شاعرانہ چراغ روشن ہے
ہے اُجالا چراغ روشن ہے
آپ کے صدقے بھراتھا کشکول
اب یہ مولا چراغ روشن ہے
ہے دِیا کربلا کی مٹی کا
غم ہے تازہ ، چراغ روشن ہے
بھائی عرفاں کو کہتے سُن لیجے
اِن کا دُوجا چراغ روشن ہے
کیا کہوں روشنی تو پھیلے گی
شب ِ یلدا چراغ روشن ہے
دیدنی ہے یہ رنگ ِ شعرو سخن
خوب ، یکتا چراغ روشن ہے
سُن لو عارف امام کہتے ہیں
فکر و فن کا چرا غ روشن ہے
روشنی پھیلتی ہی جائے گی
فکر و فن کا چراغ روشن ہے
جل رہی ہے یہ مسجد ِ اقصیٰ
پَر ،میں سمجھا چراغ روشن ہے
حق و طل کا آئینہ ، دیکھو
ناقدانہ چراغ روشن ہے
ہے اندھیرے میں صبح کا منظر
دیکھو ، کیسا چراغ روشن ہے
آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے
فکر و فن کا چراغ روشن ہے
تجزیہ شاہدہ حسن کا ہے
ہے اُجالا ، چراغ روشن ہے
آتش ِ قلب و جاں کے کیا کہنے
اِس سے تیرا چراغ روشن ہے
روشنی پھوٹتی ہے اندر سے
گویا یکتا چراغ روشن ہے
وقت اِس کو بجھا نہیں سکتا
کہہ دو ایسا چراغ روشن ہے
رہ رہے ہیں سبھی اجالوں میں
مت بتانا، چراغ روشن ہے
فیض ہے یہ بھی پاک دھرتی کا
چاند ، تارہ ، چراغ روشن ہے
نور ساماں ہیں ڈیڑھ سو غزلیں
ہاں ، ادب کا چراغ روشن ہے
احمد ِ شاہ نے سجا کر میلہ
یہ بتایا چراغ روشن ہے
سید عارف امام کا تخلیقی اور فکری چراغ روشن ہے