جولائی کی گرمی میں سیاست کی گرمی بھی شامل ہوگئی ہے اور اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ لوگوں کی عام زندگی میں بھی سیاسی اصطلاحات در آئی ہیں‘ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو دن پہلے ہمارے محلے کے ایک صاحب کی اپنی اہلیہ لڑائی ہوگئی‘ اہلیہ ناراض ہوکر ماں باپ کے گھر چلی گئیں۔ شوہر نے انہیں فون کیا کہ اب واپس آجاؤ ۔ جواب ملا ’’اب میں ایسے ہی واپس نہیں آؤں گی‘پہلے خاندان کے لوگوں کی جے آئی ٹی بیٹھے گی پھر فیصلہ ہوگا۔‘‘
محلے کے دوکاندار سے شیمپو خریدنے گیا تو اس نے ایک نئے برانڈ کا شیمپو ہاتھ میں پکڑا دیا۔ گذارش کہ کہ وہی پرانے والا درکار ہے۔ منہ بنا کر بولا’’چھوڑیں جی اُس کو ‘ وہ تو کب کا نااہل ہوچکاہے‘‘۔گاڑی کے ٹائر میں ہوا کم تھی‘ شک ہوا کہ شائد پنکچر نہ ہو‘ دوکان پر پہنچا ، لڑکے نے ٹائر اتار کر ہوا بھری‘ پانی والے ٹب میں اچھی طرح غوطے دیے اور تھوک لگا کر ’وال‘ چیک کرتے ہوئے بولا’’صاحب جی! پنکچر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ پہلے جو لوگ گاڑی میں پٹرول ڈلواتے وقت ’پرچی‘ مانگتے تھے وہ اب ’رسید‘ مانگنے لگے ہیں۔ اور تو اور ابھی تھوڑی دیر پہلے اے ٹی ایم سے کچھ پیسے نکلوانے تھے۔ کیبن کے اندر گیا تو فرش پر سینکڑوں مشینی رسیدیں پھٹی پڑی تھیں‘ میں نے باہر نکل کر گارڈ سے کہا کہ یہاں کوئی صفائی نہیں کرتا؟ بے بسی سے بولا’’کرتا تو ہے لیکن پھر بھی لوگ اپنی منی ٹریل یہیں پھینک جاتے ہیں‘‘۔
یقین کیجئے دم گھٹنے لگتاہے اس قدر سیاسی ماحول میں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ واٹس ایپ پر کوئی لطیفہ آجاتاتھا‘ کوئی مزاحیہ وڈیو کلپ موصول ہوتا تھا اور بے اختیار ہنسی نکل جاتی تھی۔ اب تو واٹس ایپ کھولتے ہوئے بھی ڈر لگتاہے‘ ہر دوسرا میسج سیاسی ہوتاہے اور بھیجنے والے کا بس نہیں چل رہا ہوتا کہ وہ ہر لمحہ منٹ بعد فیس بک سے ایک سیاسی پوسٹ کاپی کرکے بھیجے اور اپنی پارٹی کوصحیح ثابت کردے۔بھلا ایسے بھی کوئی قائل ہوتا ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے مخالف سیاسی جماعت کے بارے میں مدلل تحریر کسی کا نقطہ نظر تبدیل کردیتی ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بندہ غصے میں اور زیادہ پکا ہوجاتاہے۔ اصل میں یہ دلیلیں ہیں ہی نہیں‘ یہ طعنے ہیں‘ جگتیں ہیں اوربس۔۔۔!!!دلیل دینے والے تو خود ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ ان کی دلیل کے ’’د‘‘ کے اوپر نقطہ لگانے کو جی چاہتا ہے۔یقین کریں میں تو ترس گیا ہوں کہ میرے وہ دوست جو شگفتہ چیزیں شیئر کیاکرتے تھے وہ کہاں گئے؟ سیاست نے ہر شخص کو وحشی بنا دیا ہے اسی لیے زبان بھی ویسی ہی ہوگئی ہے۔ مجھے جو قارئین فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجتے ہیں میں ان کے پروفائل میں جاکر بطور خاص چیک کرتا ہوں کہ کاش کوئی سیاسی پوسٹ نظر نہ آئے اور میں ریکوئسٹ قبول کرلوں‘ لیکن لگ بھگ ہر بندے نے بساط بھر حصہ ڈالا ہوا ہوتاہے۔میری حتی الامکان کوشش ہے کہ میں سیاست پر کچھ نہ لکھوں‘ قوم کو شائد سیاست کی اتنی ضرورت نہیں جتنی ہنسنے مسکرانے کی ہے۔کیوں نہ خوشی کی بات کریں‘ قہقہوں کی بات کریں۔ روز روز تو چکن بھی نہیں کھایا جاتا‘ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر کالم ہی سیاسی ہو اور پڑھا بھی جائے۔ویسے سیاسی کالم لکھنا میرے بائیں پاؤں کا کھیل ہے‘ تجزیہ بے شک میرا دو ٹکے کا نہ ہو لیکن کالم کا پیٹ میں دس منٹ میں بھر سکتا ہوں۔یقین کریں بعض سیاسی کالم پڑھ کر مجھے کالم نگاروں پر رشک آتا ہے کہ خدا نے انہیں کتنی بڑی سہولت دی ہوئی ہے کہ روز کوئی نہ کوئی سیاسی واقعہ رونما ہوجا تاہے اور روز اِنہیں اپنے کالم کے لیے مواد مل جاتاہے۔ میرے لیے تو کالم لکھناکنواں کھودنے کے مترادف ہے۔ہر دوسرے تیسرے روز کوئی شگفتہ بات تلاش کرنے کے چکر میں دماغ پھاوا ہوجاتاہے ۔چار چار گھنٹے گذر جاتے ہیں اور ایک لائن تک نہیں سوجھتی۔ یہ میرے نکمے پن کی بہت بڑی علامت ہے لیکن جب کوئی میری تحریر پڑھ کر زیرلب بھی مسکراتاہے تو اللہ جانتا ہے مجھے لگتاہے جیسے میری بخشش کا سامان ہوگیا ہے۔میرے لیے ٹوٹا پھوٹا مزاح لکھنا بھی کسی جاں لیوا ورزش سے کم نہیں لیکن اتنی ہمت ضرور بندھی رہتی ہے کہ بے شک بے کار لکھ رہا ہوں لیکن سیاست پر نہیں لکھ رہا۔
پہلے پیرے کی طرف واپس آتے ہیں۔۔۔سیاسی زبان عام ہونے کا ایک اور مظاہرہ کل دیکھنے کو ملا جب محلے کی اماں جیراں پوچھنے لگی کہ ’’بیٹا! کرپٹ کسے کہتے ہیں؟‘‘۔ مجھے پتا تھا کہ اماں کو زیادہ باریک بات سمجھ نہیں آئے گی لہذا کچھ دیر سوچ کر کہا’’اماں ! کرپٹ کا مطلب ہے خراب‘‘۔صبح اماں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہاتھ میں دوائیاں پکڑی ہوئی تھیں۔ میں نے خیریت پوچھی تو کہنے لگیں’’بس بیٹا موسم کی وجہ سے میری بیٹی کی طبیعت کرپٹ ہوگئی تھی، اُسی کی دوائی لے کر جارہی ہوں‘‘۔
سیاست نے لوگوں کو ایسا ’سیاسی‘ بنایا ہے کہ میرے آفس بوائے کی بہن کی شادی تھی‘ اس کے والد صاحب میرے پاس آئے او ر کہنے لگے کہ شادی ہال والا آپ کا واقف ہے آپ ذرا اس سے سفارش کردیں کہ کچھ ڈسکاؤنٹ کردے۔ میں نے کہا ابھی فون کردیتا ہوں لیکن آپ نے وہ شادی ہال کیوں پسند کیا ؟ وہ تو آپ کے گھر سے بہت دور نہیں؟ بے بسی سے بولے۔۔۔آ پ ٹھیک کہتے ہیں لیکن سارے گھر والوں کا بھاری مینڈیٹ اِسی شادی ہال پر متفق تھا۔میں نے کہا ’’بیٹی کی والدہ یعنی آپ کی اہلیہ کا ووٹ تو آپ کے حق میں ہوگا؟‘‘ آہ بھر کر بولے’’اہلیہ میرے ساتھ نہیں رہتیں‘ اُن کے ساتھ میرا سسٹم آج سے پندرہ سال پہلے ڈی ریل ہوچکا ہے‘‘۔
مسجد یں بھی سیاسی زبان سے محفوظ نہیں رہیں‘ کل عصر کی نماز کے بعد حاجی رفیق صاحب بڑے افسردہ سے نظر آئے۔ پوچھنے پر بتانے لگے کہ گھٹنے کے درد کی وجہ سے رکوع اور سجدے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے‘ کافی علاج کرایا ہے لیکن ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ نیا گھٹنا ڈالنا پڑے گا اور پرانے گھٹنے سے ’مستعفی‘ ہونا پڑے گا۔
سب سے دلچسپ صورتحال میرے دوستوں کے ساتھ پیش آئی۔ ایک موصوف کو نیا گھرپسند آگیا‘ اب اس کا انتقال اپنے نام کروانا تھالیکن جونہی انہیں طریقہ کار کا علم ہوا انہوں نے فوراً مکان خریدنے سے انکار کردیا۔ بیوی نے بڑا سمجھایا کہ نہایت مناسب قیمت میں اتنا اچھا مکان مل رہا ہے کیوں نہیں خرید رہے؟ پہلے تو وہ ٹال مٹول کرتے رہے ‘ پھر ایک دن پھٹ پڑے کہ مکان کا انتقال کروانے کے لیے مجھے پٹواری کے پاس جانا ہوگا اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں پٹواری کے پاس جاؤں۔ دوسرے دوست کو کرکٹ کا بہت شوق ہے لیکن یہ دنیا کا واحد شخص ہے جو ہاکی سے کرکٹ کھیلتاہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’بلے ‘ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔یہ اور ان جیسے بہت سے دوست میرے بہت اچھے دوست تھے ‘ ایک فیملی کی طرح سے تھے۔۔۔ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے تھے‘ لیکن اب یہ ایک دوسرے کو درباری کہتے ہیں‘ پٹواری کہتے ہیں‘ نچواری کہتے ہیں‘ ایک دوسرے کو زہر بھرے الفاظ واٹس ایپ کرتے ہیں۔پہلے یہ دوست کو خوش دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔۔۔اب ڈھونڈ ڈھونڈ کر اذیت کے سامان بھیجتے ہیں ۔۔۔دوستوں کی دوستی بھی سیاسی ہوچکی ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔