چلئے مان لیا! آصف علی زرداری منصب صدارت سے ہٹ گئے لیکن صرف اتنا بتا دیجئے، آپ سید برادران کا کیا کرینگے؟
اکیس برس پہلے فوجی آمر کا تختِ رواں ہوا میں تحلیل ہوا اور بے نظیر بھٹو سربر آرائے حکومت ہوئیں تو بتایا گیا کہ وہ خرابی کی جڑ ہیں۔ یہ جڑ کاٹ دی گئی لیکن سید برادران وہیں کے وہیں رہے۔ پھر نواز شریف آئے، انہیں بھی ہٹا دیا گیا۔ سید برادران قائم و دائم رہے پھر دوبارہ بے نظیر آئیں ایک بار پھر نواز شریف آئے، دونوں ہٹا دئیے گئے۔ سید برادران وہیں کے وہیں رہے، پھر پرویز مشرف نے شب خون مارا اور آٹھ سال سروں پر منڈلاتا رہا، ہمیں یقین دلایا گیا کہ وہی ساری مصیبتوں کا سبب ہے۔ اسے ہٹانے کیلئے کوشش کرنیوالوں نے کوشش کی، ایڑی چوٹی کا زور لگا، وہ ہٹ گیا تو معلوم ہوا کہ سید برادران کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ اب آصف زرداری کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں، مجھے آصف علی زرداری سے کوئی عقیدت ہے نہ ہمدردی! جس صدرِ مملکت کے شب و روز پراسراریت میں لپٹے ہوئے ہوں، اور جو بڑے بڑے سے بڑے حادثے پر کبھی نظر نہ آیا ہو اور جسکے آگے پیچھے ایسے لوگ ہوں، جیسے اب اسکے آگے پیچھے ہیں، اس صدرِ مملکت ک ساتھ کوئی اندھا ہی عقیدت رکھ سکتا ہے اور کوئی پاگل ہی ہمدردی رکھے گا، لیکن آصف علی زرداری ایوانِ صدر سے رخصت ہو بھی گئے تو مجھے خدا کیلئے کوئی سمجھائے، کوئی بتائے کہ سید برادران سے چھٹکارا کیسے ملے گا؟
سید برادران دو بھائی تھے ایک کا نام عبداللہ خان تھا اور دوسرے کا حسین علی تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات 1707 میں ہوئی۔ اورنگ زیب اپنے عہد حکومت کے آخری پچیس سال دکن سے نکل ہی نہ سکا اور اسکے زمانے میں جو عروج کہلا رہا تھا، دراصل زوال کا آغاز تھا۔ وہ مرہٹوں میں ایسا الجھا کہ باقی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے میں اسکی موت کے بعد دیر ہی نہ لگی۔ اس افراتفری، نفسا نفسی،
اس غدر اور اس
Cut Throat
میں سید برادران، بادشاہگر بن گئے۔ ان کا باپ سید میاں بیجاپور کا صوبیدار (گورنر) تھا۔ 1720ء تک سید برادران کی مرضی کے بغیر بے نظیر تخت آراء ہو سکتی تھی نہ نواز شریف اور نہ آصف علی زرداری!
اورنگ زیب عالمگیر کا بیٹا معظم، بہادر شاہ کے لقب سے تخت پر بیٹھا اصل اقتدار سید برادران کے ہاتھ میں تھا۔ بہادر شاہ مرا تو اس کے چار بیٹے پھر آپس میں لڑے۔ تین قتل ہوئے اور چوتھا جہاندار شاہ بادشاہ بنا، سید برادران وہیں کے وہیں رہے پھر اس کا بھتیجا فرخ سیر تخت پر بیٹھا۔ طاقت کا مرکز سید برادران ہی رہے ان میں سے ایک بھائی وزیر اعظم بن گیا اور دوسرا کمانڈر ان چیف یہ اس قدر طاقت ور تھے کہ دہلی کو اپنی مٹھی میں رکھنے کیلئے مرہٹوں کیساتھ مل گئے اور 1719 میں ان کیساتھ باقاعدہ معاہدہ کر لیا۔ بادشاہ فرخ سیر نے ان کا ہر مطالبہ پورا کیا لیکن اسکے باوجود انہوں نے اسکی آنکھیں نکال لیں اور اذیتیں دے دے کر مارا۔ پھر اب انہوں نے رفیع الدرجات کو بادشاہ بنایا۔ لیکن اقتدار کا ایک ایک سرچشمہ، ایک ایک قلم دان سید برادران کے پاس ہی رہا۔ بادشاہ آتے رہے، جاتے رہے…؎
کسی سے شام ڈھلے چھِن گیا تھا پایۂ تخت
کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا
لیکن اقتدار سید برادران ہی کا رہا وزیروں کی تعیناتیاں انکی مرضی سے ہوتی تھیں۔ گورنر وہ لگاتے تھے فوجی افسروں کی ترقیاں انکے ہاتھ میں تھیں۔ بیورو کریسی کی اکھاڑ پچھاڑ اُنکے اشارہ ابرو سے ہوتی تھی۔!تو آپ آگے بڑھئے، دیر نہ لگائیے، آصف زرداری کو ہٹا دیجئے، نواز شریف کو لے آئیے، پھر اُسے ہٹا دیجئے، پھر کسی اور کو ایوان صدر میں کسی اور کو وزیراعظم کے محل میں داخل کردیجئے پھر اُسے بھی نکال دیجئے، لیکن ایک بات کا یقین کرلیجئے کہ اصل اقتدار سید برادران کے ناپاک ہاتھوں ہی میں رہے گا! چینی کے کارخانے انہی کے قبضے میں رہیں گے۔ آٹے پر انہی کا کنٹرول رہے گا۔ ملازمتیں یہی بانٹیں گے۔ فیکٹریاں اور ملیں اِ ن ہی کی ہوں گی، جاگیریں اِنکے پاس ہی رہیں گی۔ سنگ مرمر کی کانوں کے مالک یہی رہیں گے اور سرداریاں انہی کے سامنے دست بستہ کھڑی رہیں گی۔!
آپ خود سوچئے، آصف علی زرداری کے آنے جانے سے اور نواز شریف کے تیسری چوتھی یا گیارہوں بارہویں بار وزیراعظم بننے سے کیا فرق پڑیگا؟ کیا امین فہیم کی صاحبزادی کو…جو بغیر کسی امتحان کے بیرون ملک تعینات کی گئی ہے نکال کر کسی اور کو میرٹ پر رکھ لیا جائیگا؟ کیا چینی اور آٹے کے کارخانے کے مالکوں کو بھڑکتے تنوروں میں ڈال دیا جائیگا جس طرح سعودی بادشاہ عبدالعزیز نے روٹی کا وزن کم کرنے والے کو اپنے سامنے تنور میں ڈال دیا تھا اور پھر آج تک روٹی کا وزن کم ہوا نہ قیمت بڑھی! کیا زرداری اور نوازشریف کے جانے یا آنے سے اکبر بگتی کا بیٹا ملک کے طول وعرض میں یہ کہنا چھوڑ دیگا کہ سرداری نظام کے سوا کوئی اور نظام قابلِ قبول نہیں، اور یہ کہ جُھوٹے کو پکڑنے کیلئے اُسے دہکتے انگاروں پر چلانا ایک جائز فعل ہے۔ کیا میر علی بگتی کی نجی جیل ختم کردی جائیگی اور کیا ڈیرہ بگتی کے غریب سرکاری ملازموں کو تنخواہ عالی بگتی کی تجوریوں سے ملے گی۔
کیا زرداری کے جانے سے اور کسی کے آنے سے وعظ کرنیوالے اور مضامین لکھنے والے ریٹائرڈ جرنیلوں کے اثاثوں کا حساب ہو سکے گا اور کیا مرحوم جرنیلوں کی اولاد کے کھرب پتی ہونے کے راز سے پردہ اُٹھ سکے گا؟ کیا عورتوں کو جلانے اور گولیاں مارنے والے وزارتوں سے ہٹ جائیں گے؟ کیا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور وزارت میں میرٹ کے بغیر لاکھوں کی تنخواہوں پر نوکریاں لینے والے برطرف کر دئیے جائیں گے؟ کیا مونس الٰہی اور حمزہ شہباز شریف کی تخت نشینیاں رُک جائیں گی؟ کیا وسیم سجاد اور شریف الدین پیرزادہ جیسے چمکتے ستاروں سے قوم کی گلوخلاصی ہو جائیگی؟ کیا اپنے آپکو خدا سمجھنے اور ہرقانون سے بالاتر گرداننے والے ’’عوامی‘‘ نمائندے قانون کے آگے سرجھکالیں گے؟ کیا ملازمتیں سفارش کے بغیر ملنا شروع ہوجائینگی؟ کیا سرکاری مکان حق داروں سے چھین کر سفارش کے زور پر اپنے پسندیدہ لوگوں کو دلوانے والے (جن کے نام ہاؤسنگ اور تعمیرات کی وزارت نے خود قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتائے ہیں) کیفرکردار کو پہنچیں گے؟
کیا وزارت ِداخلہ سے پوچھا جائے گا کہ قلعہ سیف اللہ بلوچستان کی کمپنی سے بارود کی نقل حرکت کا لائسنس منسوخ کرکے دوبارہ کیوں جاری کیا گیا جبکہ اس کمپنی نے کروڑوں روپے کا بارود کہاں اور کس کو دیا؟ کسی کو معلوم نہیں! کیا چینی کے مجرم کارخانہ داروں کے حق میں خاموش رہنے والی کابینہ کے 72 وزراء کو برطرف کرکے نشان عبرت بنایا جا سکے گا؟ کیا صدر وزیراعظم وزیروں مشیروں اور صوبائی حکمرانوں سے وہ مراعات واپس لے لی جائینگی جو بھارت میں دی جاتی ہیں نہ کسی مغربی ملک میں! کیا سنگاپور، کینیڈا اور دوسرے مہذب ملکوں کی طرح ہماری کابینہ کی اکثریت بھی پی ایچ ڈی پر مشتمل ہوگی اور کیا اُن گاموں ماجھوں سے قوم کی جان چھوٹ جائیگی جو اس دھرتی پر بوجھ ہیں اور ملک کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں؟ اور کیا وفاداریاں بدل کر ہمیشہ اقتدار میں رہنے والوں اور رہنے والیوں کے چہروں پر کالک ملی جائیگی؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا اور اقتدار ’’سید برادران‘‘ کے قبضے ہی میں رہنا ہے تو مجھے اس سے کیا غرض کہ کون جاتا ہے اور کون آتا ہے؟
؎ میری بلا سے بُوم رہے یا ہُما رہے
http://columns.izharulhaq.net/2009_11_01_archive.html
“