چھٹی جماعت کا طالب علم گیارہ سالہ عباس رضا زیدی لگ بھگ دو ہزار کتب کی ورق گردانی کر چکے ہیں۔علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ، نسل در نسل لاجواب آئیے آج ہم آپ کو برطانیہ میں مقیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک علمی و ادبی خانوادے کے کمسن اسکالر سے متعارف کرواتے ہیں۔
اس بین الاقوامی شہرت کے حامل نو عمر ہیرو بلکہ کمسن اسکالر سید عباس رضا زیدی کا تعارف کروانے سے قبل ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ ان کے خاندانی پس منظر پر بھی ایک سر سری سی نظر ڈال لیں۔
محسنین ملک و ملت کے خاندانوں کے مشترکہ اور فخریہ شاہکار فرزند جناب سید عباس رضا زیدی کے پر نانا تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ، اردو و فارسی زبان و ادب کے خاموش خدمت گار اور ریڈیو پاکستان سے آواز کے دوش پر دنیا بھر کو مطلع فرمانے والے کہ پاکستان معرض وجود میں آ چکا ہے اور یہ ریڈیو پاکستان ہے جی ہاں ہماری مراد ہے جناب سیدی سرکار سید مصطفی علی ھمدانی صاحب سے ہے کہ جنہیں براڈکاسٹنگ کی دنیا کا مہاراج مانا گیا اور ان کے نام اور کام مقام اور خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ ان کے حقیقی ، علمی و ادبی وارث جناب سید صفدر ھمدانی صاحب کو ریڈیو اور براڈ کاسٹنگ کا ہی نہیں بلکہ شعبۂ صحافت ، ادب اور صداکاری کا بے تاج بادشاہ قرار دیا گیا ہے۔ شعرائے اہل بیت اطہار ع کی فہرست میں بھی ان کا اسم مبارک اہم اور نمایاں نظر آتا ہے۔
کمسن اسکالر سید عباس رضا زیدی کے بارے میں بتاتے چلیں کہ وہ سید ندیم رضا زیدی کے فرزند ہیں جبکہ ان کی والدہ محترمہ زہرا صفدر زیدی صاحبہ جناب صفدر ھمدانی اور محترمہ ماہ پارہ صفدر کی دختر نیک اختر ہیں۔ محترمہ ماہ پارہ صفدر صاحبہ پاکستان ٹیلی وژن کی نامور ، مقبول اور ہر دلعزیز نیوز کاسٹر رہی ہیں۔ بعدازاں بی بی سی اردو سروس سے وابستہ ہوگئیں اور پاکستان سے انگلینڈ منتقل ہوگئیں۔ انہیں ایک ممتاز سیاسی ، ادبی اور سماجی تجزیہ کار کی حیثیت سے بھی جانا اور مانا جاتا ہے۔ بحثیت شاعرہ ، ادیبہ اور کالم نگار بھی انہیں نیک نامیاں حاصل ہوئیں۔ ان کا یو ٹیوب چینل بھی مقبول ترین چینلز میں شمار کیا جاتا ہے۔ محترمہ ماہ پارہ صفدر کی خود نوشت میرا زمانہ ، میری کہانی ، حال ہی میں بک کارنر ، جہلم کے توسط سے منظر عام پر آئی ہے بلکہ آتے ہی دھوم مچا چکی ہے۔ محترمہ ماہ پارہ زیدی کے والد گرامی سید حسن عباس زیدی انتہائی زیرک انسان تھے۔ ان کا شمار سرگودھا کی ممتاز علمی و ادبی شخصیات میں کیا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی ، پروفیسر غلام جیلانی اصغر ، ڈاکٹر انور سدید ، پرویز بزمی اور عبدالرشید اشک جیسے متعدد صاحبان علم و بصیرت سے دوستانہ مراسم کے باوجود بھی سید حسن عباس زیدی کا حد درجہ احترام کیا کرتے تھے۔ جبکہ بیگم سید حسن عباس رضا صاحبہ بھی حد درجہ زیرک خاتون تھیں۔ گھریلو خواتین میں اس جیسی فہم و فراست کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے کہ جیسی ان میں دکھائی دیتی تھی۔
سید عباس رضا زیدی کل تین بہن بھائی ہیں اور انہیں ولی عہد ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ ان کا ایک چھوٹا بھائی سید حسنین رضا زیدی ہیں جبکہ ان کی چھوٹی بہن کا نام۔ زینہ زیدی ہیں۔ عباس زیدی پرائمری اسکول سےفارغ التحصیل ہوکر چھٹی جماعت میں داخلہ لے کر اپنی مرضی اور پسند کے گرائمر ہائی اسکول سے وابسطہ ہوئے ہیں۔
سید عباس رضا زیدی کمال کی شاعری فرماتے ہیں۔ تحریر و تقریر کے مقابلوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ان مقابلوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ کتب بینی کا شوق اور جنون انہیں ورثے میں ملا۔ وہ گلوبل وارمنگ کے شعبے میں پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ پاکستان اور پاکستانیت ان کی سرشت میں شامل ہے۔ جب کبھی پاکستان کا کسی بھی دوسرے ملک سے کوئی میچ یا مقابلہ ہوتا ہے تو ان کی دعائیں اور نیک تمنائیں پاکستان کی ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں۔ سید عباس رضا زیدی جزبۂ حب الوطنی سے سرشار ایک سچے اور کھرے پاکستانی ہیں۔ لگ بھگ دو ہزار کتب کا مطالعہ کرنے والے عباس رضا کا کہنا ہے کہ انہیں کتب بینی کے حوالے سے تاریخ ، فکشن اور دیگر موضوعات پسند ہیں۔ ان سے گفتگو کرکے ان کے حیرت انگیز پر عزم اور پر اعتماد ہونے کااندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سید عباس رضا زیدی جیسے بچوں کی جس قدر ممکن ہوسکے حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے ہم عمر بچوں اور نئی نسل کے سامنے ان کی مثال پیش کی جائے۔ کیونکہ مثبت رحجانات اور رویے اتنی آسانی سے نہیں پنپا کرتے۔
ایک زبان کے ادب کا دوسری زبان میں ترجمہ: مسائل اور چیلنجز
ادب کا ترجمہ ایک فن ہے جو محض الفاظ کا ترجمہ کرنے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ثقافت،...