دنیا بھر میں یہ اپنی نوعیت کا شائد واحد سیاسی نظام ہے جس میں ایرانی ووٹرز صدر اور پارلیمان کا انتخاب کرتے ہیں۔یہ پارلیمنٹ یا مجلس کے اراکین کی تعداد 290 ہوتی ہے اور ان کی مدت بھی چار سال ہوتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ غیر منتخب اداروں کا ایک پورا نیٹ ورک موجود ہے جس کی سربراہی رہبراعلیٰ کرتے ہیں۔ایرانی سیاسی نظام میں رہبر اعلیٰ یا سپریم لیڈر کا عہدہ سب سے طاقتور عہدہ ہے۔سپریم لیڈر دفاعی فورسز کا کمانڈر انچیف ہونے کے ساتھ ملکی سکیورٹی کے معاملات، عدلیہ کے سربراہوں کا انتخاب اور زرائع ابلاغ کے اداروں کے سربراہان کی تقرریاں بھی کرتا ہے ۔
ایران کے آئین کے مطابق رہبر کے بعد دوسرا بڑا عہدہ صدرکا ہوتا ہے۔صدر کا عہدہ ایگزیٹو سربراہ ہوتا ہے۔ملک میں آئین کی عملداری ، مقامی پالیسی اور خارجی امور پر صدر فیصلہ حتمی ہوتا ہے جبکہ ریاستی معاملات پر رہبر یا سپریم لیڈر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے ۔ایرانی صدر کا انتخاب چارسال کی مدت کے لیے ہوتا ہےاور ایک امیدوار دوبار صدر بن سکتا ہے تاہم تیسری مدت کے لیئے وہ اہل نہیں ہوتا۔صدر کے امیدوار بننے کے لیے قوانین بہت سخت ہیں اور صدارتی امیدوار بننے کے لیے لازمی ہے کہ امیدوارکو نگہبان شوریٰ کی منظوری مل سکے۔نگہبان شوریٰ عالم دین اور قانونی ماہرین پر مشتمل ایک ادارہ ہے جس کے ممبران کی تعداد 12 ہوتی ہے۔صدارتی امیدوار بننے کا مرحلہ اتنا سخت ہے کہ اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حالیہ ایرانی صدارتی انتخابات کے لیے کم وبیش 590 افراد نے کاغذات جمع کرائے جس میں سے صرف سات امیدواروں کو صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ۔اس میں سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے کاغذات بھی مسترد کردئیے گئے۔
حالیہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے سات امیدواروں میں محسن رضائی ، سعید جلیلی، محسن مہرالی زادہ ،عبدالناصر بیماتی،امیر حسین قاضی زادے ہاشمی ، علی رضا زکانی کے علاوہ ابراہیم رئیسی شامل تھے ۔18 جون کو ہونے والے انتخابات میں سید ابراہیم رئیسی ایران کے نئے صدر منتخب ہوگئے ۔سید ابراہیم رئیسی کے جیتنے کی پیش گوئیاں کی جارہی تھیں ۔1960 میں پیدا ہونےوالےابراہیم رئیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔اس کے علاوہ ایرانی سپریم لیڈر کو منتخب کرنے والی مجلس خبرگان کے نائب رئیس بھی ہیں۔ان کی اہلیہ محترمہ جمیلہ علم الھدی پی ایچ ڈی اور ایرانی صف اول کی اسکالر ہیں۔20 سال کی عمر میں 1979 میں ڈسٹرکٹ اٹارنی تعینات ہوئے اور 27 سال کی عمر میں کئی صوبوں کے عدالتی نگران بنے۔2015 میں متولی حرم امام رضا مقرر ہوئے
ابراہیم رئیسی 2019 میں ایران کے چیف جسٹس تعینات ہوئے۔ابراہیم رئیسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سخت گیر نظریات کے حامی ہیں ۔سید ابراہیم رئیسی کے متعلق قیاس کیا جارہا ہے کہ وہ ممکنہ طورپر ایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کے متوقع جانشین بھی ہوسکتے ہیں۔ایرانی معاشرے میں ان کے اثر ورسوخ اور شہرت و عزت کے معاملے میں کوئی صدارتی امیدوار سید ابراہیم رئیسی کے ہم پلہ نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ ان کے جیتنے کے واضح امکانات موجود تھے ۔ابراہیم رئیسی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ملک کی معاشی مشکلات کے سبب پیدا ہونے والی مایوسی اور ناامیدی کو ختم کرنے کے وعدے کے ساتھ کیا تھا ۔اب سید ابراہیم رئیسی ایران کے نومنتخب صدر بن چکے ہیں امید ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایرانی قوم کو مایوسی اور ناامیدی کی دلدل سے نکالنے کے لیے اقدامات کریں گے۔