نہیں غاروں میں گزرا اپنا جیون ، چلن میرا یہی بتلا رہا ہے
نکل آیا ہوں آگے وقت سے میں، زمانہ میرے پیچھے آرہا ہے
یہ شعر ہے میرے بڑے بھائی اورادیب، صحافی ، دانشور ،مصنف ، مولف، مترجم اور صاحب ِ طرز شعر سید عارف معین بلے کا۔جوداتاکی نگری میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ پائلٹ ہائی اسکول وحدت کالونی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ دور ِ طالب علمی ہی میں ادبی سفر شروع کردیا تھا۔کتب بینی ان کاشوق رہا۔ ہمارے والد ِ بزرگوار سید فخرالدین بلے کی بیٹھک ہمیشہ آباد رہتی تھی۔ لاہور، سرگودھا، راولپنڈی ،کوئٹہ، قلات ،خضدار ،بہاولپور اور ملتان میں،ہم جہاں جہاں بھی رہے، ہمارے گھر بڑے بڑے ادیبوں ،شاعروں اوردانشوروں کاآنا جانا لگارہتاتھا۔جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ڈاکٹرسید عبداللہ،ممتاز مفتی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ ،انتظار حسین ،منشا یاد،بشریٰ رحمان،پروفیسرآغا سہیل ،مرتضیٰ برلاس، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیرآغا، شہزاد احمد،جون ایلیا، محسن بھوپالی، محسن نقوی،مصورصادقین،اخترحسین جعفری، محسن احسان،پریشان خٹک،طارق محمود،جمیل الدین عالی،علامہ سید غلام شبیربخاری،قتیل شفائی، طفیل ہوشیار پوری،ریاض بٹالوی،صدیقہ بیگم، حنیف رامے،ڈاکٹر اسلم کمال ،مسعود اشعر،سیدسلطان احمد،ڈاکٹر اجمل نیازی،ڈاکٹر انورسدید،منورسعید، اسرارزیدی،امجد اسلام امجد، عطاالحق قاسمی،اداکار محمد علی،میرزا ادیب، ظفر علی راجہ، خواجہ نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف، بیدارسرمدی، اور جاوید قریشی سمیت بہت سے ادبی ستارے میری آنکھوں کے سامنے جگمگارہے ہیں ، جوکبھی ہمارے آنگن میں جلوے بکھیر رہے ہوتے تھے۔یادوں کی کھڑکیاں کھلی ہیں تو بہت سے بیتے مناظر میری آنکھوں کے سامنے آگئے ہیں۔ اس ماحول میں ہم بہن بھائی پلے اور پروان چڑھے۔یونیورسٹیوں سے زیادہ مجھے،ہمارے سب سے بڑے بھائی سیدانجم معین بلے، اورعارف بھائی کو ان محفلوں میں بیٹھ کرسیکھنے کے بہت مواقع ملے۔اسی لئےنامور ادبی شخصیات کےساتھ ہماری بہت سی یادیں جُڑی ہوئی ہیں لیکن یہ موضوع چھڑ گیا تو بات کہیں سے کہیں نکل جائےگی اور میں اپنے اصل موضوع سے ہٹ جائوں گا جو ہے سیدعارف معین بلے کاادبی سفر۔اس حوالے سے میرے پاس کہنے اور لکھنے کوبہت کچھ ہے ۔ بس میں یہ سوچ رہاہوں کہ علمی اور ادبی سفر کی بات کہاں سے شروع کی جائے۔ اس وقت جب انہوں نے پہلا شعر کہا یا اس وقت سے جب ان کی پہلی غزل یا نظم ، کسی اخبار یاجریدے کی زینت بنی۔مجھے یاد ہے کہ جب میں ابتدائی جماعتوں میں تھا اور وہ انٹر میڈیٹ کالج بہاولپور میں ایف اے کے طالب ِ علم اور کالج میگزین کے ایڈیٹر تھے۔یہ اس وقت بھی بڑی خوبصورت غزلیں ، نظمیں اور نعتیں لکھا کرتے تھے۔کالج سے زیادہ وقت ان کا سینٹرل لائیبریری میں گزرتا تھا۔بہاولپور میں ان دنوں خوبصورت شاعر اورشعری مجموعے افکار ِ پریشاں کے خالق حیات میرٹھی مرحوم، شہاب دہلوی، علی احمد رفعت،منصور عاقل ،آل ِ احمد،ظہوراحمد،سیدتابش الوری،سہیل اختر،اور پروفیسر ڈاکٹرمحمد عارف کاطوطی بول رہاتھا۔دبستان ِ بہاولپور کے خدو خال اجاگر کرنے کیلئے حیات میرٹھی مرحوم نے اسی عنوان کے تحت ایک کتاب ماجد قریشی سے لکھوائی تھی ۔
بہاولپور میں قیام کے دوران سید عارف معین بلے کاشعری سفر شروع ہوا۔وہ نوابوں کے اس شہر میں بمشکل دو برس رہے ہوں گے۔بہرحال وہ شعر کہتے اور والد بزرگوار کو سناتے تھے ۔وہ کبھی کبھار اصلاح بھی کردیا کرتے تھے۔گھر میں ،میں نے انہیں کئی بار یہ کہتے سنا کہ اگر عارف نے اسی طرح پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کاسلسلہ جاری رکھا تو بہت جلد اونچی اڑان بھرتا نظرآئے گا۔یہ حقیقت ہے کہ سیدعارف معین بلے ہمیشہ منتخب کتابیں پڑھتے دکھائی دئیے۔ ان کے سرہانے تین چار کتابیں رکھی نظر آتی تھیں ۔ کوئی نئی کتاب انہیں ہاتھ لگتی تو وہ چند روز اسے دائیں بائیں سے ، کسی ترتیب کے بغیر کہیں سے بھی کھول کر دیکھتے اور ایک دو صفحات بند کرکے دوبارہ اپنے سرہانے رکھ دیا کرتے تھے۔ دن رات میں وہ کوئی ایک کتاب مسلسل نہیں پڑھتے تھے۔بلکہ اگر صبح کو سیرت النبی ﷺ کی کتاب کامطالعہ کررہے ہیں تو دوپہر کو ان کے ہاتھ میں ڈاکٹر وزیرآغا کی کوئی کتاب ہوتی تھی۔ شام کو احمد ندیم قاسمی کوپڑھتے دکھائی دیتے تھے۔ رات کو ادیان ِ عالم کے تقابلی مطالعے میں مصروف ہوتے۔چوبیس گھنٹوں کےدوران تین چار یااس سے زیادہ کتابیں ان کے زیرمطالعہ رہتیں ۔ یہی چلن ان کااب بھی ہے۔بیڈ کے سرہانے سائیڈ ٹیبل پر کتابوں اوررسالوں کے ڈھیر لگے رہتے ہیں ۔دفتر سے تھکے ہوئے بھی آئیں تو بھی مطالعہ کئے غیر نہیں سوتے۔ان کی روح کی غذا کتب بینی ہے۔ ادبی محفلوں میں جانے کووقت کاضیاع سمجھتے ہیں ۔ البتہ اگر کوئی ادبی، روحانی شخصیت کا کوئی لیکچر ہوتواسے سننے کیلئے ضرور جانا چاہتے ہیں ۔ مشاعروں سے گریزاں رہتے ہیں ، کہتے ہیں مجھے واہ واہ ۔ کیا بات ہے۔ یاایسے دوسرے ستائشی جملے اچھے نہیں لگتے۔انہیں شعرو شاعری کرتے کئی دہائیاں گزرچکی ہیں ۔وقت نے کروٹیں بدلیں تو ان کے رجحانات بھی بدلتے چلے گئے۔ کبھی پابند نظموں کا دور دورہ رہا۔کبھی آزاد نظمیں لکھتے نظر آئے۔کبھی غزلیں لکھیں، کبھی ہائیکو اور ثلاثی قطعات تخلیق کرنے پر زور رہا۔کوئی ایسی صنف ِ شعرو سخن نہیں ، جس میں انہوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔جب بھی ملک میں کسی بحران نے سراٹھایا، ان کے اندر کاشاعر جاگ اٹھا۔ان کافکری کینوس مجھے بڑا وسیع نظر آتاہے۔ اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کاآغاز قومی اخبار روزنامہ سیاست ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کیا۔ جہاں جہاں کام کیا، ان کے رفقائے کار نے اس امر کی تصدیق کی کہ یہ بڑے قادرالکلام اورزود نویس شاعر ہیں۔ اپنے خاندان میں جس کزن عزیز، رشتے داریادوست کی شادی ہوئی ، ان کیلئے منظوم تاثرات کے اظہار کیلئے فرمائشی پروگرام پر انہوں نے پھول سے الفاظ چُن چُن کر سہرےلکھے اور دعاءوں بھری رخصتیاں لکھیں ۔ ان سہروں اور رخصتیوں کو یکجا کیاجائے تو کئی کتابیں مرتب ہوسکتی ہیں۔
سید عارف معین بلے کی شاعری کے کئی رنگ ہیں ۔بہت سی جہتیں ہیں ۔بہت سے ادوار میں تخلیق ہونےکی وجہ سےکئی خانوں میں بانٹی جاسکتی ہے۔ایک دور تھا جب مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کےبعد وہاں صدر ضیاءالرحمان کی حکومت تھی اور مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان میں ضیاءالحق بزعم ِ خود حکمران بنے ہوئے تھے۔ان حالات میں سید عارف معین بلے نےجوغزل کہی، اس کا ایک شعر اب بھی مجھے یاد ہے ۔
اندھیر تو یہ ہے کہ اندھیرے ہیں مسلط
کہنے کومگر مشرق و مغرب میں ضیاء ہے
مختلف ادوار میں کہی گئی غزلیات کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے،ان میں آپ کو ملک کے سیاسی اور سماجی حالات کی جیتی جاگتی تصویریں بھی نظر آئیں گی۔معاشرتی ناانصافیوں کی جھلک بھی دکھائی دے گی اور اظہار پرپابندیوں کےباعث ماحول میں جو گھٹن موجود ہے،اس کااندازہ بھی کیاجاسکتاہے۔
اب کیا اپنے لَب کھولیں گی کلیاں سہمی سہمی سی
ہوا طمانچے ماررہی ہےپھولوں کے رخساروں پر
۔۔۔۔۔۔۔۔
احساس نہ ہو گھر کے مکینوں کو گھٹن کا
دیوار پہ دروازے کی تصویر بنا دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑا موثر خموشیوں کا ہماری ابلاغ ہو رہا ہے
خطیب اُس کوکہے گی دُنیا،جو شخص اب بے زبان ہوگا
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقشہ کھینچا جاسکتا ہے بستی کا
ڈوبتے سورج کی تصویر بنا کر بھی
۔۔۔۔۔۔۔
ہم ہیں تپتے صحرا ساون میں بارش کو ترسے ہیں
آپ وہ بادل ہیں جو ہمیشہ دریاءوں پر برسے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر لے کے ہم کوتاج عطا کردیا گیا
اب سلطنت ملی بھی تو بے اختیار سی
۔۔۔۔۔
دھوپ کی شدت کیسے کم ہوسکتی ہے ؟
گھنے درختوں کی تصویر بنانے سے
۔۔۔۔۔۔
سیدعارف معین بلے محبتوں کےشاعر ہیں۔ہر صنف ِ شعرو سخن میں انہوں نے اپنے تخلیقی اورفکری جوہر دکھائے ہیں ۔ انہیں ویلنٹائن ڈے منانے پر اعتراض نہیں ،لیکن وہ سال بھر میں میں محبت کاصرف ایک دن منانے کےخلاف ہیں ۔کہتے ہیں
محبت ایک دِن کرنا سمجھداری نہیں ہوتی
محبت کیلئے تو عمر بھی کافی نہیں ہوتی
یہ پختونی، بلوچی، سندھی، پنجابی نہیں ہوتی
محبت کی کوئی سرحد ، کوئی بولی نہیں ہوتی
یہ دواشعار آپ نے پڑھے ہیں ، لیکن اسی زمین میں محبت کے حوالے سے انہوں نے سال کےدنوں کی مناسبت سے تین سو پینسٹھ اشعار پر مبنی پوری کتاب لکھ رکھی ہے۔محبت کاایسا موضوع ہے، جس کے گرد ان کی بیشتر شاعری گھوم رہی ہے۔یہ محبت کسی ایک کیلئے نہیں ہے۔وطن ِ عزیز سے بھی یہ ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ اسی لئے آپ دیکھئے کہ جب بھی ملک پر کوئی بڑا وقت آیا توان کےاندر کاشاعر خاموش نہیں رہ سکا۔
منزل گروی رکھی ہے اور رستے گروی رکھے ہیں
ہم ہیں وہ خوش بخت کہ جن کےجذبے گروی رکھے ہیں
گھرمیں ہر آسائش ہےپر فیض نہیں ہم پاسکتے
چابی اپنے پاس ہے لیکن تالے گروی رکھے ہیں
عدالتوں سے بھی انصاف نہ مل رہا ہو تو توہین ِ عدالت کاخطرہ انہیں حق سچ بات زبان پرلانے سے نہیں روک پاتااوروہ پکاراٹھتے ہیں
ہاتھ مجرم کےہیں قانون کے دستانوں میں
عدل ناپید ہے انصاف کے ایوانوں میں
سیدعارف معین بلے بہت لکھتے ہیں ۔ بہت پڑھتے ہیں لیکن قومی اخبارات اورادبی جرائد کو اپنی تخلیقات اشاعت کیلئے نہیں بھیجتے۔خود کو قلمی مزدور کہتے ہیں۔نیٹ پر یا کسی جریدے میں اگر ان کی کوئی غزل، نظم یا نثرپارہ آپ کو ملےگا، وہ انہوں نے نہیں بھجوایا، بلکہ ان کی اجازت سے میں نے صرف اس لئے یہ فریضہ انجام دیا ہے تاکہ ان کی کچھ چیزیں تو ان کے نام سے محفوظ ہوجائیں۔وہ معاوضہ مل جانے پر اپنی نگارشات دوسروں کے نام کردیتے ہیں ۔ آپ انہیں اجرت کالکھاری بھی کہہ سکتے ہیں۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،ادب، تصوف، صحافت ،تنقید، ثقافت اور تاریخ کےحوالے سے ان کی بہت سی کتابیں بہت سے لوگ یقیناً پڑھ چکے ہوں گے لیکن یہ بات طے ہے کہ کسی ایک کتاب پر بھی آپ کو سیدعارف معین بلے کانام لکھاہوا نہیں ملاہوگا۔اس لئے کہ وہ تو اپنی کتابیں لکھ کر بیچ دیتے ہیں اور جو خریدار انہیں خریدتا ہے ،وہ کتاب کے سرورق پر اپنا نام لکھوالیتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سیدعارف معین بلے کی تحریروں کی بنیاد پر علمی اورادبی دنیا میں جن لکھاریوں نے نام کمایا ہے، ان میں سے آٹھ پر ایم فل کے مقالات لکھے جاچکے ہیں ۔اور میں نے تو یہ بھی سنا ہےکہ ایک شخصیت پر پی ایچ ڈی کیا جارہا ہے۔لیکن ڈاکٹوریٹ کی بات کی ابھی تک میں تصدیق نہیں کرسکا۔اور تصدیق کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔لیکن یہ طے ہے کہ
اُڑتی ہوئی سنی ہے زبان ِ طیور کی۔
سیدعارف معین بلے کے بہت سے مسودے ابھی ایسے ہیں ،جنہیں آپ برائے فروخت کہہ سکتے ہیں۔ان میں سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے غیرمطبوعہ کتابیں بھی ہیں۔ صوفیائے عظام کے حالات ِ زندگی کے بارے میں بھی اتنا مواد ہے کہ انہیں کتاب نہیں، کئی کتابوں کی صورت میں شائع کیاجاسکتاہے۔ سیدعارف معین بلے کی لاتعداد نظمیں اور جدید رنگ کی غزلیں بھی غیر مطبوعہ صورت میں ان کےاسٹور یا کباڑ خانے میں موجود ہیں۔کچھ کتابوں کے مسودے ایسے بھی ہیں ، جنہیں انہوں نے آخری شکل دے رکھی ہے ۔حد تو یہ ہے کہ ان کتابوں کے سرورق پر کیا عبارت دی جاسکتی ہے ، وہ بھی لکھ رکھا ہے۔
ایک دور تھا کہ یہ مشاعروں میں بھی بلانے پر چلے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کاتختہ الٹ کر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعدسابق وزیراعظم زیڈ –اے بھٹو کوتختہء دار پر لٹکا دیا تو اس وقت ملک بھر کی فضائیں بڑی اداس تھیں۔اس وقت سید عارف معین بلے نے ایک نظم لکھی تھی ۔ جس کاعنوان تھا ۔ صلیب ِ شاخ۔ اور بھٹو کے پھانسی چڑھنے کےبعد سرگودھا میں قومی سطح پر ایک بڑا مشاعرہ پندال میں سجا تھا۔ اس مشاعرے کی صدارت کمشنر کررہے تھے۔ مہمان ِ خصوصی ڈی آئی جی سرگودھا تھے ۔ عارف بھائی نے یہ کہہ کر اپنی نظم سنائی تھی کہ آج میں اس سیاسی ماحول میں آپ کے سامنے ایک غیر سیاسی نظم پیش کرناچاہتاہوں ۔ اس کاعنوان ہے ۔ صلیب ِ شاخ ۔ یہ عنوان سن کر ہی مجمع چونک اٹھا تھا۔بہرحال آپ یہ نظم ملا حظہ فرمائیے۔
صلیب ِ شاخ
ہوا کی ہچکی بندھی ہوئی ہے
صبا پریشان حال، غم سے نڈھال
بکھرائے بال ، باصد ملال
چُپ چاپ نوحہ خواں ہے
فضا چمن کی دھواں دھواں ہے
بہار روٹھی ہوئی کھڑی ہے
نسیم ہے اس قدر پریشاں کہ اپنے ہاتھوں کو مل رہی ہے
زمیں بھی تیور بدل رہی ہے
فلک کی آنکھوں میں ہے شفق رنگ اشک ِ حسرت کا بحرِ کاہل
عجیب عالم ہے گلستاں کا
چمن میں ہے ایک حشر برپا
شجر کھڑے ہوکے باادب گویا سوگ سااِک منارہے ہیں
گزرچکی ہے چمن پہ جو کچھ ،خموش رہ کر بتارہے ہیں
بتارہے ہیں اُجاڑ ڈالا ہے شہریاروں نے شہر کو
گھر بسا لیا ہے
چمن کوویران کردیا ہے
پراپنا گلداں سجا لیاہے
کسی بھی غنچے سے لب کُشائی کاجرم سرزد ہواتواس کو
صلیب ِ شاخ ِ شجر پہ فوراً چڑھادیا ہے
ہوئی ہے سبزے کی پائمالی
جھکی ہوئی ہے ہرایک ڈالی
ہے آج شاخوں کی گود خالی
کوئی بتائے ، کہاں ہے مالی؟
جہاں پہ آباد اِک جہاں تھا، وہاں پہ اب خاک اُڑرہی ہے
عجیب عالم ہے گلستاں کا
چمن میں ہے ایک حشر برپا
سنی ہے گوش ِ نظر سےمیں نے
شجر کی یہ دُکھ بھری کہانی
شجر کی اِس دُکھ بھری کہانی کا
مجھ پہ کوئی اثر نہیں ہے
کہ میں تو لوح ِ جبین ِ اشجار کی عبارت کو
پڑھ کے یکدم ٹھٹھک گیا ہوں
کہ جس پہ لکھا ہوا ہے شبنم کے آنسووں سے
ہمارے گلشن کاکیا بنے گا؟
سید عارف معین بلے نے مختصر نظمیں بھی لکھی ہیں اور بہت طویل بھی۔ان کی بعض نظموں میں ان کے احساسات، جذبات اور تاثرات کی جیتی جاگتی بلکہ منہ بولتی تصویریں دکھائی دیتی ہیں ۔ ایک نظم ہے دھوپ میں بارش۔ جومختصر بھی ہے اور منظرنگاری کے حوالے سے بے مثال شہ پارہ بھی۔تین مصرعوں میں انہوں نے بہت کچھ کہہ دیاہے۔ عنوان بھی بڑا انوکھاہے، جوان کی جدت پسندی کامظہر اورندرت ِ فکر کاآئینہ دار ہے۔ بہرحال ملاحظہ فرمائیےایک نظم
نظم۔ دھوپ میں بارش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پوچھا
دھوپ میں بارش ہوسکتی ہے
یہ سُن کروہ ہنستے ہنستے رونے لگی
اور،دھوپ میں بارش ہونے لگی
اس مختصر نظم کے بعد اب آپ ملاحظہ فرمائیے ان کی نسبتاً ایک طویل نظم ۔ آپ اسے غزل ِ مسلسل کانام بھی دے سکتے ہیں ۔یہ ان کی بیاض میں محفوظ ہے، اور اس تخلیق کےاوپر جوعنوان لکھا ہواہے۔وہ ہے محبت، تم اور میں ۔
ایک ہے چندا،اِک بادل کا ٹکڑا تم اور میں
ساتھ ساتھ ہیں لیکن تنہا تنہا تم اور میں
بہتر ہوگا اپنی اپنی راہیں جدا کرلیں
دے سکتے ہیں کب تک خود کودھوکہ تم اور میں
ابر ِ رحمت کب برسےگا لگی ہوئی ہیں نظریں
دھوپ کاصحرا دنیا،پیاس کادریا تم اور میں
بیڑی انا کی پڑی ہوئی ہے دونوں کے پیروں میں
دیکھ رہے ہیں اِ ک دوجے کارستہ تم اور میں
مثبت منفی تاریں ملیں تو روشنی ہوجاتی ہے
ہوگا اُجالا،ہوں گے جب بھی یکجا تم اور میں
تنہائی کی دھوپ سے بچنا ہے ہم دونوں کو
ڈھونڈ رہے ہیں ایک ہی پیڑ کاسایہ تم اور میں
ڈر ہے یہی حالات ہماری آنکھیں کھول نہ دیں
دیکھ رہے ہیں کب سے ایک ہی سپنا تم اور میں
زرد رُتوں کے قدموں کی پھر چاپ سنائی دی ہے
سہما ہوا ہے بوٹا بوٹا، سبزہ تم اور میں
آسمان کو دیکھ رہے ہیں بادل ٹوٹ کےبرسے
تپتے دشت میں دونوں پیاس کادریا تم اور میں
رنگ بھرے جاسکتے ہیں اب جیون میں چُن چُن کر
ہوتو گئے ہیں جیون سے بے پروا تم اور میں
کی ہے فضاءوں نے سرگوشی ،ساتھ بہاریں دیں گی
آءو سجائیں رنگوں کا اِک میلہ تم اور میں
بند آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اِس دلکش منظر کو
دریا کنارےشام کا پہلا تارہ تم اور میں
سوچ رہے ہیں کیا ہوگا انجام محبت کا
آج کے سسی پنوں ،ہیر اور رانجھا تم اور میں
خاموشی کے جنگل میں دِل دھڑکن گونج اُٹھی
دیکھ رہے ہیں اب جادو آواز کا تم اور میں
دیدنی ہیں دوشیزہء فطرت کی رنگین ادائیں
کھچے چلے آئے ہیں ہوکر یکجا تم اور میں
آءو چلو ہم آپس میں ہی دل کی بات کریں
چلو سنیں اب اِک دوجے کادُکھڑا تم اور میں
کوئی بھی موسم آئےاب دِن پِھر نہیں سکتے اپنے
سبز رُتوں میں شاخ سے ٹوٹا پتا تم اور میں
کَن اکھیوں سے دیکھ رہی ہیں موجیں ہم دونوں کو
ندی کنارے ڈالے ہوئے ہیں ڈیرہ تم اور میں
دوراہے پر آتے ہی یہ سوچ رہے ہیں دونوں
الگ الگ بھی کرسکتے ہیں رستہ تم اور میں
پڑھنے والے سوچ رہے ہیں نام توان کے ہوں گے
سوکھے تنے پر ہم دونوں نے لکھا تم اور میں
رہے محبت قائم تویہ جلتی رہے گی دُنیا
مِل جُل کر ہی لے سکتے ہیں بدلہ تم اور میں
تلخ ہیں جتنی یادیں بھلا کر توڑدیں سب پیمان
آءو کرلیں ایک نیا سمجھوتہ تم اور میں
جو بھی ہوا اب ہوگا برابر اپنا نفع نقصان
دل کے بدلے دل کاکرلیں سودا تم اور میں
ہم ناخوش ہیں ورنہ ساری دُنیا جی اُٹھی ہے
دیکھ رہے ہیں چھوڑ کے ملنا جُلنا تم اور میں
کھیل رہے ہیں جیسے سورج بدلی آنکھ مچالی
اِک دوجے کی کھوج میں لمحہ لمحہ تم اور میں
الگ الگ ہوجائیں تصور ہوہی نہیں سکتا
پھول میں جیسے رنگ و خوشبو یکجا تم اور میں
کام لیں حکمت سے ہے تقاضا دنیا داری کا
رہ نہیں سکتے توڑ کےسب سے ناتا تم اور میں
کچھ تو ہے جو سب کی نظریں ہم پہ جمی رہتی ہیں
سارے جہاں میں سوچو کیا ہیں یکتا تم اور میں
رفتہ رفتہ آئے تھے نزدیک کبھی ہم دونوں
ہونے لگے ہیں دور بھی رفتہ رفتہ تم اور میں
مل کر جی اُٹھے ہیں لیکن ہم کو بچھڑنا ہوگا
اِسی لئے ہیں اب دونوں افسردہ تم اور میں
دنیا کسی بھی ایک کو دوشی کہہ نہیں پائے گی
آءو کرلیں ترک ِ وفا کافیصلہ تم اور میں
ابرِ رحمت کب برسے گا لگی ہوئی ہیں نظریں
دھوپ کاصحرا ،پیاس کاجاناں دریا تم اور میں
مجھے یاد ہے کہ ان کاایک دور ایسا بھی آیاجب وہ صرف آزاد نظمیں ہی لکھتے تھے۔ان نظموں میں ان کے شعری جوہر خوب کھلے۔ایک نظم آپ بھی ملاحظہ کیجئے ۔ جس کاعنوان ہے۔ تیرھواں مہینہ۔یہ تیرھواں مہینہ ان کیلئے کیا پیغام لایا۔اورکیسے آیا؟ ان سولوں کےجواب بھی آپ کواسی نظم میں انہوں نے دے دئیے ہیں۔
نظم۔ تیرھواں مہینہ
جنوری سرد دِن ٹِھٹھرتے ہوئے
فروری مختصر مہینہ ہے
پیار نے توسدا ہی جینا ہے
سال کے تیسرے مہینے میں
پھول ہی پھول ہوں گے گلشن میں
پھول بھی رَوندے جا نہیں سکتے
ہم نئے گُل کھلانہیں سکتے
موسم اپریل کا حسیں ہوگا
میں کہیں اور تُو کہیں ہوگا
پھر مئی سخت گرمیوں کے دِن
جس میں سرگرمیاں نہیں ممکن
جون میں راتیں مختصر ہوں گی
اور، جولائی چُھٹیوں کے دِن
بچیاں بھی تمام گھر ہوں گی
پھر اگست ہوگی عید ِ آزادی
اور مجھے جشن بھی منانا ہے
تم کہو گی کہ یہ بہانہ ہے
اور، ستمبر کہ جس میں جنگ ہوئی
دُنیا ہر دو طرف کی تنگ ہوئی
بات مت کرنا اِس مہینے کی
ہے مگر خوشگوار اکتوبر
دورُتیں گلستاں میں ہوتی ہیں
پھول بھی ہوں گے اور پت جھڑ بھی
دھوپ بھی ہوگی اور بارش بھی
مِل رہے ہوں گے جب گلے موسم
کھو چکے ہوں گے ہم نظاروں میں
دِن نومبر کے کب بڑے ہوں گے؟
دونوں اس سوچ میں کھڑے ہوں گے
یہ مہینہ ذرا گزرجائے
اور، دسمبر کی منہ دِکھائی ہو
سال کے آخری مہینے میں
میری مصروفیت بہت ہوگی
وصل کی رُت اگر نہیں آئی
تُم بھی کیا انتظار کرلو گی؟
سال کے تیرھویں مہینے کا
سیدعارف معین بلے
اب آپ پڑھئے ان کی ایک ایسی نظم ،جسے معروف شاعر احمد ندیم قاسمی نے ایک محفل میں سن کر مصورانہ شاعری کانام دیا تھا۔اس خوبصورت نظم کانام ہے۔ سچ۔
نظم۔ سچ۔
شجر ایک لڑکی ہے
جو سبز ساڑھی پہن کر
ندی کےکنارےکھڑی ہے
کلائی میں گجرے ہیں
اور دونوں کانوں میں شبنم کے موتی
چُھپا کر جو رکھے ہیں
وہ پھول بھی اَدھ کُھلی مٹھیوں میں نظر آرہےہیں
ڈھلکتے ہوئے اُس کی ساڑھی کے پَلوپہ
بکھری ہوئی ہے دَھنک زندگی کی
دَھنک اور رنگوں کی یہ شاعری
خوبصورت بہت ہے،
مگراے مصّور
مِرے گھر کےآگے بھی دریا کنارہ ہے
اوراُس پہ اِک ایسی بُڑھیا کھڑی ہے
کہ کانٹوں کی چادرہے،جس کےبدن پر
سیدعارف معین بلے
ہم اکثر سنتے ہیں کہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ تبدیلی آگئی ہے ۔یہ توسیاسی بیان ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ادبی دنیا میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔ یقین نہیں آتا تو آپ پڑھ لیجئے سید عارف معین بلے کی نظم تبدیلی ،جس کاایک ایک مصرعہ بتارہاہے کہ اب پریمی جوڑے چھپ چھپ کرملتے ہیں اور نہ ہی پیغام رسانی کیلئے خط و کتابت کی جاتی ہے ۔دنیائے محبت میں انہیں کیا تبدیلی نظر آئی ہے ۔اس کاپتا ان کی نظم تبدیلی پڑھ کر چلےگا۔
تبدیلی
کوئی کسی کو خط لکھتاہے اور نہ بھیجے تار
ہوتا پرانا دور تو کہتے ،کیسے چلے گاپیار؟
کام۔ پِجن ۔اب کرتے نہیں پیغام رسانی کا
یہ ہے یقیناً موڑ نیا اب پریم کہانی کا
چِٹھیاں بھی اب دی نہیں جاتیں رکھ کے کتابوں میں
ملتے تھے کبھی پریمی جوڑے،وہ بھی خوابوں میں
باتیں کُھل کر کیاکرنی تھیں،مِل نہیں پاتے تھے
ارمانوں کے پھول بھی بے شک کِھل نہیں پاتے تھے
چُھپ کے محبت کی جاتی تھی، جیسے کوئی جُرم
سوچو ذراکہ اس سے بڑاکیا ہوسکتا تھا ظُلم؟
گھر گھر اپنے پیارے ہی تو پیارکے تھے دشمن
چڑھتا بھلاپروان تو کیسے؟پریم پہ تھی قدغن
سب سے چُھپ کرپیاربھی کرنا کب تھابھلاآسان؟
اِسی لئے توالجھاہوا رہتا تھا ہر انسان
عشق مشک تو چُھپ نہیں سکتے ، بولا جاتا تھا
گویا پیارجو کرتاتھا،وہ پکڑاجاتا تھا
ساتھ بھی رہنے والے۔لَو، یُو ۔کہہ نہیں پاتے تھے
لڑکی کے بچوں کا ماموں خود کو بناتے تھے
وقت نے کروٹ لی تو سارے بدل گئے حالات
چڑھنے لگی پروان محبت اور وہ بھی دن رات
ہر اِک مشکل نت نئی ایجادات نے کی آسان
گویا دھڑکتے جذبوں کو بھی مل گئی آپ زبان
کردیا ہے آئی ٹی نے سارے ینگسٹر ز کواسمارٹ
کُھل کے محبت ہوسکتی ہے گویا اب اِن شارٹ
پیارہمارا ٹوئیٹر نے پروان چڑھایا ہے
واٹس ایپ نے بھی کام کو آگے خوب بڑھایاہے
سیلفیاں لے لے کر بھی اب ہم حال بتاتے ہیں
کیسے کیا انجوائے ایونٹ ؟،یہ بھی دِکھاتے ہیں
لِپٹ چِمٹ کر اِک دوجے سے وڈیو بناتے ہیں
وائرل کرکے پھرہم اس کی دُھوم مچاتے ہیں
کیسا چُھپانا ؟ سب کو بتاکر ڈیٹ پہ جاتے ہیں
جب من چاہے ویلنٹائنز ڈے بھی مناتے ہیں
اپنے جیون میں اب سارے رنگ سجاتے ہیں
موج مزے کرتے ہیں ،کُھل کر موج اُڑاتے ہیں
بدل گئی ہیں پریم محبت کی ساری اقدار
روک سکو تو روک لو، ہم تو کُھل کے کریں گے پیار
اب ہم پریم کے تین سو پینسٹھ دن بھی منائیں گے
کیسے محبت کی جاتی ہے ؟ کرکے دِکھائیں گے
جو تبدیلی آئی ہے ، اُ س سے فیض اُٹھائیں گے
جو ہے اُجالا پریم کاوہ ، گھر گھر پہنچائیں گے
کچھ تبدیلی آئی ہے ،کچھ ہم لے کر آئیں گے
نِت نئے رستے پریم کے ہم دُنیاکو سُجھائیں گے
سَید عارف معین بَلے
سید عارف معین بلے رحیم یار خان میں روزنامہ ایکسپریس کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ وہاں اپنے قیام کےدوران انہوں نے روہی کے خدو خال اجاگر کرنے کیلئے اسی عنوان کے تحت بڑی محنت کے ساتھ ایک کتاب مرتب کی۔جس میں نامور لکھاریوں کی نگارشات موجود ہیں۔انہیں روزنامہ نیادن ملتان، اور روزنامہ نیادور ملتان کےبانی ایڈیٹر ،روزنامہ نوائے وقت کے میگزین ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دینے کااعزاز حاصل ہے ۔محکمہ بلدیات پنجاب کے ترجمان جریدے ماہنامہ بلدیات لاہور کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی انہوں نےشاہراہ ِ صحافت پر نقوش چھوڑے ہیں۔ بڑی خوبصورت حمدیں اور نعتیں ،بھی لکھی ہیں ۔ ، سلام بھی امام عالی مقام کے حضور پیش کئے ہیں۔عالم ِ اسلام کے بارہ اماموں کو سلام ، بھی لکھا ہے۔ عربی اور فارسی کے نامور شعرائے کرام کے شہرہء آفاق کلام کے منظوم تراجم بھی کئے ہیں ۔ مولانا محمد شرف الدین بوصیری کا۔قصیدہء بردہ شریف اب اردو زبان میں۔ اور عاشق ِ رسول مقبول مولانا عبدالرحمان جامی کی مقبول و معروف فارسی نعتوں کے بھی خوبصورتی کے ساتھ منظوم تراجم کئے ہیں ۔ سید عارف معین بلے کا مدحیہ رنگ بھی ذرا ہٹ کرہے۔ اس لئے اس پر الگ سے مضمون نہ لکھا تو انصاف نہیں کیاجاسکے گا۔ انتظار فرمائیے۔آپ کو انہی صفحات میں سیدعارف معین بلے کا مدحیہ رنگ جلد نظرآئے گا۔
سید عارف معین بلے کاادبی سفر
تحریر: سیدظفر معین بلے جعفری