غالباً 117 لانگ کورس کی پاسنگ آؤٹ کے دن تھے۔ میں پاکستان ملٹری اکیڈیمی میں پلاٹون کمانڈرتھا۔ پاسنگ آؤٹ پریڈ سے پہلے کی ایک روشن رات فرسٹ پاکستان بٹالین میس میں آرمی سکول آف میوزک کے ساز ابھی ابھی اے وطن کے سجیلے جوانو چھیڑ کر خاموش ہوئے تھے۔
ماحول کچھ کچھ جذباتی ہوچلاتھااورکیوں نہ ہوتا
117 کےکیڈٹس نےپاس آؤٹ ہوکرسرحدوں کے مسافرہوناتھااورجیسےکہ روایت ہےایبٹ آبادکےآرمی سکول آف میوزک کاکیل کانٹےسےلیس بینڈ انہیں غنائی الوداع کہنےاورخراج عقیدت پیش کرنےآیاتھا
اس شام کےمیزبان کراری آوازوشیریں لحن والےایک ریٹائرڈمیجرصاحب تھے صاحب آج بھی جزئیات کے ساتھ یادہے، میڈم نورجہاں کی گائی اگلی دھن پیش کرنے سے پیشتر میجر صاحب نے ایک تیقن کے عالم میں بصد ناز کہا تھا
Ladies and Gentlemen! The full moon outside is not a coincidence. It’s been precisely placed for our next melody of the night
چاندنی راتیں !
اور آرمی سکول آف میوزک کے بینڈ نے وہ ایوارڈ وننگ دھن بجانی شروع کی جس نے حال ہی میں جرمنی میں فوجی دھنوں کے ایک مقابلے میں اول انعام جیتا تھا۔
سب جگ سوئے ہم جاگیں
تاروں سے کریں باتیں
…
ابھی ہم اس نغمے کے فسوں سے نکل بھی نہ پائے تھے کہ میجر صاحب دوبارہ نمودار ہوئے اس دفعہ تمہید باندھے بغیر اگلی دھن کا اعلان کیا کہ وہ کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ شنوارے لاونگینہ
غیور پختونوں کی اپنی گل زمیں سے چاہت کے رنگوں میں رنگی لازوال دھن
محاذ کی گرمی ہو یا ٹریننگ کی گرمجوشی ایک خون گرم کرتے الاؤ کی دہکتی روشنی میں ایسا کیسے ممکن ہے کہ تالیوں کی تھاپ پہ اٹن نہ کھیلا جائے اور وہاں بجنے والی دھنوں میں شنوارے لاونگینہ نہ ہو
تو صاحبو کاکول میں جبکہ بات وہ آدھی رات کی تھی اور رات بھی پورے چاند کی، آرمی سکول آف میوزک کے میجر صاحب کی آواز کا رچاؤ ہمیں ایک نئے سرے سے زارسنگا اور داؤد حنیف کے گائے اس گانے کا اسیر کرگیا جس میں دو ندیوں اور انکے جھلملاتے پانیوں کا ذکر ہے
میرےپردیسی تُوکیوں اپنےوطن کونہیں پلٹتاکہ اپنےدیس سےکٹابادشاہ بھی پردیس کی زمینوں کاگداگر ہے
پلٹ آ کہ اس گل زمین میں دوندیاں ہیں جوجب ملتی ہیں تو ان کےپانی نئی جلترنگ بجاتےہیں
شنوارے لاونگینہ ، شنوارے لاونگینہ
کاکول کی اس رات سے کچھ سال ادھرکا ذکر ہے کہ ایک مینیجر آؤٹ ریچ اور پشاور ریجن کا کوآرڈینیٹر جب مردان سے صوابی کے راستے کے مسافر تھے تو ایکسل لیب کی ہنڈا سٹی میں جو دھن بجتی تھی اس کی ترنگ میں زارسنگا اور داؤد حنیف ایک مستی میں گاتے تھے
شنوارے لاونگینہ۔ شنوارے لاونگینہ
اسی مردان ۔ صوابی روڈ پر تھوڑا آگے نواں کلے کے پاس کیپٹن کرنل شیر شہید نشانِ حیدر کا مزار ہے۔فیصل آباد کا عمران اور کرک کا نہال خٹک اس مبارک دن چند ساعتوں کے لیے صوابی کے شیر کے مہمان تھے
صوابی کا شیر جو آج تو اپنے مدفن میں محوِ استراحت ہے مگر جولائی کے اس چڑھتے دن جب 12 ناردرن لائٹ انفنٹری کے مٹھی بھر جوانوں کے ساتھ اس نے ٹائیگر ہل پر ہلّہ بولا تھا تو سر سے کفن باندھےجان کی پرواہ نہ کرتےان شیر دلوں کی جوانمردی میں اسی گل زمین کی ندیوں کے جھلملاتے پانیوں کی چمک تھی
کہ یہ پانی جب ملتے ہیں تو ایک ترنگ میں گاتے ہیں
شنوارے لاونگینہ
ویڈیو لنک
’فرنٹیئرمیں نہایت عمدہ قسم کا ورجنیا تمباکو پیدا ہوتا ہے۔ انگلینڈ کو تمباکو اور سرطان سے ہمکنار کرنے کا سہرا سر والٹر رائے کے سر ہے۔‘
اس مختصر مگر جامع تمہید کے بعد یوسفیؔ کو انکے باس نے اسی برگِ حرام پر ریسرچ کی خاطر خان سیف الملوک خان کے حوالے کردیا تھا کہ وہ مردان کے نواح کا رہنے والا قبائلی تھا۔ جی ہاں وہی پاکستان میں تمباکو کی جنت مردان۔
اسی طرز کی کچھ ملتی جلتی تعارفی تمہید ایکسل لیب کی جی فور میٹنگ میں بھی باندھی گئی، ’عمران صاحب فرنٹیئر میں ہمارے کلیکشن پوائنٹس پشاور میں ہیں۔
گردونواح کی قبائلی پٹی یہاں تک کہ سرحد پار جلال آباد بلکہ کابل تک کے مریض حیات آباد آتے ہیں۔ پشاور میں بہت بزنس پوٹینشل ہے‘
اور ہمیں پشاور کے حوالےکردیا گیا۔ یہ اور بات کہ قبائلی خون اور خوانین کے دیگر خارجی و پوشیدہ مواد کے لیبارٹری ٹیسٹوں کے بزنس پوٹینشل میں ہماری مدد کے لیے بنوں اورکرک کی نواحی پٹی کانیم قبائلی مسمی نہال خٹک ہم اپنےجہیز میں اسلام آباد سےساتھ لے کرگئے۔ نیاعلاقہ، نئی ٹیم اورنہال خٹک کاساتھ
بابامحمد یحیٰ خان نےاپنی کتاب پیا رنگ کالا کےپس ورق پر ہیر وارث شاہ کا ایک شعر نقل کیا ہے
عاشق بھور فقیر تے ناگ کالے
باجھ منتروں موُل نہ کِیلیے نی
باباجی لکھتے ہیں یہ چاروں ہی اندر باہر سے کالے ہوتے ہیں۔ ان چاروں کالوں سے راہ و رسم استوار کرنا ایک مشکل امر ہے کہ یہ کسی کے متر نہیں ہوتے۔
ہمارے ساتھ صورتحال ذرا فرق تھی۔ فرنٹیئر کی سنگلاخ گل زمین کے زندہ دل یارباش پختونوں سے راہ و رسم استوار کرنا بالکل بھی دشوار نہیں آپ ان سے انکی ماں بولی پشتو میں بات کیجیے اور پھر دیکھیے۔ اب ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہم پشتو میں صرف اپنا نام ٹھیک ٹھیک ادا کرسکتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ کسی ہنگامی حالت میں سیمپل دینے یا پھر حوائجِ ضروریہ سے فراغت پانے کے لیے ٹائلٹ کا راستہ تک ہمیں پشتو میں پوچھنا نہیں آتا اب ایسے میں ایکسل لیب کی پشاور کی ٹیم کو کیسے کِیلتے۔ نہال کے ساتھ معاملہ البتہ مختلف تھا۔ ایک نجیب الطرفین خٹک تو ڈھول کی ایک تھاپ یا پھر الغوزے کے ایک مدھر سُر کی مار ہے اور ہمارے ترکش میں تو ہلکا پھلکا پشتو ٹنگ ٹگور (راگ رنگ) سمایا ہوا تھا کاکول کی پورے چاند کی رات میں شینوارے لونگینہ کے خمار میں جو زارسنگا کے اسیر ہوئے تو ہماری گاڑی کی پلے لسٹ پر پشتو گانوں کی کیٹیگری نمودار ہوگئی اور اس میں زارسنگا نے مستقل جگہ بنالی۔ اسلام آباد سے پشاور کی ایک ایسی ہی ڈرائیو میں ایک رسیلی دھن کے سُروں پر زارسنگا کی چاندی کے پانی میں دُھلی آواز کے ہتھیار سے ہم نے نہال خٹک کو زیر کیا تھا
پہ رو رو کیدا قدمونا اشنا
شرنگ دا پازیب دی الامونہ خبروینا اشنا
او میرے محبوب اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھو
کہ تمہاری پازیب کی جھنکار تو دنیا کو جگانے کو پھرتی ہے
لنک
مرشدی وآقائی مشتاق احمد یوسفیؔ نےاپنے مردان کے قبائلی خان سیف الملوک خان کا جوسراپا باندھاہے ہمارے لفظ تو اسکی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتے مگر کیا کریں کہ ایک پختون سراپے میں اکثر فیچرز تو آرتھوڈوکس (روایتی) ہوتے ہیں۔ ہم اتنا ضرورکہیں گے کہ ایک نکلتے ہوئے پٹھان قد اسی قدر بڑے منہ اور راست تناسب میں نکلتی مضبوط کاٹھی۔ اب اس چوڑے ڈیل ڈول پر آپ گھنگھریالے بال اور داڑھی مونچھ سے بے نیاز ایک معصوم صورت کا تصور کرلیجیے تو یہ نہال تھا۔ اور پھر اس پر دل کو موہ لینے والی ایک کھِلی کھِلی مسکراہٹ
او خاندا چہ رنگ دے خہ شی
(ہنسو کہ تمہارے چہرے پہ کچھ تو رنگ چڑھے)
نہال ہمیں عمران صاحب کہہ کےمخاطب کرتامگر جہاں صیغۂ غائب میں ہماری طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تومحمود وایاز ایک کردیتا۔سٹاف سےہماراتعارف کراتےہوئے، ’یہ عمران صاحب ہیں۔ یہ اسلام آبادسےابھی ایدھر آیاہے۔ اس کوکہہ کےبلانا پڑتاہےمڑاایدھر تمہاری ضرورت ہے۔ کبھی کبھی تو سنتا ہی نہیں ہے۔‘
ہم اس لیےاس کابرانہیں مناتےتھے کہ وہ اپنےوالد کاذکربھی اسی پیرائے میں کرتا تھا حالانکہ ان کے نظام الاوقات اور غصے سے خود کی جان نکلتی تھی۔ بڑے خان جی کچھ عرصہ فوج سے ہو آئے تھے۔ ساری عمر انہوں نے اولاد کو شیر کی نظر سے دیکھا تھا۔ نہال کو دیکھ کے لگتا تھا کہ ابھی تک دیکھ رہے ہیں ہماری ان سے فون پر ایک دفعہ بات ہوئی تھی۔ نہال کی جغرافیائی نقل و حمل کام کے سلسلے میں پشاور اور ویک اینڈ پر اپنے والد اور ہماری بھابھی سے ملنے کرک تک محدود تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ ہمارے گروپ نے جس میں پاکستان ایئر فورس کے کچھ کارگر اور کچھ ناکارہ پائلٹ شامل تھے ایک ویک اینڈ پر حویلیاں کی قربت میں سجی کوٹ جانے کاپروگرا م بنایاتو میں پشاور میں تھا۔ ان کےبےحد اصرار پرہم نےایک دعوتی صلح نہال کو بھی مار دی۔ ہمیں صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ بڑے خان جی نے ہو بہو TLC کے سُروں میں نہال کو کورا جواب دے دیا
ڈونٹ گو چیزنگ واٹر فالز
جب انہیں معلوم ہوا کہ نہال کا مینیجر فوج کا ریٹائرڈ میجر ہے تو فرمائش کرکے ہم سے بات کی۔ ہمیں تو وہ دارجی لگے۔ ایک بزرگانہ رکھ رکھاؤ سے سجی اس گفتگو میں انہوں نے شفقت فرمائی اور ہمیں نہال کے بڑے بھائی (دیکھنے میں ہم نہال کے چھوٹے بھائی لگتے ہیں) کے مرتبے پر فائز کرتے ہوئے نہال کو نہ صرف ویک اینڈ ٹرپ پر جانے کی اجازت دے دی بلکہ نہال کا پاسپورٹ ایک دم سے اسرائیل کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے تمام ڈویژنوں کے لیے کارآمد ہوگیا۔ بس ہماری ہمراہی شرط تھی۔ حویلیاں کی داستان تو ہم پھر کبھی کہیں گے مگر یہ بڑے خان جی کی اجازت کا فیضان تھا کہ اس روشن دن نہال خٹک اور ہم مردان سے صوابی کا سفر کرتے تھے اور اسی دن کی مسافت میں روڈ سائیڈ کے ایک مزار پر کیپٹن کرنل شیر شہید کے مشتاق ملاقاتی تھے۔
سیاچن سے جُڑی ہماری سب سے قدیم یاد ہمارے نانکے پنڈ (ننھیالی گاؤں) کی ہے۔ برلبِ نہر (جسے ہم اٹی والی نہر کہتے اور سنتے جوان ہوئے مگر پٹواری کی فردیں اورگوگل میپ آپ سے کہیں گے کہ یہ شاہکوٹ مائنر ہے) واقع چک نمبر چورانوے ر۔ب کی شمال مشرقی حد پر واقع قدیمی قبرستان میں ایک سیاچن کے شہید کی قبر ہے۔
میں غالباً چھٹی یا ساتویں جماعت میں تھا، ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں ’وانڈے‘ آئے ہوئے تھے۔ تو جیسا کہ دیہات میں رواج ہے کہ سال پیچھے لوٹے پروہنے سے گذشتہ دنوں کا حال احوال کرتے ہیں تو بڑے بزرگوں کے اس حال احوال سے
اڑتی اڑتی خبر ہم بچوں نے بھی سُنی کہ اس سال چڑھتے چیتر کو گاؤں میں فوجی آئےتھے اور سیاچن میں شہید ہونے والے ہمارے گاؤں کے سپاہی کی پورے فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی تھی
مارے اشتیاق کے ہمیں اور تو کچھ سوجھا نہیں کاغذ قلم پکڑ ایک دن کی محنت سے کچی پکی خطاطی میں یہ شعرلکھ کےرکھ لیا
اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
چک نمبر چھیانوے ر۔ب ماڑی کے پرائمری سکول کے ہیڈماسڑ چوہدری فرزند علی رشتے میں ہمارے ماموں لگتے تھے۔ وہ ہمارے خط کی تعریف ہی اتنی کیا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی خوشخطی پر ناز سا ہو گیا تھا۔
سو ہماری دانست میں وطن پر نثار ہوئے ایک سپاہی کو سب سے بڑا خراج عقیدت ہماری خوشخطی ہی تھی
اپنے ماموں اورخالہ زاد بھائیوں کے ہمراہ اسی دن جب قبرستان گئے تو شہید کی قبر کے سرہانے سجا آئے۔ بہت سے مہینے اور بہت سی بارشیں گزرگئی تھیں۔ جو پھولوں کی چادریں تدفین والے دن چڑھائی گئی تھیں ان کے زنگ آلود لوہے کی چرخیوں کے ڈھانچے ہی بچے تھے، مگرہم بچوں کے معصوم دل کو قرار تھا کہ شہید کی لحد اندر سے گل وگلزار ہوگی۔
صاحبو شاہکوٹ مائنر کے کنارے قبرستان کی ایک لحد کے سرہانے چھوڑے ہمارے ہدیۂ عقیدت کو بہت برس بیت گئے۔ کئی موسم آئے اور گزرگئے ۔
اب تو ہمارے نانا، نانی اور بڑے ماموں بھی اسی قبرستان میں جاسوئے، مگرسیاچن کے شہید کی قبر پر اس دن ہوئی گفتگو چھٹی (یا ساتویں) جماعت کے عمران کو ابھی تک یاد ہے۔ کاشف بھائی نے بتایا تھا کہ پارسال ہماراسپاہی برف کےتودےکےنیچے آکرشہید ہواتھا اور اس کی صرف خبر ہی گھر والوں تک پہنچی تھی کہ جسدِخاکی باوجود کوشش کے نکالا نہیں جاسکا تھا۔ پسماندگان ایک غمگین آس کی خلش لیے دل پر صبر کا پتھر رکھ کر بیٹھ رہے تھے۔ بعد کے موسموں میں جب برفیں پگھلیں تو بہتے پانیوں کے تلے ہمارے گمشدہ سپاہی کا سراغ بھی ملا اور یوں قریباً شہادت کے ایک سال بعد اٹی میں فوج آئی اور ایک جسدِ خاکی کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ شاہکوٹ مائنر کی قربت میں زمین کے حوالے کر گئی
بہت بعدکےسالوں سیاچن کےبرفاب موسموں میں اپنی پہلی پوسٹنگ پر یہ سمجھ میں آیا کہ اس محاذ پر اصل دشمن توموسم اور دشوار گزار راستےہیں۔ برفانی تودوں یاپھر گہری کھائیوں کےنشیب میں بہتے تیز پانیوں کی نذر ہونے والوں کے جسدِ خاکی نہیں ملا کرتے اور ان کے پسماندگان تک صرف خبر ہی پہنچ پاتی ہے۔ ان میں سے اکثر اپنے غم کو دفنائے بغیر ایک انجانی آس ایک دائمی خلش کو گلے کا ہار بنائے پھرتے ہیں۔
مگر پھر یہی سیاچن تھا، اور چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب کچھ کر گزرنے کا وقت آیا تو مادرِوطن کی پکار پر لبیک کہتے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے ہندوستانی سپاہ کے ٹھکانوں کے اندر ایک دُور مار نقب لگائی اور اپنے تنے ہوئے سینوں میں چھید کروا کر جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ مگر جب ان شہیدوں کے جسدِ خاکی بصد احترام اٹھانے اور دشمن سے وصول کرنے کا وقت آیا تو مملکت خداداد اور اسکی جہاد فی سبیل اللہ کی خوگر فوج نے اپنے ہی خون سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ سیاچن بڑا کٹھور محاذ ثابت ہوا۔ برفانی تودوں اور گہری کھائیوں سے ہار نہ ماننے والے جب کارگل کے محاذ پر دشمن کی سپاہ کی گولیوں کا ہار چھاتی میں پرو کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے تو ان کے جسدِخاکی بھی پسماندگان تک نہ پہنچے۔ ہمارے شہیدوں کو سرحد پارکے پہاڑوں میں جگہ ملی اور ان کے چاہنے والوں کے غم جب کہیں دفن نہ ہوئے تو ان کی جگہ ایک انجانی آس ایک دائمی خلش نےلےلی
معاف کیجیےگاہم جذبات کی رومیں بہہ کرکہیں کےکہیں چلے گئے۔ واپس مردان ۔ صوابی روڈ کو پلٹتے ہیں جس پر ایک جاپان اسیمبلڈ ہنڈا سٹی میں فیصل آباد کاعمران اورکرک کانہال خٹک خراماں خراماں چلتےچلے آتے تھے۔ اسی روڈ پر نواں کلے میں جسکا آج کا نام کیپٹن کرنل شیر کلے ہے صوابی کا شیرابدی نیند سو رہا ہے۔۔ سبز رنگ کے گنبد تلے ایک سادہ مزار میں (جیسا کہ ۲۰۱۳ میں تھا) کرنل شیر کا مدفن ہے۔
وہ جولائی 1999 کا ایک روشن طلوع ہوتا دن تھا جب دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ پر گنتی کے شیر دل جوانوں کے ساتھ بلندی پر بیٹھے دشمن کی ناک کے نیچے اپنی کھوئی ہوئی پوسٹیں دوبارہ حاصل کرنےکےلیےکیپٹن کرنل شیر نےجوابی حملہ کردیا۔ اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتےہوئے یہ جوان اتنی دلیری سے لڑے کہ ٹائیگر ہل کی بلندیوں پر قابض ہندوستانی فوجیوں کو انکی جوانمردی کا اعتراف کرنا پڑا۔ کیپٹن کرنل شیر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی بہادری کا اعتراف دشمن نے بھی کیا اور صلے میں کرنل شیر کو دلیری کا سب سے بڑا اعزاز نشانِ حیدر دیا گیا۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنے اس بہادر سپوت کو اپنانےمیں حکومت پاکستان نےپس وپیش سےکام لیااورشہادت کےبعددس دن تک ہمارےدلیر سپاہی کاجسدِ خاکی ہندوستان کےپاس ایک اجنبی سرزمین میں وطن واپسی کی راہ دیکھتارہا
تو صاحبوکچھ ماضی کےورق پلٹتے ہیں اور شجاعت کی ایک داستان کی خبر لاتے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کے 17 جولائی 1999 کے پرچے میں دراس سے بھیجی ایک رپورٹ چھپی کہ ٹائیگر ہل اور نواحی چوٹیوں پر مورچہ بند اٹھارہ گرینیڈیئرز اور آٹھ سکھ کے سپاہیوں نےکچھ رشک کے عالم اور کچھ ممکنہ شکست کے اندیشوں میں پاکستانی بارہ ناردرن لائٹ انفنٹری کی ڈیلٹا کمپنی کے کیپٹن کرنل شیر کو جوانمردی سے لڑتے دیکھا۔ آٹھ سکھ کے ایک فوجی افسر نے تو یہانتک کہا کہ دن کی روشنی میں جب ہم تمام حرکات وسکنات بخوبی دیکھ سکتے تھے شیر کے لیے حملہ کرنا خود کشی کے مترادف تھا مگر پھر بھی اعلیٰ فوجی اقدار کی پاسداری میں وہ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا بلکہ اپنے وطن پر نثار ہوگیا۔
شایدوہ پاک فوج کوہزیمت سےبچاناچاہتاتھا
کہانی کااگلاٹکڑا2019 کےدکن کرانیکل میں ملتا ہےجب کورین انیٹ نےلکھا کیپٹن شیرکوملنے والےنشانِ حیدرمیں کچھ حصہ اس چٹھی کابھی تھاجوایک انڈین بریگیڈیئرنےلکھی۔ کورین ہمارا تعارف بریگیڈیئر باجوہ سےکراتی ہیں جو انڈین 192 ماؤنٹین بریگیڈکمانڈکررہےتھے وہی 192 بریگیڈجس نے ٹائیگر ہل کا معرکہ اپنےنام کیا تھا۔ بریگیڈیئر باجوہ جب یادداشت کے ورق پلٹتے ہیں تو ہمیں کیپٹن شیر اور اس کے ساتھ ایس ایس جی کے ایک کمانڈو میجر صاحب سے بھی ملواتے ہیں جنہوں نے ایک دلیرجوابی حملےمیں انڈیاگیٹ نامی چوٹی پر دشمن کےدو جے سی اورچودہ سپاہی ٹھکانےلگائے
حملہ کرنے والوں میں ٹریک سوٹ پہنے کیپٹن کرنل شیر بہت دلیر تھا اور رہ رہ کے اپنے جوانوں کو حملہ جاری رکھنے پر ابھار رہا تھا۔ آٹھ سکھ کے سپاہی ستپال سنگھ نے نزدیک سے نشانہ لے کیپٹن شیر پر گولیاں برسائیں اور ان کے شہید ہوتے ہی حملہ کرنے والی باقی ماندہ سپاہ تتر بتر ہوگئی۔
حملہ ناکام ہونے کے بعد بریگیڈیئر باجوہ کو یاد ہے کہ انکی سپاہ نے لگ بھگ تیس پاکستانی فوجی ٹائیگر ہل کے پاس پہاڑی پتھروں میں دفن کیے مگر دلیر کیپٹن شیر کا جسدِخاکی حفاظت میں رکھا کہ وہ اس بہادر سپاہی کو جوانمردی کے اعزاز کی سفارش کے ساتھ اس کے گھر اس کے وطن واپس بھیجنا چاہتے تھے بریگیڈیئر باجوہ نے بقلم خود ایک دو سطری اعزازی نوٹ ہمارے شہید کیپٹن کی پتلون کی جیب میں احتیاط سے رکھا اس پر درج تھا ’کیپٹن کرنل شیر خان بہت بہادری سے لڑا۔ پاک فوج کا یہ سپاہی جوانمردی کے اعزاز کا صحیح حقدار ہے۔‘
بریگیڈئیر باجوہ کو اس بہادر پاکستانی افسر کا نام اس چٹھی سے ملِا بریگیڈیئر باجوہ نے بقلم خود ایک دو سطری اعزازی نوٹ ہمارے شہید کیپٹن کی پتلون کی جیب میں احتیاط سے رکھا اس پر درج تھا ’کیپٹن کرنل شیر خان بہت بہادری سے لڑا۔ پاک فوج کا یہ سپاہی جوانمردی کے اعزاز کا صحیح حقدار ہے۔‘
بریگیڈئیر باجوہ کو اس بہادر پاکستانی افسر کا نام اس چٹھی سے ملِا جو کرنل شیر کی جیب سے ملی۔ ایک خاتون کی لکھی اس چٹھی کو ہندوستانی فوجی کیپٹن شیر کی بیوی کا خط سمجھے، مگر کیپٹن شیر ابھی غیر شادی شدہ تھے
کارگل کی بلندیوں سے سرینگر بھیجے گئے ایک پاکستانی کیپٹن کی ڈیڈ باڈی اور اس پر ملے خط کا انڈین میڈیا میں بہت چرچا ہوا مگر پاکستانی نشریاتی ادارے دم سادھے ایک غفلت کی چادر اوڑھے کان لپیٹے پڑے رہے۔
1999 میں کارگل کی لڑائی کے دوران ڈان اخبار کے عباس ناصر بی بی سی اردو میں کام کررہے تھے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ان دنوں شارجہ سے ایک کال موصول ہوئی۔ کال کنندہ پاکستان کے شہر صوابی کا رہنے والا تھا اور درخواست کررہا تھاکہ بی بی سی اردو سرینگر میں رابطہ کرکے کچھ شناختی حوالوں میں مدد دے۔ کارگل سے سرینگر لائے گئے شہید فوجی کے پاس سے جو خط ملا ہے اس پر بھیجنے والی کا کیا نام لکھا ہے۔ سرینگر والوں نے خط لکھنے والی کا نام اور خط کے مندرجات بی بی سی اردو کے حوالے کردیے اور شارجہ سے فون پر رابطہ کرنے والے نے دونوں افراد کو شناخت کرلیا۔ خط لکھنے والی اس کی بہن اور کارگل کے محاذ پر جامِ شہادت سے سرفراز ہونے والا اس کا چھوٹا بھائی صوابی کا رہائشی کیپٹن کرنل شیرتھا۔
پسماندگان اپنا شہید شناخت کرچکے تھے، وہ شہید جس کا جسدِخاکی ہنوز ہندوستان میں تھا کہ حکومت پاکستان یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ کارگل کے محاذ پر کام آنے والا دلیر سپوت ان کا اپنا سپاہی تھا۔ وہاں تو مجاہدین برسرِ پیکار تھے ہماری فوج کا جن سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
جب سفارتی دباؤ بڑھا اور کرنل شیر کے وارثین کچھ بے چین ہوئے تو بالآخر سترہ جولائی کو جبکہ راجپوتانہ رائفلز کےسپاہی کیپٹن شیر کوشہیدسلام پیش کرچکے، کراچی ائیر پورٹ پران کاتابوت پورےفوجی اعزاز کےساتھ وصول کیا گیااور اسی قدر اعزاز سےکرنل شیر کی تدفین ان کےآبائی علاقے نواں کلےکےقبرستان میں کی گئی۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں شجاعت کے سب سے بڑے اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا
شاہکوٹ مائنر کی ہمسائیگی میں چک نمبر 94 اٹی کے قبرستان میں آسودہ ہمارا سیاچن کاسپاہی ہو یا نواں کلے میں کپیٹن کرنل شیر شہید نشانِ حیدر کا مدفن، دونوں کے پسماندگان ایک اعصاب شکن انتظار سے گزر کر اب کسی آسرے پر توہیں۔ اپنی دعائیں دان کرنےاور گاہےبگاہےگزرجانے والےکےپاس چکرلگالینے کو ان کے پاس ایک یادگار توہے۔ کارگل کےمحاذ کے کتنے دلیر، جوانمرد مگر بے نامی شہید ہیں جو ہمارے عالی ظرف دشمن ہندوستان نے ہمالیہ کی گھاٹیوں میں جہاں تہاں جگہ بن پڑی دفنادیے۔ ان کے چاہنے والے ایک انتظار کی آس اور کئی وسوسوں کے اندیشے آنکھوں اور دل میں سمیٹے انہیں غائبانہ یاد کرتے ہیں۔
ان کومحاذ پربھیجنےوالےکمانڈر انچیف نے’ان دا لائن آف فائر‘ لکھی اورساراملبہ بے لگام مجاہدین پر ڈال کر اپنی دانست میں بری الذمہ ہوگیا۔ سرحد پار اجنبی ملک میں دفن ان دلیروں کے سرکاری والی وارث ایک دائمی بیمار وزیرِ اعظم نے کمال ڈھٹائی سےاعلان کیاکہ اسےتومعرکۂ کارگل کاعلم ہی نہیں تھا اور اب بھی ہرسال جبکہ ہندوستانی سپاہ جولائی کے آخیر کے دنوں میں کارگل وجے دیواس مناتی ہے ہم ایک ڈھٹائی سے علی الاعلان یہ کہنے سے نہیں چوکتے کہ کارگل کی جنگ بے نامی مجاہدوں نے لڑی، ہماری سپاہ کا اس لڑائی سے کچھ لینا دینا نہیں۔
قارئین، مردان سے صوابی آتی اس سڑک پر نواں کلے کے پاس میں اور نہال کیپٹن کرنل شیر شہید کے مزار پررکے اور فاتحہ پڑھی۔ ساتھ میں ہم نے افسروں اور جوانوں کو یاد کیا جو کرنل شیر کے محاذ پر، اس کی قربت میں یا کچھ دوری پر لڑے اور کام آئے۔
اللہ ہمارے شہیدوں سے راضی ہو اور ان کے پسماندگان کے صبر میں ان کا والی۔ آمین
ثم آمین