امیریکہ کی ریاست ہیوسٹن میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مقیم عالمی شہرت کے حامل ہر دلعزیز قادرالکلام شاعر سید عارف امام ہمارے برادر محترم سید عارف معین بلے کے ہم نام اور ہم مزاج ہیں۔ درویشانہ طرز زندگی ، فقیرانہ مزاج ، قادرلکلامی ، فراست ، فطانت ، لیاقت ، ذہانت ، وسیع العلمی ، وسیع القلبی ، وسیع مطالعہ ، سحر انگیز انداز خطابت عاجزی اور انکساری کا پیکر ہیں۔ کم و بیش ربع صدی بعد اپنے دیس پاکستان ماہ رواں کی چار اور رجب المرجب کی بارہ تاریخ کو تشریف لائے تو شہر کراچی کے علمی و ادبی حلقوں میں تہلکہ سا مچ گیا۔ ان کے اعزاز میں عالی شان تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ محترم سیدی عارف امام ہمارے سب ہی پیاروں کے دلارے اور لاڈلے رہے ہیں جیسے کہ جون چچا (جون ایلیاء) نصیر چچا (نصیر ترابی) ، ذکاء الرحمن ، عبیداللہ علیم ، سید سبط جعفر زیدی ، ریحان اعظمی ، رسا چغتائی ، ڈاکٹر شاداب احسانی اور دیگر بہت سے مشاہیر شعر و ادب۔
سیدی عارف امام نے گو کہ اپنے تمام تر مطبوعہ و غیر مطبوعہ کلام کے جملہ حقوق بصد خوشی اور عنایت ہمارے نام کر رکھے ہیں لیکن ہم نے تاحال اپنا یہ قانونی حق استعمال نہیں کیا۔ سید عارف امام اور جون ایلیا میں یوں تو بہت سے اوصاف مشترک ہیں لیکن قابل ذکر وصف یہ کہ بنا کسی شعری مجموعے کے جون ایلیاء کی طرح سید عارف امام کی بھی شہرت اور مقبولیت بین الاقوامی سطح کی حامل ہے۔ ان کا حلقۂ یاراں بہت وسیع ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ ان کے مقربین میں سے اکثر سے ہماری بھی بہت قربتیں رہی ہیں اور ہیں۔ ان میں جناب فراست رضوی ، جناب جاوید صبا ، ڈاکٹر عقیل عباس جعفری ، جناب اجمل سراج ، جناب جوہر عباس سمیت ایک طویل فہرست ہے۔
یوں تو سیدی عارف امام کا تمام تر کلام ہی نہایت عمدہ اور اعلی اور منتخب شدہ ہی ہوتا ہے اور ان کے کلام کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے اگر ان کے کلام کے ساتھ ان نام درج نہ ہو تو بھی قاری کو یہ پہچان کرنے میں کہ یہ کلام عارف امام ہے ہر گز بھ دشواری نہیں ہوگی
ملاحظہ فرمائیے کلام سید عارف امام
زخم سب اس کو دکھا کر رقص کر
ایڑیوں تک خوں بہا کر رقص کر
جامۂ خاکی پہ مشت خاک ڈال
خود کو مٹی میں ملا کر رقص کر
اس عبادت کی نہیں کوئی قضا
سر کو سجدے سے اٹھا کر رقص کر
دور ہٹ جا سایۂ محراب سے
دھوپ میں خود کو جلا کر رقص کر
بھول جا سب کچھ مگر تصویر یار
اپنے سینے سے لگا کر رقص کر
توڑ دے سب حلقۂ بود و نبود
زلف کے حلقے میں جا کر رقص کر
اس کی چشم مست کو نظروں میں رکھ
اک ذرا مستی میں آ کر رقص کر
اپنے ہی پیروں سے اپنا آپ روند
اپنی ہستی کو مٹا کر رقص کر
اس کے دروازے پہ جا کر دف بجا
اس کو کھڑکی میں بلا کر رقص کر
سید عارف امام ، ہیوسٹن ، امیریکہ
ہماری دلی خواہش ہے کہ جناب فراست رضوی صاحب ، جناب جاوید صبا صاحب اور جناب اجمل سراج صاحب پر مشتمل مجلس یا کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے کہ جو سیدی عارف امام کے کلام کا مخلصانہ انتخاب کرے اور ہنگامی بنیادوں پر سیدی عارف امام کا شعری مجموعہ منظر عام پر آجائے۔
میرا دل ، ایک قیامت کا عزاء خانہ ہے
ایک لمحے کو بھی رکتا نہیں ماتم اس میں
یوں تو ہمیں ہماری مشق سخن پر ہمیشہ ہی سید عارف امام نے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی ہے لیکن ہمارا یہ فقیرانہ شعر سیدی عارف امام کو اتنا پسند آیا کہ وہ ہر سال اس شعر کو اپنی فیس بک کے کور پیج کی زینت بناتے ہیں۔ ان کی محبت اور اظہار محبت کے انداز ہی جداگانہ ہیں۔ وہ اپنے حلقۂ یاراں میں شامل تمام احباب کے حالات سے باخبر رہتے ہیں
ممتاز شاعر اور ہر دلعزیز شخصیت برادر محترم جناب جاوید صبا نے سیدی عارف امام کی پاکستان یاترا کے حوالے جو کچھ تحریر فرمایا اس کا اقتباس پیش خدمت ہے۔
تم مرے شہر میں آتے ہو تو آجاتے ہیں
مجھ سے ملنے کے لیے یار پرانے کیا کیا
یاروں کا یار اور صاحب طرز شاعر عارف امام کم و بیش پچیس برس بعد کراچی آیا اور اردو باغ میں اس کے اعزاز میں نشست رکھی گئی اور یاروں کو خبر بھی ہوگئی پھر کیا تھا سب ہی کا رخ انجمن ترقی اردو کی جانب تھا ڈیڑھ دو گھنٹے جاری رہنے والی تقریب میں جن دوستوں نے گفتگو کی ان میں ڈاکٹر شاداب احسانی تقریبا ڈاکٹر علامہ فراست رضوی اجمل سراج اور ہم بھی شامل تھے
برادر بزرگ۔اور انجمن کے مالی معاملات کے زمہ دار عابد رضوی اور ادارے کے سربراہ جناب واجد جواد نے بھی۔خطاب کیا۔ جبکہ نظامت کر رہے تھے عارف کے مداح خاص جوہر عباس ۔ تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ امجد اسلام امجد کے لیے دو بار فاتحہ خوانی کی۔گئی ہمارے یار نے جم کر شعر سنائے اور سماں باندھ دیا
ادارے کی۔معتمد زاہدہ حنا تمام وقت اسٹیج پر جلوہ گررہیں۔ہال میں موجود کوئی کرسی خالی نہیں تھی جتنے شرکا تھے سب کا تعلق شعر و ادب سے تھا
نئی نسل کے شعرا بھی پورے انہماک سے تقریب میں شریک رہے۔عارف امام کی وجہ سے پرانے دوستوں اور نئی نسل۔ کے شاعروں سے ملاقات بھی رہی اور گپ شپ بھی۔ لاجواب شاعر ڈاکٹر فیاض وید تک اپنی مصروفیات ترک کر کے تقریب میں پہنچے۔
بعد ازاں ڈاکٹر فیاض وید ، ڈاکٹر عقیل عباس جعفری ، عارف امام ، اجمل سراج ، ڈاکٹر شاداب احسانی ، ظفر معین بلے جعفری ، سید سلیم ساجد کرن ، شہاب الدین شہاب ، راقم التحریر جاوید صبا اور عظیم حیدر سید کی علیحدہ سے ایک نشست بھی منعقد ہوئی۔
تصوف ، شعر و ادب ، فن مصوری ، فن مصورانہ خطاطی اور محفل آرائی کا ذوق و شوق اور حد درجہ دلچسپی ہمیں ہمارے گھر کے ماحول سے ملی۔ اپنے ہی گھر میں ہم نے ہمارے بڑے بھائی صاحب سید محمد انجم معین بلے صاحب کو مصوری کرتے اور مصورانہ شاہکار تخلیق کرتے اور مجسمہ سازی میں مصروف دیکھا۔ ڈاکٹر انور سدید نے متعدد تقاریب میں اپنے اس خیال کا اظہار بھی فرمایا اور اپنے ایک مضمون میں کہ جو انہوں نے سید فخرالدین بلے فن ، شخصیت اور خدمات کے حوالے سے سرگودھا ہی میں لکھا تھا میں سید فخرالدین بلے کے گھر کو آرٹس کونسل سے تعبیر کیا تھا۔ ہمیں بچپن سے ہی جناب چوہدری حنیف رامے ، صادقین ، ایم۔ اے لطیف ، شمس اور ابن کلیم جیسے نامور اور اپنی مثال آپ فن کاروں کو شاہکار تخلیق کرتے دیکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سرگودھا میں ہماری رہائش گاہ کے ڈرائینگ روم کی دیواروں پر حنیف رامے صاحب اور ایم۔ اے۔ لطیف کے تخلیق کردہ مصورانہ خطاطی کے فن پارے بلکہ شاہکار آویزاں تھے۔ ایم۔ اے۔ لطیف کا تخلیق کردہ شاہکار آج بھی ہماری آنکھوں اور یادوں میں محفوظ ہے۔ جس پر لکھا تھا اوّل ما خلق اللہ قلم ، سیدی عارف امام بھی ایک باکمال سخنور اور قادرالکلام شاعر تو ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک نہایت عمدہ مصور بھی ہیں اور خطاط بھی۔ مصورانہ خطاطی کے لیے سیدی عارف امام نے کمپیوٹرائزڈ خطاطی یا ٹائیپو گرافی ایجاد کی۔ ٹائیپو گرافی کے موجد اور بانی ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس فن کو سیکھنے والوں کو راہنمائی اور معاونت کے لیے بلا معاوضہ کورسز ، کلاسز اور ورکشاپس کا باضابطہ اہتمام بھی فرمایا۔ یہ سب کرتے وقت انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کے کہ اس فن کو سیکھنے والے جب چاہیں اور جہاں چاہیں ان کی فیس بک وال ، ٹائم لائن یا یوٹیوب پر پریکٹیکل کلاسز اٹینڈ کر سکتے ہیں ، دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں سیدی عارف امام کے ایسے متعدد فن پارے کہ جنہیں شاہکار کہنا زیادہ مناسب لگ رہا ہے کو قریب سے دیکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان میں سے بہت سے شاہکار تو ایسے ہیں کہ جنہیں مصورانہ خطاطی (ٹائیپو گرافی) اور مصوری کا حسین امتزاج کہنا زیادہ مناسب رہے گا۔اس کے لیے اسد اللہ خان غالب ، نصیر ترابی ، لیاقت علی عاصم ، ریحان اعظمی ، پروین شاکر اور دیگر ممتاز شعراء کے شاہپاروں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ہم نے جب سیدی عارف امام سے دریافت کیا کہ ظفر معین بلے جعفری کے لیے مصورانہ شاہکار کب تک تیار ہوگا تو انہوں نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا میری طرف سے تو تمام تر تیاری مکمل ہے بس جو تاخیر ہے وہ آپ ہی کے رخصت ہونے کی ہے۔ ہائے ہائے ۔ ہم تو احترام ملحوظ خاطر ہونے کے باعث یہ بھی نہ عرض کرسکے کہ
کہ خوشی سے مر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا
پاکستان میں مختصر قیام کے دوران عالمی سفیر اردو ادب جناب سید عارف امام کے اعزاز میں یوں تو بہت سی شاندار تقاریب کا اہتمام کیا گیا اور ہر ہر تقریب کی اپنی ہی انفرادیت ، اہمیت اور خوبصورتی دیکھی جاسکتی تھی۔ سید فراست رضوی نے تو ایک انتہائی پروقار تقریب اور پر تکلف عشائیے کا اہتمام کیا۔ راقم السطور ظفر معین بلے جعفری ، سید فیاض رضوی ، سید انیس زیدی ، خالد معین ، سید عارف امام ، جاوید صبا ، سید فراست رضوی ، ڈاکٹر عقیل عباس جعفری ، اشفاق حسین (کینیڈا) ، محترمہ نجمہ عثمان صاحبہ (انگلینڈ) ، سینئر شاعرہ اور باوقار خاتون محترمہ نسیم نازش صاحبہ اور اسلام آباد سے تشریف لائے ہوئے ہر دلعزیز ادب پرور جناب راحت سعید نے شرکت فرما کر محفل چار چاند لگا دیئے۔
سید عارف امام کی ادبی خدمات اور بین الاقوامی شہرت و مقبولیت پر بھی گفتگو ہوتی رہی۔ دیگر مختلف ادبی موضوعات بھی زیر بحث آئے۔ جناب انیس زیدی کو اچانک کچھ یاد آیا اور انہوں نے حاضرین محفل کو بتایا کہ انہوں نے سید فخرالدین بلے فن ، شخصیت اور خدمات کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا سید فخرالدین بلے ، ایک چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا ۔ یہ سن کر جناب فراست رضوی صاحب نے سید فخرالدین بلے سے وابستہ مشاہیر ادب کے واقعات کا ذکر فرمایا اور بزرگ شاعر جناب راغب مراد آبادی کے اس شعر پر تان توڑی کہ جو جناب راغب مراد آبادی نے انیس سو پچاس کے اوائل میں منعقدہ اردو کانفرنس میں سید فخرالدین بلے کے حوالے سے پڑھا تھا۔ فراست رضوی کا بیان کردہ راغب مراد آبادی کا یہ شعر آپ بھی ملاحظہ فرمائیے
قوافی اب نہیں ہیں میرے پلے
مدد فرمائیں ، فخرالدین بلے
سیدی عارف امام نے شرکائے تقریب اور میزبان ٹیم کی پر زور فرمائش پر اپنا شاہکار کلام عطا فرمایا اور خوب داد سمیٹی اسی اثنا میں سیدی عارف امام کے دیرینہ ادبی رفیق ہر دلعزیز برادرم جناب جاوید صبا نے عارف امام سے تازہ ترین دو غزلہ کی فرمائش کردی۔ ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے دو غزلہ کا ایک شعر پیش کر رہے ہیں۔
چشمِ زنجیر! تُو نے دیکھا نہیں
ایڑیوں تک لہو لہو ہم تھے