سوئٹزرلینڈ کا نام سن کر آپ کے ذہن میں کیا کچھ آتا ہے؟ سوئس بینک؟ قیمتی گھڑیوں کی کمپنیاں؟ نیسلے؟ سرن لیب؟ اقوامِ متحدہ؟ نوارٹس؟ فٹ بال ٹیم؟ جنیوا اور زیورخ؟ سیاحتی مقامات؟ پنیر؟ ریڈ کراس؟ یا کچھ اور؟
ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ آیا ہو لیکن چیلنج سوال یہ نہیں۔ کیا آپ یہاں کے سربراہ (صدر) کا نام بتا سکتے ہیں؟ موجودہ کا یا پچھلے دو سو سال میں گزرنے والے کسی بھی صدر کا؟
اگر نہیں تو پریشانی کی بات نہیں، سوئٹرزلینڈ کے بہت سے شہری بھی اپنے موجودہ صدر کا نام نہیں بتا سکتے۔ ایسا کیوں؟ کیا یہاں پر لوگ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے؟ ایسا نہیں۔ یہاں پر نہ صرف سیاسی معاملات میں دنیا کے باقی ممالک سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اوسطا ہر چار ماہ بعد ووٹ ڈالتے ہیں اور ساٹھ فیصد سے زائد لوگ سیاسی معاملات پر اپنا حقِ رائے دہی ووٹ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ نہ اپنی زرعی ضروریات پوری کر سکتا ہے اور نہ ہی یہاں پر کوئی دوسرے ریسورسز ہیں۔ یہ دنیا کے دس امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے اور اوسط عمر کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 2015 میں ہونے والے سروے کے مطابق دنیا کے خوش ممالک میں یہ اول نمبر پر تھا۔ پڑھے لکھے ممالک میں اس کا شمار چھٹے نمبر پر ہے۔
اب آپ یہ دیکھ کر بتائیے کہ آخر اتنے پڑھے لکھے اور سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اپنے ہی ملک کے سربراہ سے اتنے ناواقف کیوں ہیں اور ہر ریسورس کے لحاظ سے غریب یہ ملک اتنا امیر کیوں ہے؟
(اگر کسی کا خیال یہ ہے کہ اس کی وجہ آف شور ہیون ہونا ہے تو وہ درست نہیں۔ پانامہ، لائیبیریا اور دوسرے کئی ممالک میں غیرقانونی دولت رکھنا یہاں کے مقابلے میں بہت آسان ہے)