دورِ جدید میں ایک ہی خاندان کے افراد ایک دوسرے کی موجودگی میں اکثر اوقات موبائل فون تھامے مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کی عجب خوبی ہے کہ ایک طرف اس نے طویل فاصلے مٹادئے ہیں تو دوسری طرف ایک ہی گھر میں خاندان کے افراد کے بیچ فاصلے پیدا کئے ہیں۔
خاص کر آج کل بڑھے بوڑھے نوجوان نسل سے یہ گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ نوجوان اپنے بزرگوں کو وقت نہیں دے پاتے۔ مسائل آن لائن سوشل فورمز پر زیرِ بحث لائے جانے لگے ہیں۔ نت نئے تجربات گھر والوں سے بیان کرنے کی بجائے سب سے پہلے سوشل میڈیا پر بیان کئے جاتے ہیں۔
پشتون تاریخ اور تہذیب و ثقافت کا مطالعہ کریں تو اس میں آج کل کے کئی سوشل میڈیائی پلیٹ فارمز کا مؤثر متبادل ’حجرے‘ کی شکل میں ملتا ہے۔ حجرہ اس عمارت کو کہا جاتا ہے جہاں معاشرتی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ اس بیٹھک میں علاقے کے بچے اوربوڑھے سب ہی باقاعدگی سے شرکت کیاکرتے تھے۔
تاریخی حجرہ کا وہ حصہ جہاں حجرہ قائم کرنے والے اولین افراد قیام کرتے تھے— فوٹو راقم الحروف
ان حجروں کی خاصیت یہ تھی کہ وہاں سیاسی، سماجی اور دیگر مسائل زیر بحث لائے جاتے تھے۔ علاقے کے بزرگ اپنے تجربے کی بنیاد پر مسائل کا حل بتایا کرتے تھے اور یوں بڑے بڑے مسائل منٹوں میں حل ہوا کرتے تھے۔ان حجروں میں مسائل پر بات کرنے کے علاوہ وقت گزاری کرنے کے لئے بھی شرکت کی جاتی تھی۔
لوک کہانیاں ہوں یا بڑے بوڑھوں کے دلچسپ اورحقیقت پر مبنی قصے ، حجرہ ہمیشہ اپنے آنے والوں کونت نئے تجربات سے آشنا کراتا۔ چوں کہ حجرے میں پورے گاؤں کے لوگ شرکت کیا کرتے تھے، اس لئے لوگوں کے باقاعدگی سے میل ملاپ کی وجہ سے ان میں اتفاق و اتحاد قائم رہتا تھا۔
اس کے علاوہ ان حجروں کو مکتب کا درجہ بھی حاصل تھا، جہاں سے خصوصاً نوجوان طبقے کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔ کسی نوجوان سے کوئی غلطی سرزد ہوتی تو اکثر پشتون بزرگ انہیں طعنہ دیا کرتے تھے کہ ’بیٹا!لگتا ہے تم سکول پاس ہو لیکن حجرہ پاس نہیں ۔‘ یعنی کہ نوجوانوں کو حجرے میں شرکت کرنے کی ترغیب کی جاتی تھی تاکہ وہ وہاں سے رہن سہن، معاشرتی آداب اور دوسری ضروری چیزیں سیکھ سکیں۔
خیبر پختونخواہ کی خوبصورت وادی سوات میں قدیم دور کا حجرہ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔اسے آج سے ڈیڑھ سو سال قبل، یعنی پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔اس لئے اسے خیبر پختونخواہ کے قدیم ترین حجروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس حجرہ کو پوری وادیٔ سوات میں ’’شموزئی حجرہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
شموزئی حجرہ اپنی اصل حالت میں نہ صرف برقرار ہے بلکہ یہ اہلِ علاقہ کے زیرِ استعمال بھی ہے۔ پختون علاقوں میں حجروں کی معدوم ہوتی روایت میں اس حجرے کا قائم اور زیر استعمال رہنا اسے منفرد بناتا ہے۔ اس حجرے میں تعمیراتی اور سماجی، دونوں خصوصیات موجود ہیں۔
حجرے میں مہمانوں کے قیام کے لئے تقریباً سترہ کمرے موجود ہیں۔ ان کمروں کے علاوہ حجرے کا زیادہ تر رقبہ کھلی اور ہوا دار جگہ پر محیط ہے۔ یہاں اشتراکی محفلیں کمروں کی بجائے عموماً کھلی جگہ میں ہوا کرتی تھیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایک ہی جگہ بیٹھ کر بات چیت کیا کرتی تھی۔ علاقے کے بزرگ، نوجوان اور بچے قطار در قطار سجائی گئیں روایتی چارپائیوں پربراجمان ہوکر علاقے کے مسائل اور دیگر موضوعات پر بات چیت کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حجرے کے وسیع صحن میں رقص اور موسیقی کی محفلیں بھی ہوا کرتی تھیں۔
حجرہ میں قائم وہ کمرہ جہاں ریاست سوات کے حکمران قیام کرتے تھے— فوٹو راقم الحروف
یہ حجرہ خوشی غمی، ہر موقع پر کھلا رہتا تھا۔ جسے علاقے کا ہر فرد اور ہر خاندان ضرورت کے وقت استعمال میں لانے کا اختیار رکھتا ۔ اس حجرے کی عمارت کو پتھر کی چنائی، پرانے دور کی عمارتی لکڑی اور اس پر کندہ کاری کے حسین امتزاج نے حسن بخشا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے تعمیراتی کام کو ثقافتی ماہرین قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ شموزئی حجرہ میں لکڑی پر کندہ نقش و نگاراس وقت کے فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔ یہاں موجود لکڑی کے ستون، فریم اورلکڑی سے بنے دوسرے حصوں پر خوبصورت نقش و نگار کا کا م سواتی طرز کا ہے، جو آ ج بھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں آنے والا ہرفرد لکڑی پر بنائے گئے خوبصورت نقش و نگار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
حجرے میں موجود کمروں کے دروازے اور کھڑکیاں بھی مضبوط لکڑی سے بنائی گئی ہیں۔ یہ دروازے اور کھڑکیاں اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔
سمیطہ احمد اپنی کتاب ’لکڑی اور پتھر میں شاعری‘ میں مذکورہ لکڑی کے کام کے حوالہ سے لکھتی ہیں: ’شموزئی حجرہ، سواتی طرزِ تعمیر کا ایک نمونہ ہے، جس میں پتھر اور لکڑی کا کام پایا جاتا ہے۔ سماجی طور پر بھی اس میں وہ سارے عنصر موجود ہیں جو ایک حجرے میں پائے جاتے تھے۔ والیٔ سوات (میاں گل عبدالحق جہانزیب) کے قیام کے لیے بھی اس میں ایک خاص کمرہ موجود تھا۔‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حجرے کی عمارت کے بعض حصے زبوں حالی کا شکار بھی بنے۔ تاہم سوات شرکتی کونسل کے تعاؤن سے حجرے کو ٹھیک کیا گیا۔
اس حوالہ سے سوات سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن حاضر گل بتاتے ہیں کہ ’اس تاریخی ورثہ کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے ’سوات شرکتی کونسل‘ نے اس کی دوبارہ آبادکاری اور محفوظ کرنے کا ایک منصوبہ ’پرنس کلاز فنڈ، نیدرلینڈ‘ کو پیش کیا۔
تاریخی شموزئی حجرہ کا منظر— فوٹو: راقم الحروف
منصوبہ کا مقصد سوات کے خصوصی طرزتعمیر کے حامل اس حجرہ کو نہ صرف دوبارہ اپنی اصل شکل میں بحال کرنا تھا بلکہ اس حجرہ میں استعمال ہونے والی لکڑی پر کندہ کاری کے نمونوں کو طویل مدت کے لیے محفوظ کرنا بھی مقصود تھا۔ حجرہ کی دوبارہ آبادکاری کے اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے سواتی طرزِ تعمیر اور قدیم سواتی کندہ کاری کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں اور ضرورت کے مطابق پرانی اور بوسیدہ دیواروں اور لکڑی کے بنے ہوئے حصوں کی مرمت کرائی گئی۔ حجرہ کے لان اور اس سے گزرنے والے راستوں کے تزئین و آرائش کا کام سلیقہ مندی سے انجام دیا گیا ہے۔‘
شموزئی حجرے کی 150 سالہ تاریخ اپنے سینے میں تین ادوار کی تلخ و شیریں یادیں دفنائے ہوئے ہے۔ پہلا دور قدیم پختو(پشتو) دور کہلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں کئی اہم پشتون رہنمایہاں قیام بھی کرتے اور اپنے باہمی تنازعات اور مسائل بھی حل کرتے تھے۔
دوسر ا ریاستِ سوات کا دور ہے۔ ریاست کے والی اس حجرے میں قیام کرتے تھے اور ممکنہ طور پر ریاستی دور کے کئی اہم فیصلے بھی اسی حجرے میں کئے گئے۔
تیسرا دور ریاست سوات کے انضمام کے بعد آتا ہے۔ 1969ء میں ریاست سوات کا پاکستان میں انضمام ہوا۔ تب سے لے کر آج تک یہ تاریخی حجرہ پاکستان کا حصہ ہے۔
بحوالہ احسان علی خان سوات
سرچ حاجی میاں علی نواز مدے خیل گنیار تھانہ
“