سید عارفؔ لکھنوی کا تعلق ہندوستان سے ہے، اردو کے مشہور و معروف مایہ ناز شاعر ہیں۔ کئی ادبی گروپس کے منتظم ہیں، غزل، قطعات نگاری اور صنعتِ توشیح میں آپ کے اشعار نے کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ اردو شاعری میں سید عارفؔ لکھنوی کے اشعار نے شاعری کے شائقین کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ گہرے اور جامع استعارات کے ساتھ مل کر اس کے فصیح اظہار کے ساتھ خوبصورت جذبات کی ایک بھرپور شاعری تخلیق کرتے ہیں جو کہ پاک و ہند کے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے قارئین میں یکساں مقبول ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ راقم الحروف کے دوست بھی ہیں اور میری کتاب “گلستان مصطفیٰ ﷺ” کے لیے صنعت توشیح میں نظم لکھی ہے جوکہ میری کتاب میں شامل ہے، آپ کی کتابوں میں “کربِ احساس”، “مِلیے عارف سے کبھی” اور بارانِ رحمت (حمد و نعت و منقبت) شامل ہیں۔
سید عارفؔ لکھنوی کی خوبصورت شاعری اکثر انسانی جذبات و احساسات اور خیالات کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہے، جو محبت، نقصان، اور وجودی غور و فکر کی باریکیوں کی عکاسی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ابتدائی مصرعے میں شاعر نے اپنے خاندان کے افراد سے دلی وابستگی اور پھر جدائی کے موضوعات کو چھوتے ہوئے ایک محبوب کی آرزو کی تصویر کشی کی ہے جو اب موجود نہیں ہے۔ یہ حسین جذبات و خیالات ایک عالمگیر سوچ اور جذبے کو جنم دیتے ہیں۔
مزید برآں پریشانیوں کے بوجھ اور راحت کی مضحکہ خیز فطرت پر شاعر کا غور و فکر انسانی تجربے کے نچوڑ کو اپنی گرفت میں لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جہاں قناعت کا حصول اکثر مبہم ہوتا ہے۔ عارفؔ کے اشعار امید اور مایوسی کے درمیان جدوجہد کی تصویر کشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، زندگی کے چیلنجوں سے نبرد آزما، سکون کی تلاش کی عکاسی کرتے ہوئے اشعار بھی آپ کی شاعری میں موجود ہیں۔
سید عارفؔ لکھنوی کا اپنے تخیلات کا ہنر مندانہ اندازِ استعمال شاعری کے جذباتی و فطری اثر کو بڑھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے استعاراتی اشارے، جیسے “آنسوؤں کا دریا”، مناسب طور پر غم کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں، جب کہ “چہرے کے تختے” اور “رو رو کے دل کی حالت” کی تصویر کشی ان کے دل کی ویرانی اور جذباتی درد کو پُرجوش انداز میں پیش کرتی ہے۔
شاعر کے بے شمار اشعار انسانی جذبات اور فکر انگیز خیالات کی ایک واضح تصویر پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
منظر نگاری میں شاندار الفاظ کا استعمال نہ صرف شاعر کی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کی شاعری کو محض لفظوں سے بھی آگے بڑھاتا ہے۔
سرحد کے اس پار سید عارفؔ لکھنوی کے اشعار اردو زبان اور اس کی شاعرانہ روایات پر مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شاعر مہارت کے ساتھ پیچیدہ استعارے اور فصیح الفاظ کو ایک ساتھ باندھتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو قاری کے اندر خوبصورت جذبات کو ابھارتے رہتے ہیں۔ “تکبندیا سخن کا ہنر تو مجھے بھی ہے
معیار لیکن اپنا گھٹایا نہ جائے گا”
شاعر کے اپنے فن پر نہ صرف اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ شاعری کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کے عزم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
اختتامی شعر میں شاعر نے “تفسیرِ کربِ خلق” کی پراسرار شخصیت کا تعارف کرایا ہے، جس سے اس کی شاعری میں اسرار کا عنصر نظر آتا ہے۔ یہ شخصیت شاعر کے مخصوص شاعرانہ انداز یا معاشرتی مجبوریوں پر فلسفیانہ موقف کی علامت ہو سکتی ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ شخصیت ایک “ذات کے بندھن” تک محدود نہیں رہے گی، سید عارفؔ لکھنوی کا منفرد مزاج حدود اور پابندیوں سے آزاد رہنے، نیز مختلف قسم کے خیالات اور تاثرات کو اپنانے کی خواہش ظاہر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
سید عارفؔ لکھنوی کی شاعری اپنی جذباتی گہرائی، واضح منظر نگاری اور فصاحت و بلاغت سے قارئین کو مسحور کرتی ہے۔ اپنی خوبصورت شاعری کے ذریعے، وہ انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتے ہیں، قارئین کو زندگی کی خوشیوں، غموں اور وجودی سوالات پر غور و فکر کرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں ۔ عارف لکھنوی کی فنکاری نہ صرف ان کی شاعرانہ مہارت میں پنہاں ہے بلکہ وہ قاری کے دل میں اترنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
اردو میں تخلیق شدہ ان کا کام شاعری کی پائیدار طاقت کا ثبوت ہے، کیونکہ یہ وقت اور نسلوں میں قارئین کے دلوں کو چھوتا رہتا ہے۔ جب ہم سید عارفؔ لکھنوی کے اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں زبان کے گہرے اثرات اور اس گہرے تعلق کی یاد آتی ہے۔ اہلِ ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے سید عارف لکھنوی کی غزل پیش خدمت ہے۔
***
غزل
***
ایسا نہیں گھر اس کا بسایا نہ جائے گا
بیٹی سے، گھر یہ چھوڑ کے جایا نہ جائے گا
تخفیف اپنے فضل سے فرما دے یا خدا
فکروں کا اتنا بوجھ اٹھایا نہ جائے گا
کام آیا باوجود عداوت کے تو مرے
احساں یہ تیرا مجھ سے بھلایا نہ جائے گا
چہرے کی لوح پر لکھا پڑھ لیں جو پڑھ سکیں
رو رو کے دل کا حال بتایا نہ جائے گا
مجھ پر ہی خشک ہو گیا دریائے اشکِ خوں
اب میرے بعد کوئی رلایا نہ جائے گا
تْکبندیا سخن کا ہنر تو مجھے بھی ہے
معیار لیکن اپنا گھٹایا نہ جائے گا
تفسیرِ کربِ خلق ہے عارفؔ کی شاعری
اس کو حصارِ ذات میں لایا نہ جائے گا.